عدالتی فیصلے پر عملدرآمد ایوان صدر کی رونقیں ختم ہوگئیں
نگراں کابینہ کے ارکان نے صدر سے ملاقات ہی نہیں کی، سیاسی مشیر انتخابی مہم میں مصروف
لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے اور اتحادی حکومت کی رخصتی کے ساتھ ہی ایوان صدر کی رونقیں ختم ہو کر رہ گئیں ۔
ہائیکورٹ کی جانب سے صدر کی سیاسی سرگرمیوں پر پابندی لگائی گئی تھی جس کے بعد کچھ عرصے تک ایوان صدر میں ہونے والی سیاسی سرگرمیوں کو سرکاری انداز میں رپورٹ کیا جاتا رہا اور کاوش یہ رہی کہ عدالت عالیہ کو صدر سے کوئی شکایت نہ ہو۔ رہی سہی کسر نگراں حکومت کی آمد نے پوری کر دی جو اپنے آپ کو غیر جانبدار اور غیر متنازع رکھنے کی سعی کر رہی ہے۔ اسی کوشش کا نتیجہ ہے کہ سوائے نگراں وزیر اعظم کے کابینہ کے ارکان سابق پارلیمنٹ کے منتخب کردہ صدرسے ابھی تک ملاقات کو ہی نہیں گئے۔
پیپلز پارٹی کے سرکردہ رہنما جن سے صدر آصف علی زرداری گاہے بگاہے مشاورت کرتے رہتے تھے وہ بھی اپنے حلقوںمیں انتخابی مہم میں مصروف ہو چکے ہیں۔ اب رات گئے تک جاری رہنے والے کورکمیٹی کے اجلاس بھی نہیں ہو رہے۔ صدر بھی قسمت پہ شاکی ہیں اور اپنی سرگرمیوں کوخالصتاً سرکاری ملاقاتوں تک محدودکرچکے ہیں۔آج سے پہلے ایوان صدر کے حالات ایسے کبھی نہیں رہے خصوصاً انتخابات کے دوران گزشتہ تین دہائیوں میں شاید ہی ایوان صدر اس قدر غیر فعال ہوا ہو۔
صدر جنرل ضیا الحق ہوں یا اسحق خان یا پھر پرویزمشرف الیکشن کے خدو خال وہی ترتیب دیتے رہے اور مطلوبہ نتا ئج کے حصول تک آرام سے نہیں بیٹھے۔موجودہ صدر سیاسی ہونے کے علاوہ پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے روح رواں بھی ہیں۔ اگرچہ وہ اپنے پارٹی عہدے سے سردست علیحدہ ہو چکے ہیں لیکن موجودہ الیکشن کی گہماگہمی میں پیپلزپارٹی کوان کی رہنمائی حاصل ہے۔
ہائیکورٹ کی جانب سے صدر کی سیاسی سرگرمیوں پر پابندی لگائی گئی تھی جس کے بعد کچھ عرصے تک ایوان صدر میں ہونے والی سیاسی سرگرمیوں کو سرکاری انداز میں رپورٹ کیا جاتا رہا اور کاوش یہ رہی کہ عدالت عالیہ کو صدر سے کوئی شکایت نہ ہو۔ رہی سہی کسر نگراں حکومت کی آمد نے پوری کر دی جو اپنے آپ کو غیر جانبدار اور غیر متنازع رکھنے کی سعی کر رہی ہے۔ اسی کوشش کا نتیجہ ہے کہ سوائے نگراں وزیر اعظم کے کابینہ کے ارکان سابق پارلیمنٹ کے منتخب کردہ صدرسے ابھی تک ملاقات کو ہی نہیں گئے۔
پیپلز پارٹی کے سرکردہ رہنما جن سے صدر آصف علی زرداری گاہے بگاہے مشاورت کرتے رہتے تھے وہ بھی اپنے حلقوںمیں انتخابی مہم میں مصروف ہو چکے ہیں۔ اب رات گئے تک جاری رہنے والے کورکمیٹی کے اجلاس بھی نہیں ہو رہے۔ صدر بھی قسمت پہ شاکی ہیں اور اپنی سرگرمیوں کوخالصتاً سرکاری ملاقاتوں تک محدودکرچکے ہیں۔آج سے پہلے ایوان صدر کے حالات ایسے کبھی نہیں رہے خصوصاً انتخابات کے دوران گزشتہ تین دہائیوں میں شاید ہی ایوان صدر اس قدر غیر فعال ہوا ہو۔
صدر جنرل ضیا الحق ہوں یا اسحق خان یا پھر پرویزمشرف الیکشن کے خدو خال وہی ترتیب دیتے رہے اور مطلوبہ نتا ئج کے حصول تک آرام سے نہیں بیٹھے۔موجودہ صدر سیاسی ہونے کے علاوہ پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے روح رواں بھی ہیں۔ اگرچہ وہ اپنے پارٹی عہدے سے سردست علیحدہ ہو چکے ہیں لیکن موجودہ الیکشن کی گہماگہمی میں پیپلزپارٹی کوان کی رہنمائی حاصل ہے۔