ایک فریادی
میں نے یہاں بہت سارے لیڈروں سے استدعا کی ہے ’’بنی گالا ‘‘ بھی گیا تھا ، لیکن کسی نے ملنے نہیں دیا۔
KARACHI:
نمبر نامانوس تھا لیکن پانچ کالیں بیک وقت؟ کوئی خاص بات ہوگی، کال بیک کیا تو واقعی بات تو خاص تھی اور کرنے والا بھی اسپیشل تھا۔ لیکن باقی لوگوں کے لیے نہ وہ کال خاص تھی نہ وہ بات خاص تھی اور نہ ہی وہ شخص بلکہ سرے سے اس کی ہستی ہی خاص تو کیا عام بھی نہیں تھی بلکہ تھی ہی نہیں۔ بولا ، میں فلاں بول رہا ہوں، آنکھوں سے بھی معذور ہوں ، مجھے وائس آف امریکا (پشتو) کا نمبر چاہیے، در اصل ہم کبھی کبھار وائس آف امریکا کے پشتو پروگرام ڈیوہ پر ان کے ٹیلیفون کرنے پر بات چیت کر لیتے ہیں جس سے اس نے فرض کر لیا کہ ہم شاید وائس آف امریکا کے کچھ خاص ہوںگے۔
اس نے بولا ، در اصل میں بھی اندھا ہوں اور ایک بہن بھی اندھی ہے، بیروز گار بھی ہیں اور کرائے کے مکان میں رہتے ہیں جس کا کرایہ بڑی مشکل سے دے پاتے ہیں۔ہم نے کہا کہ اس میں وائس آف امریکا والے کیا کر سکتے ہیں، وہ بھی تو پاکستانی ملازم ہیں ۔بولا ، نہیں وہ ریڈیو کے ذریعے میری فریاد لوگوں تک پہنچا سکتے ہیں ۔
کیا سادہ لوح آدمی تھا۔ مزید کھلتے ہوئے بولا ، میں نے یہاں بہت سارے لیڈروں سے استدعا کی ہے ''بنی گالا '' بھی گیا تھا ، لیکن کسی نے ملنے نہیں دیا ۔یہاں کے ریڈیو اخباروں سے بھی رجوع کیا لیکن کچھ بھی نہیں بنا۔ اس لیے اب وائس آف امریکا سے اپنی فریاد نشر کرنا چاہتا ہوں۔اس شخص کی باتوں سے صاف لگتا تھا کہ وہ آنکھوں کے ساتھ ساتھ عقل کا بھی اندھا تھا یا ۔ پہلے تو ہم نے اسے آئینہ دکھایا کہ آخر تمہیں اس دنیا میں آنے اور رہنے کی ضرورت کیا ہے۔
بولا، آپ تو مجھے خود کشی کرنے کے لیے کہہ رہے ہیں۔ ہم نے کہا، ہم خود کشی وغیرہ کو نہیں کہہ رہے ہیں بلکہ راستہ بتا رہے ہیں۔کیا تمہارے پاس کوئی اور آپشن ہے ؟ بولا میں تو سمجھتا ہوں کہ شاید کوئی خدا کا نیک بندہ میری فریاد سن لے ۔آخر کیوں سنے ؟ وہ اس لیے تو یہ سب کچھ جمع نہیں کر چکا ہے کہ بانٹتا پھرے، بانٹنا ہوتا تو پھر چھینتا ہی کیوں ؟ اس لیے ہماری مان سیدھا راستہ پکڑ اور اسی کے پاس جا جو اصل سننے والا ہے۔ ایک پرانا واقعہ یاد آرہا ہے۔
ہمارے علاقے میں ایک شخص کی بہت ساری بسیں تھیں جو پشاور تک چلتی تھیں اور وہ خود بھی کوئی کاروبار شہر میں کرتا تھا، اس لیے ہر روز صبح اپنی گاڑی میں اکیلا بیٹھ کر شہر جا تا تھا ۔ ایک دن ہم گاؤں کے اڈے پر کھڑے تھے۔ بسوں میں رش تھا، اتنے میں اس شخص کی کار دکھائی دی اوروہ اکیلا ہی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا تھا۔
ہم نے اپنے ساتھ کھڑے ہوئے ایک شخص سے کہا ، دیکھو یہ اکیلا گاڑی میں جا رہا ہے، چاہتا تو دو چار لوگوں کو بھی ساتھ لے جا سکتا تھا لیکن اکیلے جانے میں اس کے غرور اور بالاتری کی تسکین ہوتی ہے ۔وہ شخص بولا ، ہو سکتا ہے کہ یہ بات بھی ہو لیکن دوتین سواریاں اگر یہ مفت میں لے جائے تو اس کی بسوں میں کون جائے گا۔ اس کی تو خواہش یہی ہوگی کہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس کی بسوں میں جائیں، بھلا کوئی اپنا گاہک بھی ضایع کرتا ہے۔
بہرحال فون کرنے والے شخص نے ہماری کوئی نہیں سنی اور وائس آف امریکا کا نمبر مانگنے پر اصرار کرتا رہا، نمبر تو ہم نے اسے دے دیا اور نتیجہ بھی معلوم ہے کہ صفر لیکن ایسے تمام لوگوں پر شدید غصہ بھی آرہا ہے جو اس قسم کی فریادیں سناتے رہتے ہیں۔ جی تو چاہتا ہے کہ سارے کام چھوڑ چھاڑ کر کوئی اچھا سا ہتھیار لیں اور چن چن کر ایسے لوگوں کا قلع قمع کردیں کہ نہ رہے بانس اور نہ بجے یہ '' بے '' سری بانسریاں یعنی ان کو ان کی تکالیف سے چھٹکارا دلا کر وہاں بھیج دیں جہاں ان کی فریاد سننے والا کوئی ہو ۔
وہ قصہ تو آپ سن چکے ہوں گے کہ ایک بادشاہ کو اولاد نرینہ کی تمنا تھی۔ ایک تانترک نے اسے بتایا کہ مخصوص آنکھوں اور عمر کے لڑکے کو ذبح کر کے قربانی دوگے تو حاجت پوری ہو جائے گی۔ بادشاہ نے آدمی دوڑائے، آخر کار ایسا بچہ مل گیا اور خوش قسمتی سے اس کے ماں باپ نے انتہائی غربت اور کثیر العیالی کی وجہ سے اسے بیج بھی دیا ۔ قربانی کی تیاری ہورہی تھی تو بادشاہ نے دیکھا کہ سولہ سال کا وہ لڑکا بالکل خاموش بیٹھا ہے نہ رو رہا ہے نہ چیخ چلا رہا ہے۔
بادشاہ نے پوچھا تو بولا، بادشاہ سلامت فریاد کی تین جگہیں ہوتی ہے۔ ایک جگہ ماں باپ لیکن یہاں تو انھوں نے مجھے خود بیچا ہے، پھر بادشاہ لیکن وہ بھی مجھے ذبح کررہا ہے ۔ تیسری جگہ فریاد کی خدا ہے اور اسے کچھ کہنے یا سنانے کی ضرورت نہیں ہے، وہ خود دیکھ رہا ہے ۔
نمبر نامانوس تھا لیکن پانچ کالیں بیک وقت؟ کوئی خاص بات ہوگی، کال بیک کیا تو واقعی بات تو خاص تھی اور کرنے والا بھی اسپیشل تھا۔ لیکن باقی لوگوں کے لیے نہ وہ کال خاص تھی نہ وہ بات خاص تھی اور نہ ہی وہ شخص بلکہ سرے سے اس کی ہستی ہی خاص تو کیا عام بھی نہیں تھی بلکہ تھی ہی نہیں۔ بولا ، میں فلاں بول رہا ہوں، آنکھوں سے بھی معذور ہوں ، مجھے وائس آف امریکا (پشتو) کا نمبر چاہیے، در اصل ہم کبھی کبھار وائس آف امریکا کے پشتو پروگرام ڈیوہ پر ان کے ٹیلیفون کرنے پر بات چیت کر لیتے ہیں جس سے اس نے فرض کر لیا کہ ہم شاید وائس آف امریکا کے کچھ خاص ہوںگے۔
اس نے بولا ، در اصل میں بھی اندھا ہوں اور ایک بہن بھی اندھی ہے، بیروز گار بھی ہیں اور کرائے کے مکان میں رہتے ہیں جس کا کرایہ بڑی مشکل سے دے پاتے ہیں۔ہم نے کہا کہ اس میں وائس آف امریکا والے کیا کر سکتے ہیں، وہ بھی تو پاکستانی ملازم ہیں ۔بولا ، نہیں وہ ریڈیو کے ذریعے میری فریاد لوگوں تک پہنچا سکتے ہیں ۔
کیا سادہ لوح آدمی تھا۔ مزید کھلتے ہوئے بولا ، میں نے یہاں بہت سارے لیڈروں سے استدعا کی ہے ''بنی گالا '' بھی گیا تھا ، لیکن کسی نے ملنے نہیں دیا ۔یہاں کے ریڈیو اخباروں سے بھی رجوع کیا لیکن کچھ بھی نہیں بنا۔ اس لیے اب وائس آف امریکا سے اپنی فریاد نشر کرنا چاہتا ہوں۔اس شخص کی باتوں سے صاف لگتا تھا کہ وہ آنکھوں کے ساتھ ساتھ عقل کا بھی اندھا تھا یا ۔ پہلے تو ہم نے اسے آئینہ دکھایا کہ آخر تمہیں اس دنیا میں آنے اور رہنے کی ضرورت کیا ہے۔
بولا، آپ تو مجھے خود کشی کرنے کے لیے کہہ رہے ہیں۔ ہم نے کہا، ہم خود کشی وغیرہ کو نہیں کہہ رہے ہیں بلکہ راستہ بتا رہے ہیں۔کیا تمہارے پاس کوئی اور آپشن ہے ؟ بولا میں تو سمجھتا ہوں کہ شاید کوئی خدا کا نیک بندہ میری فریاد سن لے ۔آخر کیوں سنے ؟ وہ اس لیے تو یہ سب کچھ جمع نہیں کر چکا ہے کہ بانٹتا پھرے، بانٹنا ہوتا تو پھر چھینتا ہی کیوں ؟ اس لیے ہماری مان سیدھا راستہ پکڑ اور اسی کے پاس جا جو اصل سننے والا ہے۔ ایک پرانا واقعہ یاد آرہا ہے۔
ہمارے علاقے میں ایک شخص کی بہت ساری بسیں تھیں جو پشاور تک چلتی تھیں اور وہ خود بھی کوئی کاروبار شہر میں کرتا تھا، اس لیے ہر روز صبح اپنی گاڑی میں اکیلا بیٹھ کر شہر جا تا تھا ۔ ایک دن ہم گاؤں کے اڈے پر کھڑے تھے۔ بسوں میں رش تھا، اتنے میں اس شخص کی کار دکھائی دی اوروہ اکیلا ہی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا تھا۔
ہم نے اپنے ساتھ کھڑے ہوئے ایک شخص سے کہا ، دیکھو یہ اکیلا گاڑی میں جا رہا ہے، چاہتا تو دو چار لوگوں کو بھی ساتھ لے جا سکتا تھا لیکن اکیلے جانے میں اس کے غرور اور بالاتری کی تسکین ہوتی ہے ۔وہ شخص بولا ، ہو سکتا ہے کہ یہ بات بھی ہو لیکن دوتین سواریاں اگر یہ مفت میں لے جائے تو اس کی بسوں میں کون جائے گا۔ اس کی تو خواہش یہی ہوگی کہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس کی بسوں میں جائیں، بھلا کوئی اپنا گاہک بھی ضایع کرتا ہے۔
بہرحال فون کرنے والے شخص نے ہماری کوئی نہیں سنی اور وائس آف امریکا کا نمبر مانگنے پر اصرار کرتا رہا، نمبر تو ہم نے اسے دے دیا اور نتیجہ بھی معلوم ہے کہ صفر لیکن ایسے تمام لوگوں پر شدید غصہ بھی آرہا ہے جو اس قسم کی فریادیں سناتے رہتے ہیں۔ جی تو چاہتا ہے کہ سارے کام چھوڑ چھاڑ کر کوئی اچھا سا ہتھیار لیں اور چن چن کر ایسے لوگوں کا قلع قمع کردیں کہ نہ رہے بانس اور نہ بجے یہ '' بے '' سری بانسریاں یعنی ان کو ان کی تکالیف سے چھٹکارا دلا کر وہاں بھیج دیں جہاں ان کی فریاد سننے والا کوئی ہو ۔
وہ قصہ تو آپ سن چکے ہوں گے کہ ایک بادشاہ کو اولاد نرینہ کی تمنا تھی۔ ایک تانترک نے اسے بتایا کہ مخصوص آنکھوں اور عمر کے لڑکے کو ذبح کر کے قربانی دوگے تو حاجت پوری ہو جائے گی۔ بادشاہ نے آدمی دوڑائے، آخر کار ایسا بچہ مل گیا اور خوش قسمتی سے اس کے ماں باپ نے انتہائی غربت اور کثیر العیالی کی وجہ سے اسے بیج بھی دیا ۔ قربانی کی تیاری ہورہی تھی تو بادشاہ نے دیکھا کہ سولہ سال کا وہ لڑکا بالکل خاموش بیٹھا ہے نہ رو رہا ہے نہ چیخ چلا رہا ہے۔
بادشاہ نے پوچھا تو بولا، بادشاہ سلامت فریاد کی تین جگہیں ہوتی ہے۔ ایک جگہ ماں باپ لیکن یہاں تو انھوں نے مجھے خود بیچا ہے، پھر بادشاہ لیکن وہ بھی مجھے ذبح کررہا ہے ۔ تیسری جگہ فریاد کی خدا ہے اور اسے کچھ کہنے یا سنانے کی ضرورت نہیں ہے، وہ خود دیکھ رہا ہے ۔