بند الماری

پوری قوم ایک ذہنی الماری میں بندہے جس کے دروازے مضبوطی سے بندکردیے گئے ہیں۔


[email protected]

مائیکل اسٹون بڑے آرام سے بات کررہاتھا۔بزرگ برطانوی گوراکتناعمررسیدہ ہوگا،کم ازکم میرے اندازہ سے باہر تھا۔شائد ستربرس ۔نہیں، میں غلطی پرتھا، مائیکل اسٹون کی عمرپچانوے برس کی تھی۔تقریباًایک صدی کے واقعات اور مصیبتوں کاعینی شاہد۔ملاقات بالکل اتفاقیہ سی تھی۔ چار برس پہلے کینیاگیاہواتھا۔

شوق وہی پرانا،جانوروں اور پرندوں کودیکھنا،عادات کوسمجھنا،ان سے سیکھنا۔ویسے یہ بہت مشکل شوق ہے۔گھنٹوں خاموش رہ کرمجسمہ کی طرح پرندوں پرغور کرنا۔ان کے معمولات پر سوچنا ذہن کی نئی کھڑکیوں کے پَٹ کھول دیتا ہے۔نیروبی سے دوگھنٹے کی مسافت پربڑی بڑی جھیلیں ہیں۔ ان کے کناروں پربہت سی ہٹس بنی ہوئی تھیں۔یہ ایک طرح کے ہوٹل ہیں۔جوپچاس سے سوایکڑ پرمحیط تھے۔

ایک منزلہ ہٹ میں ایک دوسرے سے کافی فاصلے پررہائشی کمرے بنے ہوئے تھے۔دنیاکی ہرجدت وہاں موجود تھی۔بار روم،لکڑی کابناہوا ڈائننگ روم اوراستقبالیہ کمرے۔ ہٹ کے ساتھ دریائی گھوڑوں سے بھری ہوئی جھیل تھی۔سورج ڈھلنے کے بعد،درجنوں دریائی گھوڑے پانی سے باہرآکر خشکی پرسفرکرناشروع کردیتے تھے۔

یہ غیرمعمولی فطرت کا نظارہ دنیا میں کہیں بھی دیکھنے کونہیں ملتا۔دراصل ہرہٹ، جانوروں اورآزاد پرندوں کا وسیع وعریض چڑیاگھرتھا۔اس طرح کی سیاحی نعمت افریقہ کے چندملکوں کے سواکہیں بھی نہیں ہے۔

دس بجے صبح وہاں پہنچا توکافی روم میں اسٹون بیٹھا ناشتہ کررہاتھا۔کافی پیتے پیتے محسوس کیاکہ اسٹون مجھے غور سے دیکھ رہاہے۔بات چیت شروع ہوگئی۔پہلاسوال وہی تھاجو پوری دنیا میں پوچھاجاتاہے۔کہاں سے آئے ہو۔ جواب بھی سادہ ہے، پاکستان سے۔میراسوال بھی روایتی تھا۔کہاں سے آئے ہو۔مائیکل کچھ دیرکے لیے خاموش ہوگیا۔

جواب بے حددلچسپ تھا۔برصغیرسے تعلق ہے۔بمبئی میں پیداہوا۔وہاں والدکپڑے کاکام کرتے تھے۔تعلیم حاصل کرنے کے لیے دہلی اور پھر لاہور آگیا۔ لاہورکانام سن کرمیں چونک گیا۔لاہورسے پڑھے ہوئے ہیں۔

ہاں! میں گورنمنٹ کالج لاہورمیں تعلیم حاصل کرتارہا۔اس تعارف کے بعدہم دونوں ایک ہی میزپربیٹھ گئے۔اسٹون ناشتے میں پھل کھا رہا تھااورمیں حسبِ عادت بلیک کافی پی رہاتھا۔ایک تو پردیس، دوسراافریقہ،تیسرانیروبی سے گھنٹوں مسافت پرایک ایسا گورامل گیاجسکومیرے شہرسے نسبت تھی۔کمال ہوگیا۔ مائیکل اسٹون بلاتکلف بول رہاتھا۔قابل رشک وقت۔ دو تین منٹ کے بعداس نے شستہ اُردوبولنی شروع کردی۔

میں حیرت زدہ رہ گیا۔گورے کوصاف اُردوبولتے دیکھ کر ہمیشہ حیرت ہوتی ہے۔ویسے کمال بات ہے۔پاکستان کا امیرطبقہ اپنے گھروں میں بچوں کوصرف اورصرف انگریزی زبان سکھاتے ہیں۔اُردومیں نہ بولناملک کے امیرطبقے سے وابستگی کی نشانی سمجھی جاتی ہے۔کئی بارتودکھ ہوتاہے کہ تین چارسال کابچہ یابچی اُردوکاکوئی لفظ زبان پرلاتاہے توماں باپ کوغصہ آجاتاہے۔نوکروں سے پوچھاجاتاہے کہ یہ لفظ کہاں سے سیکھا۔پھرانگریزی زبان مزیداہتمام سے سکھانے کاعمل شروع ہوجاتاہے۔

بات اسٹون کی ہورہی تھی۔اس کے اُردوبہرحال مجھے بے حداچھی لگی۔تقسیم برصغیرکے بعد اسٹون لندن چلاگیا۔وہاں اپنے آبائی کام یعنی کپڑے کے بیوپارمیں جت گیا۔مگردل اُچاٹ ساہوگیا۔چالیس برس پہلے کینیامنتقل ہوگیا۔یہاں آکراس نے مقامی لڑکی سے شادی کی اورسیاحت کاکاروبارشروع کردیا۔جھیل کے کنارے ہٹ کامالک وہی تھا۔پورے کینیامیں اس کے پانچ ہوٹل تھے۔پورے افریقہ میں سترہ ہوٹلوں کامالک تھا۔

اب کاروبار،اولاددیکھ رہی تھی۔مائیکل سے بڑی دلچسپ باتیں ہونے لگیں۔اسے برصغیرکی موجودہ سیاست اورمسائل کا بھرپورادراک تھا۔اچنبھے کی بات تھی کہ ایک ایساخطہ جس میں صرف اوائل عمری میں رہا۔اس میں اتنی دلچسپی کیسے برقرارہے۔سوال دراصل میرے چہرے پرہی لکھا ہوا تھا۔ ابھی بولنے کی نوبت ہی نہ آئی تھی کہ مائیکل ہنسناشروع ہوگیا۔

مسکراکرکہنے لگا، لگتاہے کہ تم کچھ پوچھناچاہتے ہو۔ خودہی جواب دینے لگ گیا۔انسان جہاں بھی پیداہوتاہے یاجوان ہوتاہے،وہ علاقے اس کے اندرجذب ہوجاتے ہیں۔ تقسیم سے پہلے کالاہورمیرے بدن میں گرم خون بن کردوڑ رہاہے۔اُردوزبان میں نے بچپن ہی میں سیکھ لی تھی۔

گفتگوآگے بڑھی تولامحالہ،ایک ایسے نکتہ پربات چیت شروع ہوگئی جوبے حداہم ہے۔یعنی پاکستان کے اندورنی حالات۔۔یہ سوال اسٹون سے دس پندرہ منٹ کے بعدکرلیاکہ پاکستان کے مسائل کے متعلق آپ کیا سوچتے ہواورکیاان کاواقعی کوئی حل ہے بھی کہ نہیں۔اسٹون بولنا شروع ہوگیا۔پہلی بات تویہ کہ آپ لوگ نہ سچ بول سکتے ہو نہ سچ سن سکتے ہو۔جھوٹ آپ لوگوں کی گھٹی میں ہے۔

سچ بولنے کی ہمت نہ عوام میں ہے اورنہ ہی قائدین میں۔ دیکھا جائے تودونوں فریق بڑی عیاری اورکامیابی سے ایک دوسرے کوبیوقوف بنارہے ہیں۔ محمدعلی جناح آپ لوگوں کا پہلااورآخری لیڈرتھاجوسچ بولنے کی جرات رکھتاتھا۔اس فقرے کے بعداسٹون چپ ہوگیا۔ ڈاکٹر،کیاتمہیں پتہ ہے کہ جناح اتناباکردارکیوں تھااورتم اتنا مختلف کیسے ہو۔ میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔وجہ یہ کہ اس کی اعلیٰ تعلیم برطانیہ میں ہوئی۔

وہ برطانوی ثقافت کی اچھائیوں کواپنے اندرجذب کرگیا۔پھرلندن ہی میں اس نے جہاںنوکری کی،وہ لوگ بھی برطانوی تھے۔نوجوان ذہن میں ہمارے ملک کی سیاست کی خوبیوں نے جگہ بنالی۔اس کے اندرسے ڈر ختم ہوگیا۔سمجھ آگئی کہ اس کے حقوق کسی بھی انگریزیابڑے آدمی سے کم نہیں۔یہ خوبیاں اسے برصغیرمیں صرف کتابوں میں ملتیں،مگرلندن میں اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھاکہ ہائوس آف کامنزمیں سیاستدانوں کوکس طرح ہردم بے رحمانہ احتساب کاسامناکرناپڑتاہے۔

اگروزیراعظم جیسا بلندسطح کاانسان بھی غلط بیانی کرے،توعوام اسے گھربھیجنے کی قوت رکھتے ہیں۔پھرجناح نے جوانی سے یہ سیکھ لیاکہ مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے انسان ایک سماج میں کس درجہ پُرسکون زندگی گزارسکتے ہیں۔یہ درست ہے کہ جناح کاتعلق برصغیرسے تھا۔مگراس نے برطانوی معاشرے کی بہت سی خوبیاں سمیٹ لی تھیں۔کیونکہ پاکستان جذباتی قوم ہے۔اس لیے یہ بات کھل کرتمہارے ملک میں نہیں کی جاسکتی۔

اسٹون مسلسل بول رہاتھا۔جھوٹ نے تمہاری سوسائٹی میں اس مضبوطی سے پنجے گاڑلیے ہیں کہ شائداب تمہارے ملک میں سچ کی گنجائش ہی نہیں ہے۔پاکستان کے عام لوگوں کے مسائل کیاہیں؟مناسب سی تعلیم، روزگار، درمیانے درجے کی صحت کی سہولتیں اورمعمولی سی صفائی ستھرائی۔یہ مسائل تومغربی قوموں نے دوسے تین سوسال پہلے ختم کردیے تھے۔

سوچنے کی بات ہے کہ تم لوگ ان معمولی سے مسائل میں کیوں پھنس کررہ چکے ہو۔بلکہ منجمد ہوچکے ہو۔اسٹون کی باتوں میں ایک توازن بلکہ جادوسا تھا۔ تمہارے حکمرانوں کوکسی نے روکاہے کہ وہ عام لوگوں کے لیے بہترین تعلیم کابندوبست نہ کریں۔اعلیٰ درجے کے اسپتال نہ بنائیں۔ملک میں ہنرمندوں کے ذریعے اَن گنت روزگار پیدا نہ کریں۔مسئلہ یہ ہے کہ تمہارے حکمران جانتے ہیں کہ اگروہ یہ مسائل حل کردینگے توقوم کا شعوربڑھ جائیگا۔

وہ بنیادی مسائل سے نکل کراپنے حقوق مانگے گی۔انصاف مانگے گی۔عزت مانگے گی۔ لہذاتمہارے مقتدرلوگوں نے جان بوجھ کرنظام کو بہتر نہیں ہونے دیا۔یہ سلسلہ دہائیوں سے جاری ہے اور اگلے آنے والے اَن گنت برسوں میں بھی جاری رہیگا۔

دوسری بات، حکمران فلاح وبہبودکے لیے تمہارے سے ہی لیے گئے ٹیکس کے پیسوں سے چند ادنیٰ منصوبے بناتے ہیں اورپھرہروقت کارنامے بیان کرتے ہیں کہ جیسے عام لوگوں پربہت بڑااحسان ہو۔ ایسی حرکتیں افریقی ممالک کے حکمران تک نہیں کرتے مگریہ کھیل تمہارے ملک میں بلاروک ٹوک جاری ہے۔

اسٹون نے اپنے لیے جوس منگوایا۔ میں نے بھی کافی کادوسراکپ منگوالیا۔ پھرکہنے لگا،کہ تمہاراایک اوربہت سنجیدہ مسئلہ ہے۔تم تمام لوگ تاریخ کے قیدی ہو۔ ماضی سے نکل کرحال میں زندہ رہنے کی تربیت ہی نہیں دی گئی۔ درست ہے کہ تمہاری تاریخ بے حددرخشاں تھی مگر اسکو گزرے ہوئے سات آٹھ سوسال ہوچکے ہیں۔

کوئی بندہ یہ نہیں کہتا،کہ بھئی روایات سے ناطہ جوڑکراپنے موجودہ معاملات کومحنت اور دیانت سے درست کرو۔تم لوگوں نے ماضی کواپنے سر پر اس درجہ سوارکرلیاہے کہ حال کوبے معنی سمجھناشروع ہوچکے ہو۔یہ رویہ تمہاری پسماندگی کو مزید بڑھاوا دے رہاہے ۔ تمہیں تواب اس چیزکی بھی اجازت نہیں کہ اپنے سنگین ترین مسائل کوجدیدطریقے سے سوچ بھی سکو۔

پوری قوم ایک ذہنی الماری میں بندہے جس کے دروازے مضبوطی سے بندکردیے گئے ہیں۔اس پر درجنوں فکری قفل لگائے گئے ہیں۔صرف اس لیے کہ تازہ ہوا کا کوئی جھونکا تم تک نہ پہنچ جائے اورتم منجمدکے منجمدہی رہو۔ اُٹھتے ہوئے کہنے لگا۔میری باتیں ایک بزرگ کی حیثیت سے سوچناضرور۔ اگر ہو سکے توالماری کے قفل توڑکر علم کے تازہ جھونکوں کو لوگوں تک پہنچنے دینا۔سب ٹھیک ہوجائیگا! سب کچھ!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں