باقی ماندہ وطن پہ رحم کرو

پاکستان بنانے میں بنگالیوں کا بہت بڑا کردار تھا۔ حکمرانوں نے بنگالیوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا۔

دیکھ رہے ہیں! کیا ہو رہا ہے۔ جھوٹ بول بول کر جائیدادیں بنالی ہیں، مکر، فریب سے بھی خوب کام لیا، اب وہ جائیدادیں، مال و متاع، ان کے گلے کا طوق بن گیا ہے۔ اب اگر یہ چاہیں بھی تو واپس پلٹ کر نہیں آسکتے۔ جو جدی پشتی رئیس تھے وہ تو جنرل ایوب کے زمانے میں صرف بیس خاندان تھے، یہی آدم جی، داؤد، ولیکا وغیرہ یا پھر وہ بڑے بڑے زمیندار تھے جنھیں انگریز کی غلامی کے عوض زمینیں دے دی گئیں یا پھر وہ مزاروں کے متولی تھے جو ملکہ برطانیہ کے مزید عروج کے لیے اللہ سے دعائیں مانگتے تھے۔

چاپلوسی، ضمیر فروشی، عیاشیوں کے سامان مہیا کرنا، انھی حرکتوں سے ہزاروں خاندان بنتے گئے اور آج بیس بائیس خاندان بیس بائیس لاکھ خاندان بن گئے ہیں۔ پاکستان کی آبادی 22 کروڑ ہے۔ آبادی کا 10 فیصد یہ 26 لاکھ خاندان ہیں۔ جو ملک کے سیاہ و سفید کے مالک و مختار بنے بیٹھے ہیں۔

جو انگریز کے سامنے جھک گئے، انگریز کے اپنی سرزمین پر قبضے کو قبول کرلیا، وہ خاندان پاکستان میں حکومت سنبھالنے کے حق دار ٹھہرے اور دوسرے وہ لوگ پیدا ہوگئے کہ جنھوں نے انگریزوں کے ان غلاموں کے آگے سر جھکا دیے۔ اور یوں وہ مراعات، انعام و اکرام کے حق دار ٹھہرے۔ اونچی ملازمتیں انھیں دی گئیں۔ اچھی رہائشیں دی گئیں، اعلیٰ و ارفع زندگی فراہم کی گئی۔ یہ وہ طبقہ تھا جو پڑھے لکھے، باعلم لوگوں پر مشتمل تھا، ان پر نوازشات کی بارش کی گئی اور یہ ان میں بہہ گئے۔ ان پڑھے لکھے باعلم لوگوں کے نیچے بھی ایک جم غفیر تھا۔

یہ لوگ بھی پڑھے لکھے تھے مگر ذرا معاشی طور پر کمزور تھے۔ یہ کمزور لوگ، ان نوازشات کی بارش والے طبقے سے چمٹ گئے اور کلرک بن گئے۔ جن کے ہاتھوں میں قلم تھا وہ ریڈیو پاکستان چلے گئے یا صحافی بن گئے اور ان کے نیچے دستکار تھے، مزدور تھے، ہاری تھے۔ جو سب سے اوپر والا طبقہ تھا یعنی حکمران اور ان کے حاشیہ بردار وہ خوب مال بناتے رہے، لوٹتے رہے، پھلتے پھولتے رہے۔ ان کے فیض یافتہ بڑے سرکاری افسر بھی اس لوٹ مار میں شامل رہے اور نچلے، کچلے ہوئے لوگ یہی کلرک، مزدور، دیہاڑی دار، ریڑھی، ٹھیلے والے سرمایہ داروں، افسروں کی جھڑکیاں کھاتے رہے۔

گالیاں سنتے رہے اور سانس لیتے رہے۔ مقتدر قوت کا جو کام تھا، وہ اسے چھوڑ کر بیرکوں سے نکل آئی۔ ملک لوٹنے والوں کو اس کی ضرورت تھی، انگریزوں کے آگے سر جھکانے والے بڑے بڑے زمینداروں، علما، پیر فقیر (چند کو چھوڑ کر) سب لوٹ مار میں شامل ہوگئے۔ یہی لوگ اقتدار پر قابض تھے۔ دوسری قوت بھی کیوں پیچھے رہتی، سو پہلے میجر جنرل اسکندر مرزا آئے، پھر ایوب خان آئے، پھر یحییٰ خان آئے، پھر ضیا الحق آئے اور پھر پرویز مشرف آئے۔

اب ''لٹیرے'' جس مقام پر ہیں ان کی واپسی ممکن نہیں ہے۔ ان کا لوٹا ہوا مال، جائیدادیں، ان کی مجبوری بن گئی ہیں۔ وہ جان دے دیں گے مگر لوٹا ہوا مال واپس نہیں کریں گے۔ جھوٹ بولنا اپنے اپنے لیڈروں کے قصیدے پڑھنا ان کی برائیوں کی پردہ پوشی کرنا، ان کو صاف شفاف بناکر پیش کرنا یہ تمام حرکتیں ان کی زندگی بن چکی ہیں۔

دیکھیں 56 فیصد ملک علیحدہ ہوکر بنگلہ دیش بن گیا۔ یہ ملک کو ادھ موا کرنے والے یہی ''لٹیرے'' تھے۔ جب پاکستان ٹوٹ رہا تھا تو یہی ''لٹیرے'' میدانوں میں، سڑکوں پر ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر عوام کو گمراہ کر رہے تھے، جان بوجھ کر حالات و واقعات کو غلط رنگ دے رہے تھے، آٹے میں نمک کے برابر چند ہی لوگ تھے جو سچ بول رہے تھے، یہی ''غدار'' کہلانے والے، ولی خان، غوث بخش بزنجو، عبدالحمید جتوئی، محمود الحق عثمانی اور پنجاب سے حبیب جالب، ملک غلام جیلانی اور علما کرام میں مولانا شاہ احمد نورانی و دیگر۔

پاکستان بنانے میں بنگالیوں کا بہت بڑا کردار تھا۔ حکمرانوں نے بنگالیوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا۔ بانیان پاکستان کے ہر اول دستے کو ذلیل و خوار کیا اور نتیجہ، ملک ٹوٹ گیا، بنگلہ دیش بن گیا۔ اچھا ہوا وہ الگ ہوگئے، غالب نے کہا تھا:

وفا کیسی، کہاں کا عشق، جب سر پھوڑنا ٹھہرا


تو پھر اے سنگ دل، تیرا ہی سنگِ آستاں کیوں ہو

مودی وزیراعظم ہندوستان نے دنیا کو بتادیا۔ ''مکتی باہنی کو ہم نے بنایا، بنگلہ دیش کو ہم نے بنایا۔'' جب آپ اندر سے کمزور ہوں گے تو بیرونی مداخلت ہوگی۔

ہم اب بھی نہیں سدھرے اور نہ ہی ہم سدھر سکتے ہیں، یہاں ہر شخص، ہر ادارہ خود کو ہی پاکستان سمجھتا ہے۔ اگر کسی شخص کے خلاف بات کی جائے تو وہ کہتا ہے یہ پاکستان کے خلاف بات ہے۔ یہی حال اداروں کا ہے۔ پنجاب میں بہت کچھ بن گیا، اسلام آباد سے جنوبی پنجاب تک۔ پتھر، کنکریٹ، لوہا، خوب استعمال ہوا، پل، سڑکیں، ٹرانسپورٹ، حتیٰ کہ لاہور شہر میں ریل گاڑی بھی چل گئی۔

شہباز شریف نے بہت زبردست کام کیا اور ان پر کرپشن بھی کہیں ثابت نہیں ہوئی۔ یہ سب بہت خوب، مگر پنجاب میں خونخوار، زمینداروں کی خونخواریاں آج بھی جاری ہیں۔ غریب بھوکے مر رہے ہیں، لاکھوں بچے تعلیم سے محروم ہیں، عوام کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں، اسپتالوں کا نظام آج بھی معیاری نہیں۔ اپنے سندھ کا حال کیا پوچھتے ہو، یہاں تو ہر طرف بربادی ہی بربادی ہے۔ کراچی شہر کا سیوریج نظام وہی پرانا ہی چل رہا ہے۔ جو اب مر چکا ہے۔

پورے شہر کے سیوریج نظام کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ پورا شہر کراچی ادھڑا ہوا ہے۔ انھی ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر چل کر شہری جا آ رہے ہیں، نالے کوڑے کرکٹ سے بھرے ہوئے ہیں، یہ کوڑا کرکٹ ہم عوام ان نالوں میں ڈالتے ہیں، پانی کی مین لائنیں اکثر پھٹتی رہتی ہیں۔ کراچی کے شہریوں کو پانی نہیں ملتا۔ کے الیکٹرک والے لوڈ شیڈنگ کر رہے ہیں اور اوپر والے اللہ تعالیٰ نے بھی درجہ حرارت 40 ڈگری کر رکھا ہے۔ سنا ہے یہ درجہ حرارت 43تک جائے گا ''ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا''

قصہ مختصر یہ کہ 70 سال کی لوٹ مار سے لٹیروں نے جو مال جمع کیا ہے وہ ایک دھیلا بھی نہیں دیں گے۔ وہ جو مشہور نعرہ ہے بس وہی واحد حل نظر آرہا ہے ''حق مانگنا بے کار ہے حق چھین لیا جائے''

یہی انقلاب ہوگا۔ جالب نے بھی کہا۔ مگر یہ ظالم نہیں ڈرے:

ظالمو! تم خدا سے کچھ تو ڈرو

باقی ماندہ وطن پہ رحم کرو
Load Next Story