نواز شریف کا حالیہ بیان ملکی سلامتی کے اداروں کو نقصان اور انتخابات میں تاخیر ہو سکتی ہے
آئینی و قانونی ماہرین اور سیاسی تجزیہ نگاروں کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال
NEW YORK:
پاناما لیکس پر آنے والے عدالتی فیصلے کے نتیجے میں نااہل ہونے کے بعد سے سابق وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے مسلسل ملکی اداروں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
حال ہی میں ایک مقامی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے ممبئی حملوں کے حوالے سے متنازعہ باتیں کیں جس پر حسب روایت بھارت نے پاکستان مخالف پراپیگنڈہ شروع کردیا۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی زیر صدارت اس حوالے سے قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلایا گیا جس میں نواز شریف کے بیان کو گمراہ کن قرار دے کر یکسر مسترد کردیا گیا جبکہ نواز شریف نے نہ صرف اس اعلامیہ کو مسترد کردیا بلکہ ڈان لیکس کو بھی درست قرار دے دیا جس کے بعد سے ملکی ماحول کافی کشیدہ ہوچکا ہے۔
مختلف سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کی جانب سے سابق وزیراعظم کے خلاف غداری کے مقدمات درج کروانے کے لیے درخواستیں دائر کی جا چکی ہیں جبکہ مختلف شہروں میں ان کے خلاف ریلیاں بھی نکالی گئی ہیں۔ اس اہم قومی مسئلے کو دیکھتے ہوئے ''سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کا بیانیہ اور اس کے اثرات'' کے حوالے سے ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں آئینی و قانونی ماہرین اور سیاسی تجزیہ نگاروں نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر فاروق حسنات (ماہر امور خارجہ)
آئین پاکستان سب سے بڑی اسٹیبلشمنٹ ہے۔ ہمارے ملک میں گزشتہ دس برسوں سے سیاسی نظام چل رہا ہے، اس دوران پاکستان کو جمہوری اداروں کو مضبوط کرنے کا موقع ملا ۔ سیاسی قیادت کو پارلیمنٹ، صوبائی اسمبلیوں اور سیاسی جماعتوں کو مضبوط کرنا چاہیے تھا مگر انہوں نے ان اداروں کو نظر انداز کیا۔ سیاسی جماعتوں کو موروثی بنادیا گیا اور حالت یہ تھی وزیراعظم ، منتخب نمائندوں کو ملاقات کا وقت نہیں دیتے تھے۔ افسوس ہے کہ وزیراعظم پارلیمنٹ نہیں جاتے تھے یہی عالم وزیراعلیٰ کا تھا جس کے باعث یہ ادارے کمزور ہوئے لیکن اگر ان سیاسی اداروں کو مضبوط کیا جاتا تو آج یہ مسائل درپیش نہ ہوتے۔سیاسی ادارے معاشرے میں توازن پیدا کرتے ہیں لیکن ہمارے سیاستدانوں نے جمہوری اداروں کو خود کمزور کیا ۔ فوج نے تو انہیں نہیں کہا تھا کہ عوام کو بنیادی سہولیات نہ دیں، تعلیم عام نہ کریں، لوڈشیڈنگ ختم نہ کریں، یہ تو ان کی اپنی غلطیاں ہیں مگر یہ الزام دوسرے اداروں پر لگا دیتے ہیں۔ ہمیں اداروں کو کمزور نہیں کرنا چاہیے کیونکہ عدلیہ اور فوج کے بغیر ملک نہیں چل سکتا۔ ہمارے سامنے عراق ، شام، لیبیا اور اردن کی مثال موجود ہے ۔ ان ممالک میں داعش آئی۔ عراق اور شام کی فوج ختم ہو چکی تھی تو وہاں داعش نے تباہی مچائی، لوٹ مار کا بازار گرم کیا اور وہاں خانہ جنگی شروع ہوگئی لیکن لیبیا اور اردن میں فوج اور عدلیہ مضبوط تھی تو وہ تباہی سے بچ گئے۔ ٹرمپ جنونی ہے، اس نے جو کہا کر دکھایا لہٰذا اب نواز شریف کے اس بیان کے بعد بین الاقوامی سطح پر ہمارے لیے مسائل پیدا ہوگئے ہیں۔ سابق وزیراعظم نے دہشت گردی کے حوالے سے خود اقرار کرلیا ہے لہٰذا اب FATF کے اجلاس کے بعد پاکستان کا نام بلیک لسٹ میں شامل ہونے کے امکانات بڑھ گئے ہیں جس کے بعد معاشی، سیاسی اور سکیورٹی کے حوالے سے ہم پر سختیاں آئیں گی ۔ 1970ء کے بعد اب پہلی مرتبہ پاکستان کو شدید خطرات لاحق ہوگئے ہیں، امریکا ہمارے مدارس پر بمباری بھی کرسکتا ہے۔ آئندہ آنے والی عبوری حکومت کو چاہیے کہ اس نقصان پر قابو پائے تاکہ معاملات کو آگے بڑھایا جاسکے۔
