الیکشن شفاف ہونے چاہئیں کسی طالع آزما کو برداشت نہیں کرینگے چیف جسٹس

،آج2007ء سے پہلے والی عدلیہ نہیں جوہر چیز پر مہر تصدیق ثبت کرتی تھی،عالمی جوڈیشل کانفرنس سے خطاب

اسلام آباد:چیف جسٹس افتخار چوہدری عالمی جوڈیشل کانفرنس کے اختتامی اجلاس سے خطاب کررہے ہیں۔ فوٹو: اے پی پی

چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے صاف، شفاف اور منصفانہ انتخابات کے لیے ذمے داری پوری کر نا سب کا فریضہ ہے۔

منتخب حکومت کا آئینی مدت پوری کر نا خوش آئند ہے اور یہ قوم کی بہت بڑی کامیابی ہے، عدلیہ کی وجہ سے حکومت نے مدت پوری کی۔ عام انتخابات ہرحوالے سے شفاف اور منصفانہ ہونے چاہیں اور ہم سب کی ذمے داری ہے کہ اس ضمن میں اپنا فرض ادا کریں۔حالیہ برسوں میں سپریم کورٹ نے ریاستی اداروں اور افرادکے جابرانہ اقدامات، کرپشن، اغوا ، جبری گمشدگیوں ،ٹارگٹ کلنگ ،دہشت گردی اور انسانی حقوق کی پامالیوں کیخلاف سخت فیصلے دیے ہیں، لیکن جب تک ریاست کے دوسرے ادارے اپنا کردار ادا نہیں کریں گے ،ان خرابیوں کی بیخ کنی ممکن نہیں۔

اتوارکو3 روزہ انٹرنیشنل جوڈیشل کانفرنس کے آخری روز اختتامی تقریب سے خطاب میں چیف جسٹس نے کہا کہگزشتہ چند برس میں عدلیہ نے آئین کی بالادستی اور بنیادی حقوق کے تحفظ میں کلیدی کردارادا کیا ہے۔ آن لائن کے مطابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا کہ عدالت کسی بھی ماورائے آئین اقدام کو کالعدم قراردے سکتی ہے۔ ریٹرننگ افسران نے منصفانہ انتخابات کوایک چیلنج کے طور پر قبول کیا ہے، ہم نے '' اسٹیٹس کو'' توڑا آج ہم میں سے کو ئی بھی کسی طالع آزما کو برداشت کرنے کو تیار نہیں۔ آج2007ء سے پہلے والی عدلیہ نہیں جو ہر چیز پر مہر تصدیق ثبت کردیتی تھی۔ نمائندہ ایکسپریس کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ پاکستان ایٹمی طاقت کا حامل ملک ہے اور ہرگزترقی پذیرنہیں۔

انصاف سے بڑھ کرکوئی خوبی نہیں، یہی وہ خوبی ہے جو افراداور اقوام کے درمیان امن اور ہم آہنگی کا ذریعہ ہے۔ معاشرے سے ظلم اور جبرکے خاتمے میں آزاد عدلیہ کاکردار سب سے نمایاں ہوتا ہے اور جب ظلم ختم ہوجاتا ہے تومعاشرے میں توازن قائم ہو جاتا ہے جوترقی اور خوشحالی کیلیے لازم ہے۔ افتخار چوہدری نے کہاکہ انتظامیہ اور مقننہ کے تعاون سے عدلیہ کو بنیادی انسانی حقوق کے اطلاق میں آسانی ہوتی ہے۔ آزاد عدلیہ آخری منزل نہیں بلکہ یہ منزل کے حصول کا ایک ذریعہ ہے۔آخر میں چیف جسٹس نے جوڈیشل کانفرنس کا اعلامیہ جاری کیا اور کانفرنس میں شامل ملکی و غیر ملکی مندوبین کا شکریہ ادا کیا، تقریب سے سپریم کورٹ کے سینیئر ترین جج جسٹس تصدق حسین جیلانی، جسٹس ناصرالملک، جسٹس جواد ایس خواجہ اور جسٹس انور ظہیر جمالی کے علاوہ دیگر ججوں نے بھی خطاب کیا۔




 

آن لائن کے مطابق چیف جسٹس نے کہاکہ سپریم کورٹ نے25ہزار حاجیوں کو از خود نوٹس کی وجہ سے ناجائز لیا جانے والا پیسہ واپس دلایا۔ طارق عزیز الدین کیس میں فیصلے کی وجہ سے 20 سے 22 سال بعد ملک میں پہلی مرتبہ حقداروں کو ترقی دی اور غیر قانونی ترقی پانے والوں کو تنزلی دی گئی ۔ میں آزاد عدلیہ کیلیے اکیلا چلا تھا، آج کارواں بن چکا ہے۔ آج کے نوجوان کی گریڈ 20میں ملازمت کا حصول خواب نہیں حقیقت بن چکا ہے۔ انھوں نے کہا کہ عدلیہ ماضی کی نسبت کافی تبدیل ہوچکی ہے، اب وہ کسی بھی قسم کے غیر جمہوری رویوں کیخلاف ہے۔

31جولائی 2009ء میں عدلیہ نے فیصلہ دے کر غیر آئینی رویوں کیخلاف اپنا پہلا فیصلہ دیا اوراب بھی فیصلے دیے جارہے ہیں، آج میرا سول جج بھی کسی اثر کے بغیر فیصلے دے گا۔ انھوں نے شرکا کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ کیاآپ نہیں سمجھتے کہ ملک میں عدلیہ نے تبدیلی پیداکی ؟، کیاعدلیہ کی آزادی کے بعد معاملات بہتر نہیں ہوئے؟۔ اس پر تمام شرکا نے تالیاں بجاکر عدلیہ کی پرفارمنس کا اقرار کیا ۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہم سب نے تہیہ کررکھا ہے کہ اس ملک سے غیرآئینی اقدامات کا خاتمہ کردیا جائے، ہم نے از خود نوٹس لیکرعوامی توقعات کوپورا کیا۔ انھوں نے کہاہ بلوچستان میں جوچھ ہورہا ہے وہ اچھی حکمرانی نہ ہونے کی وجہ سے ہے، آپ کو ابھی بھی کچھ اداروں اور لوگوں کیخلاف تحفظات ہوں گے ۔

اس ملک کی یہ سب سے بڑی کامیابی ہے کہ ہم آزادانہ انتخابات کی طرف جارہے ہیں اور اپنے نمائندے منتخب کریں گے۔ ہمارا مارچ جاری ہے جو جاری رہے گا، شکایات موجود ہیں مگرنظام چل پڑا ہے۔دریں اثنا جوڈیشل کانفرنس کی سفارشات کو اسلام آباد اعلامیہ کے نام سے جاری کیا گیا جس میں چند افراد کی طاقت پر بھروسہ کرنے کے بجائے عدلیہ کو بطور ادارہ مضبوط کرنے،ازخود نوٹس کے لیے واضح طریقہ کار اپنانے، ایسا طریقہ کار اپنا جس میں مقدمات ڈسٹرکٹ کورٹ کی سطح پر حل ہو جائے اور اپیلوں کی نوبت نہ آئے جبکہ عدالتی نظام پر عوام کے اعتماد کو مزید بڑھانے کی سفارش کی گئی۔اعلامیے میں عدالتوں میں ٹیکنالوجی کے استعمال اور عدالتی افسران کی تربیت اور تعلیم کے لیے جدید طریقے اپنانے کی سفارش کی گئی۔

کانفرنس کے اعلامیے میں یہ سفارش کی گئی کہ دنیا بھر کے ممالک مذہب، نسل اور قومیت کے امتیاز کے بغیر بنیادی انسانی حقوق کو یقینی بنائے اور سائبر کرائم کے لیے بین الاقوامی قواعد وضع کیے جائے۔ اعلامیے میں کہا گیا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ پاکستان کی سلامتی اور بقا کی جنگ میں تبدیل ہو چکی ہے ، تمام ممالک پر زور دیا گیا کہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے مربوط نظام وضع کیا جائے اور ایک دوسرے سے تعاون کیا جائے۔
Load Next Story