امن کا قیام ناگزیر ہے
قتل و غارت کا یہ سلسلہ درحقیقت انتخابات کو سبوتاژ کرنے کے مترادف ہے۔
بلا شبہ نگراں حکومت اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کی پہلی ترجیح ملک کے چاروں صوبوں میں تشدد سے پاک پر امن ماحول میں غیر جانبدارانہ، منصفانہ، آزادانہ اور ایسے شفاف انتخابات کا انعقاد ہے جس میں انتخابی عمل میں تمام سیاسی جماعتوں کو بلا تفریق شرکت کے مواقع ملیں اور انتخابی عمل میں دھاندلی کا عمل نظر نہ آئے، تمام جماعتیں انتخابی نتائج کو صدق دل سے تسلیم کر لیں، ملکی غیر ملکی مبصرین، تجزیہ نگار اور ہمارا آزاد میڈیا بھی انتخابات کی ''شفافیت'' پر مہر تصدیق ثبت کر دے، ہمارے روایتی تنقیدی قومی مزاج کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ بظاہر ایسا ''تاریخی الیکشن'' کرانا موجودہ ماحول میں جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔
پہلے ہی مرحلے میں امیدواروں کی ''اسکروٹنی'' کے حوالے سے ریٹرننگ افسران کی جانب سے پوچھے گئے سوالات نے ایسی بحث کو جنم دے دیا جس سے اس تاثر کو تقویت مل رہی ہے کہ آئین کے آرٹیکل 63،62 کو جواز بنا کر درحقیقت بڑی جماعتوں کے اہم سیاستدانوں کو انتخابی میدان میں ''ناک آئوٹ'' کرنا ہے، اس کی دو تازہ مثالیں سابق وزیر اعظم اور پیپلز پارٹی کے اہم رہنما راجہ پرویز اشرف اور آل پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ اور سابق صدر جنرل پرویز مشرف کی نااہلی اور انتخابی عمل سے باہر ہونا ہے۔
لاہور ہائیکورٹ کے الیکشن ٹریبونل نےNA-51 گوجر خان سے راجہ پرویز اشرف کے کاغذات نامزدگی مسترد ہونے کے خلاف دائر اپیل کی سماعت کے بعد قرار دیا ہے کہ چونکہ این ایل سی کا ٹھیکہ غیر قانونی تھا لہٰذا سابق وزیر اعظم صادق و امین نہیں رہے، ان کے کاغذات رینٹل پاور کیس میں ملوث ہونے کی وجہ سے مسترد کیے جاتے ہیں، سابق وفاقی وزیر قانون فاروق ایچ نائیک نے اس پر اپنے عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے اسے چیلنج کرنے کا عندیہ دیا، بعد ازاں ہائی کورٹ نے انھیں مشروط طور پر محدود اجازت دے دی ہے۔ ملک کے آئینی و قانونی ماہرین ریٹرننگ افسران کے طرز عمل کے بعد الیکشن ٹریبونل کے فیصلوں پر بھی اپنے تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں جو ناقابل فہم نہیں ہے۔
کہا جا رہا ہے کہ اگر الیکشن کمیشن پہلے مرحلے ہی میں درست ہوم ورک کر کے کوئی ضابطہ طے کر لیتا اور ریٹرننگ افسران کو امیدواروں کی جانچ پڑتال اور دینی معلومات پر سوالات کرنے کے حوالے سے واضح رہنما آئینی اصول بتا دیے جاتے تو صورتحال اس قدر افسوس ناک اور فریقین کے لیے باعث شرمندگی نہ ہوتی جیسا کہ سندھ ہائی کورٹ کے الیکشن ٹریبونل نے اپنی آبزرویشن میں کہا ہے کہ امیدواروں کی اسلامی تعلیمات سے آگاہی جانچنے کے لیے ریٹرننگ افسران کا رویہ آئین سے ہم آہنگ نہیں تھا اور الیکشن کمیشن اس ضمن میں کوئی گائیڈ لائن تیار کرنے میں ناکام رہا اس حوالے سے فاضل بنچ نے ایک جانب تجویز دی ہے کہ الیکشن کمیشن کو اسلامی نظریاتی کونسل سے مل کر ایک مختصر نصاب تیار کر لینا چاہیے اور اس کی تشہیر کی جانی چاہیے اور ریٹرننگ افسران کو پابند کیا جائے کہ وہ امیدواروں سے اس نصاب سے 5 سوالات کریں اور تین کا صحیح جواب ملنے پر امیدوار کو کامیاب قرار دے دیا جائے، الیکشن 2013ء کے تلخ تجربات کی روشنی میں امید کی جانی چاہیے کہ آیندہ انتخابات میں میڈیا کی تنقید اور الزامات سے بچنے کے لیے الیکشن کمیشن معزز بنچ کی مذکورہ تجویز کی روشنی میں مناسب اقدامات کر ے گا۔
جہاں تک تشدد سے پاک پر امن ماحول میں چاروں صوبوں میں انتخابات کے انعقاد کا تعلق ہے تو اس حوالے سے صورتحال ہر گز اطمینان بخش قرار نہیں دی جا سکتی، نگراں حکومت کے لیے یہ سب سے بڑا چیلنج ہے کہ وہ امیدواروں، کارکنوں اور ووٹروں کو ایسا پرامن ماحول مہیا کر سکے کہ امیدوار اپنی انتخابی مہم بے خوف و خطر چلا سکیں اور ووٹرز بھی اپنی رائے کے اظہار کے لیے 11 مئی کو اپنے گھروں سے پولنگ اسٹیشنوں تک جائیں اور ووٹ کاسٹ کر کے بحفاظت گھر پہنچ جائیں۔ سندھ میں بالعموم اور خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں بالخصوص امن و امان کی صورتحال بدستور تشویش ناک ہے اور امیدواروں کے لیے انتخابی مہم چلانا اپنی موت کو دعوت دینے کے مترادف نظر آ رہاہے۔
پشاور میں یکے بعد دیگرے دہشت گردی کے دو واقعات رونما ہوئے، خضدار میں مسلم لیگ ن کے صوبائی صدر ثناء اﷲ زہری کے قافلے کو نشانہ بنایا گیا، 12 افراد زخمی ہوئے، خوش قسمتی سے وہ خود تو محفوظ رہے لیکن ان کے بھائی، بیٹا اور بھتیجا حملے میں جاں بحق ہو گئے جب کہ بکر توت میں ایک جلسے میں اے این پی کے رہنما غلام احمد بلور کی گاڑی کے قریب خودکش بمبار نے دھماکہ کر دیا جس سے 15 افراد جاں بحق اور 50 زخمی ہو گئے تاہم بلور صاحب کی زندگی محفوظ رہی، زخمی ضرور ہوئے، اسی طرح کوئٹہ میں جے یو آئی (ف) کے رہنما عبدالرحمٰن کھیتران راکٹ حملے میں بال بال بچ گئے جب کہ پشاور میں پی پی پی کے امیدوار ذوالفقار افغانی کے گھر پر دستی بم سے حملہ کیا گیا، چند روز پیشتر حیدرآباد سندھ میں بھی ایم کیو ایم کے انتخابی امیدوار کو قتل کر دیا گیا تھا۔
قتل و غارت کا یہ سلسلہ درحقیقت انتخابات کو سبوتاژ کرنے کے مترادف ہے، جوں جوں انتخابات کی تاریخ قریب اور انتخابی مہم میں تیزی آ رہی ہے امیدواروں اور سیاسی کارکنوں کے جوش و خروش میں اضافہ ہو رہا ہے، جلسے جلوس اور ریلیاں منعقد کی جا رہی ہیں، بعینہ امیدواروں بالخصوص سیاسی قائدین کی زندگیوں کو درپیش خطرات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اور ووٹرز بھی خوفزدہ اور شدید عدم تحفظ کا شکار نظر آتے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ طالبان اپنے عزائم کی تکمیل کے لیے بلوچستان و خیبر پختونخوا میں سیاسی جماعتوں کے امیدواروں کو نشانہ بنا رہے ہیں اور آیندہ دنوں میں اہم سیاسی رہنما بھی ان کا نشانہ بن سکتے ہیں۔
گزشتہ دنوں آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے بلوچستان کا دورہ کیا اور گورنر و صوبائی وزیر اعلیٰ سے ملاقاتوں میں امن و امان کی صورتحال کا بھی جائزہ لیا۔ آرمی چیف نے بلوچستان کی تمام سیاسی جماعتوں سے انتخابات میں شرکت کی اپیل بھی کی اور صوبے میں امن و امان کے قیام کے حوالے سے اپنے ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی بھی کرائی تھی۔ صوبے میں دہشت گردی کی تازہ وارداتوں نے امن و امان کے آگے سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ نادیدہ قوتوں کا واحد مقصد خوف و ہراس کا ماحول پیدا کر کے انتخابات ملتوی کرانا ہے۔ نگراں وزیر اعظم، چیف الیکشن کمیشن اور سیکیورٹی اداروں کے سربراہان پر لازم ہے کہ وہ بگڑتے ہوئے حالات کا سنجیدگی سے نوٹس لیں۔ سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں امن کو یقینی بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات کریں۔ یاد رکھیے! شفاف انتخابات کے لیے ملک بھر میں امن کا قیام ناگزیر ہے۔
پہلے ہی مرحلے میں امیدواروں کی ''اسکروٹنی'' کے حوالے سے ریٹرننگ افسران کی جانب سے پوچھے گئے سوالات نے ایسی بحث کو جنم دے دیا جس سے اس تاثر کو تقویت مل رہی ہے کہ آئین کے آرٹیکل 63،62 کو جواز بنا کر درحقیقت بڑی جماعتوں کے اہم سیاستدانوں کو انتخابی میدان میں ''ناک آئوٹ'' کرنا ہے، اس کی دو تازہ مثالیں سابق وزیر اعظم اور پیپلز پارٹی کے اہم رہنما راجہ پرویز اشرف اور آل پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ اور سابق صدر جنرل پرویز مشرف کی نااہلی اور انتخابی عمل سے باہر ہونا ہے۔
لاہور ہائیکورٹ کے الیکشن ٹریبونل نےNA-51 گوجر خان سے راجہ پرویز اشرف کے کاغذات نامزدگی مسترد ہونے کے خلاف دائر اپیل کی سماعت کے بعد قرار دیا ہے کہ چونکہ این ایل سی کا ٹھیکہ غیر قانونی تھا لہٰذا سابق وزیر اعظم صادق و امین نہیں رہے، ان کے کاغذات رینٹل پاور کیس میں ملوث ہونے کی وجہ سے مسترد کیے جاتے ہیں، سابق وفاقی وزیر قانون فاروق ایچ نائیک نے اس پر اپنے عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے اسے چیلنج کرنے کا عندیہ دیا، بعد ازاں ہائی کورٹ نے انھیں مشروط طور پر محدود اجازت دے دی ہے۔ ملک کے آئینی و قانونی ماہرین ریٹرننگ افسران کے طرز عمل کے بعد الیکشن ٹریبونل کے فیصلوں پر بھی اپنے تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں جو ناقابل فہم نہیں ہے۔
کہا جا رہا ہے کہ اگر الیکشن کمیشن پہلے مرحلے ہی میں درست ہوم ورک کر کے کوئی ضابطہ طے کر لیتا اور ریٹرننگ افسران کو امیدواروں کی جانچ پڑتال اور دینی معلومات پر سوالات کرنے کے حوالے سے واضح رہنما آئینی اصول بتا دیے جاتے تو صورتحال اس قدر افسوس ناک اور فریقین کے لیے باعث شرمندگی نہ ہوتی جیسا کہ سندھ ہائی کورٹ کے الیکشن ٹریبونل نے اپنی آبزرویشن میں کہا ہے کہ امیدواروں کی اسلامی تعلیمات سے آگاہی جانچنے کے لیے ریٹرننگ افسران کا رویہ آئین سے ہم آہنگ نہیں تھا اور الیکشن کمیشن اس ضمن میں کوئی گائیڈ لائن تیار کرنے میں ناکام رہا اس حوالے سے فاضل بنچ نے ایک جانب تجویز دی ہے کہ الیکشن کمیشن کو اسلامی نظریاتی کونسل سے مل کر ایک مختصر نصاب تیار کر لینا چاہیے اور اس کی تشہیر کی جانی چاہیے اور ریٹرننگ افسران کو پابند کیا جائے کہ وہ امیدواروں سے اس نصاب سے 5 سوالات کریں اور تین کا صحیح جواب ملنے پر امیدوار کو کامیاب قرار دے دیا جائے، الیکشن 2013ء کے تلخ تجربات کی روشنی میں امید کی جانی چاہیے کہ آیندہ انتخابات میں میڈیا کی تنقید اور الزامات سے بچنے کے لیے الیکشن کمیشن معزز بنچ کی مذکورہ تجویز کی روشنی میں مناسب اقدامات کر ے گا۔
جہاں تک تشدد سے پاک پر امن ماحول میں چاروں صوبوں میں انتخابات کے انعقاد کا تعلق ہے تو اس حوالے سے صورتحال ہر گز اطمینان بخش قرار نہیں دی جا سکتی، نگراں حکومت کے لیے یہ سب سے بڑا چیلنج ہے کہ وہ امیدواروں، کارکنوں اور ووٹروں کو ایسا پرامن ماحول مہیا کر سکے کہ امیدوار اپنی انتخابی مہم بے خوف و خطر چلا سکیں اور ووٹرز بھی اپنی رائے کے اظہار کے لیے 11 مئی کو اپنے گھروں سے پولنگ اسٹیشنوں تک جائیں اور ووٹ کاسٹ کر کے بحفاظت گھر پہنچ جائیں۔ سندھ میں بالعموم اور خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں بالخصوص امن و امان کی صورتحال بدستور تشویش ناک ہے اور امیدواروں کے لیے انتخابی مہم چلانا اپنی موت کو دعوت دینے کے مترادف نظر آ رہاہے۔
پشاور میں یکے بعد دیگرے دہشت گردی کے دو واقعات رونما ہوئے، خضدار میں مسلم لیگ ن کے صوبائی صدر ثناء اﷲ زہری کے قافلے کو نشانہ بنایا گیا، 12 افراد زخمی ہوئے، خوش قسمتی سے وہ خود تو محفوظ رہے لیکن ان کے بھائی، بیٹا اور بھتیجا حملے میں جاں بحق ہو گئے جب کہ بکر توت میں ایک جلسے میں اے این پی کے رہنما غلام احمد بلور کی گاڑی کے قریب خودکش بمبار نے دھماکہ کر دیا جس سے 15 افراد جاں بحق اور 50 زخمی ہو گئے تاہم بلور صاحب کی زندگی محفوظ رہی، زخمی ضرور ہوئے، اسی طرح کوئٹہ میں جے یو آئی (ف) کے رہنما عبدالرحمٰن کھیتران راکٹ حملے میں بال بال بچ گئے جب کہ پشاور میں پی پی پی کے امیدوار ذوالفقار افغانی کے گھر پر دستی بم سے حملہ کیا گیا، چند روز پیشتر حیدرآباد سندھ میں بھی ایم کیو ایم کے انتخابی امیدوار کو قتل کر دیا گیا تھا۔
قتل و غارت کا یہ سلسلہ درحقیقت انتخابات کو سبوتاژ کرنے کے مترادف ہے، جوں جوں انتخابات کی تاریخ قریب اور انتخابی مہم میں تیزی آ رہی ہے امیدواروں اور سیاسی کارکنوں کے جوش و خروش میں اضافہ ہو رہا ہے، جلسے جلوس اور ریلیاں منعقد کی جا رہی ہیں، بعینہ امیدواروں بالخصوص سیاسی قائدین کی زندگیوں کو درپیش خطرات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اور ووٹرز بھی خوفزدہ اور شدید عدم تحفظ کا شکار نظر آتے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ طالبان اپنے عزائم کی تکمیل کے لیے بلوچستان و خیبر پختونخوا میں سیاسی جماعتوں کے امیدواروں کو نشانہ بنا رہے ہیں اور آیندہ دنوں میں اہم سیاسی رہنما بھی ان کا نشانہ بن سکتے ہیں۔
گزشتہ دنوں آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے بلوچستان کا دورہ کیا اور گورنر و صوبائی وزیر اعلیٰ سے ملاقاتوں میں امن و امان کی صورتحال کا بھی جائزہ لیا۔ آرمی چیف نے بلوچستان کی تمام سیاسی جماعتوں سے انتخابات میں شرکت کی اپیل بھی کی اور صوبے میں امن و امان کے قیام کے حوالے سے اپنے ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی بھی کرائی تھی۔ صوبے میں دہشت گردی کی تازہ وارداتوں نے امن و امان کے آگے سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ نادیدہ قوتوں کا واحد مقصد خوف و ہراس کا ماحول پیدا کر کے انتخابات ملتوی کرانا ہے۔ نگراں وزیر اعظم، چیف الیکشن کمیشن اور سیکیورٹی اداروں کے سربراہان پر لازم ہے کہ وہ بگڑتے ہوئے حالات کا سنجیدگی سے نوٹس لیں۔ سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں امن کو یقینی بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات کریں۔ یاد رکھیے! شفاف انتخابات کے لیے ملک بھر میں امن کا قیام ناگزیر ہے۔