عالمی یوم ارض اور بدلتے موسم
امریکا اور یورپ نے گزشتہ 300 برسوں میں زمینی ماحول میں 50 ارب ٹن سے زائد کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج کیا ہے۔
یوم ارض کا مرکزی خیال امریکی ریاست وسکنسن سے تعلق رکھنے والے سینٹر گے لارڈ نیلسن نے پیش کیا تھا۔ اس خیال کو عملی شکل اس وقت ملی جب 22 اپریل 1970ء کو دنیا میں پہلا یوم ارض منایا گیا۔ یہ دنیا کی پہلی ماحولیاتی سرگرمی تھی۔ جس کے بعد ماحولیاتی قانون سازی کا عمل بھی شروع ہو گیا ۔ یہ ایک حقیت ہے کہ عالمی یوم ارض کی کامیابی کے نتیجے میں ماحولیات سے متعلق جدید تحریکوں نے جنم لیا۔ رواں سال عالمی یوم ارض کا موضوع ''موسمیاتی تبدیلی کی ظاہری صورت'' رکھا گیا ہے۔ اس دن 192 ممالک سے تعلق رکھنے والے ایک ارب سے زائد لوگ اور کمیونٹیز موسمیاتی تبدیلی کے مضر اثرات سے نمٹنے کے لیے یکجہتی کا اظہار کریں گے۔ واضح رہے کہ دنیا بھر میں یوم ارض کی سب سے عام اور مقبول سرگرمی درخت لگانا ہے۔
کرہ ارض کے دو براعظموں امریکا اور یورپ کے چند ملکوں کی معاشی دوڑ نے دو تین صدیوں میں اس سیارے کی صورت تبدیل کر کے رکھ دی ہے۔ یہ بات بھی اپنی جگہ حقیقت پر مبنی ہے کہ انسان نے اس بات کو جان لیا ہے کہ زمین نزع کے عالم میں ہے اور اس کی سانسیں ختم ہونے کا مطلب انسانی زندگی کا خاتمہ ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ انسان نے مرض کی تشخیص بھی کر لی ہے اور اس کی دوا کا پتہ بھی چلا لیا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس درد کو پیدا کرنے والے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک، ترقی پذیر، غریب اور پسماندہ ملکوں پر دبائو ڈال رہے ہیں کہ وہ علاج کی قیمت خود ادا کریں۔
امریکا اور یورپ نے گزشتہ 300 برسوں میں زمینی ماحول میں 50 ارب ٹن سے زائد کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج کیا ہے جس کے نتیجے میں اس کی صنعت و حرفت اور آرام و آسائش سے بھرپور زندگی اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے۔ گرین ہائوس گیسوں کے ذریعے انھوں نے کرہ ارض کے آسمانوں کو آلودہ کیا اور آج ان کے عیش و آرام اور ترقی کی قیمت ترقی پذیر اور غریب ملکوں کو ادا کرنی پڑ رہی ہے۔ موسم تبدیل ہو رہے ہیں۔ غیر معمولی سیلاب، بہت کم یا بہت زیادہ اور بے وقت کی بارشیں۔ خشک سالی اور نت نئی بیماریاں پرورش پا رہی ہیں۔ اس صورتحال نے غریب ملکوں کو ماحولیاتی عدم توازن اور موسمیاتی تبدیلی کا شکار بنا دیا ہے، جس کے متحمل وہ نہیں ہو سکتے۔
اس کی تازہ ترین مثال اقوام متحدہ کی جانب سے پیش کی جانیوالی اس رپورٹ کا خلاصہ ہے جو 2014ء میں پیش کی جانیوالی ہے جس کی تفصیلات رائٹرز نے جاری کی ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2030ء تک گرین ہائوس گیسوں کے اخراج میں ڈرامائی کمی نہیں کی گئی تو عالمی برادری موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف جاری جنگ ہار سکتی ہے کیونکہ اس کا راستہ روکنے کے لیے جو عالمی ہدف مقرر کیا گیا ہے اس کا حصول تقریباً ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔ 25 صفحات پر مشتمل اس خلاصہ رپورٹ میں موجودہ صدی کے پہلے عشرے میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کی ذمے داری چین اور دیگر ایشیائی ممالک میں ہونے والی صنعتی ترقی پر عائد کی گئی ہے۔ واضح رہے کہ آنے والے چھ، سات برسوں کے دوران یہ اقوام متحدہ کی ماحولیاتی پالیسیوں کے حوالے سے روڈ میپ کا کام دے گی۔
عالمی موسمیاتی تنظیم (WMO) کے اعداد و شمار کے مطابق 2011 کی نسبت فضا میں گرین ہائوس گیسوں میں شدید اضافہ ہوا ہے۔ اس تنظیم کے سیکریٹری جنرل میشل یارو کا کہنا ہے کہ آنے والی کئی صدیوں تک فضا میں ٹنوں اضافی، کاربن ڈائی آکسائیڈ موجود رہے گی جس کی وجہ سے ہمارا سیارہ مزید گرم ہو گا اور اس کا لازمی اثر کرۂ ارض پر موجود زندگی پر پڑے گا۔ واضح رہے کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ 85 فیصد تک عالمی درجہ حرارت میں اضافہ کا ذمے دار ہوتا ہے۔ اسی طرح امریکن ریسرچ کونسل کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سائنس دانوں کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ فضا میں کاربن گیسوں کے اخراج میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
کانگریس کی جانب سے نامزد کردہ اس تحقیقی گروپ نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث سمندروں کی سطح میں اضافے کے ساتھ ساتھ سیلابوں کی تعداد اور شدت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کے ساتھ جنگلات میں آگ لگنے کے واقعات، خشک سالی اور انسانی جسم میں جراثیموں کی پرورش کے لیے بھی ساز گار حالات پیدا ہو رہے ہیں جس کے باعث کرۂ ارض پر سلامتی کے خطرات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ دوسری جانب زمین کا بڑھتا ہوا درجہ حرارت بین الاقوامی سطح پر معاشروں میں ایک نئی طرز کا سیاسی اور معاشرتی دبائو ڈال رہا ہے۔
اس سنگین خطرے سے نمٹنے کے لیے امریکا سمیت دنیا کے دیگر ملکوں کو انتہائی سنجیدہ اقدامات کرنے ہوں گے۔ دنیا کے ایک معتبر ادارے جرمن واچ کا کہنا ہے کہ 2011ء میں پاکستان، فلپائن، ایل سلوا ڈور، کمبوڈیا اور تھائی لینڈ موسمی تبدیلی کا شدت سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ رپورٹ کے مطابق موسمیاتی تبدیلی کے باعث ترقی پذیر ملکوں میں 2.5 ٹریلین ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا ہے اور اس کے اثرات پوری دنیا میں مرتب ہوئے ہیں۔
یہ ایک ٹھوس حقیقت ہے کہ ہوس زر اور پرتعیش زندگی کے حصول کے لیے کی جانے والی منفی انسانی سرگرمیوں بالخصوص صنعت و حرفت کی ناہموار ترقی، بڑے پیمانے پر جنگلات کی کٹائی، قدرتی وسائل کا بے دریغ استحصال اور معدنی ایندھن کے بے تحاشا استعمال کے نتیجے میں گرین ہائوس گیسوں میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے اور یہ اضافہ مسلسل جاری ہے جس کے نتیجے میں دنیا بھر میں موجود گلیشیئرز کے پگھلنے کا عمل تیز ہو گیا ہے۔ دنیا کے کئی حصوں کے زیر آب آنے کے خطرات پیدا ہو چکے ہیں، تو دوسری جانب کئی خطوں میں بارشوں میں کمی اور قلت آب کے ساتھ ساتھ خشک سالی اور غذائی بحران کے خطرات بڑھتے جا رہے ہیں۔
پاکستان ماحولیاتی و موسمیاتی تبدیلیوں سے شدید متاثرہ ملکوں میں شامل ہو چکا ہے۔ ہماری زراعت، ٹیکسٹائل، فشریز، فوڈ انڈسٹریز، سمیت متعدد صنعتی شعبے منفی ماحولیاتی عوامل کی وجہ سے تباہی کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں۔ قلت آب کی وجہ سے ملک کے عوام پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں۔ عالمی ادارۂ صحت کی طرف سے مقرر کردہ پیمانوں کے مطابق ملک کے صرف 18 فیصد عوام کو صاف پانی کی سہولت میسر ہے۔ پاکستان کی 1100 کلومیٹر طویل ساحلی پٹی سطح سمندر میں اضافے کے خطرات سے دوچار ہے۔ توانائی کے بحران نے ملک میں بے روزگاروں کے جم غفیر کو جنم دے دیا ہے۔ ماحولیاتی و موسمیاتی آلودگی سے پیدا ہونے والے صحت کے مختلف مسائل پر قابو پانے کے ضمن میں قومی خزانے کو کئی ارب روپے کا اضافی بوجھ اٹھانا پڑ رہا ہے۔
ملک میں جنگلات کا زیر کاشت رقبہ تشویشناک حد تک کم ہوتا جا رہا ہے۔ جب کہ بچے کھچے جنگلات کو کاٹنے کا عمل تیزی سے جاری ہے۔ ملک کو حالیہ چند برسوں میں کئی قدرتی آفات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ورلڈ بینک نے 2006ء میں اپنی ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ پاکستان کو ماحولیاتی انحطاط کے باعث 365 ملین ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ جب کہ اس عالمی ادارے کے تخمینوں کے مطابق 2011ء میں یہ نقصان 485 ملین ڈالر تک پہنچ چکا تھا۔ یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ ہمارے ملک کے عوام کی غالب اکثریت ماحولیاتی مسائل سے بے خبر ہے۔ اس حوالے سے تشویشناک امر یہ ہے کہ ہماری حکمران اشرافیہ اس سے باخبر ہونے کے باوجود اسے نظر انداز کیے ہوئے ہے۔