پاکستانی سیاست کا ایک روشن چہرہ…
یوں تو ایک سنسنی خیز دنگل کے سارے لوازمات موجود ہیں، یعنی خون گرم کرنے کے سو بہانے
ملک میں سیاسی اکھاڑہ سج گیا ہے... اب دو بدو مقابلہ ہونے میں قریب آدھ مہینہ ہی رہ گیا ہے۔ سیاسی پہلوان بڑے بڑے دعوے کر رہے ہیں اور ایک دوسرے کو بڑھ چڑھ کر دعوتِ مبارزت دیتے نظر آ رہے ہیں، خوب اکھاڑ پچھاڑ ہو رہی ہے... ملک کے طول و عرض میں سیاستدان گردش میں ہیں۔ جلسے جلوس ہو رہے ہیں، کانفرنسیں ہو رہی ہیں اور دھواں دھار بیانات سے قوم کو ایک بار پھر سہانے خواب دکھائے جا رہے ہیں، پانچ سال بعد اپنے اپنے حلقہ انتخاب کو رونق بخشی جا رہی ہے۔
اس بار تو دستار و قبہ کے ساتھ رنگین آنچل بھی سیاسی نقشے میں رنگ بھرنے کے لیے بے تاب ہیں... جی ہاں سابقہ اور حالیہ اداکاراؤں کے ساتھ اس بار ''شی میل'' بھی خم ٹھونک کر میدان میں اترے ہیں۔ میڈیا بھی سنسنی پھیلانے میں کسی سے پیچھے نہیں، ٹی وی پر روزانہ چوپالیں جمتی ہیں اور چونکا دینے والے تجزیے پیش کیے جا رہے ہیں۔ غرض ایک گہما گہمی ہے اور بالکل ایک میلے کا سا سماں ہے۔
یوں تو ایک سنسنی خیز دنگل کے سارے لوازمات موجود ہیں، یعنی خون گرم کرنے کے سو بہانے... لیکن اپنی دال دلیہ کی فکر میں سرگرم مجھ جیسے عام شخص کے نزدیک یہ اک کھیل تماشے سے زیادہ اہم نہیں۔ سن شعور سے اب تک کے پانچ انتخابات نگاہ میں ہیں... کچھ فرق نہیں پڑتا، صرف چہرے بدل جاتے ہیں۔ مایوسی گناہ ہے لیکن اب کسی طور یقین نہیں آتا کہ جب کسی کے دل میں وطن کا حقیقی درد نہ ہو تو وہ صرف کھوکھلے نعروں کے ذریعے کوئی تبدیلی لا سکتا ہے۔
جب دل و دماغ میں یہ یقین اتر گیا ہو کہ ہم تو صرف کٹھ پتلیاں ہیں، ہماری ڈوریں تو ''کہیں'' اور سے ہلائی جاتی ہیں، اور پھر ان اشاروں پر ناچ دکھانے سے انکار کی نہ ہمت ہے، نہ ڈوریں توڑنے کی سکت تو مایوسی کیوں نہ اپنے پر پھیلائے... صرف ایٹم کو قابو کرنے ہی سے عزت و وقار نہیں مل جایا کرتی، ورنہ سب ہی کچھ تو ہے، کھربوں کے خزانے سمیٹے وسیع زمینیں، لہلہاتی فصلیں، کروڑوں نوجوان، ایٹم بم اور میزائلوں کی وسیع رینج... سب کچھ، لیکن نہیں ہے تو وہ اک جوہر نہیں ہے، جو نہ ہو تو سب کچھ بے کار ہے... وہ جسے دیانت کہتے ہیں اور جو حلال خوری سے جنم لیتا ہے۔ یہ بات نہیں کہ پاکستان کو ایسے حلال خورے ملے نہ ہوں۔
لیکن لگتا ہے کہ ہمارے جنم لینے سے پہلے ہی سب اس دنیا سے کوچ کر گئے تھے۔ ستر کی دہائی کے بعد جیسے یہ ملک سیاسی قدروں کے حوالے سے بنجر ہو گیا، شاید یہ سقوطِ ڈھاکا کی نحوست ہو۔ خیر کچھ دن پہلے لائبریری میں ایک کتاب سرسری دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ اس کتاب میں درج ایک واقعے کے ذریعے ہم اپنی سیاسی تاریخ کی ایک قد آور شخصیت سے متعارف ہوئے۔ ہمیں اعتراف ہے کہ اس سے پہلے ہم نے ان کا نام بھی نہ سنا تھا۔ یہ چوہدری نصیر احمد عرف لارڈ ملہی تھے جو 1913ء میں بدو ملہی ضلع سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ موصوف کا شمار نہ صرف آزادی پاکستان کے رہنماؤں میں ہوتا ہے بلکہ دیانت، امانت، سچائی کے حوالے سے بھی وہ وطن عزیز کے ان معدودے چند سیاستدانوں میں تھے، جن سے وطنِ عزیز کو نیک نامی ملی۔ وہ پاکستان کا روشن چہرہ تھے۔
ہم نے سوچا کہ پاکستان کی سیاست کی اس قد آور شخصیت کا تعارف اپنے قارئین سے بھی کروا دیں، کہ بدگمانی یہی ہے کہ میری طرح لاکھوں پاکستانی اِن سے اور ان کی قبیل کے دوسرے افراد سے ناواقف ہوں گے، وہ قافلہ حق جو گزر گیا اور ہمارے زمانے کا کوئی نام ان کے پاسنگ بھی نہیں... کتاب میں موصوف کی تعریف میں صرف روز ویلٹ والا واقعہ درج تھا۔ اس لیے چوہدری صاحب کی تفصیلی سوانح جاننے کے لیے ہمیں Wikipedia کا سہارا لینا پڑا۔ پڑھیے اور سوچیے کہ اب ایسے مخلص لوگ ہماری سیاست کو کیوں نصیب نہیں ہو رہے؟
ان کے والد کے ذکر سے شروع کرتے ہیں، کیونکہ یہ ان کے والد کے زریں اصول ہی تھے جن کا پرتو ساری زندگی ان کے ہونہار بیٹے کے روز و شب میں نظر آیا۔ والد کا نام تھا چوہدری غلام حیدر اور وہ بدو ملہی ضلع سیالکوٹ کے ایک بڑے زمیندار ہونے کے باوجود روایت سے ہٹ کر غریبوں کے حقیقی غمخوار تھے۔ دیگر زمینداروں کے برعکس وہ اپنے مزارعوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ دیکھنا چاہتے تھے، اس سلسلے میں انھوں نے 1918ء میں ایک تعلیمی ادارہ بھی قائم کیا تھا، جو خود انھی کے نام سے موسوم ہوا۔ غلام حیدر مسلم ہائی اسکول میں نہ صرف طلبا کی تعلیم بالکل مفت تھی، بلکہ یونیفارم اور کتابیں بھی چوہدری صاحب کی طرف سے مہیا کی جاتی تھیں۔
انھی کے گھر میں ننھے نصیر احمد نے آنکھ کھولی، جس نے ہوش سنبھالتے ہی اپنے گھر میں مسلم امہ کی زبوں حالی پر اپنے عزیزوں کو پریشان دیکھا۔ جب نصیر احمد کے اسکول جانے کی عمر ہوئی تو چوہدری غلام حیدر نے انھیں بھی اپنے ہی اسکول میں مزارعوں کے بچوں کے ساتھ بٹھایا، جب کہ چوہدری صاحب اس زمانے کے اعتبار سے بھی کروڑ پتی شخص تھے۔ وہ چاہتے تو اپنے قابل بیٹے نصیر احمد کو دیگر بڑے زمینداروں کی طرح معروف پرائیویٹ اسکول میں بھیج سکتے تھے، لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا۔ اس تعلیمی ادارے میں کسی کو کسی پر فوقیت دینے کی پابندی تھی، صرف قابلیت کو ترجیح دی جاتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ چوہدری نصیر احمد کو بھرپور محنت کرنا پڑتی تھی۔
والد کے قائم کردہ اسکول سے چوہدری نصیر احمد نے میٹرک پاس کیا، پھر گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہوئے، جہاں سے انھوں نے گریجویشن کیا، پھر پنجاب یونیورسٹی لاء کالج سے ایل ایل بی کی سند حاصل کی اور وکالت کے پیشے میں آ گئے۔ خدمت خلق خون میں شامل تھی، اس لیے عوام سے زیادہ قریب تھے۔ آہستہ آہستہ سیاست کی جانب مائل ہونے لگے۔ سیاست کا آغاز کیا انڈین نیشنل کانگریس سے اور 1939ء میں کانگریس کے ٹکٹ پر ڈسٹرکٹ بورڈ سیالکوٹ کے رکن منتخب ہوئے، لیکن اگلے ہی سال 22-24 مارچ 1940ء کو جب لاہور میں مسلم لیگ کی تاریخی قرارداد، ''قرارداد پاکستان'' منظور ہوئی تو مسلم لیگ میں آ گئے۔ گھٹی میں پڑی ہوئی مسلم امہ کی محبت اور ان کے لیے ایک الگ ملک کے حسین خواب نے انھیں چند ہی مہینوں میں آل انڈیا مسلم لیگ کا نہایت سرگرم اور متحرک ترین رکن بنا دیا۔
آپ نے پنجاب میں مسلم لیگ کو مقبول بنانے کے لیے اپنا خاندانی اثر و رسوخ، اپنا مال اور اپنی ساری صلاحیتیں لگا دیں۔ 1944ء میں پنجاب مسلم لیگ کنونشن میں قائداعظم کو شرکت کی دعوت دینے خود گئے، وہیں ان کی ملاقات نواب بہادر یار جنگ سے ہوئی، انھوں نے انھیں بھی کنونشن میں شرکت کی دعوت دی۔ کنونشن ہوا اور اتنا کامیاب ہوا کہ خضر حیات ٹوانہ کی حکومت ہل گئی۔ قیام پاکستان کے حق میں انھوں نے پورے پنجاب میں کنونشن، کانفرنس اور جلسے کرائے مگر ان جلسوں پر خرچ ہوئی رقم ان کی ذاتی تھی۔ وہ اپنی جائیدادیں بیچ بیچ کر کارکنوں کی فوج تیار کرتے رہے۔ اسی فوج نے خضر حیات ٹوانہ کی حکومت کو گرا کے مسلم لیگ کو پنجاب میں مستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
قیام پاکستان تک ان کی آدھی سے زیادہ جائیداد بک چکی تھی۔ قیام پاکستان کے بعد انھیں وزیرِ تعلیم کا قلمدان ملا تو انھوں نے پہلا حکم نامہ یہ جاری کیا کہ ایچی سن کالج کی سرکاری گرانٹ بند کی جائے کیوں کہ یہ کالج امرا کے بچوں کے لیے ہے تو اس کے اخراجات بھی امرا کے ذمے ہونے چاہئیں۔ پھر انھوں نے اسکول اور کالجز میں طبقاتی فرق مٹانے کے لیے ''ایک'' یونیفارم کا نظام نافذ کیا۔ وہ وزیر ہوتے ہوئے بھی نجی دوروں اور دوستوں کی مدارات پر خود خرچ کرتے۔ سرکاری رقوم کو عوام کی کمائی کہتے اور اس کے زیاں کو حرام قرار دیتے۔
اس سلسلے میں ایک واقعہ بہت مشہور ہے کہ جن دنوں مسز روز ویلٹ جنرل اسمبلی کی صدر تھیں۔ بھارتی مندوب نے مادام کے اعزاز میں استقبالیہ دینے کی لابنگ شروع کی۔ چوہدری نصیر احمد نے بھی پاکستان کی طرف سے لابنگ شروع کی۔ مہم کامیاب قرار پائی۔ اس استقبالیہ میں اقوام متحدہ کے تمام رکن ممالک نے شرکت کی اور یہ ایک کامیاب ترین سیاسی تقریب قرار پائی۔ اس دعوت کے تمام اخراجات انھوں نے اپنی جیب سے ادا کیے۔ دوستوں نے مشورہ دیا کہ اخراجات حکومتِ پاکستان سے لے لیں تو انھوں نے جواب دیا:
''یہ دعوت میں نے صرف ملک کا وقار بلند کرنے کے لیے اپنے طور پر دی تھی پھر میں عوام کے گاڑھے پسینے کی کمائی پر ڈاکہ کیوں ڈالوں؟'' پہلو میں مسلمانوں اور ہم وطنوں کے لیے دردمند دل رکھنے والے وطن کے یہ سچے خدمت گزار 1991ء میں اچانک دل کے دورے سے بدو ملہی میں اپنی حویلی کی دہلیز پر گرے اور روح پرواز کر گئی۔
اس بار تو دستار و قبہ کے ساتھ رنگین آنچل بھی سیاسی نقشے میں رنگ بھرنے کے لیے بے تاب ہیں... جی ہاں سابقہ اور حالیہ اداکاراؤں کے ساتھ اس بار ''شی میل'' بھی خم ٹھونک کر میدان میں اترے ہیں۔ میڈیا بھی سنسنی پھیلانے میں کسی سے پیچھے نہیں، ٹی وی پر روزانہ چوپالیں جمتی ہیں اور چونکا دینے والے تجزیے پیش کیے جا رہے ہیں۔ غرض ایک گہما گہمی ہے اور بالکل ایک میلے کا سا سماں ہے۔
یوں تو ایک سنسنی خیز دنگل کے سارے لوازمات موجود ہیں، یعنی خون گرم کرنے کے سو بہانے... لیکن اپنی دال دلیہ کی فکر میں سرگرم مجھ جیسے عام شخص کے نزدیک یہ اک کھیل تماشے سے زیادہ اہم نہیں۔ سن شعور سے اب تک کے پانچ انتخابات نگاہ میں ہیں... کچھ فرق نہیں پڑتا، صرف چہرے بدل جاتے ہیں۔ مایوسی گناہ ہے لیکن اب کسی طور یقین نہیں آتا کہ جب کسی کے دل میں وطن کا حقیقی درد نہ ہو تو وہ صرف کھوکھلے نعروں کے ذریعے کوئی تبدیلی لا سکتا ہے۔
جب دل و دماغ میں یہ یقین اتر گیا ہو کہ ہم تو صرف کٹھ پتلیاں ہیں، ہماری ڈوریں تو ''کہیں'' اور سے ہلائی جاتی ہیں، اور پھر ان اشاروں پر ناچ دکھانے سے انکار کی نہ ہمت ہے، نہ ڈوریں توڑنے کی سکت تو مایوسی کیوں نہ اپنے پر پھیلائے... صرف ایٹم کو قابو کرنے ہی سے عزت و وقار نہیں مل جایا کرتی، ورنہ سب ہی کچھ تو ہے، کھربوں کے خزانے سمیٹے وسیع زمینیں، لہلہاتی فصلیں، کروڑوں نوجوان، ایٹم بم اور میزائلوں کی وسیع رینج... سب کچھ، لیکن نہیں ہے تو وہ اک جوہر نہیں ہے، جو نہ ہو تو سب کچھ بے کار ہے... وہ جسے دیانت کہتے ہیں اور جو حلال خوری سے جنم لیتا ہے۔ یہ بات نہیں کہ پاکستان کو ایسے حلال خورے ملے نہ ہوں۔
لیکن لگتا ہے کہ ہمارے جنم لینے سے پہلے ہی سب اس دنیا سے کوچ کر گئے تھے۔ ستر کی دہائی کے بعد جیسے یہ ملک سیاسی قدروں کے حوالے سے بنجر ہو گیا، شاید یہ سقوطِ ڈھاکا کی نحوست ہو۔ خیر کچھ دن پہلے لائبریری میں ایک کتاب سرسری دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ اس کتاب میں درج ایک واقعے کے ذریعے ہم اپنی سیاسی تاریخ کی ایک قد آور شخصیت سے متعارف ہوئے۔ ہمیں اعتراف ہے کہ اس سے پہلے ہم نے ان کا نام بھی نہ سنا تھا۔ یہ چوہدری نصیر احمد عرف لارڈ ملہی تھے جو 1913ء میں بدو ملہی ضلع سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ موصوف کا شمار نہ صرف آزادی پاکستان کے رہنماؤں میں ہوتا ہے بلکہ دیانت، امانت، سچائی کے حوالے سے بھی وہ وطن عزیز کے ان معدودے چند سیاستدانوں میں تھے، جن سے وطنِ عزیز کو نیک نامی ملی۔ وہ پاکستان کا روشن چہرہ تھے۔
ہم نے سوچا کہ پاکستان کی سیاست کی اس قد آور شخصیت کا تعارف اپنے قارئین سے بھی کروا دیں، کہ بدگمانی یہی ہے کہ میری طرح لاکھوں پاکستانی اِن سے اور ان کی قبیل کے دوسرے افراد سے ناواقف ہوں گے، وہ قافلہ حق جو گزر گیا اور ہمارے زمانے کا کوئی نام ان کے پاسنگ بھی نہیں... کتاب میں موصوف کی تعریف میں صرف روز ویلٹ والا واقعہ درج تھا۔ اس لیے چوہدری صاحب کی تفصیلی سوانح جاننے کے لیے ہمیں Wikipedia کا سہارا لینا پڑا۔ پڑھیے اور سوچیے کہ اب ایسے مخلص لوگ ہماری سیاست کو کیوں نصیب نہیں ہو رہے؟
ان کے والد کے ذکر سے شروع کرتے ہیں، کیونکہ یہ ان کے والد کے زریں اصول ہی تھے جن کا پرتو ساری زندگی ان کے ہونہار بیٹے کے روز و شب میں نظر آیا۔ والد کا نام تھا چوہدری غلام حیدر اور وہ بدو ملہی ضلع سیالکوٹ کے ایک بڑے زمیندار ہونے کے باوجود روایت سے ہٹ کر غریبوں کے حقیقی غمخوار تھے۔ دیگر زمینداروں کے برعکس وہ اپنے مزارعوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ دیکھنا چاہتے تھے، اس سلسلے میں انھوں نے 1918ء میں ایک تعلیمی ادارہ بھی قائم کیا تھا، جو خود انھی کے نام سے موسوم ہوا۔ غلام حیدر مسلم ہائی اسکول میں نہ صرف طلبا کی تعلیم بالکل مفت تھی، بلکہ یونیفارم اور کتابیں بھی چوہدری صاحب کی طرف سے مہیا کی جاتی تھیں۔
انھی کے گھر میں ننھے نصیر احمد نے آنکھ کھولی، جس نے ہوش سنبھالتے ہی اپنے گھر میں مسلم امہ کی زبوں حالی پر اپنے عزیزوں کو پریشان دیکھا۔ جب نصیر احمد کے اسکول جانے کی عمر ہوئی تو چوہدری غلام حیدر نے انھیں بھی اپنے ہی اسکول میں مزارعوں کے بچوں کے ساتھ بٹھایا، جب کہ چوہدری صاحب اس زمانے کے اعتبار سے بھی کروڑ پتی شخص تھے۔ وہ چاہتے تو اپنے قابل بیٹے نصیر احمد کو دیگر بڑے زمینداروں کی طرح معروف پرائیویٹ اسکول میں بھیج سکتے تھے، لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا۔ اس تعلیمی ادارے میں کسی کو کسی پر فوقیت دینے کی پابندی تھی، صرف قابلیت کو ترجیح دی جاتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ چوہدری نصیر احمد کو بھرپور محنت کرنا پڑتی تھی۔
والد کے قائم کردہ اسکول سے چوہدری نصیر احمد نے میٹرک پاس کیا، پھر گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہوئے، جہاں سے انھوں نے گریجویشن کیا، پھر پنجاب یونیورسٹی لاء کالج سے ایل ایل بی کی سند حاصل کی اور وکالت کے پیشے میں آ گئے۔ خدمت خلق خون میں شامل تھی، اس لیے عوام سے زیادہ قریب تھے۔ آہستہ آہستہ سیاست کی جانب مائل ہونے لگے۔ سیاست کا آغاز کیا انڈین نیشنل کانگریس سے اور 1939ء میں کانگریس کے ٹکٹ پر ڈسٹرکٹ بورڈ سیالکوٹ کے رکن منتخب ہوئے، لیکن اگلے ہی سال 22-24 مارچ 1940ء کو جب لاہور میں مسلم لیگ کی تاریخی قرارداد، ''قرارداد پاکستان'' منظور ہوئی تو مسلم لیگ میں آ گئے۔ گھٹی میں پڑی ہوئی مسلم امہ کی محبت اور ان کے لیے ایک الگ ملک کے حسین خواب نے انھیں چند ہی مہینوں میں آل انڈیا مسلم لیگ کا نہایت سرگرم اور متحرک ترین رکن بنا دیا۔
آپ نے پنجاب میں مسلم لیگ کو مقبول بنانے کے لیے اپنا خاندانی اثر و رسوخ، اپنا مال اور اپنی ساری صلاحیتیں لگا دیں۔ 1944ء میں پنجاب مسلم لیگ کنونشن میں قائداعظم کو شرکت کی دعوت دینے خود گئے، وہیں ان کی ملاقات نواب بہادر یار جنگ سے ہوئی، انھوں نے انھیں بھی کنونشن میں شرکت کی دعوت دی۔ کنونشن ہوا اور اتنا کامیاب ہوا کہ خضر حیات ٹوانہ کی حکومت ہل گئی۔ قیام پاکستان کے حق میں انھوں نے پورے پنجاب میں کنونشن، کانفرنس اور جلسے کرائے مگر ان جلسوں پر خرچ ہوئی رقم ان کی ذاتی تھی۔ وہ اپنی جائیدادیں بیچ بیچ کر کارکنوں کی فوج تیار کرتے رہے۔ اسی فوج نے خضر حیات ٹوانہ کی حکومت کو گرا کے مسلم لیگ کو پنجاب میں مستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
قیام پاکستان تک ان کی آدھی سے زیادہ جائیداد بک چکی تھی۔ قیام پاکستان کے بعد انھیں وزیرِ تعلیم کا قلمدان ملا تو انھوں نے پہلا حکم نامہ یہ جاری کیا کہ ایچی سن کالج کی سرکاری گرانٹ بند کی جائے کیوں کہ یہ کالج امرا کے بچوں کے لیے ہے تو اس کے اخراجات بھی امرا کے ذمے ہونے چاہئیں۔ پھر انھوں نے اسکول اور کالجز میں طبقاتی فرق مٹانے کے لیے ''ایک'' یونیفارم کا نظام نافذ کیا۔ وہ وزیر ہوتے ہوئے بھی نجی دوروں اور دوستوں کی مدارات پر خود خرچ کرتے۔ سرکاری رقوم کو عوام کی کمائی کہتے اور اس کے زیاں کو حرام قرار دیتے۔
اس سلسلے میں ایک واقعہ بہت مشہور ہے کہ جن دنوں مسز روز ویلٹ جنرل اسمبلی کی صدر تھیں۔ بھارتی مندوب نے مادام کے اعزاز میں استقبالیہ دینے کی لابنگ شروع کی۔ چوہدری نصیر احمد نے بھی پاکستان کی طرف سے لابنگ شروع کی۔ مہم کامیاب قرار پائی۔ اس استقبالیہ میں اقوام متحدہ کے تمام رکن ممالک نے شرکت کی اور یہ ایک کامیاب ترین سیاسی تقریب قرار پائی۔ اس دعوت کے تمام اخراجات انھوں نے اپنی جیب سے ادا کیے۔ دوستوں نے مشورہ دیا کہ اخراجات حکومتِ پاکستان سے لے لیں تو انھوں نے جواب دیا:
''یہ دعوت میں نے صرف ملک کا وقار بلند کرنے کے لیے اپنے طور پر دی تھی پھر میں عوام کے گاڑھے پسینے کی کمائی پر ڈاکہ کیوں ڈالوں؟'' پہلو میں مسلمانوں اور ہم وطنوں کے لیے دردمند دل رکھنے والے وطن کے یہ سچے خدمت گزار 1991ء میں اچانک دل کے دورے سے بدو ملہی میں اپنی حویلی کی دہلیز پر گرے اور روح پرواز کر گئی۔