آرمی چیف کا نظریہ پاکستان
جنرل کیانی کا شکریہ کہ انھوں نے ایک نازک وقت پر اقبال اور قائد کے افکار کی یاد دلائی.
اتوار کے اخبارات کے ذریعے مجھے آرمی چیف کے خیالات سے آگاہی ہوئی۔ انھوں نے ہفتے کو ایک پاسنگ آئوٹ پریڈ سے خطاب کیا۔ ہمارے اخبار ایکسپریس کی سپر لیڈ کے الفاظ یوں ہیں:
پاکستان اور اسلام کو الگ نہیں کیا جا سکتا۔
ایک نظریاتی اخبار نے اپنی سپر لیڈ کے باکس میں یہ الفاظ نقل کیے ہیں:
اسلام کو الگ نہیں کیا جاسکتا۔قائد اور اقبال کے نظریہ کے مطابق اسلامی جمہوریہ پاکستان کا خواب پورا کریں گے۔
ایک اور اخبار کی سپر لیڈ کے الفاظ ملاحظہ ہوں:
اسلام ہمارے اتحاد کی طاقت ہے۔اسے پاکستان سے خارج نہیں کیا جاسکتا۔
اب میں آئی ایس پی آر کی ویب سائٹ پر درج پریس ریلز کا ترجمہ پیش کرتا ہوں:
میں آپ کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا ، اسلام کو پاکستان سے کسی صورت میں خارج نہیں کیا جا سکتا۔اسلام ہمارے اتحاد کی علامت ہے۔پاک فوج، اقبال اور قائد کے افکار کی روشنی میں اس مشترکہ خواب کی تعبیر کے لیے کوشاں رہے گی کہ پاکستان کو ایک سچی اسلامی جمہوری ریاست کا نمونہ بنایا جائے۔
اب آگے بڑھنے سے پہلے میں سن دو ہزار میں واپس جاتا ہوں۔یہ پینٹگان کا بورڈ روم ہے، امریکی مسلح افواج کے سینئر ترین جرنیل میز کے دوسری طرف براجمان ہیں اور ان کے سامنے پاکستان اور بھارت سے تعلق رکھنے والے آٹھ ایڈیٹر۔گفتگو کا رخ پاک فوج میں انتہا پسندی اور بنیاد پرستی کی طرف مڑا تو مجھ سے نہ رہا گیا، میں نے عرض کی کہ پاکستان کی فوج دنیا کی ایک مسلمہ پیشہ ورانہ تربیت سے بہرہ مند ہے اور اس کے جذبہ قربانی کو قرآنی تعلیمات مہمیز دیتی ہیں۔ آپ پاک فوج سے اسلام کو خارج کر دیں تو ملک کی سلامتی کی حفاظت اس کے لیے ممکن نہیں رہے گی ۔میرا خیال تھا کہ میں کچھ جذباتی ہو گیا ہوں مگر مجھے حوصلہ ہوا جب میرے ساتھ بیٹھے ہوئے نیوز لائن کے ایڈیٹر زاہد حسین نے کہا کہ مسٹر غالب جو کہہ رہے ہیں، وہ سو فی صد درست ہے ، آپ پاک فوج سے اسلام کو خارج نہیں کر سکتے۔
میرے لیے جناب زاہد حسین کے ریمارکس اس لیے بھی حیرت کا باعث تھے کہ ہم اردو صحافت والے اسلام اور نظریہ پاکستان پر اپنی اجارہ داری تصور کرتے ہیں اور انگریزی میڈیا کو لبرل، سیکولر اور نجانے کن کن القابات سے نوازتے ہیں۔میں نے محسوس کیا کہ زاہد حسین نے میری بات کو زیادہ مدلل پیرائے میں پیش کیا۔ اور میں ہمیشہ کے لیے اس کے اندرچھپے ہوئے مولوی کا معتقد ہو گیا۔اس دوران میں امریکی جرنیل نظریں اونچی کیے بغیر نوٹس لینے میں محو رہے ، میں نے کھسر پھسر کے انداز میں زاہد حسین سے پوچھا کہ کہیں ہم دونوں انجانے میں سیکیورٹی لیکیج کا باعث تو نہیں بن گئے اور امریکی قیادت کو نئی لائن تو نہیں مل گئی، اس نے تیقن بھرے لہجے میں کہا: ہمیں صاف بات کرنی چاہیے نتیجہ خواہ کچھ بھی کیوں نہ ہو۔
