سانحہ جلیانوالہ باغ کے دو اہم کردار
انگلینڈ میں اس سانحے کی خبر دسمبر 1919 میں پہنچی جس کے بعد جمہوریت پسندوں نے اس سانحے کی مذمت کی۔
MADRID:
جلیانوالہ باغ کا کل رقبہ چھ سے سات ایکڑ دوسرے الفاظ میں 48 سے 56 کنال اراضی پر مشتمل ایک تفریحی پارک ، سکھوں کے مقدس مقام گولڈن ٹیمپل سے چند قدم کی پیدل مسافت، مشرقی پنجاب کے شہر امرتسر میں واقع جلیانوالہ باغ کے پانچ خارجی دروازے ہیں اور ایک کنواں ہے، قابل غور بات یہ ہے کہ آخر جلیانوالہ باغ کی اہمیت ہے کیا ؟ تو اس کالم میں یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ جلیانوالہ باغ کی اہمیت کیا ہے؟
تو یہ تذکرہ ہے 1919 کا یعنی آج سے کوئی 99 برس قبل کا یہ اپریل کا مہینہ تھا، اسی مہینے میں اہل پنجاب ایک تہوار مناتے ہیں جسے '' میلہ وساکھی'' کا نام دیا جاتا ہے، میلہ وساکھی پنجاب کی روایت کے مطابق ہر برس گندم کی کٹائی سے قبل منایا جاتا ہے، اس برس برٹش سرکار جس کے ہندوستان پر تسلط کو 159 برس ہوچکے ہیں ایک قانون نافذ کیا اور اس قانون کو ڈیفنس آف انڈیا ایکٹ کا نام دیا ہے اگرچہ اسی نوع کا ایک کالا قانون موجود ہے جوکہ 1915 میں نافذ کیا گیا تھا یعنی کوئی چار برس قبل اس قانون کے نافذ ہونے سے عام ہندوستانیوں کی سیاسی سرگرمیوں کو محدود کر دیا گیا تھا اب جو قانون یعنی ڈیفنس آف انڈیا ایکٹ نافذ کیا گیا ہے۔
1919 میں اس کالے قانون کے نافذ ہونے کے باعث پنجاب کے لوگوں کی سیاسی سرگرمیوں کو مزید محدود کردیا گیا ہے یہ کالا قانون گورنر پنجاب لیفٹیننٹ مائیکل اوڈوائیر کی ذاتی کوششوں سے نافذ کیا گیا ہے۔ گورنر پنجاب کا خیال ہے کہ ہندوستان میں 1857 جیسے جنگی حالات پیدا ہو رہے ہیں اور خدشہ ہے کہ ہندوستان کے آزادی پسند، آزادی کی جنگ کا آغاز نہ کردیں اس کالے قانون کے تحت برٹش سرکار کے اہلکاروں کو یہ حق بھی حاصل ہوگیا ہے کہ وہ جس ہندوستانی شہری کو چاہیں گرفتار کرسکتے ہیں اور جب تک چاہیں حراست میں رکھ سکتے ہیں۔
ان تمام حالات کے باعث ہندوستانیوں میں بے چینی کی لہر پیدا ہونا ایک فطری عمل تھا اور ایسا ہی ہوا چنانچہ 1919 میں پنجاب بھرکی طرح امرتسر میں بھی احتجاج جاری تھا ، چنانچہ 10 اپریل 1919 کو ڈپٹی کمشنر امرتسر کی رہائش گاہ کے سامنے ایک احتجاج منظم کیا گیا ، مظاہرین ستیہ رام و سیف الدین کچلو کی رہائی کا مطالبہ کر رہے تھے، یہ دونوں رہنما گاندھی جی کی اپیل پر تحریک عدم تعاون میں بھرپورکردار ادا کر رہے تھے۔
احتجاج کرنے والوں پر زبردست تشدد کیا گیا جس کے باعث ہنگامے پھوٹ پڑے اور پورے امرتسر شہر میں نظام زندگی مفلوج ہوگیا ۔ انتظامیہ نے لاٹھی گولی سے کام لیا اور شام تک بہت سارے لوگ جاں بحق ہوگئے جن کی تعداد کم سے کم 8 اور زیادہ سے زیادہ 20 تھی۔
ان تمام تر حالات کے باوجود 12 اپریل 1919 ایک اجلاس ہڑتال کے رہنماؤں نے ہندو کالج ڈھب کھٹیکاں میں منعقد ہوا، اس میں اجلاس میں نہس راج جوکہ ڈاکٹرکچلوکی کے مشیر تھے، اگلے روز ساڑھے چار بجے شام کو جلیانوالہ باغ میں عوامی مظاہرے کا اعلان کیا جس کے انتظامی امور ڈاکٹر محمد بشیر کے سپرد تھے جب کہ صدارت کے لیے بزرگ کانگریسی رہنما کنہیا لال کا انتخاب کیا گیا۔ اس اجلاس میں ستیہ رام وسیف الدین کچلوکی رہائی کا مطالبہ بھی کیا گیا۔
13 اپریل 1919 کی صبح وساکھی کا روایتی میلہ شروع ہوا، کرنل ڈائر نے فوجی کمانڈر کی حیثیت سے بھاری نفری کے ساتھ شہرکا گشت کیا شہر کے تمام خارجی و داخلی راستوں پر آنے و جانے والوں کی سخت نگرانی کی جا رہی تھی۔ مزید یہ کہ کرنل ڈائر نے حکم نامہ جاری کیا کہ تمام قسم کے اجتماعات پر پابندی ہوگی چار یا چار سے زائد افراد کے جمع ہونے پر بھی پابندی عائد کردی گئی ، مزید یہ کہ 13 اپریل کی رات 8 بجے کرفیو نافذ کردیا جائے گا۔
کرنل ڈائر کے ان احکامات سے بہت کم لوگ آگاہ تھے جب کہ دن 2 بجے شہر میں جاری کئی روز سے مویشی منڈی کو بھی ختم کروا دیا گیا چنانچہ مویشی منڈی میں آنے والوں نے بھی جلیانوالہ باغ کا رخ کیا۔ کرنل ڈائر کو اس اجتماع کی اطلاع 12:40 پر دے دی گئی تھی چنانچہ اس نے سخت اقدامات اٹھانے کا فیصلہ کرلیا تھا۔
جلیانوالہ باغ میں کثیر تعداد میں لوگ آرہے تھے جن میں خواتین و معصوم بچے بھی شریک تھے جن میں نامور انقلابی بھگت سنگھ بھی شریک تھا جس کی عمر اس وقت فقط 12 برس تھی ساڑھے چار بجے تک 20 سے 25 ہزار لوگ اجتماع میں شریک ہوچکے تھے۔ حالات کی سنگینی کا اندازہ ان لوگوں کو ضرور تھا مگر وہ اس حقیقت سے بے خبر تھے کہ آنے والے چند لمحوں بعد ان پر کیا قیامت ٹوٹنے والی ہے۔
دوسری جانب کرنل ڈائر 90 گورکھا فوجیوں کے ساتھ بڑھتا چلا آرہا ہے اس کے 50 فوجیوں کے پاس تھری ناٹ تھری لی این فیلڈنگ کی بولٹ ایکشن رائفلیں تھیں جب کہ 40 فوجیوں کے پاس لمبے لمبے چاقو والی لاٹھیاں تھیں، ٹھیک پانچ بج کر پندرہ منٹ پر کرنل ڈائر ایکشن کا حکم دیتا ہے چند منٹ بعد کا منظر یہ تھا کہ برٹش سرکار کے اعداد و شمار کے مطابق 379 افراد شہید جب کہ زخمیوں کی تعداد 12 سو تھی البتہ چلائی گئی گولیوں کی تعداد تھی 1650 جب کہ دیگر ذرایع کے مطابق جاں بحق افراد کی تعداد ایک ہزار تھی۔ اس زمانے میں ذرایع ابلاغ نہ تھے بصورت دیگر اس سانحے کے بعد برٹش سرکار کے خلاف ایک طوفان دنیا بھر میں برپا ہوجاتا البتہ پورے ہندوستان میں اس سانحے کے بعد احتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا ۔
عظیم ادیب رابندر ناتھ ٹیگور نے بطور احتجاج برٹش سرکار کی جانب سے عطا کردہ ''سر'' کا خطاب واپس کردیا جب کہ دو روز بعد اس سانحے پر گوجرانوالہ میں 15 اپریل 1919 کو ایک بھرپور احتجاج ہوا ۔ برٹش سرکار نے گوجرانوالہ میں بھی طاقت کا استعمال کیا اور ہوائی جہاز تک سے فائرنگ کی گئی جس کے باعث 12 افراد جاں بحق و 27 زخمی ہوئے ۔
انگلینڈ میں اس سانحے کی خبر دسمبر 1919 میں پہنچی جس کے بعد جمہوریت پسندوں نے اس سانحے کی مذمت کی جب کہ حکمرانوں میں سے ایک طبقے نے کرنل ڈائر کے اقدام کی ستائش کی جب کہ جولائی 1920 کو کرنل ڈائر کو ریٹائرڈ کرکے انگلینڈ بلا لیا گیا جہاں 1927 میں وہ فوت ہوکر جہنم واصل ہوا۔
اس واقعے کے دو کردار ایسے ہیں جن کے ذکر کے بغیر یہ داستان ناممکن رہے گی ایک کردار تھا ادھم سنگھ جوکہ اس وقت جلیانوالہ باغ میں موجود تھا اور لوگوں کو پانی پلا رہا تھا اور اس سانحے کا چشم دید گواہ تھا اس نے قسم کھائی تھی کہ وہ مائیکل اوڈوائر کو قتل کرکے اپنے ہم وطنوں کا انتقام ضرور لے گا، اپنی قسم پوری کرنے کے لیے ادھم سنگھ کو 21 برس کا طویل انتظار کرنا پڑا ۔
ادھم سنگھ کٹھن ترین حالات کا سامنا کرتے انگلینڈ پہنچا اور 13 مارچ 1940 کو تمام تر مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے اس داستان کے دوسرے کردار مائیکل اوڈ وائر کو جہنم واصل کرنے میں کامیاب ہوگیا جس پر ادھم سنگھ پر مقدمہ چلا ۔
ادھم سنگھ اپنے کیے پر شرمندہ نہ تھا بلکہ اپنے عمل پر اسے فخر تھا ایک عدالتی فیصلے کے بعد ادھم سنگھ کو 13 جولائی 1940 کو پھانسی دے دی گئی 1952 میں اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم نہرو نے ادھم سنگھ کو شہید قرار دیا گوکہ سانحہ جلیانوالہ باغ کو 99 برس بیت چکے ہیں مگر آج تک جلیانوالہ باغ سانحہ کا تذکرہ ہوتا رہتا ہے یہ تذکرہ اس وقت تک ہوتا رہے گا جب تک ہمارا سماج آزادی حاصل نہیں کر پاتا گوکہ ہمارا سماج جغرافیائی آزادی 70 برس قبل حاصل کرچکا ہے مگر ضرورت ہے سماجی آزادی کی ۔