نکات

انگریزی تعلیم سے بہرہ ور نسل نے جب افسانہ کے اولین نمونے پڑھے تو انھیں خیال پیدا ہوا کہ افسانہ تو بہت کام کی چیز ہے۔

'' نکات '' ڈاکٹر محمد علی صدیقی کے تنقیدی مضامین کا چھٹا اور آخری مجموعہ ہے۔ اس مجموعے میں بیشتر مضامین افسانہ نگاری اور افسانہ نگاروں پر ہیں۔ اپنے دیباچے میں ڈاکٹر صاحب نے اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ ''نکات'' افسانہ نگاروں سے زیادہ افسانہ نگاری پر ان کے خیالات کی تشریح کرسکے گا۔

وہ لکھتے ہیں ''اردو افسانے کی ابتدا کے بارے میں مدرسانہ گفتگو سے قطع نظر کرتے ہوئے ہم یہ حقیقت بلا چوں و چرا تسلیم کرتے ہیں کہ ناول کی طرح افسانہ مغرب سے آیا ہے اور زیادہ صحیح بات یہ ہو گی کہ یہ صنف سخن بھی برطانوی راج کی دین ہے، بالکل اسی طرح جس طرح اردو تنقید، صحافت اور جدید شاعری۔ ہندوستان میں اردو افسانہ قصہ یا داستان کی شکل میں پہلے سے موجود تھا۔

انگریزی تعلیم سے بہرہ ور نسل نے جب افسانہ کے اولین نمونے پڑھے تو انھیں خیال پیدا ہوا کہ افسانہ تو بہت کام کی چیز ہے۔ بات ہی بات میں انسانی زندگی کا ایک رخ پیش کر دیا جاتا ہے اور پڑھنے والے کسی کردار یا واقعے کے بیانیے سے یوں متاثر ہوتے ہیں جیسے یہ تخلیقی Encounter ان کی زندگی کو Modify کرنے کے لیے منصہ شہود پر آیا ہے۔

''نکات'' میں ڈاکٹر محمد علی صدیقی نے جن افسانہ نگاروں اور ان کے افسانوں پر تنقیدی نگاہ ڈالی ہے ان میں نیاز فتح پوری، شوکت صدیقی، جمیلہ ہاشمی، انتظار حسین، غلام عباس، قرۃ العین، انور سجاد، محمد منشا یاد اور اسد محمد خاں شامل ہیں۔

شوکت صدیقی کے بارے میں ڈاکٹر محمد علی لکھتے ہیں ''شوکت صدیقی کی کہانیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے ہاں زندگی کا ایک آدرش Ideal تھا، جس کا تصور ان کی سماجی معاشی اور سیاسی تصور سے ابھرا تھا۔ یعنی تنازعات سے پاک ایک ایسی دنیا جس میں انسان انسانی شرف کی بالادستی کے لیے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوششوں میں مصروف رہ پائے۔ شوکت صدیقی کے افسانے ایک ایسی انسانی سچویشن میں گرفتار ملتے ہیں، جس میں جرائم کی دنیا میں گرفتار لوگ نیکیوں کے تصور سے بیگانہ ہوتے چلے جاتے ہیں۔''

ڈاکٹر صدیقی جمیلہ ہاشمی کو ایک اہم افسانہ نگار قرار دیتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں ''جمیلہ ہاشمی کے فن کی دنیا بڑی دلچسپ ہے۔ اس میں وہ سب کچھ ہے جو بچپن اور نوجوانی کی یاد داشتوں نے تجربے کی صورت میں محفوظ کیا ہے اور وہ بھی محفوظ ہے جو انھوں نے اپنی مضبوط قوت متخیلہ کے باعث تاریخ کو مفید مطلب طور پر برتا ہے جس کی مثال ''دشت سوس'' ہے۔ جمیلہ ہاشمی جس تخلیقی جذبے کے ساتھ ادب کی دنیا میں داخل ہوئیں وہ واقعی قابل داد تھا اور ہے۔ میں ان کے فن میں نمایاں احساس تنہائی کا قائل ہوتے ہوئے بھی یہ محسوس کرتا ہوں کہ مردوں کے معاشرے میں ان کی بہت سی باتیں ناگفتنی رہ گئیں۔''

انتظار حسین کے بارے میں محمد علی صدیقی لکھتے ہیں ''وہ میرے لیے معمہ نہیں ہیں۔ وہ جدید اردو افسانے کا ایک ایسا ستون ہیں جو رضاکارانہ طور پر اپنے ماضی میں رہنا پسند کرتا ہے۔ اس کے لیے ماضی انسانی یادوں کا ایک ختم نہ ہونے والی آزوقہ ہے۔ اس کا ماضی جس میں آج کے دور کی اتھل پتھل نہ تھی۔ انسانی زندگی اور معاشی نمو میں اضافے کی شرح کے مابین اس قدر باہمی تعلق ہر کس و ناکس کی زبان پر تھا۔


ڈاکٹر صاحب انتظار حسین کو ترقی پسند یا غیر ترقی پسند افسانہ نگارکی حیثیت سے نہیں دیکھتے۔ وہ لکھتے ہیں ''میرا خیال ہے وہ ماضی میں پناہ ڈھونڈنے میں عافیت تلاش کرتے ہیں، اگر ماضی کو ان کے بچپن کی دنیا تسلیم کرلیا جائے تو پھر انتظار حسین کے لیے یہی وہ دور ہے جس میں وہ رہنا چاہتے ہیں اور وہ تمام ایسی تبدیلیوں کو نامناسب خیال کرتے ہیں جس سے ان کا مرغوب دور متاثر ہوسکے۔''

اردو کے ایک اہم افسانہ نگار غلام عباس ہیں۔ ڈاکٹر محمد علی صدیقی لکھتے ہیں ''غلام عباس غالباً اردو کے پہلے افسانہ نگار ہیں جو انگریزی ادب کے وصف خاص، تحت لفظی (Under Statement) سے اس درجہ متاثر ہوئے کہ انھوں نے افسانہ نگاری میں اس وصف کو بطور خاص اپنے اسلوب کی منفرد پہچان کا وسیلہ بنالیا۔''

قرۃ العین حیدر کی فکشن نگاری کے بارے میں ڈاکٹر محمد علی صدیقی لکھتے ہیں کہ وہ اردو فکشن میں سوشیولوجی آف لٹریچر کے طلبا کے لیے ایک ضروری حوالہ ہیں۔ ان کا ناول ''میرے بھی صنم خانے'' ادبی سماجیت کے ساتھ پورا انصاف کرنیوالا ناول ہے۔

ان کے ناول ''آگ کا دریا'' برصغیر پاک و ہند کی ڈھائی ہزار سالہ تہذیبی تاریخ کے مختلف ادوار کی جھلکیوں کا ایک ایسا موزیق ہے جس میں قرۃ العین حیدر نے اپنے فن کی بلندیوں سے یہ تاثر دیا ہے کہ تقسیم ہند نے برصغیر کے سماج میں دراڑیں ڈال دی ہیں اور پھر خود پاکستان کے مستقبل کے بارے میں اس ناول کا ایک کردار یہ کہتا ہے کہ پاکستان کے مشرقی اور مغربی بازو ایک نہ رہ پائیں گے چونکہ مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے فوجی بنگالیوں کی جدوجہد آزادی کی تاریخ کے سرچشموں اور ان سے پیدا ہونیوالی بغاوت کی لہروں سے زیادہ واقف نہیں ہیں۔''

انور سجاد کے افسانوں کے بارے میں ڈاکٹر محمد علی صدیقی کہتے ہیں کہ وہ ترقی پسند ہیں لیکن ان کے بیشتر افسانے عام قارئین کے فہم سے بالاتر ہیں جس طرح افتخار جالب کی شاعری۔ ہمارا سماج جس سماجی ترقی کے درجے پر ہے اس کے دفاع میں انور سجاد کے لسانی رویے زیادہ پیچیدہ اور ترقی یافتہ ہیں اور اسی لیے وہ جدید اور تجریدی افسانے کے اہم نام ضرور ہیں لیکن ان کی مقبولیت کا گراف جدیدیت اور تجریدیت کے گراف جیسا ہے۔''

مسعود مفتی کو ڈاکٹر محمد علی صدیقی ہفت اصناف کا ادیب قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ''میں ان کے تمام افسانے پڑھ کر جس نتیجے پر پہنچا ہوں وہ یہ ہے کہ ان کی سرکاری ملازمت کے عرصے نے پاکستانی سماج کی وہ کایا کلپ دیکھی ہے جس کے نتیجے میں انتظار حسین نے اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ آخر ایسا کیوں ہے کہ پاکستان میں 1971ء کے بعد بیل باٹم اور کڑاھی گوشت کا فیشن چل پڑا۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی معاشرہ اپنے بانیوں کے مواعید اور ان کی فکر کی بنیادی اقدار سے پہلو تہی کرتا نظر آتا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے ہمیں نیکیوں سے ڈرایا جارہا ہے اور برائیوں کی طرف مائل کیا جا رہا ہے۔''

ڈاکٹر محمد علی صدیقی لکھتے ہیں کہ محمد منشا یاد کے افسانوں کی مقبولیت کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ ایک بہت پیچیدہ مسئلے کے بیان کے لیے اپنی کہانی کو بہت سادہ ابتدا کے ساتھ اور کہانی کے انجام تک کے مرحلے کو جدید لہجے کی کاٹ کے ساتھ بیان کرتا ہے۔ وہ بلند آہنگی سے بچتا ہے اور اس طرح اپنے مشاہدے کو ایک سچ اور صرف ایک سچ کے طور پر بیان کرتا ہے، اس فنکارانہ چابکدستی اور فنکارانہ مہارت کے ساتھ کہ افسانہ افسانے کے رموز پر پورا اترتے ہوئے بھی ایک قابل قبول واقعہ، افتاد یا کہانی بن جاتا ہے۔''
Load Next Story