مولانا ابوالکلام آزاد اور مہاجر صوبہ
مہاجرقومی موومنٹ کے قائدین نے ابتدا ہی سے مولانا کے نظریہ کو درست قرار دیا۔
سندھ کے رہنے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ متحدہ قومی موومنٹ کا نام پہلے مہاجر قومی موومنٹ تھا اور یہ مہاجر طلبا تنظیم کے قائدین نے جامعہ کراچی سے باہر نکل کر پورے سندھ میں کام کرنے کے لیے بنائی تھی۔
ان قائدین کا کہنا تھا کہ چونکہ انھیں جامعہ کراچی میں دیگر تنظیموں نے کام نہیں کرنے دیا اور ان پر سخت تشدد کا سلسلہ شروع کردیا تو انھوں نے شہر کا رخ کیا، جہاں انھیں مہاجر عوام کی جانب سے بہت اچھا تعاون ملا اور یوں سندھ کے شہروں میں مہاجر قومی موومنٹ پھیلتی چلی گئی۔ بعض مخالفین کہتے ہیں کہ اس کے قیام میں سابق جنرل ضیاء الحق کا ہاتھ تھا اور یہ ان کی ایک سیاسی چال تھی جو بڑی کامیاب رہی۔
ابتدا میں اس جماعت کے قائدین نے سندھ میں قوم پرست رہنماؤں سے دوستی کا ہاتھ بڑھایا، جس پر مخالف جماعتوں خاص کر مذہبی جماعتوں نے سخت تنقید کی اور ایسی تصاویر بھی شائع کیں کہ جن میں مہاجر قومی موومنٹ کے قائد جی ایم سید کے ساتھ محو گفتگو تھے، واضح رہے کہ جی ایم سید ایک علیحدگی پسند تنظیم ''سندھو دیش'' کے بانی تصور کیے جاتے تھے۔ ان تصاویر سے مہاجر قومی موومنٹ کی مقبولیت پر کوئی اثر نہیں پڑا بلکہ روز بہ روز اس کی مقبولیت تیزی سے بڑھ رہی تھی۔
اس وقت ایک بیانیہ یہ تھا کہ پاکستان بناکر مہاجروں کے ہاتھ کچھ نہیں آیا، مولانا ابوالکلام آزاد درست کہتے تھے۔ مشرقی پاکستان کو ٹوٹنے سے بچانے کے لیے جن مہاجروں (بہاریوں) نے قربانیاں دیں انھیں تسلیم نہیں کیا گیا، نہ ہی انھیں پاکستان لانے کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات کیے گئے، یعنی انھیں محب وطن تسلیم نہیں کیا گیا، جب کہ بنگالیوں کی نظر میں وہ غدار ٹھہرے۔ لہٰذا اب کوئی اس قسم کا جذباتی فیصلہ دوبارہ نہ کیا جائے۔
یہ بیانیہ مہاجر عوام نے مسترد نہیں کیا بلکہ لوگ انتہائی تیزی سے اس موومنٹ کا حصہ بنتے چلے گئے، یہاں تک کہ انتخابات میں حصہ لینے کے بعد ایم کیو ایم سندھ کی دوسری اور پاکستان کی تیسری بڑی جماعت کے طور پر جانی جانے لگی۔ ابتدا میں ایم کیوایم کے قائدین اپنے عوامی جلسوں میں اکثر مولانا ابوالکلام کا ذکر کرتے تھے اور یہ تاثر دیتے تھے کہ اگر ہم ان کی بات مان لیتے تو ہمارے ساتھ آج یہ کچھ نہیں ہوتا۔ ''پتنگ کٹ کر جس کے گھر میں گرتی ہے اس کی ہو جاتی ہے'' ایسے جملے بھی سننے کو ملتے تھے۔
مولانا ابوالکلام آزاد ایک بہت بڑے دانشور اور دوراندیش سیاستدان بھی تھے۔ کانگریس کے اہم ترین رہنماؤں میں ان کا شمار ہوتا تھا، انھوں نے تقسیم ہند یعنی قیام پاکستان کی مخالفت جن بنیادوں پر کی اور جن خدشات کا اظہار کیا، وہ درست ثابت ہوئے۔
