چہرہ روشن باطن تاریک تر
کرناٹک اسمبلی کے کُل منتخب ارکان میں سے پچاس فیصد لوگ وہ آئے ہیں جن کا بنیادی پیشہ ہی سماج دشمنی اور جُرم ہے۔
بھارتی سکھ اب پچھتاوے اور افسوس میں ہاتھ مَل رہے ہیں۔ ویسے تو پچھلے 70برسوں ہی سے بھارتی سکھ کمیونٹی اکثریتی اور غالب ہندوؤں کے بہیمانہ اور ناانصافی پر مبنی سلوک سے نالاں چلے آرہی ہے لیکن اب تو حد ہی ہو گئی ہے۔جب سے نریندر مودی بھارتی سنگھاسن پر بیٹھے ہیں، بھارتی مسلمانوں کے ساتھ بھارتی سکھوں کی بھی جان شکنجے میں جکڑ دی گئی ہے۔
نریندر مودی کی دونوں محبوب پارٹیاں، بی جے پی اور آر ایس ایس، پہلے ''گھر واپسی'' کے نعرے پر بھارتی مسلمانوں کو دھمکاتے ہُوئے کہہ رہی تھیں کہ چونکہ اُن کے آباؤ اجداد ہندو تھے، اس لیے اب وہ پھر ہندو مَت قبول کرکے دوبارہ ''اپنے گھر'' واپس آ جائیں۔
یہ تحریک بڑے زوروں سے چلائی گئی۔ مسلمان شدید دباؤ میں آئے تو سہی لیکن بھارتی مسلمانوں کے ایمانی قلعے میں شگاف نہ ڈالا جا سکا۔ وہ جابر بھارتی اکثریتی ہندوؤں کے ہاتھوں قتل بھی ہُوئے، اُنہیں ملازمتوں سے نکالا گیا، اُن کا ناطقہ بند کرنے کے لیے اُنہیں سماجی مقاطعے کا بھی سامنا کرنا پڑا، بھارتی مسلمانوں پر ہر شعبہ حیات میں عرصہ حیات تنگ کیا گیا لیکن آفرین ہے بھارتی مسلمانوں کے مستحکم ایمان پر کہ منتقم مزاج ہندو شورہ پشت عناصر اُنہیں اپنی طرف مائل کر سکے نہ اُنہیں اپنے ڈَھب پر لانے میں کامیاب ہو سکے۔
جن بدترین حالات سے بھارتی مسلمان گزرے تھے، اب وہی ہتھکنڈے بھارتی سکھوں پر بھی آزمائے جانے لگے ہیں۔ بی جے پی اور آر ایس ایس کے سرکاری مراعات یافتہ گماشتے انڈین سکھ کمیونٹی کو بھی زور زبردستی یہ سبق پڑھانے لگے ہیں کہ چونکہ اُن کے آباؤ اجداد ہندو تھے، اس لیے اب وقت آ گیا ہے کہ وہ سکھ مذہب چھوڑ کر دوبارہ ہندو بن جائیں اور ''اپنے گھر'' کے باسی بن جائیں۔ بھارت کی ساری سکھ برادری کو مگر بھارتی متعصب اور بنیاد پرست ہندوؤں کی جانب سے یہ ''گھر واپسی'' کا سبق قبول نہیں ہے۔
کینیڈا، برطانیہ، آسٹریلیا اور امریکا میں کئی ملین کی تعداد میں بسنے والے سکھوں نے بھارتی ہندوؤں کی اِس تحریک کے خلاف سخت مزاحمت کی ہے۔ کینیڈا اور برطانیہ میں بھارتی ہائی کمیشنوں کے سامنے سکھوں کے جتھوں نے بھارتی حکومت اور نریند مودی کے خلاف سخت احتجاجی مظاہرے بھی کیے ہیں۔ نریندر مودی اور اُن کے بنیاد پرست معتمد ہندو ساتھیوں کے کانوں پر مگر جُوں تک نہیں رینگ رہی۔
انڈین سکھ کمیونٹی کے ساتھ ساتھ ساری دنیا میں بسنے والے سکھ بھارتی مذہبی و مقتدر ہندوؤں کے اِس جبر پر ناراض بھی ہیں اور نالاں بھی۔ یقیناً اُن سب کو اِن پُر آزمائش لمحات میں اب قائد اعظم محمد علی جناح بار بار یاد آ رہے ہوں گے۔ تقسیمِ ہند سے قبل قائد اعظم علیہ رحمہ نے دُور اندیشی کا ثبوت دیتے ہُوئے(متحدہ) ہندوستان کی سکھ قیادت کو پیشکش کی تھی کہ (۱) اگر وہ تقسیمِ پنجاب کے مطالبے سے دستکش ہو جائیں (۲)اگر وہ پاکستان کی حقیقت کو دل سے تقسیم کر کے ساتھ آ ملیں، تو وہ پاکستان میں سکھوں کو اُن کی مرضی کے مطابق ہر قسم کی آزادی بھی دیں گے اور اُنہیں تمام مطلوبہ حقوق بھی دیے جائیں گے۔
متحدہ ہندوستان کے سکھوں کی یہ اجتماعی بد بختی تھی کہ قائد اعظم محمد علی جناح علیہ رحمہ کی طرف سے اخلاص اور کھلے دل کے ساتھ پیش کی گئی تمام آفرز کو سکھ قیادت نے مسترد کر دیا۔ یہ سکھ قیادت(ماسٹر تارا سنگھ، مہاراجہ پٹیالہ ہر دیپ سنگھ اور گیانی کرتار سنگھ) ہندو اور کانگریس قیادت کی انگلیوں پر ناچ رہی تھی۔ اگر ہم ڈاکٹر اشتیاق احمد کی شاندار کتابThe Punjab : Bloodied , Partitioned and Cleansedکا مطالعہ کریں تو یہ حقائق مزید روشن اور واضح ہو کر سامنے آتے ہیں۔
مہاراجہ پٹیالہ ہردیت سنگھ کی یادداشتیں بھی اِس تاریخی امر کی شہادت اور گواہی دیتی ہیں کہ قائد اعظم کی طرف سے ماسٹر تارا سنگھ، ہر دیت سنگھ اور گیانی کرتار سنگھ کو ایسی پیشکش کی گئی تھی۔ سکھوں کی بدقسمتی تھی کہ اُنہیں اپنی برادری میں ایسی قیادت نصیب ہُوئی جنھوں نے اپنے ذاتی مفادات اور ضِد پر پوری سکھ قوم کے اجتماعی مفادات کو قربان کر دیا۔ آج جب کہ بھارتی مقتدر ہندوؤں کی طرف سے اُنہیں زور زبردستی '' گھر واپسی''کے نام پر دوبارہ ہندو بنانے کی سازشیں بروئے کار ہیں تو اُنہیں قائد اعظم کی پیشکش رہ رہ کر یاد آتی ہے۔
یہ یاد اب بھارتی سکھوں کے لیے سوہانِ رُوح بن گئی ہے اور وہ اُٹھتے بیٹھتے آہیں بھرتے ہیں اور کہتے ہیں: کاش، ہمارے لیڈرز مسلمانوں کے سب سے بڑے لیڈر کی پیشکش قبول کرلیتے تو آج ہمیں یہ دن بھی نہ دیکھنا پڑتا اور نہ ہی ہمیں ''آپریشن بلیو اسٹار'' کے نام پر بھارتی فوجوں کے ہاتھوں ذلّت اُٹھانا پڑتی اور نہ ہی اِس خونی آپریشن میں ہمارے سب سے مقدس مقام (ہرمندرصاحب) کو ہندو بھارتی فوجیوں کے بوٹوں تلے روندا جاتا۔
آپریشن بلیو اسٹار میں بھارتی فوج نے ہرمندر صاحب میں عبادت کی غرض سے آئے ہزاروں سکھوں کو بندوقوں کی گولیوں اور توپوں کے گولوں سے بھُون ڈالا تھا۔ بھارتی سکھوں کے دل اس یاد سے اب بھی لخت لخت ہیں لیکن بیچارے مجبور ہیں اور اکثریتی بھارتی ہندوؤں کے خلاف زبان نہیں کھول سکتے۔ اندرا گاندھی کا قتل ہُوا تو بھی بھارت بھر میں سکھوں کی شامت آ گئی تھی۔ ہزاروں بیگناہ سکھ تہ تیغ کردیے گئے تھے۔
چند ہفتے قبل ہی سکھ رُوحانی رہنما، گرمیت رام رحیم سنگھ، کے مبینہ گناہوں کی سزا پورے بھارت کے سکھوں کو یوں دی گئی کہ گرمیت کو تو بیس سال کی سزا ملی ہی لیکن بھارتی سکھوں کی ہر بھارتی کوچہ و بازار میں تذلیل کی گئی ہے۔ بھارتی عدالتوں نے گرمیت کے معاملے میں بھی امتیاز برتا۔ گرمیت رام رحیم سنگھ پر بھی وہی الزامات تھے جو الزامات ہندوؤں کے ایک نام نہاد رُوحانی رہنما، بابا آسا رام،پر عائد کیے گئے تھے لیکن حیرانی کی بات ہے کہ بھارتی ججوں نے بابا آسا رام کو نسبتاً کم سزا سنائی۔ ایسے میں بھارتی سکھ خود کو شدید دباؤ اور امتیاز ی ماحول میں گھِرا ہُوا کیوں نہ پائیں اور محسوس کریں؟
یوں لگتا ہے جیسے وہ بھارت جسے کبھی ''عظیم سیکولر ملک'' اور ''دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت'' ہونے کا دعویٰ تھا، نریندر مودی کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد اِس بھارت نے ایک ایسے عفریت کی شکل اختیار کر لی ہے جہاں غیر ہندوؤں اور اُن کے انسانی حقوق کی کوئی حیثیت نہیں رہی ہے۔ ہندوستان کو دانستہ صرف ہندوؤں کی سرزمین کی شکل دی جارہی ہے۔ بھارت اِن اقدامات سے قوموں کی برادری میں رسوا اور ذلیل ہُوا ہے۔
کرپشن اور بدیانتی نے ہندوؤں کے مذہبی گیروے رنگی چولے میں پناہ لے لی ہے۔ اِس کا تازہ مظاہر اور ثبوت بھارتی ریاست، کرناٹک، کے صوبائی انتخابات میں حال ہی میں سامنے آئے ہیں۔ دنیا دنگ ہے کہ مودی خود اور اُن کی مقتدر پارٹی اخلاقیات اور قانون کے جنازے کس دھوم سے نکال رہے ہیں۔ مئی2018ء کے دوسرے ہفتے ہی کرناٹک کے مذکورہ ریاستی انتخابات اختتام کو پہنچے ہیں۔ اب تو نتائج بھی سامنے آچکے ہیں جن میں زیادہ سیٹیں اگرچہ نریندر مودی کی پارٹی(بی جے پی) کو ملی ہیں لیکن وہ اکیلے حکومت بنانے کی اہل نہیں بن سکی ہے۔
بھارت کے نامور اور جری اخبار نویسوں نے تحقیقات اور اعدادوشمار کی زبان میں یہ شرمناک انکشافات کیے ہیں کہ کرناٹک کی اسمبلی میں تازہ تازہ جیت کر آنے والے اکثریتی ارکانِ اسمبلی جرائم پیشہ ہیں: قتل، بھتہ خوری، اغوا کاری، اسمگلنگ، ڈاکہ زنی میں سہولت کاری اور بینک لُوٹنا اِن کا باقاعدہ پیشہ رہا ہے۔
ایک مشہور بھارتی انگریزی ویب اخبارنے اپنی تازہ رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ کرناٹک اسمبلی میں جیت کر آنے والے 103 بی جے پی کے ارکان میں سے 42 فیصد مستندجرائم پیشہ افراد ہیں۔
یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ اِسی ریاستی اسمبلی کے تازہ انتخابات میں کانگریس کے 78جیتنے والے ارکان میں سے23فیصد اور جنتا دَل کے کامیاب ہونے والے 37امیدواروں میں سے 11فیصد باقاعدہ جرائم پیشہ ہیں یا بڑے بڑے جرائم پیشہ گروہوں سے اُن کا تعلق ہے۔ گویا کہا جا سکتا ہے کہ کرناٹک اسمبلی کے کُل منتخب ارکان میں سے پچاس فیصد لوگ وہ آئے ہیں جن کا بنیادی پیشہ ہی سماج دشمنی اور جُرم ہے۔ یہ ہے مودی صاحب کا شائننگ انڈیا اور یہ ہے وہ ملک جسے ''دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت'' کہا جاتا ہے۔
چہرہ روشن ، مگر باطن تاریک تر۔ کرناٹک اسمبلی کے اِن نَو منتخب جرائم پیشہ ارکان)جنہیں مبینہ طور پر مشہور ہندو مذہبی شخصیات کی سرپرستی بھی حاصل ہے) میں سے تین کے بارے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اُن میں سے ایک کے اثاثے ایک ہزار کروڑ روپے سے زائد، دوسرے صاحب کے640کروڑ روپے سے زائد اور تیسرے کے اثاثے 460کروڑ روپے سے بھی زیادہ ہیں ۔