اگلا منتخب وزیر اعظم کون ہو سکتا ہے
ایسی کمزور حکومت آج گئی کل گئی کے مصداق۔ کیا عمران خان ایک کمزور وزیر اعظم بن سکتے ہیں۔
یہ سوال اہم نہیں ہے کہ ملک کا عبوری وزیر اعظم کون ہو گا۔ وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر کے درمیان ملاقاتیں کامیاب یا ناکام ہو جائیں اس کا بھی ملکی سیاست پر کوئی اثر نہیں۔ شاید کسی کو یاد بھی نہیں کہ گزشتہ انتخابات کے موقع پر ملک کا عبوری وزیر اعظم کون تھا۔ نجم سیٹھی کا نام بھی 35 پنکچر کی وجہ سے یاد رہ گیا۔ اس لیے یہ اہم نہیں ہے۔ اہم ہے کہ عام انتخابات کے بعد ملک کا اگلا وزیر اعظم کون ہو گا۔عمران خان یا شہباز شریف یا کوئی نیا سنجرانی ۔
دوستوں کی رائے یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کو کمزور کرنے کا عمل جاری ہے۔ وفاداریاں تبدیل کرائی جا رہی ہیں لیکن ٹوٹنے اور کمزور ہونے کا یہ عمل اتنا برق رفتار نہیں ہے کہ پارٹی ختم ہی ہوکر گیم سے آؤٹ ہو جائے۔ مسلم لیگ (ن) بہر حال اگلی گیم میں نظر آرہی ہے۔ سمجھدار لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ کیا نواز شریف کو اس لیے اقتدار سے نکالا گیا ہے کہ دوبارہ اس کا کوئی وفادار اس کرسی پر آکر بیٹھ جائے لہذا کچھ بھی ہو جائے اب نواز شریف کا وفادار وزارت عظمیٰ کی کرسی پر دوبارہ نہیں بیٹھ سکے گا۔
ادھر بلا شبہ عمران خان کی بہت مدد کی جا رہی ہے۔ مختصر عرصے میں مختلف جماعتوں سے سو لوگ تحریک انصاف میں شامل کرا دیے گئے ہیں۔ ان میں کچھ جیتنے والے گھوڑے ہیں،کچھ درمیانے درجے کے لیکن جیت سکنے والے گھوڑے ہیں،کچھ صرف نام کے بڑے گھوڑے ہیں۔ جو ڈراینگ روم سجانے کے ہی کام آسکتے ہیں۔ لیکن ابھی تحریک انصاف کی حرص پوری نہیں ہوئی ہے۔ آپ اندازہ لگائیں کہ کس قدر کمزور اور چھوٹی جماعت تھی کہ سو لوگ شامل ہونے کے بعد بھی اس کی کمزوری دور نہیں ہوئی۔ عمران خان کی مثال تو اس سپہ سالار کی ہے جسے اپنی فوج اور اپنے قوت بازو پر کوئی اعتماد نہیں ہے، بس وہ چاہتا ہے کہ دشمن کی ساری فوج اسے مل جائے دشمن کو نہتا کر دیا جائے تب ہی وہ یہ جنگ جیت سکتا۔
لیکن اتنا سب کچھ ہو جانے کے بعد بھی تاحال ملک میں ایسی سیاسی فضا نہیں بن سکی ہے کہ اگلا وزیر اعظم عمران خان ہے۔ خود عمران خان کی جماعت کو ابھی تک ابہام ہے۔ عمران خان وزیر اعظم ہیں، یہ آواز ابھی تک نقارہ خلق نہیں بن سکی ہے۔کلین سویپ والی پوزیشن نہیں ہے۔ اس ضمن میں کیا رکاوٹیں ہیں اس پر الگ بحث کی جا سکتی ہے لیکن تحریک انصاف سادہ اکثریت بھی حاصل کرتی نظر نہیں آرہی ہے۔
عجیب بات ہے کہ جو دوست عمران خان کی دن رات مدد کر رہے ہیں، لوگ لا کر دے رہے ہیں، ان ہی کے حوالے سے یہ رائے بھی ہے کہ وہ عمران خان کو وزیر اعظم نہیں دیکھنا چاہتے۔ ڈیزائن یہی ہے کہ بس ایک محدود حد تک تحریک انصاف میں ہوا بھری جائے گی لیکن اتنی نہیں کہ اکیلی حکومت بنا لے۔ وہ مرکزی حکومت بنانے کے لیے محتاج رہے گی۔
ایسی کمزور حکومت آج گئی کل گئی کے مصداق۔ کیا عمران خان ایک کمزور وزیر اعظم بن سکتے ہیں۔ ان کی طبعیت اس کی اجازت نہیں دیتی۔ وہ تو چند ماہ بھی مشکل سے نکال سکیں گے۔ ان کے مضبوط وزیر اعظم بننے کے امکانات کم ہیں اور کمزور وہ بن نہیں سکتے۔
یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ جب کوئی بھی جماعت اس پوزیشن میں نہیں ہو گی کہ اکیلی حکومت بنا سکے تب ہی تو دوستوں کا کھیل شروع ہو گا۔ وہ پنجاب سے ایک نیا سنجرابی سامنے لا سکیں گے۔اس کی تیاری ہو رہی ہے۔ لیکن پنجاب سے یہ سنجرانی کون ہو گا؟
بیچارے جنوبی پنجاب محاذ والے تو آدھے راستے میں ہی دم توڑ گئے اور تحریک انصاف میں چلے گئے۔ اب ان کا چانس ختم ہو گیا ہے۔ بظاہر پنجاب میں کوئی سنجرانی نظر نہیں آ رہا، میچ سیاسی جماعتوں کے درمیان ہی ہے۔ کیا پیپلزپارٹی وزارت عظمیٰ کی گیم میں ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ وزارت عظمیٰ آصف زرداری کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔
وہ ''دوستوں'' کے ساتھ اپنی دوستی کو پکا کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔وہ اپنا چیئرمین سینیٹ بنوا سکتے تھے لیکن انھوں نے اسی دوستی کے لیے قربانی دی ہے۔ وہ اگلا وزیر اعظم بنوانے میں مدد گار تو ہو ںگے لیکن شاید وہ خود یا پیپلز پارٹی ابھی امیدوار نہیں ہے۔ وہ بلاول کے لیے راہیں ہموار کر رہے ہیں۔ وہ قربانی دے کر دوستی پکی کرنے کے موڈ میں ہیں۔ جیسے عمران خان سینیٹ میں سنجرانی کو لانے میں پیش پیش تھے، اسی طرح کسی نئے سنجرابی کو وزیر اعظم بنوانے میں زرداری پیش پیش ہو سکتے ہیں۔
آصف زرداری مرکز میں قربانی دے کر پنجاب میں کچھ حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔وہ جان چکے ہیں کہ بلاول کی سیاست تب تک مکمل نہیں ہوتی جب تک پنجاب میں پیپلزپارٹی کی بحالی ممکن نہیں ہوتی۔ وہ پنجاب میں بریک تھرو چاہتے ہیں لیکن کیسے؟ یہ ابھی واضح نہیں۔ وزارت اعلیٰ ممکن نظر نہیں آرہی۔ لیکن ایسا لگ رہاہے کہ گورنری اور وزارت اعلیٰ کے درمیان وہ کچھ حا صل کرنا چاہتے ہیں جس سے پیپلزپارٹی پانچ سال پنجاب میں اپنی بحالی کی گیم چلا سکے۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ بلاول کے وزیر اعظم بننے میں پیپلزپا رٹی کی پنجاب میں خراب صورتحال سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
اب ایک ہی سوال باقی رہ گیا ہے کہ شہباز شریف کے کیا چانسز ہیں۔ اب تک وہ ٹھیک کھیل رہے تھے ۔ نواز شریف کے ساتھ اگلی صفوں میں تھے نہ ہی ان کے خلاف اگلی صفوں میں تھے۔ وہ چوہدری نثار کی حد تک نہیں گئے تھے اور شاہد خاقان عباسی بھی نہیں بنے تھے۔ یہ ایک بہترین حکمت عملی تھی۔ وہ دونوں طرف قابل قبول بن رہے تھے۔ لیکن نواز شریف کے متنازعہ انٹرویو نے جہاں شہباز شریف کے لیے مشکلات پیدا کی ہیں ۔ لیکن اس انٹرویو کے بعد مسلم لیگ (ن) کے اندر شہباز شریف کی سوچ اور حمایت میں کئی گناہ اضافہ ہوا ہے۔
اب وہ اس سے کتنا فائدہ اٹھا سکتے ہیں، یہ الگ بات ہے لیکن انھیں اپنی لیڈر شپ اور اپنی سوچ واضح کرنے کا ایک موقع تو ملا ہے۔ شہباز شریف کسی متنازعہ نعرہ پر الیکشن لڑنے پر تیار نظر نہیں آرہے ہیں۔وہ سمجھ رہے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کو اپنی کارکردگی کی بنیاد پر الیکشن لڑنا چاہئے۔
لیکن شہباز شریف کے راستے میں بھی بہت سی رکاوٹیں ہیں۔ خود نواز شریف سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ نواز شریف انھیں مکمل کمان منتقل ہی نہیں کر رہے۔ یہ صدارت آدھا تیتر اور آدھا بٹیر بن گئی ہے۔ چلیں نواز شریف تو ایک طرف مریم نواز بھی بطور پارٹی صدر ان کی اطاعت نہیں کر رہی ہیں۔ شاہد خاقان عباسی بھی رکاوٹ نظرآ رہے ہیں، دوستوں کا آشیر باد بھی رکاوٹ ہے۔ دوست کہتے ہیں کہ پہلے نواز شریف کی سیاست کو disown کرو پھر بات ہو گی۔
بھائی کہتا ہے کہ پہلے آشیر باد لو پھر کمان دوںگا۔خطرہ یہ ہے کہ پہلے آپ، پہلے آپ کی گردان میں ٹرین نہ چھوٹ جائے۔ اس لیے اگر شہباز شریف کو وزارت عظمیٰ کی گیم میں رہناہے تو بند خول سے باہر آنا ہو گا۔ اپنی سو چ اور ایجنڈا واضح کرنا ہو گا۔ اس کے لیے وقت کم ہے۔