پانی و بجلی کی عدم فراہمی پر کئی علاقوں میں احتجاج

بجلی اور پانی کے ستائے سیکڑوں مکینوں نے رات گئے گھروں سے نکل کرسڑکیں بند کرکے احتجاج شروع کردیا۔


Staff Reporter May 20, 2018
چاکیواڑہ میں پانی کیلیے مظاہرہ کرنیوالوں پرپولیس کا تشدد،لیاری پولیس واٹرمافیا کی سرپرست بن گئی،مظاہرین۔ فوٹو : فائل

پانی اور بجلی کی عدم فراہمی پر جمعہ اور ہفتہ کی شب شہر کے کئی علاقوں میں احتجاج کیا گیا۔

جمعہ اور اتوار کی درمیانی شب چاکیواڑہ تھانے کی حدود لیاری بہار کالونی میں واٹر پمپنگ اسٹیشن کے قریب علاقہ مکینوں نے پانی کی عدم فراہمی پر احتجاج کیا مظاہرین کا کہنا تھا کہ پمپنگ اسٹیشن سے علاقہ مکینوں کو پانی نہیں دیا جارہا اور لیاری کی پولیس واٹر مافیا کی سرپرستی کررہی ہے چاکیواڑہ پولیس نے احتجاج کرنے پر مظاہرین پر تشدد کیا جبکہ پولیس نے مظاہرے کی کوریج کرنے والے صحافیوں کو بھی کوریج کرنے سے روکا اور موبائل فون چھین لیے۔

ایس ایس پی سٹی شیراز نذیر کے احکامات پر پولیس نے اہلکاروں صحافیوں کے موبائل فون واپس دیے ملیر شمسی سوسائٹی میں علاقہ مکینوں نے بجلی کی بندش کے خلاف احتجاج کیا اور ٹائر جلا کر سڑک بند کردی۔

مظاہرین کا کہنا تھا کہ گزشتہ 4 روز سے علاقے کی بجلی منقطع ہے جبکہ کے الیکٹرک کی جانب کوئی جواب نہیں دیا جارہا ناظم آباد نمبر2 میں پانی کی طویل کی بندش کے خلاف علاقہ مکین سڑکوں پر آگئے اور ٹائر جلا کر سڑک کے دونوں ٹریک ٹریفک کے لیے بند کردیے احتجاج کے باعث بدترین ٹریفک جام ہوگیا اور گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ گئی۔

مظاہرین کا کہنا ہے کہ گلبہار، رضویہ، عثمان کالونی، وحیدآباد اور گولی مار سمیت ملحقہ علاقوں میں گزشتہ 20 روز سے پانی کی سپلائی معطل ہے کئی بار متعلقہ حکام کو شکایات درج کرائیں لیکن کوئی شنوائی نہیں او آج وہ مجبوراً احتجاج کررہے ہیں ان کا کہنا تھا کہ سب سے زیادہ ٹیکس دینے والا شہر سہولتوں سے محروم کیوں ہے،جب تک انھیں پانی کی فراہمی کی یقین دہائی نہیں کرائی جائے گی اس وقت تک احتجاج جاری رہے گا۔

احتجاج اورٹریفک جام کی اطلاع ملتے ہی پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری موقع پر پہنچ گئی اورانھوں نے احتجاج کرنیوالے مظاہرین سے مذاکرات کے دوران جلد پانی کی فراہمی کے لیے متعلقہ حکام سے بات چیت کرنے کی یقین دہانی کرائی جس پر مظاہرین پر امن طور پر منشر ہوگئے اور سڑک ٹریفک کے لیے بحال کردی گئی۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