مارکسی نسائی نظریات… پہلا حصہ

نظم کی ساخت اور معنوی و جمالیاتی کینوس شاعرہ کی نہ صرف مارکسی نسائی نظریات و افکار کی گہری تفیہم کا غماز ہے

نسیم سید اردو ادب کی ایک اہم اور معروف شاعرہ ہیں، ان کی نظم 'فنکار' کی بنیاد میں مارکسی نسائی نظریات و افکار کی گونج واضح طور پر سنائی دے رہی ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ عورت مرد سے خدوخال میں مختلف ہے، خدوخال کی تفریق عورت اور مرد کی الگ الگ شناخت کو قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے، مگر اسی تفریق کو بنیاد بناتے ہوئے مردوں نے عورت کی شناخت مسخ کر دی۔ عورت درحقیقت کیا ہے اور اس کو بحیثیت فرد کیسے رہنا ہے اس کا فیصلہ مردوں نے اپنی مرضی سے کیا ہے۔

اپنی طاقت کو جائز قرار دینے کے لیے سب سے پہلے مذہبی خیالیات کا سہارا لیا گیا، اور خدا کے تصور کو ایک مرد کے تصور کے ساتھ منسوب کیا گیا۔ پھر خدا کے تصور کو استعمال کرتے ہوئے مرد کو مذہبی و اخلاقی نظریات کی روشنی میں استحکام بخشا گیا اور اس عورت پر اس کی اجارہ داریوں کو جائز قرار دیا گیا۔ عورت کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو دنیا کے ہر سماج میں عورت اشیائے صرف (Comodity) کے طور پر شناخت کی جا سکتی ہے۔

عورت کی تاریخ درحقیقت اس کے استحصال کی تاریخ بھی ہے، صدیوں ظلم و جبر کا شکار رہنے والی عورت آج بھی بہت سے معاشروں میں خود کو بحیثیت فرد شناخت کرنے میں ناکام رہتی ہے کیونکہ صدیوں کے طویل سفر کے بعد آج وہ 'بیگانگی' کا شکار ہو کر اس 'آزادی' کو حقیقی آزادی سمجھنے لگی ہے جو آزاد منڈی کی معیشت میں اس کو بطور 'جنس' سرمایہ داروں نے عطا کی اور جب کچھ باشعور خواتین نے اپنی حقیقی شناخت کو بطور فرد استحکام بخشنے کے لیے اپنی آواز بلند کی تو اس کو بے راہ روی کہا گیا۔

استحصالی سماجی نظام سے جب اس نے بحیثیت فرد جینے کی آزادی طلب کی تو اس کی سوچ اور مردانہ استحصال سے آزادی کی خواہش کی شرح مردوں کے متعصب قلم نے ''مادر پدر آزادی'' کی خواہش کے طور پر کی۔ خواتین کی آواز کو دبایا گیا، حتیٰ کہ اردو ادب میں آج بھی خواتین کی ایسی رائے، تبصرے اور لکھے ہوئے کو نمایاں آواز بننے نہیں دیا جاتا، جس میں نسائیت اپنے جذبات و احساسات کا اظہار کرتی ہے۔ نسائیت کی نمایندہ شاعری کو سستے نسائی جذبے کہہ کر حقارت کا اظہار کیا جاتا ہے۔ مرد کے عورت کے خلاف ان تاریخی، سماجی، معاشی، اخلاقی و مذہبی نظریات کی روشنی میں نسیم سید کی نظم 'فنکار' کا جائزہ لیا گیا ہے۔

نسیم سید نے اس نظم میں اپنی بھرپور شاعرانہ تخیل کو بروئے کار لاتے ہوئے مغربی نسائیت کے سارے دھاروں کو جمالیات و خیالیات کی آمیزش سے معنوی سطح پر یکجا ئی عطا کی ہے اور مشرقی نسائیت کی نمایندگی کرتا ہوا ایک الگ دھارا بھی اس سے نکالا ہے جو ''درد کے سمندر'' کی سنگت میں انسانی حیات کی 'نمو کے جوہر' لیے اپنا سفر آگے بڑھائے گا۔ جو مغربی اور مشرقی نسائی افکار کا سنگم بھی ہے اور اپنی الگ شناخت کا ضامن بھی۔ اس نظم کی شاعرہ ایسی عورت ہے جو اپنی حقیقی معنویت اور شناخت سے آگاہ ہے، وہ شناخت جس کو صدیوں سے دنیا کے مختلف معاشروں میں مسخ کیا جاتا رہا ہے۔

کبھی جسمانی طاقت کے بل بوتے پر تو کبھی نظریات و افکار کو بروئے کار لا کر۔ اس نظم کی شاعرہ اس بات کا شعور رکھتی ہے کہ صدیوں سے مرد نے اس کو اپنے حوالے سے پہچانا اور اس کی زندگی کی معنویت کو اپنے مفادات اور ضرورت کے تحت بدلتا رہا، مرد نے جب چاہا اس کو اشیائے صرف کی طرح کبھی ''گھر کا چراغ'' بنا کر رکھا تو کبھی دل بہلانے کو ''شمع محفل'' بنا دیا۔ نسائی تاریخ مرد کے ظلم و جبر اور عورت کے کرب کی ایک لمبی تاریخ ہے۔

تاریخ کے ہر دور میں عورت ہمیں مختلف کردار ادا کرتی نظر آتی ہے ایسے کردار جن کو مرد نے اپنی ضرورت کے تحت ڈھالا تھا، مثلاً، داسیوں، باندیوں، طوائفوں، فاحشوں کے قابل نفرت روپ میں جو مرد نے ہی ان کو عطا کیے، تو دوسری طرف مائوں، بہنوں، بیٹیوں اور بیویوں کے مقدس روپ میں ڈھلی ہوئی، مگر درحقیقت اپنی ہی خدمات پر مامور عورت، جو بحیثیت فرد تاریخ کے کسی بھی دور میں بیسویں صدی سے پہلے نہیں ملتی۔ مرد نے بڑی مہارت سے عورت کے شعور کے پنپنے کی ہر راہ کو مسدود کر نے کے لیے سیاسی، سماجی اور تعلیمی طاقت کے مراکز سے دور رکھا اور جب ضرورت پڑی تو ان کو بازار میں سرمایہ داری نظام کی تقویت کے لیے ایک آزاد 'جنس' کے طور پر آزاد منڈی کی معیشت کا حصہ بنا ڈالا۔


اسی 'بیگانگی' کا شکار عورتوں کے ہجوم میں مغرب اور مشرق میں بہت سی خواتین ایسی ہیں جو اپنی حقیقی شناخت کا نہ صرف شعور رکھتی ہیں بلکہ اس کو استحکام بخشنے کی کوشش میں ہیں، نسیم سید بھی ایسی ہی ایک خاتون ہیں جو خود کو ایک فرد کی حیثیت سے نہ صرف جانتی ہیں بلکہ اپنی شناخت کو اپنی نظم 'فنکار' کے ذریعے مستحکم کرنے کی سعی کر رہی ہیں اور مرد کی بخشی ہوئی مسخ شدہ شناخت کی بڑے اعتماد کے ساتھ دھجیاں اُڑا رہی ہیں۔ نسیم سید نے اپنی اس نظم میں جن استعاروں، تشبیہات اور علامات کا استعمال کیا ہے وہ شعوری اور بہت واضح ہیں اگرچہ استعارے کی خوبصورتی کو ابہام سے وابستہ سمجھا جاتا ہے مگر یہاں بھی نسیم سید نے غالب ادبی نظریات کی عملی سطح پر نفی کرتے ہوئے واضح اور غیر مبہم استعارات کا بھرپور استعمال کر کے ثابت کیا ہے کہ عورت اپنا ادبی ڈکشن نہ صرف الگ مستحکم کر سکتی ہے بلکہ جمالیات کے معیار بھی اپنے زاویے سے ترتیب دے سکتی ہے۔

نظم کی ساخت اور معنوی و جمالیاتی کینوس شاعرہ کی نہ صرف مارکسی نسائی نظریات و افکار کی گہری تفیہم کا غماز ہے بلکہ مردانہ معاشروں کے استحصالی حربوں کے تحت، عورت کے ساتھ کیے جانے والا 'امتیازی کمتر سلوک' اور اخلاقی و مذہبی خیالیات کے استعمال سے کی جانے والی دروغ گوئی پر مبنی درجہ بندیوں کے شعور کا بھی ضامن ہے، اسی لیے وہ نظم کو جو عنوان دیتی ہیں وہ ایک بھرپور طنز کا استعارہ ہے جو مرد کے کردار میں پائے جانے والے استحصال، بناوٹ، جھوٹ اور غیر حقیقی کو حقیقی ثابت کرنے کے عمل کو بھی نمایاں کرتا ہے اور آج کے صنعتی معاشروں میں رائج سرمایہ داری نظام کی معنوی نمایندگی بھی کرتا ہے، یعنی ''فنکار'' ایسا طاقتور استعارہ ہے جو ایک طرف تو مرد کے عورت کے حوالے سے حقیقی نظریات کو واضح کرتا ہے، تو دوسری طرف ایک فنکار کی اس حیثیت کا بھی تمسخر اڑاتا ہے جس کا فن پارہ جمالیات کی کسی بھی اعلیٰ سطح کو چھو لے، لیکن حقیقت سے کوئی تعلق نہیں رکھتا، بلکہ اس کی اپنی محدود ذاتی خواہشات اور خود غرض تمنائوں پر مبنی ایسا فن پارہ ہے جو عورت کی اصل شناخت کو مسخ کر رہا ہے۔

'فنکار' نسائی تخیل کی نمایندہ چھوٹے چھوٹے مصرعوں پر مشتمل نظم ہے۔ اس کی طویل ساخت اس بات کی غماز ہے کہ کس طرح نسائیت کا سفر طویل صدیوں پر مشتمل ہے۔ اس کے چھوٹے چھوٹے مصرعے نسائی شعور کے ارتقائی مراحل کی علامت بھی ہیں اور نسائی تاریخ کے وہ ٹکڑے بھی جو علم البشریات کے نظر انداز کیے جانے کی وجہ سے کسی باضابطہ تاریخی ڈسکورس میں نہ ڈھل سکے۔ یہ نظم معنوی سطح پر تین نمایاں حصوں پر مشتمل ہے۔ یہ تینوں حصے نسائیت کے ارتقائی مراحل کی تاریخ اور مستقبل کے امکانات کا بھرپور شعری اظہار ہیں۔

پہلے حصے میں شاعرہ نسائیت کی نمایندہ آواز بن کر 'فنکار' کے فن پارے کو طنزاً سراہتی ہے، دوسرے میں اس کی خامیاں نمایاں کرتی ہے اور تیسرے میں عورت کی حقیقی شناخت بطور فرد واضح تو کرتی ہیں مگر 'فنکار' کی بنائی ہوئی مصنوعی بے جان عورت کے مقابل، حقیقی عورت کے لیے جو 'رنگ تازہ' فنکار کو شاعرہ دکھانا چاہتی ہیں ان کو نمایاں کرنے کے لیے نسائیت کے اپنے الگ استعارے، تشبیہات، اور علامتیں لسانی سطح پر متعارف نہیں کرا پاتیں۔ وہ نظم کا آغاز بڑی مہارت سے ان طنزیہ مصرعوں سے کرتی ہے کہ،

'میرے فنکار... مجھے خوب تراشا تُو نے'

ان مصرعوں میں 'فنکار' کا استعارہ 'سرمایہ داری نظام' بھی ہے اور سرمایہ دار مرد بھی جو اس کے اس عمل کو نمایاں کر رہا ہے جو عورت کے حوالے سے وہ اپنی خواہش کے مطابق حقیقت کو نظر انداز کرتے ہوئے ادا کرتا ہے، مثلاً فنکار کا استعارہ ایسی اصطلاح ہے جو ہمارے سماج میں اس شخص کے لیے استعمال ہوتی ہے جو حقیقی اشیاء کی شبیہہ پر اور بعض اوقات اپنے تخیل کے سہارے ان سے الگ بالکل غیر حقیقی اشیا کو بناتا ہے، جس کا مقصد ماضی میں بھی اپنے ہنر کی ستائش کی طلب تھی۔

(جاری ہے)
Load Next Story