محمد مہدی (ماہر امور خارجہ و رہنما پاکستان مسلم لیگ،ن)
ملکی تاریخ میں تقریباََ ہر انتخابات سے پہلے ایسی ہی کشمکش کی صورتحال ہوتی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم ایک دائرے میں گھوم رہے ہیں اور وہی حالات و واقعات چند سال بعد دوبارہ سامنے آجاتے ہیں۔ نواز شریف بچے نہیں ہیں کہ وہ بغیر سوچے سمجھے کوئی بیان دے دیں۔ وہ حکومت میں بھی رہے اور حکومت سے باہر بھی، انہوں نے ہر طرح کے حالات دیکھے ہیں لہٰذا انہیں بخوبی معلوم ہے کہ کیا کہنا ہے۔ نواز شریف نے جو کہا اس طرح کی باتیں پہلے بھی مختلف لوگوں کی جانب سے سامنے آتی رہی ہیں مگر نواز شریف کی اس بات کو ہر ایک نے اپنے اپنے انداز میں پیش کیا۔ مسلم لیگ (ن) میں دھڑے بندی کی افواہیں پھیلائی جارہی ہیں مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ صدر مسلم لیگ (ن) میاں شہباز شریف، وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور چودھری نثار سمیت تمام پارٹی رہنما نواز شریف کو اپنا لیڈر مانتے ہیں اور آج تک کسی نے یہ نہیں کہا کہ وہ نواز شریف کے ساتھ نہیں کھڑا۔ مفروضے پر باتیں ہورہی ہیں کہ نواز شریف عالمی تعاون کیلئے کوششیں کررہے ہیں، ایسا بالکل نہیں ہے بلکہ پاکستان کی عوامی طاقت ان کے ساتھ ہے۔ابھی یہاں کہا گیا کہ نواز شریف مدد حاصل کرنے کیلئے امریکا گئے یہ بالکل غلط ہے۔ الزام لگایا جارہاہے کہ نواز شریف نے اپنے حلف سے غداری کی، سوال یہ ہے کہ اس کا تعین کیسے ہوگا؟ میرے نزدیک اس کے تین طریقے ہیں۔ پہلا یہ کہ نواز شریف کے مطالبے کے مطابق قومی کمیشن بنا دیا جائے جس میں سب پیش ہوں اور فیصلہ ہوجائے۔ نواز شریف کے خلاف عدالت میں درخواستیں جا چکی ہیں لہٰذا دوسرا طریقہ عدالتی فیصلہ ہے جبکہ تیسرا طریقہ عوامی عدالت کا ہے ۔ ملکی سیاست کے حوالے سے ایک بات تو واضح ہے کہ اگر سیاستدانوں کو سیاست کرنے دی گئی تو ملکی معاملات بہتر ہوں گے لیکن اگر نام نہاد نمائندے لائے گئے تو پھر مسائل پیدا ہوں گے۔ انتخابات کے قریب سیاستدان جماعتیں تبدیل کرتے ہیں، چند افراد کا کسی دوسری جماعت میں جانا بھی روایتی ہے، اس میں کوئی پریشانی کی بات نہیں۔حالیہ کشمکش کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ لیڈر تو نواز شریف ہی ہے لیکن بعض طاقتوں کی جانب سے انہیں سیاست سے باہر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے مگر انہیں کامیابی نہیں مل رہی کیونکہ پوری جماعت اپنے قائد کے ساتھ کھڑی ہے۔ایسا پہلے بھی کیا گیا جب جنرل (ر) پرویز مشرف نے صدارتی آرڈیننس کے تحت نواز شریف کو سیاست سے باہر کردیا تو 2001ء سے 2011ء تک شہباز شریف پارٹی کے صدر رہے مگر بعد میں نواز شریف دوبارہ پارٹی کے صدر منتخب ہوگئے ، پھر انہیں پارٹی صدارت سے ہٹا دیا گیا مگر اب بھی پوری پارٹی ان کی قیادت میں کام کررہی ہے۔ اگر شفاف اور بروقت انتخابات ہوئے تو مسلم لیگ (ن) کامیابی حاصل کرے گی اور نواز شریف کے بیانیہ کو عوامی طاقت ملے گی۔ مسلم لیگ (ن) آئین پاکستان اور اس کی پاسداری کرنے والوں کے ساتھ ہے ۔
اظہر صدیق ایڈووکیٹ (ماہر قانون)
عوامی نمائندوں کے صادق اور امین ہونے کے حوالے سے آرٹیکل 62(1)(f) ، پارٹی صدارت کے حوالے سے آرٹیکل 17(2)، بنیادی انسانی حقوق اور فوج کا کردار آئین میں موجود ہے اور جو انہیں تسلیم نہیں کرتا وہ آئین سے غداری کرتا ہے۔ میرے نزدیک آرٹیکل 6 صرف ڈکٹیٹرز پر ہی نہیں بلکہ جمہوری حکمرانوں پر بھی لگنا چاہیے۔ میرا مطالبہ ہے کہ آرٹیکل 6میں ترمیم کی جائے اور عدالتی حکم پر عمل نہ کرنے والے سیاستدانوں پربھی آرٹیکل 6لگایا جائے۔ آرٹیکل 204 سے عدلیہ کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے، یہی وجہ ہے کہ سزا کے ڈر سے لوگ توہین عدالت نہیں کرتے۔ افسوس ہے کہ ہم شخصیات میں پھنسے ہوئے ہیں،ہمیں اس سے باہر نکلنا ہوگا۔ میرے نزدیک آرٹیکل 63(A) آمرانہ ہے جس کے ذریعے پارٹی صدر کو لاتعداد اختیارات دیے گئے ہیں۔ اس خوف کی وجہ سے لوگ اس کے فیصلے سے اختلاف نہیں کرتے اور چپ چاپ تسلیم کر لیتے ہیں۔ آرٹیکل 58(2)(B) کی وجہ سے توازن قائم تھا مگر اب سیاستدانوں کو منتخب ہونے کے بعد 5 سال کیلئے مادر پدر آزادی ہے اور جو جی میں آرہا ہے وہ کررہے ہیں۔ اگر انہیں اسمبلیاں تحلیل ہونے کا ڈر ہوتا تو پھر وہ اس طرح ملک کے ساتھ مذاق نہ کرتے۔ اٹھارویں ترمیم پاکستان کی سالمیت کے خلاف بڑی سازش تھی، صوبوں کو ضرورت سے زیادہ اختیارات دے دیے گئے، اس سے لسانیت کو ہوا ملی اور مستقبل میںشدید مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ 18 ویں ترمیم کے حوالے سے جوڈیشل کمیشن بنایا جائے۔ پاکستان کا جمہوری نظام عوامی نہیں ہے۔ اس نظام میں عام آدمی کی پہنچ ایم این اے تک نہیں ہے لہٰذا وہ وزیراعظم تک کیسے پہنچ سکتا ہے۔ سیاستدانوں نے جو خلاء چھوڑا اس کو عدالت نے پر کیا اور ان کی بیڈ گورننس کا پول کھول دیا جس پر انہیں تکلیف ہورہی ہے۔ آرٹیکل 8 سے 24تک انسانی حقوق جبکہ آرٹیکل 184اور آرٹیکل 199 بنیادی انسانی حقوق کے نفاذ حوالے سے ہیں لہٰذا اگر حکمران عوام کو ان کے آئینی حقوق فراہم نہیں کریں گے تو پھر عدلیہ کو ایکشن لینا پڑے گا۔ نواز شریف کا حالیہ بیان ڈان لیکس 2 ہے کیونکہ اس میں وہی کردار ہیں جو ڈان لیکس ون میں تھے۔ سوال یہ ہے کہ اس کی ضرورت کیوں پیش آئی؟اخباری تراشے شہادت ہوتے ہیں اور دنیا اسے سابق وزیراعظم کے دہشت گردی میں ملوث ہونے کے اقرار کے طور پر دیکھ رہی ہے۔ نواز شریف ریاست کے خلاف بیان دیکر غداری کے مرتکب ہوئے ہیں، اگر یہ بیان جھوٹ ہے تو تعزیرات پاکستان کے آرٹیکل 124(A)کے تحت بغاوت ہے جبکہ آرٹیکل 5 کی خلاف ورزی بھی ہے جس پر آرٹیکل 6لگنا چاہیے۔ اگر نواز شریف کا بیان درست ہے اور یہ خفیہ معلومات تھیں تو پھر ''آفیشل سیکریٹ ایکٹ'' کے تحت ان کے خلاف کارروائی ہوگی لہٰذا دونوں صورتوں میں نواز شریف کو سزا کا سامنا کرنا پڑے گا۔ میرا الیکشن کمیشن سے مطالبہ ہے کہ آئین کے آرٹیکل 17(2) اور الیکشن ایکٹ 2017ء کے تحت مسلم لیگ (ن) کی بطور جماعت رجسٹریشن منسوخ کی جائے۔ نیشنل سکیورٹی کونسل کے اعلامیہ کو نواز شریف نے مسترد کردیا۔ سوال یہ ہے کہ نیشنل سکیورٹی کونسل کے اجلاس کے بعد وزیراعظم نے پنجاب ہائوس جاکر نواز شریف کو کس قانون کے تحت بریفنگ دی۔ وزیراعظم نے حلف توڑا ہے اور وہ اس وقت بطور سہولت کار کام کررہے ہیں۔ نواز شریف، وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور ان کی کابینہ پر بغاوت کے مقدمہ کی درخواست جاچکی ہے، ہم الطاف حسین کی طرز پر نواز شریف کے خلاف کیس تیار کررہے ہیں۔
سلمان عابد (سیاسی تجزیہ نگار)
نواز شریف کے بیانیہ کے حوالے سے بنیادی بات یہ ہے کہ ان کے پاس سیاسی طور پر کیا آپشنز ہیں؟ پہلی یہ کہ وہ تسلیم کرلیتے کہ ان کے پاس فنانشل ٹرانزیکشن کے ثبوت نہیں ہیں جبکہ دوسرا یہ کہ وہ عدلیہ، فوج اور نیب کو شدید تنقید کا نشانہ بنا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے کہ انہیں انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے، عدلیہ اور فوج کا گٹھ جوڑ ہے جبکہ عمران خان بطور سہولت کار کام کررہے ہیںاور یہ مل کر نواز شریف کو دیوار کے ساتھ لگانا چاہتے ہیں ۔ نیب کے چیئرمین کے حوالے سے بھی نواز شریف، وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب کے بیانات آئے کہ ان کی تقرری کے حوالے سے ہم سے غلطی ہوئی ہے۔ یہ بات درست ہے کہ پاکستان کے سیاسی فیصلے سیاسی میدان میں ہونے چاہئیں مگر یہ تو خود نواز شریف نے طے کیا تھا کہ معاملات سڑکوں کے بجائے قانونی طریقے سے حل کیے جائیں اور اب وہ خود اداروں پر تنقید کررہے ہیں۔ پاکستان کے بڑے سٹیک ہولڈرز میں فوج، عدلیہ، بیوروکریسی، نیب، ایف آئی اے شامل ہیں مگر نواز شریف نے ان تمام اداروں کا تماشا بنا کر انہیں سٹیک پر لگا دیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ دھرنے ہمارے خلاف سازش تھے لہٰذا وہ وقت آنے پر درپردہ چہروں کے نام بتائیں گے۔ میرے نزدیک نواز شریف کا بیانیہ عالمی مدد حاصل کرنے کی کوشش ہے،وہ اس کے لیے سعودی عرب، برطانیہ اور امریکا بھی گئے مگر عالمی سطح پر ان کی شنوائی نہیں ہورہی۔ بھارت کا پاکستان کے خلاف یہ بیانیہ ہے کہ پاکستان بطور ریاست ممبئی حملے میں ملوث تھا جبکہ پاکستان یہ کہتا ہے کہ ممکن ہے دہشت گرد یہاں سے گئے ہوں مگر ہماری ریاست اس میں ملوث نہیں ہے، کیس کی پیشرفت میں تاخیر کی وجہ یہ ہے کہ بھارت نے ہمارے ساتھ شواہد کے حوالے سے تعاون نہیں کیا تاہم اب نواز شریف کے اس بیانیہ سے پاکستان دشمن لابی خصوصاََ بھارت کو پاکستان مخالف پراپیگنڈہ کرنے کا موقع مل گیا ہے جس کا ہمیں نقصان ہوگا ۔اب نواز شریف نے ڈان لیکس کے حوالے سے بھی کہا کہ وہ باتیں درست تھیں ۔ مریم نواز نے بھی یہی کہا بلکہ انہوں نے تو سینیٹر پرویز رشید کی سزا کو بھی غلط قرار دے دیا۔ نواز شریف نے قومی مفاد کے خلاف بات کی، ان کا بیان بین الاقوامی میڈیا کی خبروں کی زینت بنا ہے مگر مقامی سطح پر ان کی حکومت اور پارٹی کو نقصان پہنچا ہے ۔ وزیر اعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب اس بیان کو ''اون'' نہیں کر رہے مگر نواز شریف اس پر ڈٹے ہوئے ہیں اور ان کی بیٹی مریم نواز بھی ان کے ساتھ ہے۔ میرے نزدیک نواز شریف نے اپنی حکومت اور جماعت دونوں کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں وزیراعظم، وزیر خارجہ، وزیر دفاع اور مسلح افواج کے سربراہان نے مشترکہ طور پر کہا کہ نواز شریف کا بیان گمراہ کن ہے مگر اجلاس ختم ہونے کے بعد وزیراعظم نے مختلف بات کی جبکہ خود نواز شریف نے قومی سلامتی کمیٹی کا اعلامیہ مسترد کردیا۔ میرے نزدیک نواز شریف ردعمل کی سیاست کا شکار ہوچکے ہیں، و ہ ماضی کی غلطیوں کا اعتراف تو کر رہے ہیں مگر اب بڑی غلطیاں کررہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ان کے مشیر انہیں بند گلی کی طرف لیکر جارہے ہیں لہٰذا آنے والے وقت میں نواز شریف اپنی ان غلطیوں کا اعتراف بھی کریں گے۔ مسلم لیگ (ن) دو گروہوں میں تقسیم ہوچکی ہے، ایک گروپ نواز شریف کے ساتھ کھڑا ہے جبکہ دوسرا مفاہمت کی طرف بڑھنا چاہتا ہے۔ نواز شریف اپنے اس بیانیے کو بطور پریشر لے کر چلنا چاہتے ہیں لہٰذا اگر وہ اس کو فروغ دیتے رہے تو پھر انتخابات نہیں ہوسکیں گے اور اس کے ذمہ دار خود نواز شریف ہی ہوں گے۔ نواز شریف قومی کمیشن کا مطالبہ کر رہے ہیں، سوال یہ کہ وہ انہوں نے پہلے کتنے فیصلوں کو تسلیم کیا ہے؟ خلائی مخلوق کی باتیں کی جارہی ہیں، اگر ایسا کوئی مسئلہ ہے تو اسے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں اٹھایا جاتا، اگر پہلے نہیں بات کی گئی تو اب اجلاس بلا کر اس میں تحفظات دور کیے جائیں۔ دشمن ممالک پاکستان کو کمزور کرنا چاہتے ہیں، نوازشریف بھی ذاتی سیاست کی خاطر پاکستان کے قومی سلامتی اداروں کو کمزور کرنے کی کوشش کررہے ہیں، نواز شریف نہ صرف اپنی جماعت بلکہ جمہوریت کوبھی نقصان پہنچا رہے ہیں۔
پاناما لیکس پر آنے والے عدالتی فیصلے کے نتیجے میں نااہل ہونے کے بعد سے سابق وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے مسلسل ملکی اداروں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
حال ہی میں ایک مقامی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے ممبئی حملوں کے حوالے سے متنازعہ باتیں کیں جس پر حسب روایت بھارت نے پاکستان مخالف پراپیگنڈہ شروع کردیا۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی زیر صدارت اس حوالے سے قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلایا گیا جس میں نواز شریف کے بیان کو گمراہ کن قرار دے کر یکسر مسترد کردیا گیا جبکہ نواز شریف نے نہ صرف اس اعلامیہ کو مسترد کردیا بلکہ ڈان لیکس کو بھی درست قرار دے دیا جس کے بعد سے ملکی ماحول کافی کشیدہ ہوچکا ہے۔
مختلف سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کی جانب سے سابق وزیراعظم کے خلاف غداری کے مقدمات درج کروانے کے لیے درخواستیں دائر کی جا چکی ہیں جبکہ مختلف شہروں میں ان کے خلاف ریلیاں بھی نکالی گئی ہیں۔ اس اہم قومی مسئلے کو دیکھتے ہوئے ''سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کا بیانیہ اور اس کے اثرات'' کے حوالے سے ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں آئینی و قانونی ماہرین اور سیاسی تجزیہ نگاروں نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر فاروق حسنات (ماہر امور خارجہ)
آئین پاکستان سب سے بڑی اسٹیبلشمنٹ ہے۔ ہمارے ملک میں گزشتہ دس برسوں سے سیاسی نظام چل رہا ہے، اس دوران پاکستان کو جمہوری اداروں کو مضبوط کرنے کا موقع ملا ۔ سیاسی قیادت کو پارلیمنٹ، صوبائی اسمبلیوں اور سیاسی جماعتوں کو مضبوط کرنا چاہیے تھا مگر انہوں نے ان اداروں کو نظر انداز کیا۔ سیاسی جماعتوں کو موروثی بنادیا گیا اور حالت یہ تھی وزیراعظم ، منتخب نمائندوں کو ملاقات کا وقت نہیں دیتے تھے۔ افسوس ہے کہ وزیراعظم پارلیمنٹ نہیں جاتے تھے یہی عالم وزیراعلیٰ کا تھا جس کے باعث یہ ادارے کمزور ہوئے لیکن اگر ان سیاسی اداروں کو مضبوط کیا جاتا تو آج یہ مسائل درپیش نہ ہوتے۔سیاسی ادارے معاشرے میں توازن پیدا کرتے ہیں لیکن ہمارے سیاستدانوں نے جمہوری اداروں کو خود کمزور کیا ۔ فوج نے تو انہیں نہیں کہا تھا کہ عوام کو بنیادی سہولیات نہ دیں، تعلیم عام نہ کریں، لوڈشیڈنگ ختم نہ کریں، یہ تو ان کی اپنی غلطیاں ہیں مگر یہ الزام دوسرے اداروں پر لگا دیتے ہیں۔ ہمیں اداروں کو کمزور نہیں کرنا چاہیے کیونکہ عدلیہ اور فوج کے بغیر ملک نہیں چل سکتا۔ ہمارے سامنے عراق ، شام، لیبیا اور اردن کی مثال موجود ہے ۔ ان ممالک میں داعش آئی۔ عراق اور شام کی فوج ختم ہو چکی تھی تو وہاں داعش نے تباہی مچائی، لوٹ مار کا بازار گرم کیا اور وہاں خانہ جنگی شروع ہوگئی لیکن لیبیا اور اردن میں فوج اور عدلیہ مضبوط تھی تو وہ تباہی سے بچ گئے۔ ٹرمپ جنونی ہے، اس نے جو کہا کر دکھایا لہٰذا اب نواز شریف کے اس بیان کے بعد بین الاقوامی سطح پر ہمارے لیے مسائل پیدا ہوگئے ہیں۔ سابق وزیراعظم نے دہشت گردی کے حوالے سے خود اقرار کرلیا ہے لہٰذا اب FATF کے اجلاس کے بعد پاکستان کا نام بلیک لسٹ میں شامل ہونے کے امکانات بڑھ گئے ہیں جس کے بعد معاشی، سیاسی اور سکیورٹی کے حوالے سے ہم پر سختیاں آئیں گی ۔ 1970ء کے بعد اب پہلی مرتبہ پاکستان کو شدید خطرات لاحق ہوگئے ہیں، امریکا ہمارے مدارس پر بمباری بھی کرسکتا ہے۔ آئندہ آنے والی عبوری حکومت کو چاہیے کہ اس نقصان پر قابو پائے تاکہ معاملات کو آگے بڑھایا جاسکے۔
محمد مہدی (ماہر امور خارجہ و رہنما پاکستان مسلم لیگ،ن)
ملکی تاریخ میں تقریباََ ہر انتخابات سے پہلے ایسی ہی کشمکش کی صورتحال ہوتی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم ایک دائرے میں گھوم رہے ہیں اور وہی حالات و واقعات چند سال بعد دوبارہ سامنے آجاتے ہیں۔ نواز شریف بچے نہیں ہیں کہ وہ بغیر سوچے سمجھے کوئی بیان دے دیں۔ وہ حکومت میں بھی رہے اور حکومت سے باہر بھی، انہوں نے ہر طرح کے حالات دیکھے ہیں لہٰذا انہیں بخوبی معلوم ہے کہ کیا کہنا ہے۔ نواز شریف نے جو کہا اس طرح کی باتیں پہلے بھی مختلف لوگوں کی جانب سے سامنے آتی رہی ہیں مگر نواز شریف کی اس بات کو ہر ایک نے اپنے اپنے انداز میں پیش کیا۔ مسلم لیگ (ن) میں دھڑے بندی کی افواہیں پھیلائی جارہی ہیں مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ صدر مسلم لیگ (ن) میاں شہباز شریف، وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور چودھری نثار سمیت تمام پارٹی رہنما نواز شریف کو اپنا لیڈر مانتے ہیں اور آج تک کسی نے یہ نہیں کہا کہ وہ نواز شریف کے ساتھ نہیں کھڑا۔ مفروضے پر باتیں ہورہی ہیں کہ نواز شریف عالمی تعاون کیلئے کوششیں کررہے ہیں، ایسا بالکل نہیں ہے بلکہ پاکستان کی عوامی طاقت ان کے ساتھ ہے۔ابھی یہاں کہا گیا کہ نواز شریف مدد حاصل کرنے کیلئے امریکا گئے یہ بالکل غلط ہے۔ الزام لگایا جارہاہے کہ نواز شریف نے اپنے حلف سے غداری کی، سوال یہ ہے کہ اس کا تعین کیسے ہوگا؟ میرے نزدیک اس کے تین طریقے ہیں۔ پہلا یہ کہ نواز شریف کے مطالبے کے مطابق قومی کمیشن بنا دیا جائے جس میں سب پیش ہوں اور فیصلہ ہوجائے۔ نواز شریف کے خلاف عدالت میں درخواستیں جا چکی ہیں لہٰذا دوسرا طریقہ عدالتی فیصلہ ہے جبکہ تیسرا طریقہ عوامی عدالت کا ہے ۔ ملکی سیاست کے حوالے سے ایک بات تو واضح ہے کہ اگر سیاستدانوں کو سیاست کرنے دی گئی تو ملکی معاملات بہتر ہوں گے لیکن اگر نام نہاد نمائندے لائے گئے تو پھر مسائل پیدا ہوں گے۔ انتخابات کے قریب سیاستدان جماعتیں تبدیل کرتے ہیں، چند افراد کا کسی دوسری جماعت میں جانا بھی روایتی ہے، اس میں کوئی پریشانی کی بات نہیں۔حالیہ کشمکش کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ لیڈر تو نواز شریف ہی ہے لیکن بعض طاقتوں کی جانب سے انہیں سیاست سے باہر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے مگر انہیں کامیابی نہیں مل رہی کیونکہ پوری جماعت اپنے قائد کے ساتھ کھڑی ہے۔ایسا پہلے بھی کیا گیا جب جنرل (ر) پرویز مشرف نے صدارتی آرڈیننس کے تحت نواز شریف کو سیاست سے باہر کردیا تو 2001ء سے 2011ء تک شہباز شریف پارٹی کے صدر رہے مگر بعد میں نواز شریف دوبارہ پارٹی کے صدر منتخب ہوگئے ، پھر انہیں پارٹی صدارت سے ہٹا دیا گیا مگر اب بھی پوری پارٹی ان کی قیادت میں کام کررہی ہے۔ اگر شفاف اور بروقت انتخابات ہوئے تو مسلم لیگ (ن) کامیابی حاصل کرے گی اور نواز شریف کے بیانیہ کو عوامی طاقت ملے گی۔ مسلم لیگ (ن) آئین پاکستان اور اس کی پاسداری کرنے والوں کے ساتھ ہے ۔
اظہر صدیق ایڈووکیٹ (ماہر قانون)
عوامی نمائندوں کے صادق اور امین ہونے کے حوالے سے آرٹیکل 62(1)(f) ، پارٹی صدارت کے حوالے سے آرٹیکل 17(2)، بنیادی انسانی حقوق اور فوج کا کردار آئین میں موجود ہے اور جو انہیں تسلیم نہیں کرتا وہ آئین سے غداری کرتا ہے۔ میرے نزدیک آرٹیکل 6 صرف ڈکٹیٹرز پر ہی نہیں بلکہ جمہوری حکمرانوں پر بھی لگنا چاہیے۔ میرا مطالبہ ہے کہ آرٹیکل 6میں ترمیم کی جائے اور عدالتی حکم پر عمل نہ کرنے والے سیاستدانوں پربھی آرٹیکل 6لگایا جائے۔ آرٹیکل 204 سے عدلیہ کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے، یہی وجہ ہے کہ سزا کے ڈر سے لوگ توہین عدالت نہیں کرتے۔ افسوس ہے کہ ہم شخصیات میں پھنسے ہوئے ہیں،ہمیں اس سے باہر نکلنا ہوگا۔ میرے نزدیک آرٹیکل 63(A) آمرانہ ہے جس کے ذریعے پارٹی صدر کو لاتعداد اختیارات دیے گئے ہیں۔ اس خوف کی وجہ سے لوگ اس کے فیصلے سے اختلاف نہیں کرتے اور چپ چاپ تسلیم کر لیتے ہیں۔ آرٹیکل 58(2)(B) کی وجہ سے توازن قائم تھا مگر اب سیاستدانوں کو منتخب ہونے کے بعد 5 سال کیلئے مادر پدر آزادی ہے اور جو جی میں آرہا ہے وہ کررہے ہیں۔ اگر انہیں اسمبلیاں تحلیل ہونے کا ڈر ہوتا تو پھر وہ اس طرح ملک کے ساتھ مذاق نہ کرتے۔ اٹھارویں ترمیم پاکستان کی سالمیت کے خلاف بڑی سازش تھی، صوبوں کو ضرورت سے زیادہ اختیارات دے دیے گئے، اس سے لسانیت کو ہوا ملی اور مستقبل میںشدید مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ 18 ویں ترمیم کے حوالے سے جوڈیشل کمیشن بنایا جائے۔ پاکستان کا جمہوری نظام عوامی نہیں ہے۔ اس نظام میں عام آدمی کی پہنچ ایم این اے تک نہیں ہے لہٰذا وہ وزیراعظم تک کیسے پہنچ سکتا ہے۔ سیاستدانوں نے جو خلاء چھوڑا اس کو عدالت نے پر کیا اور ان کی بیڈ گورننس کا پول کھول دیا جس پر انہیں تکلیف ہورہی ہے۔ آرٹیکل 8 سے 24تک انسانی حقوق جبکہ آرٹیکل 184اور آرٹیکل 199 بنیادی انسانی حقوق کے نفاذ حوالے سے ہیں لہٰذا اگر حکمران عوام کو ان کے آئینی حقوق فراہم نہیں کریں گے تو پھر عدلیہ کو ایکشن لینا پڑے گا۔ نواز شریف کا حالیہ بیان ڈان لیکس 2 ہے کیونکہ اس میں وہی کردار ہیں جو ڈان لیکس ون میں تھے۔ سوال یہ ہے کہ اس کی ضرورت کیوں پیش آئی؟اخباری تراشے شہادت ہوتے ہیں اور دنیا اسے سابق وزیراعظم کے دہشت گردی میں ملوث ہونے کے اقرار کے طور پر دیکھ رہی ہے۔ نواز شریف ریاست کے خلاف بیان دیکر غداری کے مرتکب ہوئے ہیں، اگر یہ بیان جھوٹ ہے تو تعزیرات پاکستان کے آرٹیکل 124(A)کے تحت بغاوت ہے جبکہ آرٹیکل 5 کی خلاف ورزی بھی ہے جس پر آرٹیکل 6لگنا چاہیے۔ اگر نواز شریف کا بیان درست ہے اور یہ خفیہ معلومات تھیں تو پھر ''آفیشل سیکریٹ ایکٹ'' کے تحت ان کے خلاف کارروائی ہوگی لہٰذا دونوں صورتوں میں نواز شریف کو سزا کا سامنا کرنا پڑے گا۔ میرا الیکشن کمیشن سے مطالبہ ہے کہ آئین کے آرٹیکل 17(2) اور الیکشن ایکٹ 2017ء کے تحت مسلم لیگ (ن) کی بطور جماعت رجسٹریشن منسوخ کی جائے۔ نیشنل سکیورٹی کونسل کے اعلامیہ کو نواز شریف نے مسترد کردیا۔ سوال یہ ہے کہ نیشنل سکیورٹی کونسل کے اجلاس کے بعد وزیراعظم نے پنجاب ہائوس جاکر نواز شریف کو کس قانون کے تحت بریفنگ دی۔ وزیراعظم نے حلف توڑا ہے اور وہ اس وقت بطور سہولت کار کام کررہے ہیں۔ نواز شریف، وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور ان کی کابینہ پر بغاوت کے مقدمہ کی درخواست جاچکی ہے، ہم الطاف حسین کی طرز پر نواز شریف کے خلاف کیس تیار کررہے ہیں۔
سلمان عابد (سیاسی تجزیہ نگار)
نواز شریف کے بیانیہ کے حوالے سے بنیادی بات یہ ہے کہ ان کے پاس سیاسی طور پر کیا آپشنز ہیں؟ پہلی یہ کہ وہ تسلیم کرلیتے کہ ان کے پاس فنانشل ٹرانزیکشن کے ثبوت نہیں ہیں جبکہ دوسرا یہ کہ وہ عدلیہ، فوج اور نیب کو شدید تنقید کا نشانہ بنا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے کہ انہیں انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے، عدلیہ اور فوج کا گٹھ جوڑ ہے جبکہ عمران خان بطور سہولت کار کام کررہے ہیںاور یہ مل کر نواز شریف کو دیوار کے ساتھ لگانا چاہتے ہیں ۔ نیب کے چیئرمین کے حوالے سے بھی نواز شریف، وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب کے بیانات آئے کہ ان کی تقرری کے حوالے سے ہم سے غلطی ہوئی ہے۔ یہ بات درست ہے کہ پاکستان کے سیاسی فیصلے سیاسی میدان میں ہونے چاہئیں مگر یہ تو خود نواز شریف نے طے کیا تھا کہ معاملات سڑکوں کے بجائے قانونی طریقے سے حل کیے جائیں اور اب وہ خود اداروں پر تنقید کررہے ہیں۔ پاکستان کے بڑے سٹیک ہولڈرز میں فوج، عدلیہ، بیوروکریسی، نیب، ایف آئی اے شامل ہیں مگر نواز شریف نے ان تمام اداروں کا تماشا بنا کر انہیں سٹیک پر لگا دیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ دھرنے ہمارے خلاف سازش تھے لہٰذا وہ وقت آنے پر درپردہ چہروں کے نام بتائیں گے۔ میرے نزدیک نواز شریف کا بیانیہ عالمی مدد حاصل کرنے کی کوشش ہے،وہ اس کے لیے سعودی عرب، برطانیہ اور امریکا بھی گئے مگر عالمی سطح پر ان کی شنوائی نہیں ہورہی۔ بھارت کا پاکستان کے خلاف یہ بیانیہ ہے کہ پاکستان بطور ریاست ممبئی حملے میں ملوث تھا جبکہ پاکستان یہ کہتا ہے کہ ممکن ہے دہشت گرد یہاں سے گئے ہوں مگر ہماری ریاست اس میں ملوث نہیں ہے، کیس کی پیشرفت میں تاخیر کی وجہ یہ ہے کہ بھارت نے ہمارے ساتھ شواہد کے حوالے سے تعاون نہیں کیا تاہم اب نواز شریف کے اس بیانیہ سے پاکستان دشمن لابی خصوصاََ بھارت کو پاکستان مخالف پراپیگنڈہ کرنے کا موقع مل گیا ہے جس کا ہمیں نقصان ہوگا ۔اب نواز شریف نے ڈان لیکس کے حوالے سے بھی کہا کہ وہ باتیں درست تھیں ۔ مریم نواز نے بھی یہی کہا بلکہ انہوں نے تو سینیٹر پرویز رشید کی سزا کو بھی غلط قرار دے دیا۔ نواز شریف نے قومی مفاد کے خلاف بات کی، ان کا بیان بین الاقوامی میڈیا کی خبروں کی زینت بنا ہے مگر مقامی سطح پر ان کی حکومت اور پارٹی کو نقصان پہنچا ہے ۔ وزیر اعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب اس بیان کو ''اون'' نہیں کر رہے مگر نواز شریف اس پر ڈٹے ہوئے ہیں اور ان کی بیٹی مریم نواز بھی ان کے ساتھ ہے۔ میرے نزدیک نواز شریف نے اپنی حکومت اور جماعت دونوں کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں وزیراعظم، وزیر خارجہ، وزیر دفاع اور مسلح افواج کے سربراہان نے مشترکہ طور پر کہا کہ نواز شریف کا بیان گمراہ کن ہے مگر اجلاس ختم ہونے کے بعد وزیراعظم نے مختلف بات کی جبکہ خود نواز شریف نے قومی سلامتی کمیٹی کا اعلامیہ مسترد کردیا۔ میرے نزدیک نواز شریف ردعمل کی سیاست کا شکار ہوچکے ہیں، و ہ ماضی کی غلطیوں کا اعتراف تو کر رہے ہیں مگر اب بڑی غلطیاں کررہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ان کے مشیر انہیں بند گلی کی طرف لیکر جارہے ہیں لہٰذا آنے والے وقت میں نواز شریف اپنی ان غلطیوں کا اعتراف بھی کریں گے۔ مسلم لیگ (ن) دو گروہوں میں تقسیم ہوچکی ہے، ایک گروپ نواز شریف کے ساتھ کھڑا ہے جبکہ دوسرا مفاہمت کی طرف بڑھنا چاہتا ہے۔ نواز شریف اپنے اس بیانیے کو بطور پریشر لے کر چلنا چاہتے ہیں لہٰذا اگر وہ اس کو فروغ دیتے رہے تو پھر انتخابات نہیں ہوسکیں گے اور اس کے ذمہ دار خود نواز شریف ہی ہوں گے۔ نواز شریف قومی کمیشن کا مطالبہ کر رہے ہیں، سوال یہ کہ وہ انہوں نے پہلے کتنے فیصلوں کو تسلیم کیا ہے؟ خلائی مخلوق کی باتیں کی جارہی ہیں، اگر ایسا کوئی مسئلہ ہے تو اسے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں اٹھایا جاتا، اگر پہلے نہیں بات کی گئی تو اب اجلاس بلا کر اس میں تحفظات دور کیے جائیں۔ دشمن ممالک پاکستان کو کمزور کرنا چاہتے ہیں، نوازشریف بھی ذاتی سیاست کی خاطر پاکستان کے قومی سلامتی اداروں کو کمزور کرنے کی کوشش کررہے ہیں، نواز شریف نہ صرف اپنی جماعت بلکہ جمہوریت کوبھی نقصان پہنچا رہے ہیں۔