رمضان میں پاکستان بہت یاد آتا ہے
مختلف ممالک میں رہائش پذیر پاکستانی خواتین وہاں رمضان کیسے گزارتی ہیں
رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی خواتین کے رومز مرہ کے معمولات میں کچھ تبدیلی آجاتی ہے۔ سحر و افطار کی تیاری، اہل خانہ کی پسند کے پکوان بنانا، پڑوسیوں اور رشتے داروں میں افطاری کا سامان بھجوانا وغیر، ہ مگر یہ بڑھتی ذمے داریاں بھی گراں نہیں گزرتیں جب رب کریم کی خوش نودی پیش نظر ہو۔ ماحول بھی مزاج پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔
مختلف مساجد سے آنے والی اذانوں کی آوازیں، تلاوتِ قرآن کریم، اذکار اور ذکر الٰہی سے سماعتیں انسان کی روحانی کیفیت کو تبدیل کردیتی ہیں۔ رمضان المبارک کی یہ حقیقی روح وطن عزیز میں بسنے والوں کو پردیس میں بہت یاد آتی ہے۔ وہاں بسنے والی پاکستانی خواتین رمضان المبارک میں کس طرح سحر و افطار کی تیاری کرتی ہیں اور ان کے کیا معمولات ہوتے ہیں، اس کے متعلق مختلف ممالک میں رہائش پذیر چند خواتین کی آراء ذیل میں پیش کی جارہی ہیں۔
٭عمارہ عندلیب (سعودب عرب)
عمارہ سعودی عرب کے شہر جدہ میں مقیم ہیں اور ایک ٹیچر ہیں۔ سعودی عرب میں رمضان المبارک کے متعلق انھوں نے بتایاکہ یہاں سب سحری کرکے فجر کی نماز کے بعد سوجاتے ہیں اور پھر اکثر لوگ عصر کے قریب اٹھتے ہیں۔ یہاں سب خریداری وغیرہ رات کو ہی ہوتی ہے۔ دن کے اوقات میں زیادہ تر بازار سب بند ہوتے ہیں۔ رمضان المبارک میں اسکولوں کی چھٹیاں ہوتی ہیں۔ یہاں عرب گھرانوں میں زیادہ تر سحری میں شورما کی طرح کا سینڈوچ کھایا جاتا ہے اور ہم جیسے پاکستانی انڈین، بنگالی لوگ پراٹھا، روٹی سالن یا چاول کھاتے ہیں۔ افطاری میں عرب گھرانوں میں جو کا دلیہ لازمی ہوتا ہے اور ساتھ سموسہ رول وغیرہ۔ پاکستان اور یہاں کے رمضان میں یہ فرق محسوس ہوتا ہے کہ وہاں حقیقی معنیٰ میں روزہ رکھنے کا پتا چلتا ہے، جب کہ یہاں پورا دن ایئر کنڈیشنڈ میں رہنا اور دن کے اوقات میں کوئی سرگرمی نہیں ہوتی اور افطاری کے بعد ساری رات عبادت، خریداری اور ملنا ملانا سحری تک جاری رہتا ہے۔ پاکستان کی بہت سی چیزیں یاد آتی ہیں، خاص طور پر عید کا دن بہت یاد آتا ہے۔
٭عفت (کینیڈا)
عفت کینیڈا میں مقیم ہیں۔ کینیڈا میں سحر و افطار کے متعلق انھوں نے بتایا کہ سحری کے وقت، تہجد پھر سحری میں پراٹھا، انڈا، چائے اور پھر نماز فجر کی مسجد میں ادائیگی، افطار رات کے نو بجے سب ساتھ مل کر بیٹھتے ہیں۔ دعائیں کرتے ہیں، افطاری میں چھولے، دہی بڑے، سموسے، پکوڑے، فروٹ چاٹ، میٹھا اور کھانا ہوتا ہے۔ پھر مغرب کی نماز مسجد میں ادا کی جاتی ہے۔ بہ فضلِ خدا رمضان المبارک میں پاکستان کی طرح یہاں بھی سب کچھ ہوتا ہے سوائے اس کے کہ پاکستان میں سب روزہ رکھتے ہیں اور کینیڈا میں مسلمان بچے اور بڑے روزہ رکھتے ہیں۔ روزے میں معمول کی زندگی ہوتی ہے۔ بڑے اسٹورز میں رمضان سیل ہوتی ہے، رمضان میں ہر وہ چیز جو مسلمان استعمال کرتے ہیں، رعایتی داموں پر دست یاب ہوتی ہیں۔ کینیڈا میں رمضان میں بہت سکون ہوتا ہے۔ عید کی تیاری ابتدا میں ہوجاتی ہے۔ تراویح اور عید کی نماز کے لیے تمام گھر والے جاتے ہیں اور تراویح کے بعد کھانے کا کوئی سلسلہ نہیں ہوتا۔ سب سوجاتے ہیں اور سحری پر جاگتے ہیں۔
٭ شکیلہ خلصائی (برطانیہ)
شکیلہ برطانیہ کے شہر ہولیوٹن (Luton) میں مقیم ہیں۔ وہ ایک خاتون خانہ ہیں۔ انھوں نے بتایاکہ روزے کا دورانیہ یہاں خاصا طویل ہوتا ہے۔ اندازاً رات تین بجے سے لے کر رات کے ساڑھے نو بجے تک روزہ ہوتا ہے۔ رمضان یہاں دیگر مہینوں کی طرح ہوتا ہے، کیوں کہ اسکول، امتحان، ملازمت کے اوقات کار کچھ بھی تبدیل نہیں ہوتا، سوائے اس کے کہ مدرسہ اور اسلامی اسکول کے اوقاتِ کار میں تبدیلی آتی ہے۔ سحری اور افطاری اہل خانہ کی پسند پر منحصر ہے۔ کم و بیش پاکستان کی طرح ہی اہتمام ہوتا ہے۔ یہاں اکثر مساجد میں افطار کا اہتمام بھی ہوتا ہے اور خواتین کے لیے مسجد میں علیحدہ انتظام ہوتا ہے۔ تراویح میں بھی یہی انتظام ہوتا ہے۔ سچ بات یہ ہے کہ رمضان کا مزہ پاکستان یا کسی بھی اسلامی ملک میں الگ ہی ہے، کیوں کہ مخصوص ماحول ہوتا ہے۔ لوگ روزہ دار ہوتے ہیں۔ آس پاس ایک ماحول ہوتا ہے جس کا اپنا مزہ ہے۔ میری خواہش ہے کہ میں ہر سال رمضان کا مہینہ پاکستان میں گزارسکوں۔ پاکستان میں سب طرف گھروں میں مستحق لوگوں کی آمد، ان کی حاجت زکوٰۃ کے ذریعے پوری کرنا، رشتے داروں اور ہم سایوں کو افطار دینا اور افطار ڈنرز اور افطار پارٹیز، شب قدر میں جاگنا، عبادت کرنا وغیرہ سب کا مزہ پاکستان میںہی ہے۔
٭صدف آصف (آسٹریلیا)
صدف آسٹریلیا کے شہر میلبرن میں مقیم ہیں۔ معروف افسانہ نگار اور ناول نگار ہیں۔ انھوں نے بتایاکہ یہاں کا نظام بہت مختلف ہے، کیوں کہ یہاں ہمارا روزہ اکثر ملازمت کے اوقات کے دوران کھلتا ہے۔ پانچ سوا پانچ بجے یہاں مغرب ہوجاتی ہے تو میں اپنے ساتھ ایک پانی کی بوتل اور کھجور لے کر بیٹھتی ہوں اور یہاں جو پاکستانی گھرانے ہیں، ان میں ہر ہفتہ اتوار افطار پارٹیاں ہوتی ہیں۔ سارا رمضان افطار پارٹیاں بہت زیادہ ہوتی ہیں اور کھانا بے تحاشا ہوتا ہے۔ دو تین ڈشز تو ہوتی ہی ہیں، بلکہ لوگ کئی قسم کے سالن بناتے ہیں اور کئی قسم کے دیگر پکوان مثلاً چکن تکہ، بوٹی، بروسٹ وغیرہ، لیکن یہاں پر یہ ہے کہ لوگ ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں اور عام طور پر ایک ایک ڈش بانٹ لیتے ہیں اور وہ اپنے ساتھ لے کر آتے ہیں۔ پاکستان اور یہاں کے ماحول میں بہت زیادہ فرق ہے، کیوں کہ یہاں پاکستان کی طرح تسلسل اور یک سوئی سے عبادات نہیں ہو نہیں پاتیں جس طرح اپنے وطن میں ہوتی ہیں، کیوں کہ ملازمت پیشہ افراد کے ملازمت کے اوقاتِ کار مختلف ہوتے ہیں۔ یہاں پر لوگوں کو رمضان، عید کا پتا نہیں ہوتا۔ یہاں کے لوگ تو اپنے حساب سے زندگی بسر کرتے ہیں۔ پاکستان میں جیسے سب کھانا پینا یعنی ہوٹل وغیرہ سب کو پسند ہوتے ہیں، مگر یہاں تو ویسے ہی چلتا رہتا ہے، اس لیے پاکستان والی بات نہیں محسوس ہوتی جیسے پاکستان میں اس ایک مہینے کا اچھا احساس ہوتا ہے۔ یہاں پر مخصوص علاقوں میں مساجد ہیں جہاں تراویح ہوتی ہے لیکن پاکستان میں جس طرح مسجدوںکی آوازیں آتی تھیں، وہ یاد آتا ہے اور سب سے زیادہ یاد وہ منظر آتا ہے جب ہم سب مل کر بیٹھتے تھے۔ ایک لمبا دسترخوان لگتا تھا اور سب بیٹھ کر ایک ساتھ افطاری کرتے تھے، یہاں تو عموماً میں کھجور اور پانی کی بوتل لے کر جاتی ہوں، بلکہ یہاں ایک عیسائی سہیلی ہے سامنے کافی شاپ ہے، وہاں سے میں کافی لیتی تھی تو وہ اتنا پریشان ہوئی، کہنے لگی کہ تم ایک پورے مہینے تک کچھ نہیں کھائوگی، کہیں بیمار نہ پڑجائو۔ پھر مجھ سے روزہ افطار کا وقت معلوم کرتی ہے اور مجھے اس وقت چاکلیٹ ملک لاکر دیتی ہے۔
٭ شانی ناصر (ملائیشیا)
شانی ناصر ملائیشیا میں مقیم ہیں۔ انھوں نے بتایاکہ جتنے خاندانوں کو میں جانتی ہوں یا جنھوں نے ہمیں افطار پر مدعو کیا، اس سے جتنا جان پائی ہیں اس کے مطابق سحری کے لیے یہ لوگ فرائیڈ رائس یا چاول کے ساتھ مرغی یا مچھلی کا سالن کھاتے ہیں اور گلاب کا شربت ہر کھانے کے ساتھ ہوتا ہے۔ افطار میں کھجور، شربت، چاول تلی ہوئی مرغی یا مچھلی، کچے کیلے کے پکوڑے، یہ لوگ کھانے کی تیاری سے زیادہ عبادت کا اہتمام کرتے ہیں۔ خواتین بھی نماز اور تراویح کے لیے مسجد میں جاتی ہیں۔ چاند رات کو کثیر تعداد میں بسکٹ اور کوکیز بنائے جاتے ہیں اور اہل خانہ اور دوست احباب میں تقسیم کیے جاتے ہیں۔ عید کی چھٹیوں میں اپنے اپنے آبائی علاقوں میں چلے جاتے ہیں۔ پاکستان کی طرح یہاں بھی لوگ اپنے رشتے داروں سے ملنے جاتے ہیں۔ ان کو بھی مدعو کرتے ہیں۔ جمعے اور عید کے دن یہاں سب لوگ اپنا روایتی لباس پہنتے ہیں اور اکثر خواتین ایک جیسے رنگ کے لباس زیب تن کرتی ہیں۔ پاکستان کے دہی بڑے، چھولے، سموسے، چاول اور اسی طرح کے چٹخارے دار کھانے! ہائے نہ پوچھیں کتنے یاد آتے ہیں، اگر یہاں مل بھی جائیں تومزے کے نہیں ہوتے۔
٭ماریہ علی (جرمنی)
ماریہ علی جرمنی کے شہر ڈورٹ منڈ میں مقیم ہیں اور ایک خاتون خانہ ہیں۔ انھوں نے بتایاکہ جیسے پاکستان میں سحر و افطار کا اہتمام ہوتا ہے، ایسے ہی یہاں بھی گھروں میں اپنی مدد آپ کے تحت ہوجاتا ہے، کیوں کہ یہاں دیسی کھانا باہر عام نہیں ملتا اور حلال حرام والا مسئلہ بھی ہوتا ہے۔ پاکستان میں ہر طرف رمضان کی خوش بو ہی ہوتی ہے اور اذانوں کی آوازیں زبردست ہوتی ہیں، لیکن یہاں وہ مزہ نہیں آتا۔ مسجدوں سے اذانوں کی آوازیں نہیں آتیں، پاکستان کی کوئی ایک چیز یاد آتی ہو تو بتائوں ناں، ہائے اپنے وطن جیسا کھانا کہیں نہیں ملتا۔ پردیس پردیس ہے، یہاں اپنے ملک والی بات نہیں۔ اذان کی آواز کا تو پہلے ہی بتاچکی ہوں، بہت یاد آتی ہے۔
٭ عائشہ بلال (اسپین)
عائشہ بلال اسپین کے شہر بارسلونا میں مقیم ہیں۔ وہ ایک طالبہ ہیں۔ انھوں نے بتایاکہ یہاں ہم رمضان میں صبح سحری کرکے سوجاتے ہیں اور دو بجے اٹھ کے نماز ظہر پڑھ کر نماز عصر تک قرآن شریف یا اذکار پڑھتے ہیں۔ سات بجے عصر ہوتی ہے اور عصر کے بعد افطاری کی تیاری اور پھر 9 بج کر بیس منٹ پر افطاری کرنے کے بعد چہل قدمی (واکنگ) جاگنگ وغیرہ کرتے ہیں۔ گیارہ بجے عشا اور تراویح پڑھتے ہوئے رات کے ایک یا دو بج جاتے ہیں۔ پھر سحری کی تیاری اور سحری کرکے سوجاتے ہیں۔ سحری میں تھوڑا کھانا کھانا پڑتا ہے، مثلاً پراٹھا یا جو کا دلیہ وغیرہ اور افطاری میں پھل، دودھ یا جوسز وغیرہ لیکن پوری رات جاگتے رہنے کی وجہ سے کچھ نہ کچھ کھاتے رہتے ہیں۔ پاکستان میں بہت اچھا ماحول ہوتا ہے، نہ صرف گھر میں بلکہ گھر سے باہر بھی۔ ویسے تو اب پاکستان گئے ہوئے دس سال ہوگئے ہیں۔ لیکن میرا خیال ہے کہ اب بھی وہاں سب کچھ ویسا ہی ہوگا، یہاں صرف گھر میں ماحول ہوتا ہے ویسے یونیورسٹی، کالج، ملازمت سب جگہ جانا ہوتا ہے اور وہاں پتا ہی نہیں چلتا کہ رمضان کا مہینہ ہے اور اذان کی آواز بھی نہیں آتی۔ موبائل فون پر اذان سے افطاری اور سحری کرنی پرتی ہے۔ یہاں سترہ سے اٹھارہ گھنٹے کا روزہ ہوتا ہے، پاکستان کا وہ ماحول جو رمضان میں ہوتا ہے، یہاں بہت یاد آتا ہے۔
مختلف مساجد سے آنے والی اذانوں کی آوازیں، تلاوتِ قرآن کریم، اذکار اور ذکر الٰہی سے سماعتیں انسان کی روحانی کیفیت کو تبدیل کردیتی ہیں۔ رمضان المبارک کی یہ حقیقی روح وطن عزیز میں بسنے والوں کو پردیس میں بہت یاد آتی ہے۔ وہاں بسنے والی پاکستانی خواتین رمضان المبارک میں کس طرح سحر و افطار کی تیاری کرتی ہیں اور ان کے کیا معمولات ہوتے ہیں، اس کے متعلق مختلف ممالک میں رہائش پذیر چند خواتین کی آراء ذیل میں پیش کی جارہی ہیں۔
٭عمارہ عندلیب (سعودب عرب)
عمارہ سعودی عرب کے شہر جدہ میں مقیم ہیں اور ایک ٹیچر ہیں۔ سعودی عرب میں رمضان المبارک کے متعلق انھوں نے بتایاکہ یہاں سب سحری کرکے فجر کی نماز کے بعد سوجاتے ہیں اور پھر اکثر لوگ عصر کے قریب اٹھتے ہیں۔ یہاں سب خریداری وغیرہ رات کو ہی ہوتی ہے۔ دن کے اوقات میں زیادہ تر بازار سب بند ہوتے ہیں۔ رمضان المبارک میں اسکولوں کی چھٹیاں ہوتی ہیں۔ یہاں عرب گھرانوں میں زیادہ تر سحری میں شورما کی طرح کا سینڈوچ کھایا جاتا ہے اور ہم جیسے پاکستانی انڈین، بنگالی لوگ پراٹھا، روٹی سالن یا چاول کھاتے ہیں۔ افطاری میں عرب گھرانوں میں جو کا دلیہ لازمی ہوتا ہے اور ساتھ سموسہ رول وغیرہ۔ پاکستان اور یہاں کے رمضان میں یہ فرق محسوس ہوتا ہے کہ وہاں حقیقی معنیٰ میں روزہ رکھنے کا پتا چلتا ہے، جب کہ یہاں پورا دن ایئر کنڈیشنڈ میں رہنا اور دن کے اوقات میں کوئی سرگرمی نہیں ہوتی اور افطاری کے بعد ساری رات عبادت، خریداری اور ملنا ملانا سحری تک جاری رہتا ہے۔ پاکستان کی بہت سی چیزیں یاد آتی ہیں، خاص طور پر عید کا دن بہت یاد آتا ہے۔
٭عفت (کینیڈا)
عفت کینیڈا میں مقیم ہیں۔ کینیڈا میں سحر و افطار کے متعلق انھوں نے بتایا کہ سحری کے وقت، تہجد پھر سحری میں پراٹھا، انڈا، چائے اور پھر نماز فجر کی مسجد میں ادائیگی، افطار رات کے نو بجے سب ساتھ مل کر بیٹھتے ہیں۔ دعائیں کرتے ہیں، افطاری میں چھولے، دہی بڑے، سموسے، پکوڑے، فروٹ چاٹ، میٹھا اور کھانا ہوتا ہے۔ پھر مغرب کی نماز مسجد میں ادا کی جاتی ہے۔ بہ فضلِ خدا رمضان المبارک میں پاکستان کی طرح یہاں بھی سب کچھ ہوتا ہے سوائے اس کے کہ پاکستان میں سب روزہ رکھتے ہیں اور کینیڈا میں مسلمان بچے اور بڑے روزہ رکھتے ہیں۔ روزے میں معمول کی زندگی ہوتی ہے۔ بڑے اسٹورز میں رمضان سیل ہوتی ہے، رمضان میں ہر وہ چیز جو مسلمان استعمال کرتے ہیں، رعایتی داموں پر دست یاب ہوتی ہیں۔ کینیڈا میں رمضان میں بہت سکون ہوتا ہے۔ عید کی تیاری ابتدا میں ہوجاتی ہے۔ تراویح اور عید کی نماز کے لیے تمام گھر والے جاتے ہیں اور تراویح کے بعد کھانے کا کوئی سلسلہ نہیں ہوتا۔ سب سوجاتے ہیں اور سحری پر جاگتے ہیں۔
٭ شکیلہ خلصائی (برطانیہ)
شکیلہ برطانیہ کے شہر ہولیوٹن (Luton) میں مقیم ہیں۔ وہ ایک خاتون خانہ ہیں۔ انھوں نے بتایاکہ روزے کا دورانیہ یہاں خاصا طویل ہوتا ہے۔ اندازاً رات تین بجے سے لے کر رات کے ساڑھے نو بجے تک روزہ ہوتا ہے۔ رمضان یہاں دیگر مہینوں کی طرح ہوتا ہے، کیوں کہ اسکول، امتحان، ملازمت کے اوقات کار کچھ بھی تبدیل نہیں ہوتا، سوائے اس کے کہ مدرسہ اور اسلامی اسکول کے اوقاتِ کار میں تبدیلی آتی ہے۔ سحری اور افطاری اہل خانہ کی پسند پر منحصر ہے۔ کم و بیش پاکستان کی طرح ہی اہتمام ہوتا ہے۔ یہاں اکثر مساجد میں افطار کا اہتمام بھی ہوتا ہے اور خواتین کے لیے مسجد میں علیحدہ انتظام ہوتا ہے۔ تراویح میں بھی یہی انتظام ہوتا ہے۔ سچ بات یہ ہے کہ رمضان کا مزہ پاکستان یا کسی بھی اسلامی ملک میں الگ ہی ہے، کیوں کہ مخصوص ماحول ہوتا ہے۔ لوگ روزہ دار ہوتے ہیں۔ آس پاس ایک ماحول ہوتا ہے جس کا اپنا مزہ ہے۔ میری خواہش ہے کہ میں ہر سال رمضان کا مہینہ پاکستان میں گزارسکوں۔ پاکستان میں سب طرف گھروں میں مستحق لوگوں کی آمد، ان کی حاجت زکوٰۃ کے ذریعے پوری کرنا، رشتے داروں اور ہم سایوں کو افطار دینا اور افطار ڈنرز اور افطار پارٹیز، شب قدر میں جاگنا، عبادت کرنا وغیرہ سب کا مزہ پاکستان میںہی ہے۔
٭صدف آصف (آسٹریلیا)
صدف آسٹریلیا کے شہر میلبرن میں مقیم ہیں۔ معروف افسانہ نگار اور ناول نگار ہیں۔ انھوں نے بتایاکہ یہاں کا نظام بہت مختلف ہے، کیوں کہ یہاں ہمارا روزہ اکثر ملازمت کے اوقات کے دوران کھلتا ہے۔ پانچ سوا پانچ بجے یہاں مغرب ہوجاتی ہے تو میں اپنے ساتھ ایک پانی کی بوتل اور کھجور لے کر بیٹھتی ہوں اور یہاں جو پاکستانی گھرانے ہیں، ان میں ہر ہفتہ اتوار افطار پارٹیاں ہوتی ہیں۔ سارا رمضان افطار پارٹیاں بہت زیادہ ہوتی ہیں اور کھانا بے تحاشا ہوتا ہے۔ دو تین ڈشز تو ہوتی ہی ہیں، بلکہ لوگ کئی قسم کے سالن بناتے ہیں اور کئی قسم کے دیگر پکوان مثلاً چکن تکہ، بوٹی، بروسٹ وغیرہ، لیکن یہاں پر یہ ہے کہ لوگ ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں اور عام طور پر ایک ایک ڈش بانٹ لیتے ہیں اور وہ اپنے ساتھ لے کر آتے ہیں۔ پاکستان اور یہاں کے ماحول میں بہت زیادہ فرق ہے، کیوں کہ یہاں پاکستان کی طرح تسلسل اور یک سوئی سے عبادات نہیں ہو نہیں پاتیں جس طرح اپنے وطن میں ہوتی ہیں، کیوں کہ ملازمت پیشہ افراد کے ملازمت کے اوقاتِ کار مختلف ہوتے ہیں۔ یہاں پر لوگوں کو رمضان، عید کا پتا نہیں ہوتا۔ یہاں کے لوگ تو اپنے حساب سے زندگی بسر کرتے ہیں۔ پاکستان میں جیسے سب کھانا پینا یعنی ہوٹل وغیرہ سب کو پسند ہوتے ہیں، مگر یہاں تو ویسے ہی چلتا رہتا ہے، اس لیے پاکستان والی بات نہیں محسوس ہوتی جیسے پاکستان میں اس ایک مہینے کا اچھا احساس ہوتا ہے۔ یہاں پر مخصوص علاقوں میں مساجد ہیں جہاں تراویح ہوتی ہے لیکن پاکستان میں جس طرح مسجدوںکی آوازیں آتی تھیں، وہ یاد آتا ہے اور سب سے زیادہ یاد وہ منظر آتا ہے جب ہم سب مل کر بیٹھتے تھے۔ ایک لمبا دسترخوان لگتا تھا اور سب بیٹھ کر ایک ساتھ افطاری کرتے تھے، یہاں تو عموماً میں کھجور اور پانی کی بوتل لے کر جاتی ہوں، بلکہ یہاں ایک عیسائی سہیلی ہے سامنے کافی شاپ ہے، وہاں سے میں کافی لیتی تھی تو وہ اتنا پریشان ہوئی، کہنے لگی کہ تم ایک پورے مہینے تک کچھ نہیں کھائوگی، کہیں بیمار نہ پڑجائو۔ پھر مجھ سے روزہ افطار کا وقت معلوم کرتی ہے اور مجھے اس وقت چاکلیٹ ملک لاکر دیتی ہے۔
٭ شانی ناصر (ملائیشیا)
شانی ناصر ملائیشیا میں مقیم ہیں۔ انھوں نے بتایاکہ جتنے خاندانوں کو میں جانتی ہوں یا جنھوں نے ہمیں افطار پر مدعو کیا، اس سے جتنا جان پائی ہیں اس کے مطابق سحری کے لیے یہ لوگ فرائیڈ رائس یا چاول کے ساتھ مرغی یا مچھلی کا سالن کھاتے ہیں اور گلاب کا شربت ہر کھانے کے ساتھ ہوتا ہے۔ افطار میں کھجور، شربت، چاول تلی ہوئی مرغی یا مچھلی، کچے کیلے کے پکوڑے، یہ لوگ کھانے کی تیاری سے زیادہ عبادت کا اہتمام کرتے ہیں۔ خواتین بھی نماز اور تراویح کے لیے مسجد میں جاتی ہیں۔ چاند رات کو کثیر تعداد میں بسکٹ اور کوکیز بنائے جاتے ہیں اور اہل خانہ اور دوست احباب میں تقسیم کیے جاتے ہیں۔ عید کی چھٹیوں میں اپنے اپنے آبائی علاقوں میں چلے جاتے ہیں۔ پاکستان کی طرح یہاں بھی لوگ اپنے رشتے داروں سے ملنے جاتے ہیں۔ ان کو بھی مدعو کرتے ہیں۔ جمعے اور عید کے دن یہاں سب لوگ اپنا روایتی لباس پہنتے ہیں اور اکثر خواتین ایک جیسے رنگ کے لباس زیب تن کرتی ہیں۔ پاکستان کے دہی بڑے، چھولے، سموسے، چاول اور اسی طرح کے چٹخارے دار کھانے! ہائے نہ پوچھیں کتنے یاد آتے ہیں، اگر یہاں مل بھی جائیں تومزے کے نہیں ہوتے۔
٭ماریہ علی (جرمنی)
ماریہ علی جرمنی کے شہر ڈورٹ منڈ میں مقیم ہیں اور ایک خاتون خانہ ہیں۔ انھوں نے بتایاکہ جیسے پاکستان میں سحر و افطار کا اہتمام ہوتا ہے، ایسے ہی یہاں بھی گھروں میں اپنی مدد آپ کے تحت ہوجاتا ہے، کیوں کہ یہاں دیسی کھانا باہر عام نہیں ملتا اور حلال حرام والا مسئلہ بھی ہوتا ہے۔ پاکستان میں ہر طرف رمضان کی خوش بو ہی ہوتی ہے اور اذانوں کی آوازیں زبردست ہوتی ہیں، لیکن یہاں وہ مزہ نہیں آتا۔ مسجدوں سے اذانوں کی آوازیں نہیں آتیں، پاکستان کی کوئی ایک چیز یاد آتی ہو تو بتائوں ناں، ہائے اپنے وطن جیسا کھانا کہیں نہیں ملتا۔ پردیس پردیس ہے، یہاں اپنے ملک والی بات نہیں۔ اذان کی آواز کا تو پہلے ہی بتاچکی ہوں، بہت یاد آتی ہے۔
٭ عائشہ بلال (اسپین)
عائشہ بلال اسپین کے شہر بارسلونا میں مقیم ہیں۔ وہ ایک طالبہ ہیں۔ انھوں نے بتایاکہ یہاں ہم رمضان میں صبح سحری کرکے سوجاتے ہیں اور دو بجے اٹھ کے نماز ظہر پڑھ کر نماز عصر تک قرآن شریف یا اذکار پڑھتے ہیں۔ سات بجے عصر ہوتی ہے اور عصر کے بعد افطاری کی تیاری اور پھر 9 بج کر بیس منٹ پر افطاری کرنے کے بعد چہل قدمی (واکنگ) جاگنگ وغیرہ کرتے ہیں۔ گیارہ بجے عشا اور تراویح پڑھتے ہوئے رات کے ایک یا دو بج جاتے ہیں۔ پھر سحری کی تیاری اور سحری کرکے سوجاتے ہیں۔ سحری میں تھوڑا کھانا کھانا پڑتا ہے، مثلاً پراٹھا یا جو کا دلیہ وغیرہ اور افطاری میں پھل، دودھ یا جوسز وغیرہ لیکن پوری رات جاگتے رہنے کی وجہ سے کچھ نہ کچھ کھاتے رہتے ہیں۔ پاکستان میں بہت اچھا ماحول ہوتا ہے، نہ صرف گھر میں بلکہ گھر سے باہر بھی۔ ویسے تو اب پاکستان گئے ہوئے دس سال ہوگئے ہیں۔ لیکن میرا خیال ہے کہ اب بھی وہاں سب کچھ ویسا ہی ہوگا، یہاں صرف گھر میں ماحول ہوتا ہے ویسے یونیورسٹی، کالج، ملازمت سب جگہ جانا ہوتا ہے اور وہاں پتا ہی نہیں چلتا کہ رمضان کا مہینہ ہے اور اذان کی آواز بھی نہیں آتی۔ موبائل فون پر اذان سے افطاری اور سحری کرنی پرتی ہے۔ یہاں سترہ سے اٹھارہ گھنٹے کا روزہ ہوتا ہے، پاکستان کا وہ ماحول جو رمضان میں ہوتا ہے، یہاں بہت یاد آتا ہے۔