اپریل کا مہینہ

یہ اینٹ اس طرح ٹیڑھی ہو گئی کہ ہم ساٹھ برسوں کے بعد ایک جمہوری حکومت کی میعاد مکمل ہونے پر خوش رہیں۔


[email protected]

CAIRO: اپریل عیسوی کیلنڈر کا چوتھا مہینہ ہوتا ہے۔ جب اس ماہ کے 14 دن گزر جاتے ہیں تو تیسرا ہفتہ شروع ہو جاتا ہے۔ اپریل کے تیسرے ہفتے میں پاکستان میں ایک غلط کام ہوا تھا۔ یہ کام اتنا خطرناک تھا کہ اس نے پاکستان کی تاریخ بدل دی۔ یہ پاکستان کے ابتدائی برسوں کی بات ہے۔ ملک کا ایک وزیر اعظم تھا اور ایک سربراہ مملکت۔ ایک کا تعلق مغربی پاکستان سے تھا تو دوسرے کا تعلق مشرقی پاکستان سے۔ یہ وہ دور تھا جب ملک کا دارالخلافہ کراچی ہوا کرتا تھا۔

قائد اعظم اور قائد ملت رخصت ہو چکے تھے۔ قائد کے انتقال کے بعد خواجہ ناظم الدین گورنر جنرل بنے۔ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد خواجہ صاحب جیسے سیاستدان نے سیاسی عہدہ قبول کیا۔ وزیر اعظم بننا اور گورنر جنرل کا عہدہ چھوڑنا کوئی انوکھی بات نہ تھی۔ غلام محمد کو سربراہ مملکت بنایا گیا۔ وہ برٹش انڈیا میں ان چند مسلمانوں میں شامل تھے جو اعلیٰ ترین عہدوں پر پہنچے۔ جب انگریز غلام ہندوستان کو آزاد کر رہے تھے تو انھوں نے وقتی طور پر اقتدار ہندوستانیوں کو سونپا۔

مسلم لیگ اور کانگریس اس عبوری اقتدار کی اہم پارٹیاں تھیں۔ جب لیاقت علی خان کو خزانے کی وزارت ملی تو غلام محمد جیسے لوگ رہنمائی کے لیے حاضر تھے۔ قیام پاکستان کے بعد قائد اعظم نے اس افسر کو معیشت کی بہتری کی ذمے داری سونپی۔ راولپنڈی کے کمپنی باغ میں قائد ملت کی شخصیت کو شہید ملت میں تبدیل کیا گیا تو وہیں اقتدار کی صفیں بھی تبدیل ہوئیں۔ بنگال کے خواجہ ناظم الدین وزیراعظم بنے اور پنجاب کے ملک غلام محمد کو گورنر جنرل بنایا گیا۔ ڈیڑھ سال گزر گیا۔

اپریل 53ء آ گیا۔ دو ہفتے خیریت سے گزر گئے۔ اپریل کا تیسرا ہفتہ آ گیا۔ تیسرے ہفتے کا تیسرا دن بھی آ گیا۔ گورنر جنرل غلام محمد نے وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کو برطرف کر دیا۔ 17 اپریل کو ہونے والے اس اقدام نے پاکستان کی سیاسی اینٹ کو ٹیڑھا کر دیا۔ یہ اینٹ اس طرح ٹیڑھی ہو گئی کہ ہم ساٹھ برسوں کے بعد ایک جمہوری حکومت کی میعاد مکمل ہونے پر خوش رہیں۔ ہم ایک جمہوری حکومت سے دوسری کو اقتدار منتقل ہونے کی امید پر مطمئن ہو رہے ہیں۔ کیوں؟ یہ تو عام بات ہونی چاہیے تھی۔

جی ہاں! یہ کوئی کمال نہیں ہونا چاہیے تھا لیکن اپریل کے تیسرے ہفتے میں سربراہ مملکت کی جانب سے سربراہ حکومت کی برطرفی نے معاملات کو بگاڑ دیا۔ پھر پاکستان نے ایسا وقت دیکھا کہ آصف علی زرداری کو صدر بننا پڑا کہ وہ اپنی پارٹی کی حکومتوں کی حفاظت ایوان صدر میں بیٹھ کر کریں۔ جس بے اعتباری کی ابتدا 1953ء کے چوتھے ماہ کی سترہ تاریخ کو ہوئی تھی اس کی انتہا صدر لغاری کی اپنی ہی پارٹی کی حکومت کو ختم کرنے سے ہوئی۔ غلام محمد یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ پاکستان کے ابتدائی برسوں میں کیا گیا ان کا ایک غلط فیصلہ کس طرح پاکستان میں جمہوریت کو ''ریورس گیئر'' لگا دے گا۔

گورنر جنرل غلام محمد ایک کے بعد دوسرا غلط کام کر گئے۔ اسمبلی بجٹ پاس کر چکی تھی۔ اس دور کے اراکین اسمبلی کا کردار دیکھیے اور ضمیر کی آواز پر لبیک نہ کہنے کا رجحان ملاحظہ فرمایئے۔ محمد علی بوگرہ امریکا میں پاکستان کے سفیر تھے، ان کو وزیر اعظم بنانے کے لیے بلایا گیا۔ اراکین اسمبلی کی اکثریت نئے وزیر اعظم کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہو گئی۔ اب پھر پارلیمنٹ اور سربراہ مملکت کی کھینچا تانی کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ بوگرہ سمجھتے تھے کہ وہ غلام محمد جنہوں نے خواجہ ناظم الدین کو برطرف کر دیا ہے وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ انھوں نے غلام کی غلامی سے نکلنے کی کوشش کی۔ گورنر جنرل سے اسمبلی کو برطرف کرنے کا اختیار واپس لینے کا قانون بنایا گیا۔ غلام محمد سعودی عرب کا دورہ مختصر کر کے فوراً کراچی پہنچے۔ انھوں نے اکتوبر 54ء میں اسمبلی توڑ دی۔ یہ ڈیڑھ سال کے مختصر عرصے میں گورنر جنرل کا دوسرا غلط فیصلہ تھا۔