اور اب جنرل کیانی نے صاف لہجے میں بات کرنے کا حق ادا کر دیا۔ایک ایسے وقت میں جب ہر طرف نظریہ پاکستان پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا جا رہا ہے، الیکشن کے عمل میں اسلام کو بے نقط سنائی جا رہی ہیں اور یہاں تک سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ اقبال اور قائد نے اسلام اور نظریہ پاکستان کی کبھی بات ہی نہیں کی، یہ تو جنرل یحییٰ خاں کے دور میں ان کے ایک وزیر اطلاعات جنرل شیر علی خان کی ذہنی اختراع ہے۔کیا خوب اعتراض ہے۔ لوگ بھول ہی گئے کہ چوہدری رحمت علی نے مسلمانوں کے لیے الگ آزاد ریاستوں کا نظریہ پیش کیا، اس خیال کو اقبال نے آگے بڑھایا اورقائد نے اس کو عملی تعبیر دینے کا علم بلند کیا۔مشرقی پنجاب کے لاکھوں مسلمان ایک اسلامی وطن کی طرف ہجرت کی راہ میں قربان ہو گئے۔یہیں کہیں بلوچ رجمنٹ کا کردار بھی سامنے آیا جس نے کٹے پھٹے قافلوں کو منزل مراد تک پہنچانے میں تاریخ ساز کردار ادا کیا۔
چھ ستمبر65 کی صبح کو فیلٖڈمارشل ایوب خان نے ریڈیو پر قوم سے خطاب میں کہا تھا: لا الہ کا ورد کرتے ہوئے دشمن پر ٹوٹ پڑو۔
پاک فوج کی ہر رجمنٹ کا کوئی نہ کوئی نعرہ ہے، کوئی اللہ اکبر کی صدا بلند کرتے ہیں ، کوئی یا علی ؓ کا نعرہ لگاتے ہیں۔
یہ غازی یہ تیرے پر اسرار بندے، جنھیں تو نے بخشا ہے ذوق خدائی، دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا، سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی۔
زندہ رہے تو غازی ، قربان ہو گئے تو شہید،جو اللہ کی راہ میں قربان ہوئے انھیںمردہ مت کہو ، وہ شہید ہیں اور ہمیشہ کی زندگی پا گئے۔
اور نکلو اللہ کی راہ میں خواہ ہلکے ہو یا بوجھل اور یہ قرآنی فرمان تو سر آنکھوں پر کہ اپنے گھوڑے تیار رکھو۔
پاک فوج کے سربراہ نے نظریہ پاکستان کی جو تشریح کی ہے ، ان کی زیر کمان فوج اس پر پورا اتر کے دکھاتی ہے اور قوم بھی اسی نظرئیے پر قائم ہے، گو 1971ء میں اندرا گاندھی نے بڑی رعونت سے کہا تھا کہ نظریہ پاکستان کو خلیج بنگال میں غرق کر دیا۔اس سے کیا ظاہر ہوتا ہے کہ دشمن بھی نظریہ پاکستان کی حقیقت کو مانتا ہے، دوسرے اس کا خیال غلط نکلا، اس لیے کہ برصغیر میں مسلمانوں کی ایک اور آزاد ریاست قائم ہو گئی۔
چند روز پہلے یہی غلطی الیکشن کمیشن سے بھی سرزد ہوئی۔ اس نے مبینہ طور پر کہہ دیا کہ اسلام کے نام پر ووٹ مانگنا جرم ہو گا، اور جب اسے چیلنج کیا گیا تواس کا جواب تھا کہ ایسی کوئی ہدائت جاری نہیںکی گئی۔آئین کے آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ کا جتنا مذاق اڑایا جاسکتا تھا، میڈیا اور سول سوسائٹی نے اڑا کر دیکھ لیا، مگر یہ دونوں آرٹیکل ابھی تک آئین کا حصہ ہیں۔ مطالبے ہو رہے ہیں کہ انھیں آئین سے نکالا جائے۔ اگر پارلیمنٹ میں کسی کو دوتہائی اکثریت حاصل ہو جائے تو ضرور نکالنے کی کوشش کر دیکھے ورنہ سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ اسے بھی آئین کی تشریح کا اختیار حاصل ہے، کوئی رٹ میں چلا جائے اور باسٹھ تریسٹھ کی تشریح پوچھ لے ،ورنہ یوسف رضا گیلانی کے خلاف فیصلہ پر نظر ڈال لے، اس کے چودہ طبق روشن ہو جائیں گے۔ آئین میں صرف باسٹھ تریسٹھ ہی نہیں ، شیخ الاسلام نے درجنوں آرٹیکلز کی نشاندہی کر دی ہے، قوم کو سارے آرٹیکل ازبر ہو گئے ہیں۔اب قوم کا حافظہ کون کھرچے گا۔یہ تو غداری کے مقدموں کا موسم ہے۔ آئین کا آرٹیکل چھ ہو یا کوئی اور ، آئین شکنی کی سزا ایک جیسی ہے۔اس آئین پر پچھلی پارلیمنٹ نے اتفاق رائے سے انگوٹھا ثبت کیا ہے۔فرار کا راستہ کوئی نہیں۔
