انوکھی شادی
ہمارے میزبانوں کا انڈیا میں جس ریاست سے تعلق تھا وہاں کے لوگوں میں نکاح کے وقت باراتیوں کی پٹائی کرنے کا رواج ہے
1969ء کے اوائلی دنوں کا قصہ ہے، ایوب خان کا چل چلاؤ تھا، میری نئی نئی شادی ہوئی تھی اور میں نواب شاہ میں مقیم تھا۔ ایک روز جب میں لائن پار مریم روڈ پر واقع اپنے بہنوئی، بھائی عبداللہ کی سائیکلوں کے اسپیئر پارٹس کی دکان پر بیٹھا تھا، بشیر بھائی نے آواز دی جو برابر والی دکان میں موسم کے لحاظ سے کبھی برف توکبھی کوئلے بیچا کرتے تھے۔ بڑے ہنس مکھ اور روزکما کر روز کھانے والے مزدور پیشہ عیالدار آدمی تھے۔
میں نے مڑ کر دیکھا تو انھوں نے گردن کے اشارے سے پاس بلایا، سلگتی ہوئی سگریٹ ہونٹوں میں دبی تھی اور دونوں ہاتھ بڑے سے فولادی سوئے سے برف توڑنے اورگاہکوں کو دینے میں مصروف تھے۔ میں جاکر نیم کے نیچے ان کے پاس دھری بینچ پر بیٹھ گیا، پٹسن کی خالی بوریوں سے ڈھکی برف کی سلوں کے قریب برف تولنے کا بڑا سا ترازو لٹکا رہتا تھا۔
ایک صاحب پہلے سے تشریف فرما تھے، بشیر بھائی ذرا فارغ ہوئے تو ان کی طرف اشارہ کرکے بولے ''یہ ہمارے پڑوسی ہیں اور اپنی بیٹی کی شادی کی دعوت دینے آئے ہیں'' اب یہ مجھے بتانیوالی بات تو تھی نہیں پھر بھی میں نے اخلاقاً ان کی طرف دیکھ کر اشارے سے سلام کیا اور مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھا دیا۔ انھوں نے بھی بڑی گرم جوشی سے ہاتھ ملایا اور فرمایا''میں تو بہت جلدی میں تھا، بیٹھنے اور باتیں کرنے کا وقت نہیں تھا پر اس (گالی) نے تم سے ملانے کو بٹھا لیا اور بولے ہے کہ تم کو بھی دعوت دوں گا تو یہ آوے گا ورنہ نہیں، سو بھائی شام کو 5 بجے اس (گالی) کے ساتھ آکر نکاح میں ضرور شرکت کرنا، مجھے بہت خوشی ہوگی۔''
جان پہچان نہ ہونے کے باوجود مجھے ان صاحب سے ملکر بہت خوشی ہوئی، ان کی سادگی، بے تکلفی اور اپنائیت واقعی بڑی متاثر کن تھی، تاہم ڈر بھی رہا تھا کہ کہیں بشیر بھائی کی طرح وہ مجھے بھی القاب و اعزازت (گالیوں) سے نوازنا نہ شروع کر دیں۔ خدا کا شکر ، اس کی نوبت نہیں آئی، میں نے ان کا دل رکھنے کے لیے آنے کی حامی تو بھرلی لیکن میرا خیال تھا کہ ان صاحب نے رسماً دعوت دی اور ہم نے قبول کرلی، بس بات ختم ہوگئی اور واقعی ان کے جانے کے بعد میں اٹھ کر اپنی دکان پر کیا آیا، میرے ذہن سے وہ بات ہی نکل گئی۔
وقت مقررہ پر جب بشیر بھائی بوسکی کی سلوٹوں والی قمیص پہنے (جو شاید ان کی اپنی شادی کے لیے سلی تھی اور ایسے موقعوں پرکبھی کبھی بکسے سے نکلتی تھی) اور آنکھوں میں سرمہ لگائے میرے سر پر آکھڑے ہوئے تو میرے پاس اٹھ کر ان کے ساتھ جانے کے سوا کوئی چارہ ہی نہ رہا۔ یہ لوگ لیاقت کالونی میں رہتے تھے جو تقسیم کے وقت ہجرت کرکے آنے والے مہاجروں کی آباد کاری کے لیے مسعود کھدر پوش نے بسائی تھی جو اس زمانے میں نواب شاہ کے کلیکٹر (ڈپٹی کمشنر) ہوا کرتے تھے۔ یہ بستی، مریم اسپتال کے عقب میں واقع تھی اور وہاں جانے کے لیے بازار حسن کے سامنے سے گزرنا پڑتا تھا۔
آگے کی کہانی سنانے سے پہلے آپ کو بتاتا چلوں کہ تب نواب شاہ میں لوگ مسعود کھدر پوش سے بڑی عقیدت رکھتے تھے، ایسی کہ اگر ہندوستان میں ہوتے تو وہ انھیں دیوتا مان کر پوجتے۔ وہاں ان کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ وزیر اعظم لیاقت علی خان کے بھانجے تھے تبھی سندھ کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ اور مرد آہن ایوب کھوڑو تک کو گھاس نہیں ڈالتے تھے، جن کی رعونت کا عالم یہ تھا کہ فون پر بات کرتے ہوئے ایوب کھوڑو اسپیکنگ یا چیف منسٹر اسپیکنگ کہنے کے بجائے سندھ گورنمنٹ اسپیکنگ کہا کرتے تھے۔
لگے ہاتھوں وہاں کے لوگوں سے سنی ہوئی یہ حکایت بھی سن لیں کہ انڈیا سے مہاجروں کو لانے والی ٹرینوں کی بوگیاں تو لاشوں اور زخمیوں سے لدی ہوتی تھیں جب کہ وزیر اعلیٰ کے حکم پر یہاں سے نقل مکانی کرکے انڈیا جانے والے ہندوؤں کی ٹرینوں کی حفاظت کے لیے خصوصی انتظامات کیے جاتے تھے تاکہ کسی کا بال بھی بیکا نہ ہو۔ مشہور تھا کہ اس کے عوض انھوں نے ہندوؤں سے بھاری رقوم وصول کی تھیں۔ ایک دن جب مہاجروں کے خیر مقدم کے لیے کلیکٹر صاحب نواب شاہ اسٹیشن پہنچے تو یہ دیکھ کر ان کی آنکھوں میں خون اتر آیا کہ ٹرین سے اترنے کے لیے کوئی ایک مسافر بھی زندہ نہیں بچا تھا۔
کہتے ہیں انھوں نے ایس پی نوابشاہ کو (جو اس زمانے میں پولیس کمانی) کہلاتے تھے پولیس کے مسلح دستوں کے ساتھ قریبی ریلوے اسٹیشن سرہاری پہنچنے کا حکم دیا اور انڈیا جانے والی ٹرین میں سوار ہندوؤں کا اپنی نگرانی میں قتل عام کروایا تب کہیں جاکر ان کے انتقام کی آگ بجھی۔
مجھے یقین ہے کہ اس میں حقیقت کم اور افسانہ زیادہ ہے، ورنہ مسعود کھدر پوش جیسے نفیس، عوام دوست اور غریب پرور بیوروکریٹ کے ہاتھوں ایسی گھناؤنی حرکت کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ کہتے ہیں اطلاع ملتے ہی ''سندھ گورنمنٹ'' صاحب آپے سے باہر ہوگئے اور انھوں نے مسعود کھدر پوش کو فوراً چارج چھوڑ کر انھیں رپورٹ کرنے کا زبانی حکم دیا جو انھوں نے ماننے سے انکار کردیا۔
وزیر اعلیٰ ایوب کھوڑو کی ان سے ناراضی کی دوسری وجہ یہ تھی کہ انھوں نے ہندوؤں کی بند پڑی ہوئی دکانوں اور گوداموں کے تالے تڑوا کر ان میں بھرا ہوا سارا غلہ اور کھانے پینے کا دوسرا سامان فاقہ زدہ مہاجروں میں مفت تقسیم کروا دیا تھا۔تو خیر میں آپ کو لیاقت کالونی میں ہونے والی شادی کی تقریب کا قصہ سنانے جا رہا تھا۔ شادی والا گھر ایک تنگ گلی میں واقع، ایک دوسرے کے بالمقابل دو بڑے کمروں اورکھلے درمیانی صحن پر مشتمل تھا۔ ایک کمرے میں نکاح کی تقریب کے لیے فرشی نشست کا انتظام کیا گیا تھا، دیواروں کے ساتھ ساتھ گاؤ تکیے لگے تھے، ہمارے پہنچنے تک صرف ایک عمر رسیدہ بزرگ کمرے میں تشریف فرما تھے جو یقیناً دلہن کے نانا یا دادا رہے ہوں۔
میں نے دروازے کے باہر ایک طرف جوتے اتارے اور ان بزرگ سے مصافحہ کرکے انھی کے برابر بیٹھ گیا، بشیر بھائی میرے پیچھے تھے اور کمرے میں داخل ہوتے ہی وہیں دروازے کے پاس بیٹھ گئے، میں نے بہت کہا کہ میرے پاس آکر بیٹھیں لیکن وہ نہیں مانے اور وہیں بیٹھے رہے، انھوں نے سوچا ہوگا اس طرح واپسی کے وقت نکلنے میں آسانی ہوگی۔ آہستہ آہستہ مہمان آنا شروع ہوئے اور پھر دلہا میاں بھی بارات لے کر پہنچ گئے۔
مولوی صاحب نے نکاح پڑھایا اور دعا کے بعد جب کھجوریں بانٹی جا رہی تھیں، گھر کی کوئی 30-25 عورتوں نے جو ڈنڈوں، کپڑے دھونے کی دھکیوں اور چارپائی کے پایوں سے مسلح تھیں، اچانک کمرے میں داخل ہوکر بارات پر دھاوا بول دیا اور مہمانوں کی وہ درگت بنائی کہ خدا کی پناہ۔ کئیوں کے سر پھٹے اور ہڈیاں چٹخیں لیکن وہ اس سے بے نیاز ہوکر اپنا کام کیے جا رہی تھیں، میں اپنی جگہ سے اٹھ کر برابر میں بیٹھے ہوئے بزرگ کو ڈھال بنا کر ان کے پیچھے جا بیٹھا اور پٹنے سے بچ گیا۔پھر اچانک میں نے بشیر بھائی کی دلدوز چیخ سنی جو دونوں ہاتھوں سے سر پکڑے خون میں نہائے بیٹھے تھے۔
میں کیا کوئی بھی کچھ نہیں کرسکتا تھا، سب کچھ آناً فاناً ہوگیا، جب میری ڈھال بنے ہوئے بزرگ نے اپنی چھڑی کے سہارے اٹھ کرعورتوں کو گندی اور نہایت غلیظ گالیاں دینا شروع کیں تب کہیں جاکر ان کی واپسی ہوئی اور مہمانوں نے بھی نکل کر بھاگنا شروع کیا۔ بشیر بھائی اپنے گھر چلے گئے اور میں دکان پر واپس آگیا۔ اس انوکھی شادی میں شریک ہونے والا شاید میں واحد آدمی تھا جسے کوئی چوٹ نہیں آئی تھی۔
بعد میں پتہ چلا ہمارے میزبانوں کا انڈیا میں جس ریاست سے تعلق تھا وہاں کے لوگوں میں نکاح کے وقت باراتیوں کی پٹائی کرنے کا رواج ہے نیز عام بول چال میں ان کا کوئی جملہ گالی کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ اس واقعے کے بعد جب بھی بشیر بھائی کے وہ پڑوسی ان کی دکان کے آگے سے گزرتے ، یہ برف توڑنے والا سوئا لے کر مارنے کے لیے اس کے پیچھے بھاگا کرتے اور ان سے بھی زیادہ گندی گندی گالیاں بکتے۔
میں نے مڑ کر دیکھا تو انھوں نے گردن کے اشارے سے پاس بلایا، سلگتی ہوئی سگریٹ ہونٹوں میں دبی تھی اور دونوں ہاتھ بڑے سے فولادی سوئے سے برف توڑنے اورگاہکوں کو دینے میں مصروف تھے۔ میں جاکر نیم کے نیچے ان کے پاس دھری بینچ پر بیٹھ گیا، پٹسن کی خالی بوریوں سے ڈھکی برف کی سلوں کے قریب برف تولنے کا بڑا سا ترازو لٹکا رہتا تھا۔
ایک صاحب پہلے سے تشریف فرما تھے، بشیر بھائی ذرا فارغ ہوئے تو ان کی طرف اشارہ کرکے بولے ''یہ ہمارے پڑوسی ہیں اور اپنی بیٹی کی شادی کی دعوت دینے آئے ہیں'' اب یہ مجھے بتانیوالی بات تو تھی نہیں پھر بھی میں نے اخلاقاً ان کی طرف دیکھ کر اشارے سے سلام کیا اور مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھا دیا۔ انھوں نے بھی بڑی گرم جوشی سے ہاتھ ملایا اور فرمایا''میں تو بہت جلدی میں تھا، بیٹھنے اور باتیں کرنے کا وقت نہیں تھا پر اس (گالی) نے تم سے ملانے کو بٹھا لیا اور بولے ہے کہ تم کو بھی دعوت دوں گا تو یہ آوے گا ورنہ نہیں، سو بھائی شام کو 5 بجے اس (گالی) کے ساتھ آکر نکاح میں ضرور شرکت کرنا، مجھے بہت خوشی ہوگی۔''
جان پہچان نہ ہونے کے باوجود مجھے ان صاحب سے ملکر بہت خوشی ہوئی، ان کی سادگی، بے تکلفی اور اپنائیت واقعی بڑی متاثر کن تھی، تاہم ڈر بھی رہا تھا کہ کہیں بشیر بھائی کی طرح وہ مجھے بھی القاب و اعزازت (گالیوں) سے نوازنا نہ شروع کر دیں۔ خدا کا شکر ، اس کی نوبت نہیں آئی، میں نے ان کا دل رکھنے کے لیے آنے کی حامی تو بھرلی لیکن میرا خیال تھا کہ ان صاحب نے رسماً دعوت دی اور ہم نے قبول کرلی، بس بات ختم ہوگئی اور واقعی ان کے جانے کے بعد میں اٹھ کر اپنی دکان پر کیا آیا، میرے ذہن سے وہ بات ہی نکل گئی۔
وقت مقررہ پر جب بشیر بھائی بوسکی کی سلوٹوں والی قمیص پہنے (جو شاید ان کی اپنی شادی کے لیے سلی تھی اور ایسے موقعوں پرکبھی کبھی بکسے سے نکلتی تھی) اور آنکھوں میں سرمہ لگائے میرے سر پر آکھڑے ہوئے تو میرے پاس اٹھ کر ان کے ساتھ جانے کے سوا کوئی چارہ ہی نہ رہا۔ یہ لوگ لیاقت کالونی میں رہتے تھے جو تقسیم کے وقت ہجرت کرکے آنے والے مہاجروں کی آباد کاری کے لیے مسعود کھدر پوش نے بسائی تھی جو اس زمانے میں نواب شاہ کے کلیکٹر (ڈپٹی کمشنر) ہوا کرتے تھے۔ یہ بستی، مریم اسپتال کے عقب میں واقع تھی اور وہاں جانے کے لیے بازار حسن کے سامنے سے گزرنا پڑتا تھا۔
آگے کی کہانی سنانے سے پہلے آپ کو بتاتا چلوں کہ تب نواب شاہ میں لوگ مسعود کھدر پوش سے بڑی عقیدت رکھتے تھے، ایسی کہ اگر ہندوستان میں ہوتے تو وہ انھیں دیوتا مان کر پوجتے۔ وہاں ان کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ وزیر اعظم لیاقت علی خان کے بھانجے تھے تبھی سندھ کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ اور مرد آہن ایوب کھوڑو تک کو گھاس نہیں ڈالتے تھے، جن کی رعونت کا عالم یہ تھا کہ فون پر بات کرتے ہوئے ایوب کھوڑو اسپیکنگ یا چیف منسٹر اسپیکنگ کہنے کے بجائے سندھ گورنمنٹ اسپیکنگ کہا کرتے تھے۔
لگے ہاتھوں وہاں کے لوگوں سے سنی ہوئی یہ حکایت بھی سن لیں کہ انڈیا سے مہاجروں کو لانے والی ٹرینوں کی بوگیاں تو لاشوں اور زخمیوں سے لدی ہوتی تھیں جب کہ وزیر اعلیٰ کے حکم پر یہاں سے نقل مکانی کرکے انڈیا جانے والے ہندوؤں کی ٹرینوں کی حفاظت کے لیے خصوصی انتظامات کیے جاتے تھے تاکہ کسی کا بال بھی بیکا نہ ہو۔ مشہور تھا کہ اس کے عوض انھوں نے ہندوؤں سے بھاری رقوم وصول کی تھیں۔ ایک دن جب مہاجروں کے خیر مقدم کے لیے کلیکٹر صاحب نواب شاہ اسٹیشن پہنچے تو یہ دیکھ کر ان کی آنکھوں میں خون اتر آیا کہ ٹرین سے اترنے کے لیے کوئی ایک مسافر بھی زندہ نہیں بچا تھا۔
کہتے ہیں انھوں نے ایس پی نوابشاہ کو (جو اس زمانے میں پولیس کمانی) کہلاتے تھے پولیس کے مسلح دستوں کے ساتھ قریبی ریلوے اسٹیشن سرہاری پہنچنے کا حکم دیا اور انڈیا جانے والی ٹرین میں سوار ہندوؤں کا اپنی نگرانی میں قتل عام کروایا تب کہیں جاکر ان کے انتقام کی آگ بجھی۔
مجھے یقین ہے کہ اس میں حقیقت کم اور افسانہ زیادہ ہے، ورنہ مسعود کھدر پوش جیسے نفیس، عوام دوست اور غریب پرور بیوروکریٹ کے ہاتھوں ایسی گھناؤنی حرکت کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ کہتے ہیں اطلاع ملتے ہی ''سندھ گورنمنٹ'' صاحب آپے سے باہر ہوگئے اور انھوں نے مسعود کھدر پوش کو فوراً چارج چھوڑ کر انھیں رپورٹ کرنے کا زبانی حکم دیا جو انھوں نے ماننے سے انکار کردیا۔
وزیر اعلیٰ ایوب کھوڑو کی ان سے ناراضی کی دوسری وجہ یہ تھی کہ انھوں نے ہندوؤں کی بند پڑی ہوئی دکانوں اور گوداموں کے تالے تڑوا کر ان میں بھرا ہوا سارا غلہ اور کھانے پینے کا دوسرا سامان فاقہ زدہ مہاجروں میں مفت تقسیم کروا دیا تھا۔تو خیر میں آپ کو لیاقت کالونی میں ہونے والی شادی کی تقریب کا قصہ سنانے جا رہا تھا۔ شادی والا گھر ایک تنگ گلی میں واقع، ایک دوسرے کے بالمقابل دو بڑے کمروں اورکھلے درمیانی صحن پر مشتمل تھا۔ ایک کمرے میں نکاح کی تقریب کے لیے فرشی نشست کا انتظام کیا گیا تھا، دیواروں کے ساتھ ساتھ گاؤ تکیے لگے تھے، ہمارے پہنچنے تک صرف ایک عمر رسیدہ بزرگ کمرے میں تشریف فرما تھے جو یقیناً دلہن کے نانا یا دادا رہے ہوں۔
میں نے دروازے کے باہر ایک طرف جوتے اتارے اور ان بزرگ سے مصافحہ کرکے انھی کے برابر بیٹھ گیا، بشیر بھائی میرے پیچھے تھے اور کمرے میں داخل ہوتے ہی وہیں دروازے کے پاس بیٹھ گئے، میں نے بہت کہا کہ میرے پاس آکر بیٹھیں لیکن وہ نہیں مانے اور وہیں بیٹھے رہے، انھوں نے سوچا ہوگا اس طرح واپسی کے وقت نکلنے میں آسانی ہوگی۔ آہستہ آہستہ مہمان آنا شروع ہوئے اور پھر دلہا میاں بھی بارات لے کر پہنچ گئے۔
مولوی صاحب نے نکاح پڑھایا اور دعا کے بعد جب کھجوریں بانٹی جا رہی تھیں، گھر کی کوئی 30-25 عورتوں نے جو ڈنڈوں، کپڑے دھونے کی دھکیوں اور چارپائی کے پایوں سے مسلح تھیں، اچانک کمرے میں داخل ہوکر بارات پر دھاوا بول دیا اور مہمانوں کی وہ درگت بنائی کہ خدا کی پناہ۔ کئیوں کے سر پھٹے اور ہڈیاں چٹخیں لیکن وہ اس سے بے نیاز ہوکر اپنا کام کیے جا رہی تھیں، میں اپنی جگہ سے اٹھ کر برابر میں بیٹھے ہوئے بزرگ کو ڈھال بنا کر ان کے پیچھے جا بیٹھا اور پٹنے سے بچ گیا۔پھر اچانک میں نے بشیر بھائی کی دلدوز چیخ سنی جو دونوں ہاتھوں سے سر پکڑے خون میں نہائے بیٹھے تھے۔
میں کیا کوئی بھی کچھ نہیں کرسکتا تھا، سب کچھ آناً فاناً ہوگیا، جب میری ڈھال بنے ہوئے بزرگ نے اپنی چھڑی کے سہارے اٹھ کرعورتوں کو گندی اور نہایت غلیظ گالیاں دینا شروع کیں تب کہیں جاکر ان کی واپسی ہوئی اور مہمانوں نے بھی نکل کر بھاگنا شروع کیا۔ بشیر بھائی اپنے گھر چلے گئے اور میں دکان پر واپس آگیا۔ اس انوکھی شادی میں شریک ہونے والا شاید میں واحد آدمی تھا جسے کوئی چوٹ نہیں آئی تھی۔
بعد میں پتہ چلا ہمارے میزبانوں کا انڈیا میں جس ریاست سے تعلق تھا وہاں کے لوگوں میں نکاح کے وقت باراتیوں کی پٹائی کرنے کا رواج ہے نیز عام بول چال میں ان کا کوئی جملہ گالی کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ اس واقعے کے بعد جب بھی بشیر بھائی کے وہ پڑوسی ان کی دکان کے آگے سے گزرتے ، یہ برف توڑنے والا سوئا لے کر مارنے کے لیے اس کے پیچھے بھاگا کرتے اور ان سے بھی زیادہ گندی گندی گالیاں بکتے۔