آدھے گھنٹے میں تین وارداتیں کرنے والے ملزم پولیس مقابلہ میں مارے گئے

عزت دار گھرانے سے تعلق رکھنے والے مرکزی ملزم وقاص کو بری صحبت نے ڈاکو بنایا


عزت دار گھرانے سے تعلق رکھنے والے مرکزی ملزم وقاص کو بری صحبت نے ڈاکو بنایا۔ فوٹو : فائل

SINGAPORE: برسوں سے کتابوں میں پڑھتے اور بزرگوں سے یہ سنتے آئے ہیں کہ بری صحبت سے بچوکیوں کہ انسان چاہیے خود جتنا بھی اچھا ہو اگر صحبت بری ہوگی تو ایک وقت آئے گا جب بری صحبت کے اثرات آپ پر بھی ہوں گی۔ اور کئی بار تو یہ صحبت اس نہج تک لے جاتی ہے کہ موت مقدر بن جاتی ہے۔

گوجرانوالہ میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا کہ ایک اچھے خاندان کا لڑکا بری صحبت کے باعث ڈاکو بنا، آدھے گھنٹہ میں تین وارداتیں کیں اور پھر پولیس مقابلہ میں مارا گیا۔

کامونکی کا رہائشی وقاص انصاری بدقسمتی سے دوران تعلیم ہی بری صحبت کا شکار ہو گیا۔ وقاص کا اٹھنا بیٹھنا پولیس کے مطابق ایم پی اے رانا شمشاد کے بیٹے اور دوست کو بیرون ملک مقیم رفیق عرف پھیکی کے کہنے پر قتل کرنے والے ٹارگٹ کلرز میں تھا۔ وہ ان غنڈوں کے سر پر بدمعاشی بھی کرنے لگا۔ علاقہ میں جس کو چاہا تھپڑ مار دیا اور جس کو چاہا گریبان سے پکڑ لیا۔

وقاص کے گھر والوں نے اس کی بری صحبت چھڑوانے کے لئے بہت زور لگایا لیکن وہ باز نہ آیا، پھر گھر والوں نے وقاص کو بیرون ملک بھجوادیا مگر وہاں بھی اس کے دوستوںنے اس کا پیچھا نہ چھوڑا اور فون پر رابطے رکھا، بالاخر کام نہ ملنے کا بہانہ کرتے ہوئے وقاص انصاری واپس آگیا اور پھر سے اپنے دوستوں کے ساتھ گھومنے لگا، اس دوران انہوں نے مل کر وارداتیں بھی شروع کردیں، کبھی مریدکے تو کبھی گوجرانوالہ میں آسانی سے ڈھیروں روپے ملنے لگے تو وقاص مزید بگڑ گیا۔

اس دوران وقاص انصاری سے عرفان نامی شخص کو ملوایا گیا، جس نے اسے جرائم کی ٹریننگ دی۔ عرفان نے وقاص کو بتایا کہ واردت کے وقت اپنا فون کبھی بھی ساتھ نہ لے جانا، اس سے وہ پکڑا جا سکتا ہے، کیوں کہ موبائل کی وجہ سے لوکیشن مل جاتی ہے۔

وقاص انصاری کو سیاست میں اثرورسوخ رکھنے والے اس کے ماموں نے مریدکے اور گوجرانوالہ کے تھانوں سے تین بار رہائی دلوائی جس سے وقاص انصاری کا مزید حوصلہ بڑھااور اس نے باقاعدہ جرم کی دنیا اختیارکرلی۔ پہلے تو وہ ایک واردات کے بعد کچھ دن انتظار کرتے اور جب پیسے ختم ہوتے تو پھر راستہ میں آنے جانے والوں کو نشانہ بناکر لوٹ مارکرتے، لیکن اب وہ مسلسل ایسا کرنے کے منصوبے بنانے لگے۔

یہ 24 اپریل کا دن تھا وقاص انصاری اپنے دوست عرفان کے ساتھ مل کر گوجرانوالہ میں واردات پہ نکل۔ دونوں ملزمان پہلے اروپ کے علاقہ کی طرف گئے اور وہاں پر کریانہ سٹور سے لوٹ مارکی، جس دوران دکاندار نوید نے مزاحمت کی تو اس کی ٹانگ پر گولی ماری اور فرار ہوگئے۔ اروپ پولیس جائے وقوعہ پر پہنچی اور زخمی کو ہسپتال منتقل کردیا۔

ملزمان کو روپے کم لگے، اس لیے انہوں نے ایک اور دکان لوٹنے کی کوشش کی، دونوں ملزمان نے سول لائن کے علاقہ میں ایک اور دکان لوٹی اور پھر کھیالی کے علاقہ کی طرف فرارہوگئے جب 15 پر کال چلی اور دکاندار نے حلیہ بتایا تو پولیس الرٹ ہوگئی کہ یہ وہی ملزمان ہیں جوکہ اروپ کے علاقہ میں لوٹ مار کرکے گئے ہیں۔

گشت پر مامور تمام علاقہ جات کی پولیس الرٹ کردی گئی لیکن اس دن وقاص انصاری اور عرفان سمجھے کہ آج قسمت ان کا ساتھ دے رہی ہے اور ہر کام آسانی سے ہورہاہے، انہوں نے راستہ میں آنے والے علاقہ جلیل ٹاؤن کوچنا اور پھر وہاں بھی ایک بڑی دکان میں لوٹ مارکی، جہاں پر سی سی ٹی وی کیمرے لگے تھے۔

دونوں کے فرارہونے پر دکان دار عبدالرحمان نے پولیس کو فون کرکے ملزموں کے موٹرسائیکل کا نمبر لکھوا دیا، جس پر گشت پر مامور ایس ایچ او تھانہ صدر عمران نسیم بٹ نفری کے ہمراہ جی ٹی روڈ پر کھڑے ہوگئے۔ جب موٹرسائیکل اس روڈ سے گزری تو انہیں فوری روکا نہیں گیا بلکہ چھپ کر ان کا پیچھا کیا گیا۔ ایس ایچ او نے سی آئی اے پولیس کی خدمات بھی حاصل کیں اور ڈی ایس پی سی آئی اے عمران عباس چدھڑ کو اطلاع کی جنہوں نے اپنے افسران کو روانہ کردیا پولیس اٹاوہ کے پاس ایک مقام پر کھڑی ہوگئی اور جب سی آئی اے پولیس پہنچی تو آگے جا کر دیکھا کہ دونوں ملزمان ایک نئی بننے والی ہاؤسنگ سوسائٹی کے پاس ریلوے ٹریک کے قریب آپس میں پیسے تقسیم کررہے تھے۔

پولیس چاہتی تھی کہ دونوں ملزمان کو پکڑاجائے تاکہ اگر یہ ریکارڈ یافتہ نکلیں تو دوسرے شہریوں کا نقصان پورا کیا جاسکے اور مقدمات کھولے جائیں۔ سی آئی اے نے دو ٹیمیں بنا کر دونوں اطراف سے ملزمان کو پکڑنے کی کوشش کی مگر جونہی وہ قریب پہنچے تو ملزمان نے فائرنگ کر دی۔ اس دوران وقاص انصاری باآواز بلند پکارتا رہاکہ میں وکی ہوں تم میرے ماموں کو نہیں جانتے، تم سب کی خیر نہیں اور ساتھی عرفان سے مل کر پولیس اہلکاروں پر گولیاں چلا دیں، تاہم پولیس کی جوابی فائرنگ میں وہ دونوں مارے گئے۔

ایس پی سول لائن محمد افضل ،ڈی ایس پی عبدالحمید ورک بھاری نفری کے ہمراہ موقع پر پہنچے اور تمام شواہد اکٹھے کر لئے۔ سی پی او اشفاق احمد خان کو حالات و واقعات کے بارے میں بتایا گیا۔ جب میڈیا پر پولیس مقابلہ کی خبر چلی تو جلیل ٹاؤن میں لوٹے گئے دکانداروں نے شکل دیکھی اور پولیس سے رابطہ کرکے موقع پر پہنچ کر اپنے موبائل اور ملزمان کی شناخت کر لی۔ دونوں ملزمان کی نعشیں پوسٹ مارٹم کے لیے سول ہسپتال منتقل کر دی گئیں۔ سی پی اواشفاق احمد خان نے سو ل ہسپتال کا دورہ کیا اور دوران مزاحمت زخمی ہونے والے دکاندار نوید کی عیادت کی۔

اس موقع پر انہوں نے بتایا کہ دونوں ملزمان کے خلاف مختلف تھانوں میں مقدمات درج تھے۔ ہمارے پولیس افسران و اہلکاروں نے جانفشانی سے ڈاکوؤں کا مقابلہ کیا اور جو ملزم آدھے گھنٹہ میں تین وارداتیں کرنے میں کامیاب اور پولیس کو چکمہ دے رہے تھے نہ صرف ان کاپتا چلایابلکہ ان کا سامنا کیا۔ علاوہ ازیں آرپی او راجہ رفعت مختار نے آپریشن میں حصہ لینے والی پوری ٹیم کو اعزازی اسناد اور انعامات سے نوازا۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