ایک مشہور ٹی وی اینکر نے اپنے پروگرام میں مولانا کے ان خدشات پر پروگرام کیا، جس سے معلوم ہوا کہ مولانا واقعی ایک دوراندیش سیاستدان تھے، پاکستان کے بارے میں انھوں نے جو کچھ بھی پیش گوئی کی، وہ درست ثابت ہوئیں، مثلاً یہ کہ قائداعظم اور لیاقت علی خان کے بعد مشرقی پاکستان کا اعتماد کم ہوجائے گا اور عالمی قوتوں کے مفادات کی جنگ میں مشرقی اور مغربی پاکستان الگ ہوجائیں گے، نیز اس کے بعد مغربی پاکستان میں قومی تشخص کی لہر اٹھے گی جو بیرونی مداخلت کے دروازے کھول دے گی۔
مختصر یہ کہ مہاجر قومی موومنٹ کے قائدین یہ سمجھتے تھے کہ مولانا کی باتیں درست تھیں مگر تقسیم سے قبل ہندوستان کے مسلمانوں نے اس پر دھیان نہیں دیا جس کے سبب انھیں دو بار آگ اور خون کا دریا عبور کرنا پڑا، یعنی ایک بار قیام پاکستان کے وقت اور دوسری بار مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے وقت۔
مذکورہ بالا باتیں اپنے اندر بے پناہ وزن رکھتی ہیں۔ باوجود اس حقیقت کے کہ ہندوستان کے لوگوں کی بڑی اکثریت نے اسلام کے نام پر ہی پاکستان کے قیام کے لیے قربانیاں دیں۔ قابل غور بات یہ ہے کہ یہ مسلمانوں کے قائدین کے وژن کا فرق تھا کہ کسی نے قیام پاکستان کی مخالفت کی اور کسی نے حمایت، لیکن یہ مسلمان ہی تھے کہ انھوں نے اپنے قائدین میں سے کسی ایک گروہ کا انتخاب کیا اور پھر جان و مال کی تاریخی قربانیاں دیں۔
بلاشبہ قائدین ہی دور اندیش ہوسکتے ہیں جو مستقبل پر نظر رکھ کر اپنے عوام کی بھلائی کے لیے فیصلہ کرتے ہیں۔ مولانا ابوالکلام سمجھتے تھے کہ تقسیم کے عمل سے قتل و غارت گری ہوگی، مسلمانوں کی حالت ابتر ہوجائے گی، وہ کمزور ہوجائیں گے، وغیرہ، لیکن مسلم لیگ کے قائدین اس کے برعکس سوچتے تھے۔ مہاجرقومی موومنٹ کے قائدین نے ابتدا ہی سے مولانا کے نظریہ کو درست قرار دیا۔
آج مہاجر قومی موومنٹ نہیں ہے مگر اس کے قائدین مختلف گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں، جس میں سے کچھ اس جانب اشارہ دے رہے ہیں کہ مہاجروں کے حقوق کے لیے سندھ کے صوبے کو تقسیم کرکے کراچی کو صوبہ کا درجہ دیا جائے۔ یہ مطالبہ بالکل ایسا ہی حساس اور اہم ہے جیسے تقسیم سے قبل علیحدہ ریاست کا نعرہ تھا اور اس وقت مولانا ابوالکلام آزاد نے اس کی مخالفت کی تھی کہ اس تقسیم سے مسلمانوں کی قوت تقسیم ہوجائے گی، قتل و غارت گری ہوگی، وغیرہ وغیرہ۔
اس وقت صوبہ سندھ میں بھی کم وبیش وہی صورتحال ہے کہ جن کے لیے الگ صوبہ کی بات کی جارہی ہے وہ اردو بولنے والے مہاجر پورے سندھ میں بستے ہیں، سندھ کے شہروں خاص کر کراچی میں ان کی بھاری اکثریت ہے۔
ایسی صورتحال میں اگر کراچی کو صوبہ بنایا جاتا ہے تو ردعمل میں پورے سندھ میں قتل و غارت گری شروع ہونے کے سو فیصد چانس ہیں، جس سے ایک بار پھر مہاجروں کا ہی نقصان ہوگا اور ایک بہت بڑی ہجرت دوبارہ ہونے کا بھی امکان ہے۔ جب کہ اس کا فرق کراچی کے مہاجروں پر نہیں پڑے گا کیونکہ وہ اکثریت میں یہاں آباد ہیں، لیکن باقی سندھ میں رہنے والے مہاجروں کی زندگی اجیرن ہوجائے گی۔
ماضی میں بھی جب کبھی اس صوبے میں مہاجر سندھی فسادات ہوئے، اس سے یہی بات ثابت ہوئی ہے، ایک مرتبہ تو 'ہالا' کے مہاجر اپنا بستر باندھ کر ایک نئی ہجرت کے لیے تیار بھی کھڑے تھے، جب تک جی ایم سید سے ایم کیو ایم کے رہنماؤں کے اچھے تعلقات قائم نہیںہوئے تھے، اردو بولنے والے سندھ یونیورسٹی میں پڑھنے کا صرف خواب دیکھتے تھے۔ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد بھی جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔
ان حالات میں مہاجر صوبے کا نعرہ لگانا کیا دانشمندی کی بات ہے؟ کراچی شہر میں بیٹھ کر یہ کہہ دینا آسان ہے کہ کچھ پانے کے لیے قربانیاں تو دینی پڑتی ہیں لیکن ایک لمحے کے لیے کراچی والوں کو اندرون سندھ رہنے والے مہاجر بھائیوں سے بھی رائے لینی چاہیے جو اقلیت بن کر زندگی کے مسائل سے جنگ لڑ رہے ہیں کہ ان کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟
قیادت وہی بہتر ہوتی ہے جو اپنی قوم کو مصیبتوں اور پریشانیوں سے بچا کر رکھے اور مصیبت و پریشانیاں خود جھیلے۔ ایک نیا صوبہ بننے سے مہاجروں کو کیا کیا فوائد اور کیا کیا نقصانات ہوں گے، اس پر مہاجر صوبے کا نعرہ لگانے سے پہلے سوچنے کا کام ہے۔ آئیے غور کریں!
ان قائدین کا کہنا تھا کہ چونکہ انھیں جامعہ کراچی میں دیگر تنظیموں نے کام نہیں کرنے دیا اور ان پر سخت تشدد کا سلسلہ شروع کردیا تو انھوں نے شہر کا رخ کیا، جہاں انھیں مہاجر عوام کی جانب سے بہت اچھا تعاون ملا اور یوں سندھ کے شہروں میں مہاجر قومی موومنٹ پھیلتی چلی گئی۔ بعض مخالفین کہتے ہیں کہ اس کے قیام میں سابق جنرل ضیاء الحق کا ہاتھ تھا اور یہ ان کی ایک سیاسی چال تھی جو بڑی کامیاب رہی۔
ابتدا میں اس جماعت کے قائدین نے سندھ میں قوم پرست رہنماؤں سے دوستی کا ہاتھ بڑھایا، جس پر مخالف جماعتوں خاص کر مذہبی جماعتوں نے سخت تنقید کی اور ایسی تصاویر بھی شائع کیں کہ جن میں مہاجر قومی موومنٹ کے قائد جی ایم سید کے ساتھ محو گفتگو تھے، واضح رہے کہ جی ایم سید ایک علیحدگی پسند تنظیم ''سندھو دیش'' کے بانی تصور کیے جاتے تھے۔ ان تصاویر سے مہاجر قومی موومنٹ کی مقبولیت پر کوئی اثر نہیں پڑا بلکہ روز بہ روز اس کی مقبولیت تیزی سے بڑھ رہی تھی۔