اسپیکر مولوی تمیز الدین نے سندھ کی اعلیٰ عدلیہ سے رجوع کیا۔ حکومت ہار گئی اور اسمبلی جیت گئی۔ عدالت عظمیٰ میں فیصلے کے خلاف رجوع کیا گیا۔ جسٹس منیر نے حکومت کے فیصلے کو درست قرار دیا۔ یہ فیصلہ عدلیہ کے ماتھے پر ایک بدنما داغ کی طرح چسپاں ہے۔ پچپن، چھپن اور ستاون گزر گئے۔ اٹھاون آتے آتے حسین شہید سہروردی، چوہدری محمد علی، آئی آئی چندریگر اور فیروز خان نون وزیر اعظم بنے۔ ان کے آنے اور جانے میں اسکندر مرزا کے کردار کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ سول افسروں کے بعد فوجی افسروں کا دور شروع ہوتا ہے۔

اسکندر مرزا اور ایوب خان نے مل کر جمہوری حکومت ختم کی اور 56ء کا آئین توڑ دیا۔ اگلے بیس سال ایوب، یحییٰ اور بھٹو کے سال تھے۔ طاقتور حکمرانوں اور کمزور اسمبلیوں کے سبب کوئی کشمکش دیکھنے میں نہ آئی۔ ایوب دور کی گھٹن، یحییٰ کی خرمستیاں اور بھٹو کی مبینہ دھاندلی نے حکومتیں بدل دیں۔ اب ضیاء دور میں مارشل لاء اٹھنے کے بعد جونیجو وزیر اعظم بن گئے۔ پارلیمنٹ اور ایوان صدر کی کشمکش کی کہانی پھر دہرائی جانے لگی۔ جنرل ضیاء نے جونیجو حکومت برطرف کر دی۔ حاجی سیف اﷲ نے اعلیٰ عدلیہ سے رجوع کیا تو حکم دیا گیا کہ رجوع کیا جائے عوام سے۔ اب ایک نیا دور شروع ہوتا ہے۔ مقبول اور نوجوان وزیر اعظم کا زمانہ۔ باری باری کا عشرہ۔

بے نظیر وزیر اعظم بنیں تو غلام اسحق صدر تھے۔ بیس ماہ بعد ایوان صدر نے حکومت و اسمبلی کو گھر بھیج دیا۔ سپریم کورٹ نے فیصلے کو درست قرار دیا۔ اب نواز شریف کے تین سال مکمل ہونے پر ایک غلام نے ایک بار پھر دوسرے غلام کی تقلید کی۔ عدالت عظمیٰ نے شریف حکومت بحال کر دی لیکن ایوان صدر کے تھیلے میں ایسے ہتھیار تھے جنہوں نے جمہوری سفر کو چھلنی کر دیا۔ بے نظیر ایک بار پھر برسر اقتدار آئیں۔ انھوں نے صدر کے مشکل عہدے کے لیے اپنی ہی پارٹی کے فاروق لغاری کو نامزد کیا۔ اپنے ہی صدر کے ہاتھوں تیر کھانے والی پیپلز پارٹی نے کمین گاہ کی طرف دیکھنے سے بچنے کے لیے نئی صدی میں آصف زرداری کو صدر بنایا کہ میعاد کی تکمیل میں ایوان صدر روڑے نہ اٹکائے۔

نواز شریف ایک مرتبہ غلام اسحق کے ہاتھوں اقتدار سے محروم ہوئے تو دوسری مرتبہ پرویز مشرف کے ہاتھوں سے۔ صدر کے ہاتھوں اسمبلی توڑے جانے کے دور کے خاتمے کی کوششیں اب تک جاری ہیں۔ کئی مرتبہ گورنر جنرلز اور صدور کے ہاتھوں زخمی ہونے والی پارلیمنٹ نے صدر سے وہ ہتھیار واپس لے لیا ہے۔ وہ ہتھیار جسے آٹھویں ترمیم کی منظوری کے موقع پر ''ڈیتھ وارنٹ'' کہا گیا تھا۔

پاکستان کے وزرائے اعظم کبھی اپنے ہاتھوں سے تراشے گئے اس پتھر کے صنم سے زخمی ہوئے ہیں جنھیں انھوں نے خود ایوان صدر میں بھیج کر ''بھگوان'' بنایا تھا۔ اسمبلیاں کبھی اس آرمی چیف کے ہاتھوں گھروں کو روانہ ہوئی ہیں جن کی تقرری اور ترقی پر انھوں نے خود مہر تصدیق ثبت کی تھی۔ ہندوستان ہمارے ساتھ ہی آزاد ہوا ہے۔ وہاں کی پارلیمنٹ کو نہ کبھی ایوان صدر کی سیدھی چھری سے ذبح کیا گیا اور نہ کبھی کسی جنرل نے الٹی چھری سے ذبح کیا ہے۔ نئی صدی میں بھی پاکستان ایسے حادثات سے نہیں بچ سکا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں