سکھرNA198 پیپلز پارٹی اور 10 جماعتی اتحاد دونوں انتشار کا شکار
2002 میں اس حلقہ سے پیپلزپارٹی کے سیدخورشید شاہ اور 2008 میں نعمان اسلام شیخ میں کامیاب ہوچکے ہیں۔
قومی اسمبلی کے حلقہ این اے۔198 سکھر ہمیشہ سے پاکستان پیپلزپارٹی کا گڑھ رہا ہے 2008ء کے انتخابات میں اس حلقے میں کل رجسٹرڈووٹوں کی تعداد دو لاکھ 65 ہزار 679 تھی ۔
ایک لاکھ دس ہزار38 پول ہوئے2465 مستردکیے گئے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے امیدوارنعمان اسلام شیخ74080ووٹ لیکرکامیاب ہوئے۔ مسلم لیگ ق کے طاہر حسین شاہ 22854 ووٹ لیکردوسرے نمبر پر رہے۔ مجموعی ٹرن آؤٹ 41.41 فیصد رہا۔ 2002ء کے الیکشن میں اس حلقہ سے پیپلزپارٹی کے سید خورشید شاہ کامیاب ہوئے تھے انہوں نے 35291 ووٹ حاصل کیے تھے جبکہ ایم کیوایم کے شیخ عبدالرزاق کھوسو 14945 ووٹ حاصل کرکے دوسرے نمبرپررہے تھے۔ گیارہ مئی کوہونے والے انتخابات میں پاکستان پیپلزپارٹی اوراس کے خلاف بننے والا دس جماعتی اتحاد دونوں اس حلقہ میں انتشارکا شکارہیں۔
دس جماعتی اتحاد میں ضلع سکھر سے قومی اسمبلی کے دو اور صوبائی اسمبلی کے 4 حلقوں پر امیدواروں کی سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر پیدا ہونے والے اختلافات کے باعث جے یو آئی اور دیگر جماعتوں نے الگ الگ الیکشن لڑنے کا فیصلہ کرلیا ہے، ادھرپیپلزپارٹی کے سیدخورشیدشاہ اورنعمان اسلام شیخ میں اختلافات زوروں پرہیں،جس کے بعد ضلع سکھر میں الیکشن نے دلچسپ صورتحال اختیار کرلی ہے۔پیپلزپارٹی میں ٹکٹوں کی تقسیم پر پیدا ہونے والے تنازع نے امیدواروں کو سخت پریشان کر رکھا ہے۔ آزاد امیدواروں کی ایک بڑی تعداد بھی قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر سیاسی پارٹیوں کے امیدواروں کیلئے درد سر بن گئی ہے۔ اس صورتحال کا فائدہ اٹھانے کیلئے متحدہ قومی موومنٹ نے الیکشن میں اپنی حکمت عملی مرتب کرلی ہے۔
پیپلزپارٹی کے پارلیمانی بورڈ کی جانب سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے۔ 198 پر سابق سابق ایم این اے نعمان اسلام شیخ اور صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی ایس۔1 پر سابق ایم پی اے حاجی انور احمد مہر کو ٹکٹ دینے پر پی پی سٹی سکھر کے کارکنوں کی بڑی تعداد نے احتجاج کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ پیپلزپارٹی کی مختلف یونین کونسلوں کے عہدیداران، ذیلی تنظیموں سپاف پیپلز یوتھ، پیپلز لیبر بیورو نے پارٹی کی اعلیٰ قیادت کو دھمکی دی ہے کہ اگر ٹکٹوں کے اجراء کا فیصلہ واپس لیکر کارکنوں کی رائے سے امیدوار نامزد نہ کیے گئے تو کارکنان نعمان اسلام شیخ اور حاجی انور احمد مہر کی مخالفت میں کام کرینگے اور ان کے مد مقابل امیدواروں کو ووٹ دینگے۔
ٹکٹوں کی تقسیم پر پیپلزپارٹی کی مقامی تنظیم دو واضح گروپوں میں بٹ گئی ہے۔ ایک دھڑے کی قیادت پی پی سٹی سکھر کے نائب صدر اور حلقہ این اے۔198 کے امیدوار محمد یوسف جاگیرانی، سابق یوسی ناظمین سید نسیم عباس، شکیل میمن کر رہے ہیں، ان کے حامیوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ اس دھڑے کو سابق وفاقی وزیر سید خورشید احمد شاہ کی حمایت حاصل ہے۔ دوسری جانب ماضی میں سید خورشید احمد شاہ کے معتمد خصوصی کی حیثیت سے مشہور پی پی پی سٹی سکھر کے صدر مشتاق سرہیو بھی سابق وزیرکا کیمپ چھوڑ کر سینیٹر اسلام الدین شیخ اور نعمان اسلام شیخ کے کیمپ سکھر ہاؤس میں چلے گئے ہیں جہاں پی پی سٹی سکھر کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر ارشد مغل اور سینئر نائب صدر لعل محمد بھٹو پہلے سے براجمان ہیں۔
ان تین عہدیداروں کے علاوہ پی پی سٹی سکھر کے تمام عہدیداران اور کارکنان کی بڑی تعداد انتخابات میں محمد یوسف جاگیرانی اور ڈاکٹر نصراللہ بلوچ کی کامیابی کیلئے سرگرم عمل ہے۔ پچھلے دنوں یوسف جاگیرانی کی قیادت مین سینکڑوں کارکنوں نے نوڈیرو جاکر پارلیمانی بورڈ کی مرکزی رہنما فریال تالپور سے ملاقات کر کے ٹکٹوں کی تقسیم کے مسئلے پر پیدا ہونے والی صورتحال سے آگاہ کرنے کی کوشش کی تاہم فریال تالپور کی عدم موجودگی کے باعث وہ اپنا نقطہ نظر پارٹی کی قیادت کو پیش نہ کر سکے، جس کے بعد کارکنوں نے شہید بینظیر بھٹو کے مزار اور نوڈیرو کے پریذیڈنٹ ہاؤس کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کر کے ٹکٹوں کے فیصلے پر نظرثانی کا مطالبہ کیا۔ سیاسی ذرائع کا کہنا ہے کہ سابق وفاقی وزیر سید خورشید احمد شاہ اورسینیٹر اسلام الدین شیخ کے درمیان گزشتہ 5 سال سے جاری سرد جنگ جاری ہے۔
سینیٹر اسلام الدین شیخ جوکہ صدر آصف علی زرداری کے بہت قریب ہیں وہ اس صورتحال میں اپنے پتے چابکدستی سے استعمال کر رہے ہیں۔ 15 اپریل کو پرانا سکھر کے پیرزادہ گراؤنڈ میں سکھر عوامی اتحاد کی جانب سے منعقدہ عوامی اسمبلی میں سکھر پریس کلب کے صدر لالہ اسد پٹھان، یوسف جاگیرانی، جسقم کے ضلعی صدر غلام مصطفیٰ پھلپوٹو اور دیگر مقررین کی جانب سے سینیٹر اسلام الدین شیخ، نعمان اسلام اور حاجی انور احمد مہر کے خلاف کی گئی سخت تقریروں نے سکھر ہاؤس کے باسیوں کو سخت پریشان کردیا ہے۔
عوامی اسمبلی میں ہزاروں افراد نے ہاتھ اٹھا کر عہد کیا کہ اگر پیپلزپارٹی کی قیادت نے نعمان اسلام شیخ اور حاجی انور احمد مہر سے پارٹی ٹکٹ واپس لیکر کسی دیانتدار اور مخلص امیدوار کو نہ دیا تو وہ ان کی مخالفت میں ووٹ استعمال کرینگے، حالات کو دیکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ پیپلزپارٹی کی قیادت ٹکٹوں کی تقسیم پر نظرثانی ضرور کریگی بصورت دیگر ضلع سکھر میں پیپلزپارٹی کے نامزد امیدواروں کا جیتنا مشکل نظر آتا ہے۔ دوسری جانب پی پی مخالف دس جماعتی اتحاد میں بھی ٹکٹوں کی تقسیم پر دراڑیں پڑ گئی ہیں، جے یو آئی نے سیٹ ایڈجسٹمنٹ میں نا انصافی کا الزام لگاتے ہوئے تنہا الیکشن لڑنے کا اعلان کردیا ہے اور اپنے امیدواروں کو ٹکٹ جاری کردیئے ہیں۔
حلقہ این اے۔198 پر جے یو آئی کے نامزد امیدوار آغا سید ایوب شاہ شہریوں اور تاجروں میں مقبولیت رکھتے ہیں۔ ضلع سکھر میں جے یو آئی کا بڑا ووٹ بینک موجود ہے۔ آزاد امیدوار حاجی محمد اختر عباسی بھی حلقہ این اے۔198 پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔ عباسی برادری کے علاوہ سکھر اور روہڑی کی دیگر بڑی برادریاں بھی ان کا ساتھ دینے کا اعلان کر چکی ہیں۔ حلقہ این اے۔198 پر ایم کیو ایم کی جانب سے منور چوہان کی نامزدگی کا اعلان بھی متوقع ہے۔ قومی اسمبلی حلقہ 198 سے مرکزی جمعیت علمائے پاکستان سندھ کے جنرل سیکریٹری حاجی محمد انور وارثی سنی اتحاد کونسل کے ٹکٹ پر انتخابی معرکے میں شامل ہیں، انہیں خود کو منوانے کیلئے بھرپور محنت کرنا ہوگی۔
حاجی انور وارثی کا جس طبقے سے تعلق ہے ان کے ووٹوں نے سکھر سے امیدواروں کی فتح اور شکست میں ہمیشہ اہم کردار ادا کیا ہے جبکہ سکھر شہر کی صوبائی اسمبلی کی نشست پی ایس۔1 پر اس مرتبہ آزاد امیدواروں کی بڑی تعداد نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں جن میں ماجد ملک، سید سکندر علی شاہ ایڈووکیٹ، سابق ایس پی اکبر سنجرانی قابل ذکر ہیں۔ مسلم لیگ فنکشنل کی جانب سے این اے۔ 198 پر اب تک کسی امیدوار کو ٹکٹ جاری نہیں کیے گئے۔ پی ایس۔1 پر بھی ان کا کوئی امیدوار اب تک سامنے نہیں آیا۔ البتہ پی ایس۔2 پر حاجی عبدالقادر گھمرو اور پی ایس۔4 پر سید زاہد حسین شاہ کو ٹکٹ جاری کردیئے گئے ہیں۔
جماعت اسلامی، تحریک ناصاف، سنی تحریک، جے یو پی کے نامزد امیدواروں نے بھی انتخابی مہم تیز کردی ہے۔ سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ مذہبی جماعتوں کے ووٹ آپس میں تقسیم ہونے، پیپلزپارٹی اور دس جماعتی اتحاد میں ٹکٹوں کی تقسیم پر جاری تنازعات کا فائدہ متحدہ قومی موومنٹ کو پہنچنے کی توقع ہے۔ ایم کیو ایم ایک بار پہلے بھی سکھر شہر سے ایم پی اے کی سیٹ حاصل کر چکی ہے، سیاسی و مذہبی جماعتوں کے ووٹ تقسیم ہونے کا فائدہ آزاد امیدوار بھی اٹھا سکتے ہیں کیونکہ اس بار عوام تبدیلی چاہتے ہیں۔
ایک لاکھ دس ہزار38 پول ہوئے2465 مستردکیے گئے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے امیدوارنعمان اسلام شیخ74080ووٹ لیکرکامیاب ہوئے۔ مسلم لیگ ق کے طاہر حسین شاہ 22854 ووٹ لیکردوسرے نمبر پر رہے۔ مجموعی ٹرن آؤٹ 41.41 فیصد رہا۔ 2002ء کے الیکشن میں اس حلقہ سے پیپلزپارٹی کے سید خورشید شاہ کامیاب ہوئے تھے انہوں نے 35291 ووٹ حاصل کیے تھے جبکہ ایم کیوایم کے شیخ عبدالرزاق کھوسو 14945 ووٹ حاصل کرکے دوسرے نمبرپررہے تھے۔ گیارہ مئی کوہونے والے انتخابات میں پاکستان پیپلزپارٹی اوراس کے خلاف بننے والا دس جماعتی اتحاد دونوں اس حلقہ میں انتشارکا شکارہیں۔
دس جماعتی اتحاد میں ضلع سکھر سے قومی اسمبلی کے دو اور صوبائی اسمبلی کے 4 حلقوں پر امیدواروں کی سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر پیدا ہونے والے اختلافات کے باعث جے یو آئی اور دیگر جماعتوں نے الگ الگ الیکشن لڑنے کا فیصلہ کرلیا ہے، ادھرپیپلزپارٹی کے سیدخورشیدشاہ اورنعمان اسلام شیخ میں اختلافات زوروں پرہیں،جس کے بعد ضلع سکھر میں الیکشن نے دلچسپ صورتحال اختیار کرلی ہے۔پیپلزپارٹی میں ٹکٹوں کی تقسیم پر پیدا ہونے والے تنازع نے امیدواروں کو سخت پریشان کر رکھا ہے۔ آزاد امیدواروں کی ایک بڑی تعداد بھی قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر سیاسی پارٹیوں کے امیدواروں کیلئے درد سر بن گئی ہے۔ اس صورتحال کا فائدہ اٹھانے کیلئے متحدہ قومی موومنٹ نے الیکشن میں اپنی حکمت عملی مرتب کرلی ہے۔
پیپلزپارٹی کے پارلیمانی بورڈ کی جانب سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے۔ 198 پر سابق سابق ایم این اے نعمان اسلام شیخ اور صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی ایس۔1 پر سابق ایم پی اے حاجی انور احمد مہر کو ٹکٹ دینے پر پی پی سٹی سکھر کے کارکنوں کی بڑی تعداد نے احتجاج کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ پیپلزپارٹی کی مختلف یونین کونسلوں کے عہدیداران، ذیلی تنظیموں سپاف پیپلز یوتھ، پیپلز لیبر بیورو نے پارٹی کی اعلیٰ قیادت کو دھمکی دی ہے کہ اگر ٹکٹوں کے اجراء کا فیصلہ واپس لیکر کارکنوں کی رائے سے امیدوار نامزد نہ کیے گئے تو کارکنان نعمان اسلام شیخ اور حاجی انور احمد مہر کی مخالفت میں کام کرینگے اور ان کے مد مقابل امیدواروں کو ووٹ دینگے۔
ٹکٹوں کی تقسیم پر پیپلزپارٹی کی مقامی تنظیم دو واضح گروپوں میں بٹ گئی ہے۔ ایک دھڑے کی قیادت پی پی سٹی سکھر کے نائب صدر اور حلقہ این اے۔198 کے امیدوار محمد یوسف جاگیرانی، سابق یوسی ناظمین سید نسیم عباس، شکیل میمن کر رہے ہیں، ان کے حامیوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ اس دھڑے کو سابق وفاقی وزیر سید خورشید احمد شاہ کی حمایت حاصل ہے۔ دوسری جانب ماضی میں سید خورشید احمد شاہ کے معتمد خصوصی کی حیثیت سے مشہور پی پی پی سٹی سکھر کے صدر مشتاق سرہیو بھی سابق وزیرکا کیمپ چھوڑ کر سینیٹر اسلام الدین شیخ اور نعمان اسلام شیخ کے کیمپ سکھر ہاؤس میں چلے گئے ہیں جہاں پی پی سٹی سکھر کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر ارشد مغل اور سینئر نائب صدر لعل محمد بھٹو پہلے سے براجمان ہیں۔
ان تین عہدیداروں کے علاوہ پی پی سٹی سکھر کے تمام عہدیداران اور کارکنان کی بڑی تعداد انتخابات میں محمد یوسف جاگیرانی اور ڈاکٹر نصراللہ بلوچ کی کامیابی کیلئے سرگرم عمل ہے۔ پچھلے دنوں یوسف جاگیرانی کی قیادت مین سینکڑوں کارکنوں نے نوڈیرو جاکر پارلیمانی بورڈ کی مرکزی رہنما فریال تالپور سے ملاقات کر کے ٹکٹوں کی تقسیم کے مسئلے پر پیدا ہونے والی صورتحال سے آگاہ کرنے کی کوشش کی تاہم فریال تالپور کی عدم موجودگی کے باعث وہ اپنا نقطہ نظر پارٹی کی قیادت کو پیش نہ کر سکے، جس کے بعد کارکنوں نے شہید بینظیر بھٹو کے مزار اور نوڈیرو کے پریذیڈنٹ ہاؤس کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کر کے ٹکٹوں کے فیصلے پر نظرثانی کا مطالبہ کیا۔ سیاسی ذرائع کا کہنا ہے کہ سابق وفاقی وزیر سید خورشید احمد شاہ اورسینیٹر اسلام الدین شیخ کے درمیان گزشتہ 5 سال سے جاری سرد جنگ جاری ہے۔
سینیٹر اسلام الدین شیخ جوکہ صدر آصف علی زرداری کے بہت قریب ہیں وہ اس صورتحال میں اپنے پتے چابکدستی سے استعمال کر رہے ہیں۔ 15 اپریل کو پرانا سکھر کے پیرزادہ گراؤنڈ میں سکھر عوامی اتحاد کی جانب سے منعقدہ عوامی اسمبلی میں سکھر پریس کلب کے صدر لالہ اسد پٹھان، یوسف جاگیرانی، جسقم کے ضلعی صدر غلام مصطفیٰ پھلپوٹو اور دیگر مقررین کی جانب سے سینیٹر اسلام الدین شیخ، نعمان اسلام اور حاجی انور احمد مہر کے خلاف کی گئی سخت تقریروں نے سکھر ہاؤس کے باسیوں کو سخت پریشان کردیا ہے۔
عوامی اسمبلی میں ہزاروں افراد نے ہاتھ اٹھا کر عہد کیا کہ اگر پیپلزپارٹی کی قیادت نے نعمان اسلام شیخ اور حاجی انور احمد مہر سے پارٹی ٹکٹ واپس لیکر کسی دیانتدار اور مخلص امیدوار کو نہ دیا تو وہ ان کی مخالفت میں ووٹ استعمال کرینگے، حالات کو دیکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ پیپلزپارٹی کی قیادت ٹکٹوں کی تقسیم پر نظرثانی ضرور کریگی بصورت دیگر ضلع سکھر میں پیپلزپارٹی کے نامزد امیدواروں کا جیتنا مشکل نظر آتا ہے۔ دوسری جانب پی پی مخالف دس جماعتی اتحاد میں بھی ٹکٹوں کی تقسیم پر دراڑیں پڑ گئی ہیں، جے یو آئی نے سیٹ ایڈجسٹمنٹ میں نا انصافی کا الزام لگاتے ہوئے تنہا الیکشن لڑنے کا اعلان کردیا ہے اور اپنے امیدواروں کو ٹکٹ جاری کردیئے ہیں۔
حلقہ این اے۔198 پر جے یو آئی کے نامزد امیدوار آغا سید ایوب شاہ شہریوں اور تاجروں میں مقبولیت رکھتے ہیں۔ ضلع سکھر میں جے یو آئی کا بڑا ووٹ بینک موجود ہے۔ آزاد امیدوار حاجی محمد اختر عباسی بھی حلقہ این اے۔198 پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔ عباسی برادری کے علاوہ سکھر اور روہڑی کی دیگر بڑی برادریاں بھی ان کا ساتھ دینے کا اعلان کر چکی ہیں۔ حلقہ این اے۔198 پر ایم کیو ایم کی جانب سے منور چوہان کی نامزدگی کا اعلان بھی متوقع ہے۔ قومی اسمبلی حلقہ 198 سے مرکزی جمعیت علمائے پاکستان سندھ کے جنرل سیکریٹری حاجی محمد انور وارثی سنی اتحاد کونسل کے ٹکٹ پر انتخابی معرکے میں شامل ہیں، انہیں خود کو منوانے کیلئے بھرپور محنت کرنا ہوگی۔
حاجی انور وارثی کا جس طبقے سے تعلق ہے ان کے ووٹوں نے سکھر سے امیدواروں کی فتح اور شکست میں ہمیشہ اہم کردار ادا کیا ہے جبکہ سکھر شہر کی صوبائی اسمبلی کی نشست پی ایس۔1 پر اس مرتبہ آزاد امیدواروں کی بڑی تعداد نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں جن میں ماجد ملک، سید سکندر علی شاہ ایڈووکیٹ، سابق ایس پی اکبر سنجرانی قابل ذکر ہیں۔ مسلم لیگ فنکشنل کی جانب سے این اے۔ 198 پر اب تک کسی امیدوار کو ٹکٹ جاری نہیں کیے گئے۔ پی ایس۔1 پر بھی ان کا کوئی امیدوار اب تک سامنے نہیں آیا۔ البتہ پی ایس۔2 پر حاجی عبدالقادر گھمرو اور پی ایس۔4 پر سید زاہد حسین شاہ کو ٹکٹ جاری کردیئے گئے ہیں۔
جماعت اسلامی، تحریک ناصاف، سنی تحریک، جے یو پی کے نامزد امیدواروں نے بھی انتخابی مہم تیز کردی ہے۔ سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ مذہبی جماعتوں کے ووٹ آپس میں تقسیم ہونے، پیپلزپارٹی اور دس جماعتی اتحاد میں ٹکٹوں کی تقسیم پر جاری تنازعات کا فائدہ متحدہ قومی موومنٹ کو پہنچنے کی توقع ہے۔ ایم کیو ایم ایک بار پہلے بھی سکھر شہر سے ایم پی اے کی سیٹ حاصل کر چکی ہے، سیاسی و مذہبی جماعتوں کے ووٹ تقسیم ہونے کا فائدہ آزاد امیدوار بھی اٹھا سکتے ہیں کیونکہ اس بار عوام تبدیلی چاہتے ہیں۔