اس وقت ایک بیانیہ یہ تھا کہ پاکستان بناکر مہاجروں کے ہاتھ کچھ نہیں آیا، مولانا ابوالکلام آزاد درست کہتے تھے۔ مشرقی پاکستان کو ٹوٹنے سے بچانے کے لیے جن مہاجروں (بہاریوں) نے قربانیاں دیں انھیں تسلیم نہیں کیا گیا، نہ ہی انھیں پاکستان لانے کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات کیے گئے، یعنی انھیں محب وطن تسلیم نہیں کیا گیا، جب کہ بنگالیوں کی نظر میں وہ غدار ٹھہرے۔ لہٰذا اب کوئی اس قسم کا جذباتی فیصلہ دوبارہ نہ کیا جائے۔
یہ بیانیہ مہاجر عوام نے مسترد نہیں کیا بلکہ لوگ انتہائی تیزی سے اس موومنٹ کا حصہ بنتے چلے گئے، یہاں تک کہ انتخابات میں حصہ لینے کے بعد ایم کیو ایم سندھ کی دوسری اور پاکستان کی تیسری بڑی جماعت کے طور پر جانی جانے لگی۔ ابتدا میں ایم کیوایم کے قائدین اپنے عوامی جلسوں میں اکثر مولانا ابوالکلام کا ذکر کرتے تھے اور یہ تاثر دیتے تھے کہ اگر ہم ان کی بات مان لیتے تو ہمارے ساتھ آج یہ کچھ نہیں ہوتا۔ ''پتنگ کٹ کر جس کے گھر میں گرتی ہے اس کی ہو جاتی ہے'' ایسے جملے بھی سننے کو ملتے تھے۔
مولانا ابوالکلام آزاد ایک بہت بڑے دانشور اور دوراندیش سیاستدان بھی تھے۔ کانگریس کے اہم ترین رہنماؤں میں ان کا شمار ہوتا تھا، انھوں نے تقسیم ہند یعنی قیام پاکستان کی مخالفت جن بنیادوں پر کی اور جن خدشات کا اظہار کیا، وہ درست ثابت ہوئے۔
ایک مشہور ٹی وی اینکر نے اپنے پروگرام میں مولانا کے ان خدشات پر پروگرام کیا، جس سے معلوم ہوا کہ مولانا واقعی ایک دوراندیش سیاستدان تھے، پاکستان کے بارے میں انھوں نے جو کچھ بھی پیش گوئی کی، وہ درست ثابت ہوئیں، مثلاً یہ کہ قائداعظم اور لیاقت علی خان کے بعد مشرقی پاکستان کا اعتماد کم ہوجائے گا اور عالمی قوتوں کے مفادات کی جنگ میں مشرقی اور مغربی پاکستان الگ ہوجائیں گے، نیز اس کے بعد مغربی پاکستان میں قومی تشخص کی لہر اٹھے گی جو بیرونی مداخلت کے دروازے کھول دے گی۔
مختصر یہ کہ مہاجر قومی موومنٹ کے قائدین یہ سمجھتے تھے کہ مولانا کی باتیں درست تھیں مگر تقسیم سے قبل ہندوستان کے مسلمانوں نے اس پر دھیان نہیں دیا جس کے سبب انھیں دو بار آگ اور خون کا دریا عبور کرنا پڑا، یعنی ایک بار قیام پاکستان کے وقت اور دوسری بار مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے وقت۔
مذکورہ بالا باتیں اپنے اندر بے پناہ وزن رکھتی ہیں۔ باوجود اس حقیقت کے کہ ہندوستان کے لوگوں کی بڑی اکثریت نے اسلام کے نام پر ہی پاکستان کے قیام کے لیے قربانیاں دیں۔ قابل غور بات یہ ہے کہ یہ مسلمانوں کے قائدین کے وژن کا فرق تھا کہ کسی نے قیام پاکستان کی مخالفت کی اور کسی نے حمایت، لیکن یہ مسلمان ہی تھے کہ انھوں نے اپنے قائدین میں سے کسی ایک گروہ کا انتخاب کیا اور پھر جان و مال کی تاریخی قربانیاں دیں۔
بلاشبہ قائدین ہی دور اندیش ہوسکتے ہیں جو مستقبل پر نظر رکھ کر اپنے عوام کی بھلائی کے لیے فیصلہ کرتے ہیں۔ مولانا ابوالکلام سمجھتے تھے کہ تقسیم کے عمل سے قتل و غارت گری ہوگی، مسلمانوں کی حالت ابتر ہوجائے گی، وہ کمزور ہوجائیں گے، وغیرہ، لیکن مسلم لیگ کے قائدین اس کے برعکس سوچتے تھے۔ مہاجرقومی موومنٹ کے قائدین نے ابتدا ہی سے مولانا کے نظریہ کو درست قرار دیا۔
آج مہاجر قومی موومنٹ نہیں ہے مگر اس کے قائدین مختلف گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں، جس میں سے کچھ اس جانب اشارہ دے رہے ہیں کہ مہاجروں کے حقوق کے لیے سندھ کے صوبے کو تقسیم کرکے کراچی کو صوبہ کا درجہ دیا جائے۔ یہ مطالبہ بالکل ایسا ہی حساس اور اہم ہے جیسے تقسیم سے قبل علیحدہ ریاست کا نعرہ تھا اور اس وقت مولانا ابوالکلام آزاد نے اس کی مخالفت کی تھی کہ اس تقسیم سے مسلمانوں کی قوت تقسیم ہوجائے گی، قتل و غارت گری ہوگی، وغیرہ وغیرہ۔
اس وقت صوبہ سندھ میں بھی کم وبیش وہی صورتحال ہے کہ جن کے لیے الگ صوبہ کی بات کی جارہی ہے وہ اردو بولنے والے مہاجر پورے سندھ میں بستے ہیں، سندھ کے شہروں خاص کر کراچی میں ان کی بھاری اکثریت ہے۔
ایسی صورتحال میں اگر کراچی کو صوبہ بنایا جاتا ہے تو ردعمل میں پورے سندھ میں قتل و غارت گری شروع ہونے کے سو فیصد چانس ہیں، جس سے ایک بار پھر مہاجروں کا ہی نقصان ہوگا اور ایک بہت بڑی ہجرت دوبارہ ہونے کا بھی امکان ہے۔ جب کہ اس کا فرق کراچی کے مہاجروں پر نہیں پڑے گا کیونکہ وہ اکثریت میں یہاں آباد ہیں، لیکن باقی سندھ میں رہنے والے مہاجروں کی زندگی اجیرن ہوجائے گی۔
ماضی میں بھی جب کبھی اس صوبے میں مہاجر سندھی فسادات ہوئے، اس سے یہی بات ثابت ہوئی ہے، ایک مرتبہ تو 'ہالا' کے مہاجر اپنا بستر باندھ کر ایک نئی ہجرت کے لیے تیار بھی کھڑے تھے، جب تک جی ایم سید سے ایم کیو ایم کے رہنماؤں کے اچھے تعلقات قائم نہیںہوئے تھے، اردو بولنے والے سندھ یونیورسٹی میں پڑھنے کا صرف خواب دیکھتے تھے۔ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد بھی جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔
ان حالات میں مہاجر صوبے کا نعرہ لگانا کیا دانشمندی کی بات ہے؟ کراچی شہر میں بیٹھ کر یہ کہہ دینا آسان ہے کہ کچھ پانے کے لیے قربانیاں تو دینی پڑتی ہیں لیکن ایک لمحے کے لیے کراچی والوں کو اندرون سندھ رہنے والے مہاجر بھائیوں سے بھی رائے لینی چاہیے جو اقلیت بن کر زندگی کے مسائل سے جنگ لڑ رہے ہیں کہ ان کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟
قیادت وہی بہتر ہوتی ہے جو اپنی قوم کو مصیبتوں اور پریشانیوں سے بچا کر رکھے اور مصیبت و پریشانیاں خود جھیلے۔ ایک نیا صوبہ بننے سے مہاجروں کو کیا کیا فوائد اور کیا کیا نقصانات ہوں گے، اس پر مہاجر صوبے کا نعرہ لگانے سے پہلے سوچنے کا کام ہے۔ آئیے غور کریں!