جنرل کیانی کا شکریہ کہ انھوں نے ایک نازک وقت پر اقبال اور قائد کے افکار کی یاد دلائی، اسلام کو یک جہتی اور اتحاد کی علامت قرار دیا۔اور پاک فوج کے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ ملت اسلامیہ کے ان خوابوں کو عملی تعبیر دینے کے لیے کوشاں رہے گی کہ پاکستان کو ایک اسلامی جمہوری فلاحی پارلیمانی مملکت کا نمونہ بنایا جائے۔اقبال اور قائد کے نظریہ پاکستان میں انتہا پسندی کی گنجائش نہیں، اسی لیے افواج پاکستان پچھلے بارہ برس سے انتہا پسندوں سے نبرد آزما ہیں ، اس جنگ میں وہ پانچ ہزار افسروں اور جوانوں کی قربانی دے چکی ہیں۔
ان کے ساتھ قوم نے بھی چالیس ہزار جانوں کی قربانی دی، پورے ملک نے کھربوں کا مالی نقصان بھی برداشت کیا مگر انتہا پسندی کے نظریے کو قبول نہیں کیا لیکن یہ بھی نہیںہوا کہ اسلام کی اصل روح سے کسی نے پسپائی اختیار کی ہو۔قائد نے اس نظریے کی آسان تشریح کر دی تھی کہ اب اس مملکت میں سب شہری برابر کے حقوق رکھتے ہیں۔اور ہر ایک کو مذہبی آزادی حاصل ہے، یہی نظریہ پاکستان ہے، یہی جمہوریت کی روح ہے۔ جمہوریت کے پھلنے پھولنے سے اسلام سے انحراف کا لائسنس نہیں مل جاتا۔ کم از کم اندرونی اور بیرونی خطرات سے پاکستان کی حفاظت کرنے والی فوج کے سربراہ جنرل کیانی نے آئین کی روح کو آشکارا کر دیا ہے۔ہمیں بھی اس بارے میں یک سو ہو جانا چاہیے۔
پاکستان اور اسلام کو الگ نہیں کیا جا سکتا۔
ایک نظریاتی اخبار نے اپنی سپر لیڈ کے باکس میں یہ الفاظ نقل کیے ہیں:
اسلام کو الگ نہیں کیا جاسکتا۔قائد اور اقبال کے نظریہ کے مطابق اسلامی جمہوریہ پاکستان کا خواب پورا کریں گے۔
ایک اور اخبار کی سپر لیڈ کے الفاظ ملاحظہ ہوں:
اسلام ہمارے اتحاد کی طاقت ہے۔اسے پاکستان سے خارج نہیں کیا جاسکتا۔
اب میں آئی ایس پی آر کی ویب سائٹ پر درج پریس ریلز کا ترجمہ پیش کرتا ہوں:
میں آپ کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا ، اسلام کو پاکستان سے کسی صورت میں خارج نہیں کیا جا سکتا۔اسلام ہمارے اتحاد کی علامت ہے۔پاک فوج، اقبال اور قائد کے افکار کی روشنی میں اس مشترکہ خواب کی تعبیر کے لیے کوشاں رہے گی کہ پاکستان کو ایک سچی اسلامی جمہوری ریاست کا نمونہ بنایا جائے۔
اب آگے بڑھنے سے پہلے میں سن دو ہزار میں واپس جاتا ہوں۔یہ پینٹگان کا بورڈ روم ہے، امریکی مسلح افواج کے سینئر ترین جرنیل میز کے دوسری طرف براجمان ہیں اور ان کے سامنے پاکستان اور بھارت سے تعلق رکھنے والے آٹھ ایڈیٹر۔گفتگو کا رخ پاک فوج میں انتہا پسندی اور بنیاد پرستی کی طرف مڑا تو مجھ سے نہ رہا گیا، میں نے عرض کی کہ پاکستان کی فوج دنیا کی ایک مسلمہ پیشہ ورانہ تربیت سے بہرہ مند ہے اور اس کے جذبہ قربانی کو قرآنی تعلیمات مہمیز دیتی ہیں۔ آپ پاک فوج سے اسلام کو خارج کر دیں تو ملک کی سلامتی کی حفاظت اس کے لیے ممکن نہیں رہے گی ۔میرا خیال تھا کہ میں کچھ جذباتی ہو گیا ہوں مگر مجھے حوصلہ ہوا جب میرے ساتھ بیٹھے ہوئے نیوز لائن کے ایڈیٹر زاہد حسین نے کہا کہ مسٹر غالب جو کہہ رہے ہیں، وہ سو فی صد درست ہے ، آپ پاک فوج سے اسلام کو خارج نہیں کر سکتے۔
