کراچی میں گرم ہواؤں کے تھپیڑے کیوں
باد سموم کے حالیہ تکلیف دہ موسم نے اس بندہ نواز شہر کراچی کی 70 سالہ تاریخ کی یاد دلادی۔
کراچی کو قیامت خیز گرمی نے صحرا کا تپتا ہوا میٹروپولس بنادیا ہے، اخبار کی خبر کے مطابق شہر قائد تھرپارکر کی گرم ہواؤں کے تھپیڑوں کی زد میں رہا، رواں ماہ گرمی کا پارہ ایک مرتبہ پھر 44 ڈگری کو چھوگیا۔
اتوار کو شدید گرمی سے شہری بلبلا اٹھے، چھٹی والے دن شہریوں نے معمول کی سرگرمیاں محدود کرکے گھروں میں رہنے کو ترجیح دی، گرمی کا احساس اصل درجہ حرارت سے کہیں زیادہ محسوس کیا گیا، شکر ہے ہوا میں نمی کا تناسب کم ہونے کی وجہ سے شہری ایک بار پھر ہیٹ ویو سے بال بال بچ گئے۔ محکمہ موسمیات نے اگلے 6 روز تک سمندری ہواؤں کی بندش اور شدید متاثر ہونے کا ایک اور ریڈ الرٹ جاری کردیا۔
حقیقت یہ ہے کہ باد سموم کے حالیہ تکلیف دہ موسم نے اس بندہ نواز شہر کراچی کی 70 سالہ تاریخ کی یاد دلادی، جب کہ ایک شہر آشوب کی گونج کے ساتھ ساتھ ان سیاسی اور انتظامی کوتاہیوں کی بازگشت بھی سنائی دیتی ہے، جس میں کراچی کچرے کا ڈھیر بنا، سیاسی کشمکش، کرپشن اور گلی کوچوں میں بدصورتی کے مظاہر اس کے لیے سیاسی طعنے بن گئے۔
مشہور فلسفی آگسٹس نے کہا تھا کہ میں نے روم کو اینٹوں کا شہر پایا مگر چھوڑا تو سنگ مرمر کا تھا، کراچی میں اس کا الٹ ہوا، ایک اچھے شہر خوباں کو موئن جو دڑو بنادیا، اسی لیے یہ کہا جاتا ہے کہ کسی نے شہر قائد کو اپنا نہیں سمجھا۔
کراچی جمہوریت اور آمریت کے تجربات سے گزرا، سارے کام ایڈہاک ازم سے ہوتے رہے، کوئی ایسا دلفریب روڈ میپ نہ بنا جس سے شہریوں کو فطرت سے ہمکنار شہر اور اس میں چوبیس گھنٹے پینے کا صاف پانی ملتا، صحت و تعلیم کی بنیادی سہولتیں دستیاب ہوتیں، بجلی کا فالٹ فری نظام رواں ہوتا، آج نہ ماس ٹرانزٹ سسٹم کی باتیں ہیں، نہ ٹرامیں اور بسوں کے فلیٹ ہیں اور نہ پاک و صاف شہر کے بازار، تفریحی مقامات، 7 عشرے گزر گئے کراچی کے شہری سمندری پانی کو میٹھا بنانے کے ٹریٹمنٹ پلانٹ سے محروم رہے، واٹر ٹینکرز اور ٹرانسپورٹ اور لینڈ مافیا سمیت ان گنت قانون شکن گروہوں نے کراچی میں کچی آبادیاں اور تجاوزات قائم کیں۔
کسی نے نہیں سوچا کہ آبادی کا یہ ہولناک بہاؤ کراچی میں سماجی مسائل کو جنم دے گا، سو سے زائد پولیس تھانے ہیں مگر اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری، لاوارث لاشیں، اسٹریٹ کرائم اور بہیمانہ جرائم عام ہیں، یہ شہری تہذیب کے خلاف خود مقامی حکومت کی ناکامی تھی کہ دہشتگردی، گینگ وار اور کشت وخون سے کراچی کا چہرہ داغدار کردیا گیا، پھر بھی کسی کو غم نہیں۔
واضح رہے قیام پاکستان کے بعد کراچی مائی کولاچی کے نام سے ماہی گیروں کی ایک چھوٹی سی بستی تھی مگر اس کے خواب اس کے سائز سے بڑے تھے، شہر ماحولیات کے مسائل سے ناآشنا اور ایشیا کا خوبصورت شہر کہلاتا تھا، جس کی سڑکیں بلدیہ کی گاڑیاں روز دھویا کرتی تھی، تھانے کم اور امن، سلامتی اور رواداری و محبت کراچی کی شناخت تھی۔
ایم اے جناح روڈ، بندر روڈ کے نام سے پہچانا جاتا تھا، اس پر دو رویہ ٹرامیں چلتی تھیں، سویڈن، جرمنی اور برطانیہ سے ڈبل ڈیکر بسیں شہر کی سڑکوں پر دوڑتی تھیں، پھر سرکلر ریلوے شروع ہوئی، بلڈرز نے کثیر منزلہ عمارتوں کے سلسلے دراز کیے، کلفٹن اور ہاکس بے کے ساحل پر زندگی فطرت کے حسیں مناظر سے لطف اندوز ہوتی تھی، سمندری اور ماحولیاتی آلودگی جیسے الفاط سے شہریوں کے کان نابلد تھے، بیوروکریسی انسان اور شہر دوست تھی، اس کے سامنے کراچی اپنے خوابوں کی تعبیر کا متلاشی شہر تھا۔
پاکستان کے ہر شہر، قصبے، دیہات اور گوٹھوں سے ہم وطنوں کے قافلے آکر یہاں بستے رہے، اردو سپیکنگ کمیونٹی نے شہر کی زلفیں سنواریں، ان کی مشترکہ کوششوں نے کراچی کی صورتگری میں اپنا کردار ادا کیا، صنعتیں لگیں، کارخانوں میں مزدوری کے در کھلے، بندرگاہ، سائٹ اور شہرکے بازار رونقیں بڑھاتے رہے، بینک، خودمختار و نیم خودمختار اداروں اور کارپوریشنوں کی کثیر جہتی ترقی، مکینوں کے لیے قدم قدم پر سہولتوں کی فراہمی کا شاندار انتظام تھا، سائیکل اور گدھا گاڑی پر بھی رات کو لائٹ کی موجودگی لازمی تھی۔
ٹریفک پولیس چالان کے لیے چوکس تھی، اہم مقامات اور شاہراہوں کے اطراف سائن بورڈ پر لکھا ہوتا تھا کہ حدود نظامت کراچی میں ہارن بجانا منع ہے اور اس قانون کی خلاف ورزی کی کسی طرم خان میں بھی ہمت نہ تھی۔
آج ضرورت کراچی کے مسائل کے حل کے لیے وافر فنڈز اور کچھ کر دکھانے والی بیوروکریسی اور نگراں حکومت کی شفاف مانیٹرنگ کی ہے۔ دنیا بھر کے بڑے شہروں کے قصے ان کے دانشور، مدبرین اور عظیم مشاہیر بیان کرتے ہیں، ایزرا پاؤنڈ کا کہنا تھا کہ تمام بڑے فنون بڑے شہروں کی میراث ہوتے ہیں۔
کراچی بھی ''کبھی ایک تھا عالم میں انتخاب''، اس کے بگڑنے، کنکریٹ کا جنگل بننے کا سفر انتہائی عبرتناک ہے، کراچی میں کاروباری سرگرمیاں عروج پر ہیں، مخیر حضرات نے کراچی کے دکھ شیئر کیے ہیں۔ یہ ماضی کا رومانٹک شہر تھا، اسے اون کرنے کی ضرورت ہے، جن کے لیے یہاں رزق کا بندوبست ہے وہ اس کا حسن دوبالا کرسکتے ہیں۔ شہریوں کو تجارتی پھیلاؤ اور بزنس کلچر میں محرومیاں نہیں سہولتیں ملنی چاہئیں۔ کراچی ہمہ جہتی توجہ کا مستحق ہے۔
اتوار کو شدید گرمی سے شہری بلبلا اٹھے، چھٹی والے دن شہریوں نے معمول کی سرگرمیاں محدود کرکے گھروں میں رہنے کو ترجیح دی، گرمی کا احساس اصل درجہ حرارت سے کہیں زیادہ محسوس کیا گیا، شکر ہے ہوا میں نمی کا تناسب کم ہونے کی وجہ سے شہری ایک بار پھر ہیٹ ویو سے بال بال بچ گئے۔ محکمہ موسمیات نے اگلے 6 روز تک سمندری ہواؤں کی بندش اور شدید متاثر ہونے کا ایک اور ریڈ الرٹ جاری کردیا۔
حقیقت یہ ہے کہ باد سموم کے حالیہ تکلیف دہ موسم نے اس بندہ نواز شہر کراچی کی 70 سالہ تاریخ کی یاد دلادی، جب کہ ایک شہر آشوب کی گونج کے ساتھ ساتھ ان سیاسی اور انتظامی کوتاہیوں کی بازگشت بھی سنائی دیتی ہے، جس میں کراچی کچرے کا ڈھیر بنا، سیاسی کشمکش، کرپشن اور گلی کوچوں میں بدصورتی کے مظاہر اس کے لیے سیاسی طعنے بن گئے۔
مشہور فلسفی آگسٹس نے کہا تھا کہ میں نے روم کو اینٹوں کا شہر پایا مگر چھوڑا تو سنگ مرمر کا تھا، کراچی میں اس کا الٹ ہوا، ایک اچھے شہر خوباں کو موئن جو دڑو بنادیا، اسی لیے یہ کہا جاتا ہے کہ کسی نے شہر قائد کو اپنا نہیں سمجھا۔
کراچی جمہوریت اور آمریت کے تجربات سے گزرا، سارے کام ایڈہاک ازم سے ہوتے رہے، کوئی ایسا دلفریب روڈ میپ نہ بنا جس سے شہریوں کو فطرت سے ہمکنار شہر اور اس میں چوبیس گھنٹے پینے کا صاف پانی ملتا، صحت و تعلیم کی بنیادی سہولتیں دستیاب ہوتیں، بجلی کا فالٹ فری نظام رواں ہوتا، آج نہ ماس ٹرانزٹ سسٹم کی باتیں ہیں، نہ ٹرامیں اور بسوں کے فلیٹ ہیں اور نہ پاک و صاف شہر کے بازار، تفریحی مقامات، 7 عشرے گزر گئے کراچی کے شہری سمندری پانی کو میٹھا بنانے کے ٹریٹمنٹ پلانٹ سے محروم رہے، واٹر ٹینکرز اور ٹرانسپورٹ اور لینڈ مافیا سمیت ان گنت قانون شکن گروہوں نے کراچی میں کچی آبادیاں اور تجاوزات قائم کیں۔
کسی نے نہیں سوچا کہ آبادی کا یہ ہولناک بہاؤ کراچی میں سماجی مسائل کو جنم دے گا، سو سے زائد پولیس تھانے ہیں مگر اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری، لاوارث لاشیں، اسٹریٹ کرائم اور بہیمانہ جرائم عام ہیں، یہ شہری تہذیب کے خلاف خود مقامی حکومت کی ناکامی تھی کہ دہشتگردی، گینگ وار اور کشت وخون سے کراچی کا چہرہ داغدار کردیا گیا، پھر بھی کسی کو غم نہیں۔
واضح رہے قیام پاکستان کے بعد کراچی مائی کولاچی کے نام سے ماہی گیروں کی ایک چھوٹی سی بستی تھی مگر اس کے خواب اس کے سائز سے بڑے تھے، شہر ماحولیات کے مسائل سے ناآشنا اور ایشیا کا خوبصورت شہر کہلاتا تھا، جس کی سڑکیں بلدیہ کی گاڑیاں روز دھویا کرتی تھی، تھانے کم اور امن، سلامتی اور رواداری و محبت کراچی کی شناخت تھی۔
ایم اے جناح روڈ، بندر روڈ کے نام سے پہچانا جاتا تھا، اس پر دو رویہ ٹرامیں چلتی تھیں، سویڈن، جرمنی اور برطانیہ سے ڈبل ڈیکر بسیں شہر کی سڑکوں پر دوڑتی تھیں، پھر سرکلر ریلوے شروع ہوئی، بلڈرز نے کثیر منزلہ عمارتوں کے سلسلے دراز کیے، کلفٹن اور ہاکس بے کے ساحل پر زندگی فطرت کے حسیں مناظر سے لطف اندوز ہوتی تھی، سمندری اور ماحولیاتی آلودگی جیسے الفاط سے شہریوں کے کان نابلد تھے، بیوروکریسی انسان اور شہر دوست تھی، اس کے سامنے کراچی اپنے خوابوں کی تعبیر کا متلاشی شہر تھا۔
پاکستان کے ہر شہر، قصبے، دیہات اور گوٹھوں سے ہم وطنوں کے قافلے آکر یہاں بستے رہے، اردو سپیکنگ کمیونٹی نے شہر کی زلفیں سنواریں، ان کی مشترکہ کوششوں نے کراچی کی صورتگری میں اپنا کردار ادا کیا، صنعتیں لگیں، کارخانوں میں مزدوری کے در کھلے، بندرگاہ، سائٹ اور شہرکے بازار رونقیں بڑھاتے رہے، بینک، خودمختار و نیم خودمختار اداروں اور کارپوریشنوں کی کثیر جہتی ترقی، مکینوں کے لیے قدم قدم پر سہولتوں کی فراہمی کا شاندار انتظام تھا، سائیکل اور گدھا گاڑی پر بھی رات کو لائٹ کی موجودگی لازمی تھی۔
ٹریفک پولیس چالان کے لیے چوکس تھی، اہم مقامات اور شاہراہوں کے اطراف سائن بورڈ پر لکھا ہوتا تھا کہ حدود نظامت کراچی میں ہارن بجانا منع ہے اور اس قانون کی خلاف ورزی کی کسی طرم خان میں بھی ہمت نہ تھی۔
آج ضرورت کراچی کے مسائل کے حل کے لیے وافر فنڈز اور کچھ کر دکھانے والی بیوروکریسی اور نگراں حکومت کی شفاف مانیٹرنگ کی ہے۔ دنیا بھر کے بڑے شہروں کے قصے ان کے دانشور، مدبرین اور عظیم مشاہیر بیان کرتے ہیں، ایزرا پاؤنڈ کا کہنا تھا کہ تمام بڑے فنون بڑے شہروں کی میراث ہوتے ہیں۔
کراچی بھی ''کبھی ایک تھا عالم میں انتخاب''، اس کے بگڑنے، کنکریٹ کا جنگل بننے کا سفر انتہائی عبرتناک ہے، کراچی میں کاروباری سرگرمیاں عروج پر ہیں، مخیر حضرات نے کراچی کے دکھ شیئر کیے ہیں۔ یہ ماضی کا رومانٹک شہر تھا، اسے اون کرنے کی ضرورت ہے، جن کے لیے یہاں رزق کا بندوبست ہے وہ اس کا حسن دوبالا کرسکتے ہیں۔ شہریوں کو تجارتی پھیلاؤ اور بزنس کلچر میں محرومیاں نہیں سہولتیں ملنی چاہئیں۔ کراچی ہمہ جہتی توجہ کا مستحق ہے۔