بجٹ اور سندھ

سوچنے کی بات یہ ہے کہ جاری منصوبوں کے لیے گزشتہ بجٹ میں جو فنڈز رکھے گئے تھے کیا وہ فنڈز ان منصوبوں کے لیے ناکافی تھے۔



سال 2018ء ملک میں انتخابات کا سال ہے اس لحاظ سے موجودہ حکومت نے اپنا آخری بجٹ پیش کیا ہے۔ بجٹ سے پہلے تجزیہ کاروں اور عوام کو امید ہوچلی تھی کہ حکومت آیندہ انتخابات کے لیے عوام میں اپنے لیے نرم گوشہ پیدا کرنے کے لیے بڑے ریلیف یا پیکیج کے حامل بجٹ کا اعلان کرے گی۔

لوگ مہنگائی کے دباؤ سے خم ہوتی اپنی کمر کو سیدھا کرسکنے کی خواہش لیے بیٹھے تھے اور تجزیہ کار ان اقدامات کی بنیاد پر ملکی معیشت میں ٹھہراؤ اور حکومت کی عوام میں پسندیدگی و پذیرائی کی پیشنگوئیاں کرتے رہے لیکن مئی کے آغاز میں پیش ہونے والی وفاقی بجٹ نے ہی ان تجزیوں اور امیدوں کو ایک مرتبہ پھر اس صحرا میں لاکھڑا کیا ہے جہاں زندگی کی ہر خواہش و امید سراب بن جاتی ہے۔

نہ پٹرول، بجلی و گیس کی قیمتوں میں کمی کا اعلان ہوا اور نہ ہی غریب و نادار لوگوں کے لیے کوئی خصوصی گرانٹ کا اعلان ہوا اور نہ ہی بے گھر لوگوں کے لیے مفت یا سستے مکانات کی کوئی اسکیم لائی گئی اور نہ ہی تعلیم و صحت کی ابتر صورتحال کو بہتر و معیاری بنانے کے لیے کوئی بڑی منصوبہ سازی کا اعلان کیا گیا۔ اس میں سونے پے سہاگہ تب ہو ا جب 10مئی کو سندھ حکومت نے اپنا بجٹ پیش کیا۔

صوبہ کی جانب سے بھی عوامی فلاح کے کسی خاص منصوبے کا اعلان نہیں کیا گیا۔ معدنیات و دیگر وسائل سے مالامال سندھ صوبہ کے عوام غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں اور رہیں گے کیونکہ وفاقی و صوبائی حکومتیں حالیہ پیش کیے گئے بجٹ میں بھی ان کی بحالی، تعلیم، صحت اور روزگار کے مسائل سے یوں کتراکے نکل گئی ہیں جیسے یہ ان کی ذمے داریوں میں شامل ہی نہیں بلکہ انکم سپورٹ پروگرام کے نام پر صرف 2یا 3ہزار روپے ماہانہ بھیک کے طور پر ان کو فراہم کرکے ان سادہ لوح لوگوں کے ووٹ پر حق جتانے کے لیے کافی ہے۔

مالی سال 2018-19ء کے 11کھرب ، 4ارب ، 44کروڑ اور 88لاکھ روپے کا سندھ کا بجٹ سندھ اسمبلی میں وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے پیش کیا جوکہ ماضی میں وزیر مالیات رہ چکے ہیں، اور ان کی ڈگری بھی اسی شعبہ سے وابستہ ہے۔ وصولیوں کا تخمینہ 665ارب لگایا گیا ہے۔ حکومت کی جانب سے اس بجٹ کو ٹیکس فری قرار دیا گیا ہے جب کہ بجٹ پیش کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ سندھ نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ وفاق صوبہ کو اشیاء پر سیلز ٹیکس وصولی کے اختیار دے۔ اس بجٹ میں 20ارب 45کروڑ اور 75لاکھ روپے کا معاشی خسارہ دکھا گیا ہے۔

اس بجٹ کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ بجٹ تو سال بھر کا پیش کیا گیا ہے لیکن فنڈ ز استعمال کی اجازت تحریری طور پر 3ماہ کے لیے رکھی گئی ہے یعنی یکم جولائی سے 30ستمبر 2018ء تک موجودہ حکومت کو فنڈز استعمال کرنے کا حق حاصل ہوگا جب کہ باقی فنڈز کے استعمال کا حق آنے والی نگران حکومت کا ہوگا جو کہ ایک خوش آیند قدم ہے کیونکہ ماضی میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی۔

ہوتا یہی رہا ہے کہ ہر حکومت اپنے آخری بجٹ کو اپنے آخری ایام میں زیادہ سے زیادہ استعمال کرنے کے چکر میں جاری پروجیکٹ کے لیے اپنی حکومت کے دورانیے کے بعد کے عرصہ کے لیے بھی پیشگی ادائیگیوں کی مد میں فنڈز کا استعمال کرتی رہی ہیں، حالانکہ یہ نگران حکومت کا بجٹ پر صوابدیدی اختیار ہوتا ہے۔

یہ مطالبہ اس مرتبہ پی پی پی کی جانب سے وفاقی حکومت سے بھی بجٹ پیش کرتے ہوئے کیا گیا لیکن اُسے وہاں کامیابی نہیں ملی تو پی پی پی نے صوبہ سندھ میں خود بجٹ پیش کرتے ہوئے اس بات پر عمل کیا یہ واقعی قابل تعریف اور مثبت قدم ہے۔

لیکن باقی باتوں کا جب جائزہ لیتے ہیں تو یہ بجٹ بھی ہمیشہ کی طرح عوام کے لیے کوئی خاص فائدے کا حامل نہیں ہے۔ حالانکہ بجٹ تقریر میں وزیر اعلیٰ سندھ نے صوبہ میں وسیع ترقی کے ایجنڈے کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے اس کا کریڈٹ حاصل کرنے کی کوشش بھی کی لیکن عملی طور پر سندھ بھر کی صورتحال کچھ اور ہی داستان بتارہی ہے۔

جب امریکا خلاء میں آرمی تعیناتی کی منصوبہ بندی کررہا ہے، جب کینیڈا کا وزیر اعظم بس اسٹاپوں اور ریلوے اسٹیشنز پر جاکر عوام کے معاملات کی خود نگرانی کرتے ہوئے اُن کی شکایات کا ازالہ کرتے نظر آتا ہے، جب پنجاب کا وزیر اعلیٰ ''پڑھا لکھا پنجاب''، ''پنجاب گرین''اور میٹرو بس و اورنج ریلوے لائین جیسے منصوبے دیکر اپنے صوبہ کے عوام کا ہیرو بنا ہوا ہے، وہاں سندھ میں صاف پانی تک میسر نہیں، اسپتالوں میں جعلی ادویات کی فراہمی اور کھنڈرات بنے شہر کا حامل صوبہ ترقی نہیں تنزلی کی مثال بن گیا ہے اور یہ سب وزیر اعلیٰ موصوف کی اسی پارٹی کی حکومت کی خراب حکمرانی کے باعث ہی ہے۔ لیکن وزیر اعلیٰ سندھ پھر بھی عوام و حزب اختلاف سے تعریف کا متقاضی بنا ہوا ہے۔

یہ بات قابل تسلیم ہے کہ ملکی آمدن میں 70فیصد حصہ دینے اور ملک کے دیگر صوبوں سے آئے ہوئے عوام کے سندھ میںآباد ہونے پر ان کا بوجھ اُٹھانے کے باوجود سندھ کو وفاق و دیگر صوبوں کی جانب سے کوئی خصوصی گرانٹ دینا تورہا دور کنارلیکن سندھ کی جانب سے کیے جانے والے آئینی حق NFCایوارڈ کے مطالبے کو بھی نظر انداز کیا جاتا رہاہے۔

یہ بات بھی قابل تسلیم ہے کہ صوبائی آمدنی کاسب سے بڑا ذریعہ وفاقی منتقلیوں، وفاقی قابل تقسیم پول( این ایف سی ایوارڈ) میں سے حصہ، براہ راست منتقلیوں اور آکٹرائے ضلع ٹیکس کی معطلی کے نتیجہ میں نقصان کو پورا کرنے کی مد میں گرانٹ دینے کے ذریعے ہوتا ہے اور 9ویں این ایف سی ایوارڈ کی عدم فراہمی کی وجہ سے تمام چھوٹے صوبوں بالخصوص سندھ کو مالی نقصان ہو رہا ہے لیکن دوسری جانب یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر سال صوبہ سندھ کے مختلف محکموں اور اداروں کے ترقیاتی منصوبوں کی مختص کردہ بجٹ Lapse ہوجاتی ہے جو کہ صوبائی حکومت کی خراب حکمرانی اور نااہلیت کا عجیب نمونہ ہے۔

اس سال بھی 839 منصوبوں کے فنڈز سال بھر میں استعمال نہ ہونے کی وجہ سے واپس ہوگئے ہیں جن کا اگر اندازہ لگایا جائے تو اس سال کے بجٹ میں دکھائے گئے خسارے سے کہیں زیادہ بنتا ہے۔ اگر آپ مختص کردہ فنڈز ہی استعمال نہیں کرپاتے تو دیگر فنڈز کے لیے آپ کے مطالبے کی کیا اہمیت رہ جاتی ہے۔

تعلیم کسی بھی قوم کی ترقی کا سب سے اہم ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ لفاظی کی حد تک تو ہماری صوبائی حکومت بھی اس بات پر یقین رکھتی ہے لیکن باوجود اربوں روپے تعلیم پر خرچ کرنے کے صوبہ کے تعلیمی معیار کی صورتحال بلوچستان جیسے پسماندہ صوبہ سے بھی ابتر ہے۔

گزشتہ سال بجٹ میں تعلیم کے شعبہ میں غیر ترقیاتی بجٹ کے لیے 178.70ارب روپے رکھے گئے تھے اور اس سال کے بجٹ میں تو مزید بڑھا کر یہ رقم 205.739ارب کردی گئی ہے جب کہ ترقیاتی پروگرام کے لیے مختص کیے گئے 24.4ارب روپے اس کے علاوہ ہیں۔ لیکن صوبہ میں ہزاروں کی تعداد میں بند پڑے اسکول، لاکھوں کی تعداد میں بچوں کا اسکول سے باہر ہونا، سیکنڈری اسکولز اور کالجز میں لیباریٹریوں، کمپیوٹر لیب، لائبریریوں کی کمی کے ساتھ ساتھ فیکلٹی کی کمی اور معیاری فیکلٹی نہ ہونے جیسی باتیں اس بھاری بھرکم فنڈز کا منہ چڑا رہی ہیں ۔

دوسری جانب دیکھا جائے تو عوام گزشتہ 10سال سے بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے عذاب کو سہتے آئے ہیں۔ حالانکہ دنیا کا سب سے بڑا ونڈ کوریڈور سندھ کے ساحلی پٹی پر موجود ہے لیکن نہ تو اسے صرف میں لایا جارہا ہے اور نہ ہی قدرتی طور پر موجودبہترین سولر سسٹم سے ہی کوئی فائدہ اٹھایا جارہا ہے۔

وفاقی حکومت تو پنجاب کے زیر سایہ رہنے کی وجہ سے بجلی کی پیداوار کے لیے وہی گھسا پٹا ڈیموں والا راگ الاپتی رہی ہے لیکن صوبائی حکومت نے بھی باوجود سندھ انرجی بورڈ اور پاور و الٹرنیٹو انرجی ڈیپارٹمنٹ قائم کرنے کے ابھی تک ان وسائل سے کوئی خاص فائدہ نہیں اُٹھایا ہے اور نہ ہی اس بجٹ میں اس سے متعلق کوئی جامع منصوبہ دیا گیا ہے اور نہ ہی کوئی بڑے فنڈز رکھے گئے ہیں۔

حد تو یہ ہے کہ کئی سالوں سے تیار جھمپیر ونڈ پاور سے بھی ابھی تک کوئی خاص فائدہ نہیں اُٹھایا گیا ہے۔ جب کہ عالمی سروے کے مطابق اس پٹی سے کم از کم 50000 میگا واٹ بجلی کی پیدا وارابتدائی طور پر صرف ہوا کے ذریعے حاصل کی جاسکتی ہے۔

دیگر اُمور میں بھی کوئی خاص پیشرفت نہیں ہوئی ہے جیسے کھیلوں کی کوئی نئی اسکیم اس بجٹ میں شامل نہیں کی گئی ہے۔ ہاں 6ہزار بھرتیوں کا ایک لالی پوپ اس بجٹ میں عوام کے لیے ہے لیکن جہاں لاکھوں بیروزگار نوجوان ہوں وہاں 6ہزار کا لالی پوپ بھلا کس کس کے منہ کا ذائقہ تبدیل کرسکتا ہے ۔۔؟۔۔۔ حالانکہ اس بجٹ میں صاف ستھرا سندھ پروگرام شروع کرنے کا اعلان کیا گیا ہے لیکن صفائی ستھرائی کے لیے بھی کوئی خاص یا اضافی فنڈ ز نہیں رکھے گئے، ہاں البتہ یونین کونسلز کو ماضی میں ملنے والی رقم 2لاکھ سے بڑھا کر 5لاکھ کردی گئی ہے۔

دیکھا جائے تو اس رقم سے بھی عوام کو کوئی سہولت ملنے سے رہی کیونکہ یونین کونسلز کے سیکریٹری اور ایڈمنسٹریٹر یا کونسلرز یونین کونسل کی حدود میں دیہی علاقوں میں ایک دو ہینڈ پمپ لگانے اور شہری علاقوں میں پانی کی کوئی نئی لائین دینے کے سوا کوئی خاص کام نہیں کرتے اور باقی ماندہ رقم وہ آپس میں حصہ پتی کی بنیاد پر تقسیم کردیتے ہیں، یہاں تک بھی اطلاعات ہیں کہ ان رقوم میں سے کچھ حصہ اس حلقہ کے ایم پی اے و ایم این اے کو بھی جاتا ہے۔

یہ بھی ایک افسوسناک پہلو دیکھنے میں آیا ہے کہ ملکی آمدن میں 70فیصد حصہ دینے کے باوجود سندھ کے حصے میں صرف 23فیصد آنا بھی سندھ کی موجودہ ابتر صورتحال کی وجہ ہے جس سے صوبہ ہمیشہ مالی گھوٹالے کا شکار رہتا ہے۔ وفاق کی جانب سے ملنے والے ایوارڈ میں سے اس سال ساڑھے 7ارب روپے کی کم فراہمی اور اوپر سے وفاقی اداروں کی ادائیگیوں کی مد میں اسٹیٹ بینک کے توسط سے سندھ حکومت کے اکاؤنٹس سے براہ راست 4ارب اور 32کروڑ روپے کی کٹوتی کے ساتھ ساتھ اکاؤنٹس منجمند کرایا جانا جہاں صوبائی خودمختاری پر وار اور سندھ کو کالونی کی طرح چلانے کے مترادف ہے وہیں صوبائی حکومت کی اداراتی و قانونی سطح پر کمزوری کی علامت بھی ہے۔

گزشتہ 10سال سے سندھ پرمسلسل اور 5سال ملکی سطح پر حکومت کرنے کے باوجود پی پی پی سندھ کے لیے کوئی خاص فائدہ مند نہیں رہی۔ سندھ کے گیس، تیل اور پانی و دیگر معاشی وسائل پر اختیار کے لیے کوئی ٹھوس و عملی قانونسازی نہیں کرپائی بلکہ سندھ کو میسر بجٹ کے فنڈز میں بے انتہا کرپشن اور اقربا پروری کرکے سندھ کو مفلسی و تباہی کا نمونہ بنادیا گیا ہے۔

سندھ حکومت کی جانب سے ایک طرف بجٹ کو ٹیکس فری قرار دیا جارہا ہے تو اسی وقت وفاق سے اشیاء پر سیلز ٹیکس وصولی کے اختیارات صوبہ کو دینے کا مطالبہ بھی کیا جارہا ہے، لیکن عوام یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اگر بجٹ ٹیکس فری ہے تو موجودہ پراپرٹی، وہیکلزاور سندھ سیلز ٹیکس کیا ہیں اور ان کے تحت موصول ہونے والی رقوم کہاں جاتی ہیں۔

بجٹ کے پیش کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق اس سال نئے ترقیاتی منصوبوں کے لیے صرف 10 فیصد فنڈز رکھے گئے ہیں جب کہ جاری منصوبوں کے لیے 90فیصد فنڈز مختص کیے گئے ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جاری منصوبوں کے لیے گزشتہ بجٹ میں جو فنڈز رکھے گئے تھے کیا وہ فنڈز ان منصوبوں کے لیے ناکافی تھے یا پھر حکومت کا تخمینہ غلط ہوگیا ہے جو اس سال انھی منصوبوں کے لیے دوبارہ بجٹ رکھا گیا ہے یا پھر حسب روایت بدعنوانی کی وجہ سے فنڈز کی کمی ہوجانے کے باعث یہ فنڈز دوبارہ رکھے گئے ہیں۔

حاصل مطلب یہ ہے کہ یہ بجٹ سوائے اعداد و شمار کے داؤ پیچ اور الجبرا کی طرح نا سمجھ میں آنیوالے نظریے کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ اس ساری صورتحال میں صوبائی ہو یا وفاقی حکومت وہ صرف فنی معاملات میں ایک دوسرے کو الجھا کر اپنا اپنا اُلو سیدھا کررہی ہیں جب کہ سندھ کے عوام اس صورتحال سے شدید طور پر متاثر ہورہے ہیں۔ صوبہ میں غربت اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ جہاں دودھ بیچنا معیوب سمجھا جاتا تھا وہاں لوگ اپنے جگر گوشوں یعنی اپنی اولاد کو بیچنے پر مجبور ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں