کہاں ہیں انسانی حقوق کے علمبردار
فلسطینیوں کے قتل عام پر دنیا بھر میں سیکڑوں شہروں میں مظاہرے ہو رہے ہیں۔
ویسے تو فلسطینیوں پر ستر سال سے مظالم ڈھائے جارہے ہیں، مگر اس بار بیت المقدس کو دارالخلا فہ بنانے کی تقریب میںتو ظلم وبربریت کی انتہا ہوگئی ۔ اسرائیل کی ایک خاتون حکومتی نمایندے سے جب ایک صحافی نے سوال کیا کہ اتنے لوگوں کومارنا کیا بربریت نہیں ؟ تو اس نے جواب دیاکہ اتنے لوگوں کو جیل میں کہاں رکھیں ۔ یعنی جان سے مار دو۔
یہودیوں کا جو قتل عام ہوا تھا، وہ جرمنی، آسٹریا ، بیلجم ، ہالینڈ ، پولینڈ ، یوکرائین اور دیگر یورپی ممالک میں ۔کوئی فلسطینی یا عرب یہودیوں کے قتل عام میں شریک نہیں تھا ۔ جب صلیبی جنگ1099میں ہوئی تھی یعنی فرانس اور برطانیہ نے فلسطین پر حملہ کیا تو مسلمانوں اور یہودیوں نے مل کر فرانسیسی اور برطانوی سامراج کا مقابلہ کیا ، ہر چندکہ انھیں اس مزاحمت میں شکست ہوئی، مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ جنھوں نے یہودیوں کا قتل نہیں کیا، یعنی فلسطینی اور عرب ، آج ان کا اسرائیلی فورسز قتل عام کر رہی ہیں۔
عالمی میڈیا اتنا بے حس اور جانبدارہوگیا ہے کہ بیت المقدس میں جو بائیں بازو کی نو پارٹیوں کا اتحاد بنا ہے۔ اس میں دو اسرائیلی کمیونسٹ پارٹیاں بھی شامل ہیں ۔ ان نو پارٹیوں کے اٹھارہ اراکین اسرائیل کی (نسٹل) اسمبلی کے منتخب رکن بھی ہیں ۔ اسرائیلی فوج کی گولیوں سے کمیونسٹ کارکنان بھی شہید ہوئے ہیں اور جب ٹرمپ نے بیت المقدس کو اسرائیلی دارالخلافہ کے طور پر تسلیم کیا تھا تو ان نو پارٹیوں نے بھی ہفتوں پرزور احتجاج بھی کیا تھا۔جب کہ عالمی اور پاکستانی میڈیا نے ان کے رول کو نہ صرف نظر انداز کیا بلکہ جھلکیاں تک نہیں دکھائیں ۔
15 مئی2018کو بیت المقدس کا دارالخلا فہ کے طور پر افتتاحی جشن خون کی ہولی میں منایا گیا۔ اسرائیل نے کل 86 ملکوں کے نما یندوں کو دعوت دی جن میں صرف 33 ممالک کے نمایندوں نے شرکت کی ، اس میں چوتھا کثیرآبادی والا مسلمان ملک نائیجیریا کا نمایندہ بھی شامل تھا۔
بیشتر مسلم ممالک ہکا بکا رہ گئے، انھوں نے کسی بھی راست اقدام کے لیے پیش قدمی کا اشارہ بھی نہیں دیا ، جب کہ خود کو سوشلسٹ ممالک کہنے والے کیوبا، بولیویا ، وینیزویلا ، چلی ، نکارا گوا، مالاٹے گوئے، سوشلسٹ کوریا، زمبابوے، بلا روس، لاؤس، کمبوڈیا، نیپال اورکیٹالونیہ کے میئرز، صدور، وزرائے اعظم نے اسرائیل کے ان انسانیت سوز اور غیر جمہوری اقدام کی نہ صرف مذمت کی بلکہ بائیکاٹ کیا۔
سعودی عرب نے اسرائیل سے دوستی کر رکھی ہے، اس لیے ہلکے انداز میں مذمت کی ہے۔ اس سے توکہیں بہتر ہندوستان اور پاکستان نے مطالبہ کیا ہے۔ ادھر امریکی سعودی اتحاد نے اسرائیل کو منہ توڑ جواب دینے کی بجائے ترکی سے بھی پیچھے رہ گیا ہے جہاں نیٹوکا فوجی اڈہ ہے ، اگر اردن، مصر ، نائیجیریا اور ترکی اسرا ئیل سے سفارتی تعلقات ختم کرلیں اور سعودی عرب، عرب امارات، کویت، بحرین وغیرہ صرف اسرائیل کو جرات مندی سے خبردار کریں تو بھی اسرائیلی جارحیت رک سکتی ہے۔
سعودی امریکی اتحاد (جس کا نام اسلا می اتحاد رکھا گیا ہے ) یمن میں حوثی باغی مسلمانوں کا قتل عام کر رہا ہے۔ بجائے اس عمل کے امریکا کو اس اتحاد سے نکال باہرکر کے فلسطینی اور فلسطین دوست اسرائیلیوں کے ساتھ یکجہتی کے لیے اعلان جنگ کریں تو اسرائیل کی غنڈہ گردی ایک ہی دن میں رک سکتی ہے، اگر مصر، اردن اور عرب ممالک اسرائیل کو تیل کی ترسیل بند کر دیں تو وہ خود ہتھیار ڈال دے گا۔
ایک اور ستم ظریفی یہ ہے کہ ہم اسرائیل کو تسلیم تو نہیں کرتے لیکن اس کے آقا امریکی سامراج کو نہ صرف تسلیم کر تے ہیں بلکہ اس کے احکامات کی بجاآوری بھی کرتے ہیں ، جب کہ امریکا ہمیں ایک ڈالر دے کر چودہ ڈالر لے جا تا ہے۔ ہمیں اور تمام عرب ممالک کو چاہیے کہ وہ اسرائیل سے تعلقات ختم کرلیں۔
اسرائیل سے ایران نے نہ صرف قطع تعلق کیا ہوا ہے بلکہ ہر محاذ پر نبرد آزما ہے، جب کہ سعودی عرب، امریکا کے خلاف لڑنے کے بجا ئے امریکا سے اسلحہ خرید رہا ہے اور اسرائیل کو منہ توڑ جواب دینے کی بجائے اپنے ہی مسلمان پڑوسی یمنیوں کا قتل عام کررہا ہے ۔
فلسطینیوں کے قتل عام پر دنیا بھر میں سیکڑوں شہروں میں مظاہرے ہو رہے ہیں۔ وائٹ ہا ؤس امریکا ، لندن ، ٹوکیو، برلن، دہلی، ماسکو اور پیرس میں بھی زبردست مظاہرے ہوئے ۔ ظلم کے خلاف ایسی لڑائیاں اسپین، کیٹالونیہ، ہنزہ، فا ٹا،کے پی کے، بلوچستان اور ترکی کے کرد لڑ رہے ہیں ۔ پنجاب کے کسان، سندھ کے ہا ری اور پشتون محنت کش بھی اپنے مطالبات منوانے پر کمربستہ ہیں ۔ یو این او بلقان ریاستوں ، افریقہ، عرب ریاستوں اور افغانستان میں اگر اپنی فوج بھیج سکتا ہے تو پھر اسرائیل میں کیوں نہیں ؟
درحقیقت یو این او مختلف قومی ریاستوں کی نمایندہ عالمی تنظیم ہے۔ اس کا کام ہی یہ ہے کہ ریاست میں رہتے ہوئے ان کے حکمرانوں کا تحفظ کر ے نہ کہ عوام کا ۔ حقیقتاً یواین او پر امریکی سامراج کا یکطرفہ غلبہ ہے ۔ امریکا کی صنعتی پیداوار کا ستر فیصد حصہ اسلحے کی پیداوار پر مبنی ہے، اس لیے اسے میدان جنگ ہر وقت تیار رکھنا ہے۔ کبھی ہند و چین، کبھی جنوبی افریقہ، کبھی مغربی افریقہ،کبھی مشرقی یورپ اور کبھی مشرق وسطی۔اس لیے وہ کیونکر امن کے لیے اقدام کرے۔اقوام متحدہ قو موں کے حکمرانوں کا اتحاد ہے، وہ عوام کا نہیں حکمرانوں کے مفادات کا محاٖٖٖفظ ہے۔
آج ایک جانب کھرب پتیوں کی کھیپ ہے تو دوسری طرف بھوک سے نڈھال مرتے ہوئے انسان، جب کہ اتنے وسائل اس دنیا میں موجود ہیں کہ سا رے لوگ پیٹ بھر کے کھائیں اور بھی بچ جائے۔ سرمایہ داروں نے دنیا کے جن وسائل اور دولت پر مکمل قبضہ کر رکھا ہے، اس سے دنیا کے بھوکے ننگے لوگ چھین نہ لیں تو پھر غریبوں کا خون نچوڑکرعیش وعشرت کیونکر کریں گے۔ اس لیے ضروری ہے کہ دنیا کہ محنت کش اٹھ کھڑے ہوں ۔ عوام پیداوار اور وسائل پر خود قبضہ کر کے دھن والوں کو بے دخل کردیں۔ پھرکوئی بھوکا رہے گا اور نہ لاعلاج۔ اسی کا نام ہوگا عالمی مادر وطن، جہاں جاؤ ، جو مرضی کھاؤ ، جہاں مر ضی رہو۔