بقار جھیل ایک تفریحی مقام
بقار جھیل کو کسی زمانے میں مکھی جھیل بھی کہا جاتا تھا، کیونکہ یہ جھیل مکھی فاریسٹ تک جاتی ہے۔
زندگی کی مصروفیات میں انسان اتنا کھو جاتا ہے کہ اپنے اردگرد کی اہم چیزوں کو بھی نظرانداز کردیتا ہے، جو ایک اخلاقی جرم ہے اور پھر خاص طور پر ان لوگوں کے لیے جو شعور اور علم رکھتے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ ان لوگوں کی ذمے داری ہے جو اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے ہیں یا پھر بین الاقوامی اور قومی قوانین کو عمل میں لانے کے لیے انھیں تنخواہ ملتی ہے۔ ان میں ہمارے مقامی لوگ، صاحب اقتدار، بیورو کریٹس، صحافی، ادیب، تاریخ دان اور آرکیالوجسٹ وغیرہ شامل ہیں، جو اپنا کردار نہیں نبھا رہے ہیں۔
مجھے خود افسوس ہے کہ میں اپنے ملک، صوبے اور شہر میں موجود تاریخی اور ثقافتی ورثے کو بچانے میں ناکام رہا ہوں، جس کی کئی وجوہات ہیں جس میں سب سے بڑی وجہ وسائل کا نہ ہونا ہے۔ بہرحال کچھ عرصہ ہوا مجھے ایک ایسا دوست ملا جو چاہتا تھا کہ سندھ میں ٹورازم کو فروغ دیا جائے اور لوگ پوری دنیا سے یہاں پر آئیں اور تاریخی ورثے اور تفریحی مقامات دیکھیں، تاکہ نہ صرف ملک اور صوبہ کو مالی فائدہ حاصل ہو بلکہ انھیں پتا چلے کہ پاکستان اور سندھ میں کتنے اہم تاریخی اور ثقافتی مقامات ہیں۔ سندھ میں کئی ایسے حسین مقامات ہیں جو صدیوں سے چلے آرہے ہیں مگر پاکستان بننے کے بعد کسی نے بھی انھیں بچانے اور بنانے کی کوشش نہیں کی۔
ضلع سانگھڑ میں ایک خوبصورت جھیل بقار کے نام سے موجود ہے۔ بقار جھیل سانگھڑ شہر سے تقریباً 23 کلو میٹر اندر مغرب کی طرف ہے۔ کراچی سے جامشورو پھر ٹنڈو آدم سے شہداد پور سے سانگھڑ پہنچے۔ سفر آسان تھا، کیونکہ جہاں جہاں ہم گزرے روڈ نئے اور اچھے بنے ہوئے تھے۔ صرف کراچی سے جامشورو والا موٹر وے دیکھنے میں تو اچھا تھا مگر سفر کرتے ہوئے یوں لگا جیسے ہم جھولے میں بیٹھے ہوں۔
اس سفر کے دوران ہمیں کئی جگہوں پر Mileage Stones نظر نہیں آئے، راستے میں درختوں کا نام و نشان نہیں تھا اور کوئی ہریالی نظر نہیں آئی۔ موٹروے پر صرف بڑے ٹرالرز، ٹرک اور دوسری بڑی گاڑیوں کا راج تھا، جو فاسٹ ٹریک پر چل رہی تھیں اور چھوٹی گاڑیوں کو راستہ نہیں مل رہا تھا۔موٹروے پر جو مڈوے ہوٹل بنے ہوئے ہیں، ان میں ٹوائلٹس کی بہت بری حالت ہے، صفائی کا نام و نشان نہیں ہے، کھانا صحت کے اصولوں کے بالکل برعکس ہے۔
جب ہم ٹنڈو آدم کی حدود میں پہنچے تو ہر طرف ہریالی نظر آئی، ہرے درخت، سبزیوں کی قطار، آم کے درخت اور پانی کی چھوٹی چھوٹی جھیلیں بھی نظر آئیں، جس میں مقامی پرندے انجوائے کر رہے تھے۔ بس ایک رکاوٹ یہ تھی کہ بائی پاس سے شہداد پور جاتے ہوئے ایک بڑی مویشیوں کی منڈی نظر آئی جہاں پر مویشی لانے اور لے جانے کے لیے ٹرکس، رکشے، چنگچی، ڈاٹسن اور دوسری گاڑیوں نے آنے اور جانے کا راستہ تنگ کردیا تھا، جس کی وجہ سے ہمارا کافی وقت ضایع ہوگیا۔
اگر آپ شہداد پور اور سانگھڑ جا رہے ہیں تو بہتر ہے کہ آپ نیشنل ہائی وے پر سفر کرتے ہوئے ہالا شہر سے مڑیں، کیونکہ وہاں سے راستہ کھلا بھی ہے اور وقت بھی کم لگتا ہے، کیونکہ ہم واپسی میں وہاں سے آئے تھے۔ ٹنڈو آدم اور شہداد پور مین ریلوے لائن پر ہیں اس لیے ان کی اہمیت اور بھی زیادہ ہے۔ ہم شہداد پور پہنچے تو وہاں ہاتھ والے پانی کے نلکے دیکھے، جس سے معلوم ہوا کہ وہاں پر گراؤنڈ واٹر اچھا ہے۔
مجھے خوشی یہ ہے کہ پہلی مرتبہ ٹورازم کی ترقی کے لیے سندھ گورنمنٹ نے اچھے اقدامات کیے ہیں۔ ہم جب بقار جھیل کی طرف روانہ ہوئے تو تقریباً ایک ٹوٹا ہوا روڈ نظر آیا جس پر چلتے چلتے ہم بقار جھیل پر پہنچ گئے۔ بقار جھیل کو کسی زمانے میں مکھی جھیل بھی کہا جاتا تھا، کیونکہ یہ جھیل مکھی فاریسٹ تک جاتی ہے جو کبھی ڈاکوؤں کی پناہ گاہ تھی، جب کہ اس سے پہلے اس جنگل کو حر مجاہد استعمال کرتے تھے، کیونکہ انگریزوں کے خلاف جنگ کے لیے وہ اپنے مجاہدوں کو وہاں پناہ دیتے تھے۔
بقار جھیل جسے اب بقار ڈیم کی صورت دی گئی ہے۔ بقار جھیل میں پانی پہنچانے کے لیے دس دروازوں کا ایک ریگولیٹر بنا ہوا ہے، جسے چلانے کے لیے آبپاشی والوں کا ایک دفتر بھی تھا، جو اب ٹوٹا ہوا اور ویران پڑا ہے، جہاں پر کوئی ملازم نظر نہیں آتا ہے۔ اس جگہ پر آبپاشی والوں کا ایک ریسٹ ہاؤس بھی تھا جو چاروں طرف سے ٹوٹا ہوا ہے۔
گاؤں والوں سے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ اس علاقے میں بجلی تھی مگر لوگوں کی عدم ادائیگی کی وجہ سے بجلی منقطع کی گئی، جس کے نتیجے میں کچھ عناصر نے بجلی کی تاریں اور ٹرانسفارمر چوری کرلیے۔ جھیل کے چاروں طرف مچھیروں کے گھر بنے ہوئے ہیں جن کے روزگار کا ذرائع مچھلی ہے، مگر باقی لوگ کھیتی باڑی بھی کرتے ہیں۔ جھیل سے مچھلی کا شکار کرنے کے لیے اب لائسنس صرف مچھیروں کو ہی ملتے ہیں، جس کے لیے فشر فوک کی تنظیم نے بڑی جدوجہد کی تھی۔
اس جھیل کی گہرائی 20 فٹ سے بھی زیادہ ہے، جس میں 5 کلو تک کی مچھلی کا شکار ہوتا ہے۔ مچھیرے مچھلی پکڑنے کے بعد اسے سانگھڑ، حیدرآباد اور کراچی تک فروخت کرتے ہیں۔ لیکن اب مچھلی کا شکار کم ہوگیا ہے کیونکہ اس میں نارا کینال سے پانی آنا کافی بند ہوگیا ہے، پھر بارشیں بھی نہیں ہو رہی ہیں اور چوٹیاری ڈیم بننے سے اس میں پانی کی آمد رک گئی ہے جس کی وجہ سے مچھلی کا Seed نہیں پہنچ رہا ہے۔
سردیوں کے موسم میں سائبیریا سے آبی پرندے بڑی تعداد میں آتے ہیں، جن کا شکار کرنے کے لیے شکاری پہنچ جاتے ہیں، جس کے نتیجے میں اب یہ پرندے جھیل کی گہری جگہ میں چلے جاتے ہیں، جہاں پر ان کا شکار کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ مکھی فاریسٹ بھی ختم ہوگیا ہے جہاں سے بڑی تعداد میں لکڑی، شہد اور مچھلی کی اچھی اقسام پیدا ہوتی تھیں۔ جھیل میں کچھ عرصے پہلے پانی بالکل ختم ہوگیا تھا، جس کی وجہ سے جھیل میں بڑھنے والے درخت اور جال سوکھ گئے تھے، جسے گاؤں والے لاکر جلانے کے کام میں لاتے ہیں۔ جب جھیل کی موج تھی تو یہاں پر دوسرے علاقوں سے لوگ آکر بستے تھے جو اب پھر واپس چلے گئے ہیں۔
گاؤں کے ایک شخص سے معلوم ہوا کہ بقارہ جھیل 80 کلو میٹر پر پھیلی ہوئی ہے، جس کی گہرائی کہیں تو 60 فٹ تک بھی چلی جاتی ہے۔ اس جھیل کو رانتہ کینال سے بھی پانی ملتا تھا۔ یہ جھیل 2000 سے 2005 تک بالکل سوکھ گئی تھی جس کی وجہ سے مچھلی ناپید ہوگئی اور مچھیروں نے دوسرے کام کرنا شروع کردیے۔ بقار ایک عورت کا نام ہے جس کے نام پر کچھ کلومیٹر ایک گاؤں ہے جس کے نام پر اس جھیل کا نام بقار رکھا گیا ہے۔
بقار گاؤں دو صدیاں پرانا ہے، جہاں پر ایک پرائمری اسکول 1955 میں قائم ہوا تھا جہاں پر ابھی بھی بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں، اس میں لڑکیاں اور لڑکے اکٹھے پڑھتے ہیں۔ علاقے میں تعلیم حاصل کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے جس کی وجہ سے اب بقار گاؤں کے آس پاس ایک پرائیویٹ اسکول بھی قائم ہوا ہے۔ بس کم آتی ہے جس کی وجہ سے لوگ اپنے بچوں کو موٹر سائیکل یا پھر سائیکل پر لے جاتے اور لے آتے ہیں۔
مجھے امید ہے ہماری حکومت، بیورو کریسی، روشن خیال لوگ، علاقے کے لوگ، ادیب، مفکر، تاریخ دان، سیاستدان اور ہر آدمی اپنی تاریخ اور ثقافتی دولت کو بچانے کے لیے اپنا اپنا کردار ادا کرے گا اور ان قیمتی ورثے کو تباہی سے بچانے کے لیے آواز اٹھائے گا جو ہماری پہچان ہے۔ اس کے علاوہ خاص طور پر میڈیا اور سوشل میڈیا اٹھ کھڑے ہوں، ملک اور سندھ کے تاریخی اور ثقافتی مقامات کو بچانے کےwar footing طرز پر کام کریں۔