میرے لیے جناب زاہد حسین کے ریمارکس اس لیے بھی حیرت کا باعث تھے کہ ہم اردو صحافت والے اسلام اور نظریہ پاکستان پر اپنی اجارہ داری تصور کرتے ہیں اور انگریزی میڈیا کو لبرل، سیکولر اور نجانے کن کن القابات سے نوازتے ہیں۔میں نے محسوس کیا کہ زاہد حسین نے میری بات کو زیادہ مدلل پیرائے میں پیش کیا۔ اور میں ہمیشہ کے لیے اس کے اندرچھپے ہوئے مولوی کا معتقد ہو گیا۔اس دوران میں امریکی جرنیل نظریں اونچی کیے بغیر نوٹس لینے میں محو رہے ، میں نے کھسر پھسر کے انداز میں زاہد حسین سے پوچھا کہ کہیں ہم دونوں انجانے میں سیکیورٹی لیکیج کا باعث تو نہیں بن گئے اور امریکی قیادت کو نئی لائن تو نہیں مل گئی، اس نے تیقن بھرے لہجے میں کہا: ہمیں صاف بات کرنی چاہیے نتیجہ خواہ کچھ بھی کیوں نہ ہو۔
اور اب جنرل کیانی نے صاف لہجے میں بات کرنے کا حق ادا کر دیا۔ایک ایسے وقت میں جب ہر طرف نظریہ پاکستان پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا جا رہا ہے، الیکشن کے عمل میں اسلام کو بے نقط سنائی جا رہی ہیں اور یہاں تک سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ اقبال اور قائد نے اسلام اور نظریہ پاکستان کی کبھی بات ہی نہیں کی، یہ تو جنرل یحییٰ خاں کے دور میں ان کے ایک وزیر اطلاعات جنرل شیر علی خان کی ذہنی اختراع ہے۔کیا خوب اعتراض ہے۔ لوگ بھول ہی گئے کہ چوہدری رحمت علی نے مسلمانوں کے لیے الگ آزاد ریاستوں کا نظریہ پیش کیا، اس خیال کو اقبال نے آگے بڑھایا اورقائد نے اس کو عملی تعبیر دینے کا علم بلند کیا۔مشرقی پنجاب کے لاکھوں مسلمان ایک اسلامی وطن کی طرف ہجرت کی راہ میں قربان ہو گئے۔یہیں کہیں بلوچ رجمنٹ کا کردار بھی سامنے آیا جس نے کٹے پھٹے قافلوں کو منزل مراد تک پہنچانے میں تاریخ ساز کردار ادا کیا۔
چھ ستمبر65 کی صبح کو فیلٖڈمارشل ایوب خان نے ریڈیو پر قوم سے خطاب میں کہا تھا: لا الہ کا ورد کرتے ہوئے دشمن پر ٹوٹ پڑو۔
پاک فوج کی ہر رجمنٹ کا کوئی نہ کوئی نعرہ ہے، کوئی اللہ اکبر کی صدا بلند کرتے ہیں ، کوئی یا علی ؓ کا نعرہ لگاتے ہیں۔
یہ غازی یہ تیرے پر اسرار بندے، جنھیں تو نے بخشا ہے ذوق خدائی، دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا، سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی۔
زندہ رہے تو غازی ، قربان ہو گئے تو شہید،جو اللہ کی راہ میں قربان ہوئے انھیںمردہ مت کہو ، وہ شہید ہیں اور ہمیشہ کی زندگی پا گئے۔
اور نکلو اللہ کی راہ میں خواہ ہلکے ہو یا بوجھل اور یہ قرآنی فرمان تو سر آنکھوں پر کہ اپنے گھوڑے تیار رکھو۔
پاک فوج کے سربراہ نے نظریہ پاکستان کی جو تشریح کی ہے ، ان کی زیر کمان فوج اس پر پورا اتر کے دکھاتی ہے اور قوم بھی اسی نظرئیے پر قائم ہے، گو 1971ء میں اندرا گاندھی نے بڑی رعونت سے کہا تھا کہ نظریہ پاکستان کو خلیج بنگال میں غرق کر دیا۔اس سے کیا ظاہر ہوتا ہے کہ دشمن بھی نظریہ پاکستان کی حقیقت کو مانتا ہے، دوسرے اس کا خیال غلط نکلا، اس لیے کہ برصغیر میں مسلمانوں کی ایک اور آزاد ریاست قائم ہو گئی۔
چند روز پہلے یہی غلطی الیکشن کمیشن سے بھی سرزد ہوئی۔ اس نے مبینہ طور پر کہہ دیا کہ اسلام کے نام پر ووٹ مانگنا جرم ہو گا، اور جب اسے چیلنج کیا گیا تواس کا جواب تھا کہ ایسی کوئی ہدائت جاری نہیںکی گئی۔آئین کے آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ کا جتنا مذاق اڑایا جاسکتا تھا، میڈیا اور سول سوسائٹی نے اڑا کر دیکھ لیا، مگر یہ دونوں آرٹیکل ابھی تک آئین کا حصہ ہیں۔ مطالبے ہو رہے ہیں کہ انھیں آئین سے نکالا جائے۔ اگر پارلیمنٹ میں کسی کو دوتہائی اکثریت حاصل ہو جائے تو ضرور نکالنے کی کوشش کر دیکھے ورنہ سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ اسے بھی آئین کی تشریح کا اختیار حاصل ہے، کوئی رٹ میں چلا جائے اور باسٹھ تریسٹھ کی تشریح پوچھ لے ،ورنہ یوسف رضا گیلانی کے خلاف فیصلہ پر نظر ڈال لے، اس کے چودہ طبق روشن ہو جائیں گے۔ آئین میں صرف باسٹھ تریسٹھ ہی نہیں ، شیخ الاسلام نے درجنوں آرٹیکلز کی نشاندہی کر دی ہے، قوم کو سارے آرٹیکل ازبر ہو گئے ہیں۔اب قوم کا حافظہ کون کھرچے گا۔یہ تو غداری کے مقدموں کا موسم ہے۔ آئین کا آرٹیکل چھ ہو یا کوئی اور ، آئین شکنی کی سزا ایک جیسی ہے۔اس آئین پر پچھلی پارلیمنٹ نے اتفاق رائے سے انگوٹھا ثبت کیا ہے۔فرار کا راستہ کوئی نہیں۔
جنرل کیانی کا شکریہ کہ انھوں نے ایک نازک وقت پر اقبال اور قائد کے افکار کی یاد دلائی، اسلام کو یک جہتی اور اتحاد کی علامت قرار دیا۔اور پاک فوج کے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ ملت اسلامیہ کے ان خوابوں کو عملی تعبیر دینے کے لیے کوشاں رہے گی کہ پاکستان کو ایک اسلامی جمہوری فلاحی پارلیمانی مملکت کا نمونہ بنایا جائے۔اقبال اور قائد کے نظریہ پاکستان میں انتہا پسندی کی گنجائش نہیں، اسی لیے افواج پاکستان پچھلے بارہ برس سے انتہا پسندوں سے نبرد آزما ہیں ، اس جنگ میں وہ پانچ ہزار افسروں اور جوانوں کی قربانی دے چکی ہیں۔
ان کے ساتھ قوم نے بھی چالیس ہزار جانوں کی قربانی دی، پورے ملک نے کھربوں کا مالی نقصان بھی برداشت کیا مگر انتہا پسندی کے نظریے کو قبول نہیں کیا لیکن یہ بھی نہیںہوا کہ اسلام کی اصل روح سے کسی نے پسپائی اختیار کی ہو۔قائد نے اس نظریے کی آسان تشریح کر دی تھی کہ اب اس مملکت میں سب شہری برابر کے حقوق رکھتے ہیں۔اور ہر ایک کو مذہبی آزادی حاصل ہے، یہی نظریہ پاکستان ہے، یہی جمہوریت کی روح ہے۔ جمہوریت کے پھلنے پھولنے سے اسلام سے انحراف کا لائسنس نہیں مل جاتا۔ کم از کم اندرونی اور بیرونی خطرات سے پاکستان کی حفاظت کرنے والی فوج کے سربراہ جنرل کیانی نے آئین کی روح کو آشکارا کر دیا ہے۔ہمیں بھی اس بارے میں یک سو ہو جانا چاہیے۔