احتساب کا مقصد
کرپشن پاکستان کا ہی مسئلہ نہیں ہے بلکہ ہر وہ ملک کرپشن کا گہوارا بنا ہوا ہے جہاں سرمایہ دارانہ نظام نافذ ہے۔
پاکستان میں سیاستدان یا تو غیر معمولی سادہ لوح ہیں یا موقعہ پرست کہ ملک و قوم کے اصل مسائل پر اس طرح غیر متعلق ہوجاتے ہیں کہ جیسے سیاست سے ان کا کوئی تعلق ہی نہیں، عدلیہ اور (ن) لیگ کے درمیان محاذ آرائی انتہا کو پہنچ گئی ہے، کرپشن کے خلاف عدلیہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار سخت اور اعلیٰ سطح اقدامات کر رہی ہے اور لگ یہ رہا ہے کہ اگر عدلیہ نواز شریف کو سزا دے دیتی ہے تو نواز شریف پنجاب کے عوام کو سڑکوں پر لاکر عدلیہ کے اقدامات کو ناکام بنانے کی خطرناک کوشش کریں گے جس کا ایک بڑا نتیجہ خونی تصادم کی شکل میں نکل سکتا ہے اور اگر خدانخواستہ ایسا ہوا تو ملک میں اتنی شدید انارکی پھیلے گی کہ شاید فوج کو نہ چاہتے ہوئے بھی مداخلت پر مجبور ہونا پڑ جائے۔
ایسی بدترین صورتحال میں ضرورت اس بات کی ہے کہ اگر اہل سیاست کرپشن کے خلاف عدلیہ کی کارروائی کو ملک و قوم کے مفادات کے مطابق سمجھتے ہیں تو اگر مگر کرنے کے بجائے کھل کر عدلیہ کا ساتھ دیں، اگر سیاستدان عدلیہ کی کارروائیوں کو قوم و ملک کے اجتماعی مفادات کے خلاف سمجھتے ہیں تو عدالتی اقدامات کے خلاف آواز اٹھائیں۔ کرپشن ہمارے ملک اور معاشرے کو گھن کی طرح کھا رہی ہے اگر اس بلا کو نہ روکا گیا تو یہ بلا ملکی معیشت کو دیمک کی طرح چاٹ جائے گی۔
اہل سیاست کی طرف سے عدلیہ کے اقدامات کی رسمی اور بیانات کے ذریعے حمایت کی جا رہی ہے لیکن یہ وقت رسمی بیانات کا نہیں سیاسی اقدامات اور فیصلوں کا وقت ہے۔
عمران خان اس حوالے سے لگی لپٹی سیاست کرنے کے بجائے بہت واضح سیاست کر رہے ہیں، ہمارے وہ سیاستدان جو ملک سے کرپشن کی مہلک بیماری کے دور رس اثرات کو سمجھتے ہیں۔ ان کی ذمے داری ہے کہ وہ کرپشن کے حوالے سے اگر مگر کی بے معنی پالیسی اپنانے کے بجائے واضح اور غیر مبہم پالیسی اختیار کریں تاکہ تصادم کو روکا جاسکے کیونکہ جو لوگ ملک کو تصادم کی طرف لے جا رہے ہیں انھیں احساس ہوکہ کرپشن اس ملک کی جڑیں کاٹ رہی ہے اس کو روکنا ضروری ہے۔
یہاں اس بات کی واضح وضاحت ضروری ہے کہ اگر خدانخواستہ عوام اہل سیاست کے بہکاوے میں آکر تصادم کی راہ اختیار کرتے ہیں تو نقصان غریب عوام ہی کا ہوگا ایلیٹ کا نہیں ۔ اب تک عدالتی اقدامات سے یہ تاثر پیدا ہو رہا تھا کہ احتساب کا رخ ایک خاندان کی طرف ہے لیکن آہستہ آہستہ اس میں وسعت آتی جا رہی ہے۔
پسماندہ ملکوں میں یہ دیکھا جاتا رہا ہے کہ جو خاندان برسر اقتدار آتا ہے وہ نہ صرف اپنے اہل خاندان کو لوٹ مار کی کھلی چھوٹ دے دیتا ہے بلکہ دور نزدیک کے رشتے دار اور دوست احباب اس موقعے سے خوب فائدہ اٹھاتے ہیں حکومت میں شامل افراد کے تو پوبارہ ہوجاتے ہیں جب احتساب کی لاٹھی گھومتی ہے تو وہ سب عناصر اس کی زد میں آجاتے ہیں جس کا ذکر ہم نے کیا ہے کم زیادہ کے فرق سے ہر برسر اقتدار آنے والا گروہ یہی کچھ کرتا ہے جو آج اور ہمیشہ دیکھا جا رہا ہے اور بدقسمتی سے یا عمداً اس احتساب کو امتیازی کہہ کر اس کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
کرپشن پاکستان کا ہی مسئلہ نہیں ہے بلکہ ہر وہ ملک کرپشن کا گہوارا بنا ہوا ہے جہاں سرمایہ دارانہ نظام نافذ ہے۔ ہمارے وہ دوست جو ملک میں عوامی انقلاب کے لیے کام کر رہے ہیں، اپنی ساری توانائیاں مختلف قسم کے ''دن'' منانے میں لگا دیتے ہیں انقلاب کے لیے حالات سازگار نہیں اور تیاری بھی نظروں سے اوجھل ہے تو ہمارے کامریڈ حضرات سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف تو موثر مہم چلا سکتے ہیں۔
کامریڈوں کا تعلق دنیا کی پارٹیوں سے ہوتا ہے کیونکہ وہ عموماً ہر سال کانگریس میں شرکت کے لیے بیرون ملک جاتے ہیں۔ ان کانگریسیوں میں یقینا دنیا کے حالات کو سمجھنے والے باشعور لوگ ہوتے ہوں گے ، کیا ان مہربانوں کی بدھی میں یہ بات نہیں آتی کہ عالمی سطح پر سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف ایک منظم اور موثر تحریک چلائیں۔ یہ بالواسطہ انقلاب ہی کا کام ہوگا۔ آج ہم پاکستان میں کرپشن کی جو انتہا دیکھ رہے ہیں وہ درحقیقت سرمایہ دارانہ نظام ہی کا عطیہ ہے سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف تحریک عملاً انقلاب کے لیے ہی تحریک ہوتی ہے کیونکہ ساری معاشی اور معاشرتی برائیوں کی جڑ سرمایہ دارانہ نظام ہے کرپشن کا بالواسطہ مطلب بے تحاشا دولت کا چند ہاتھوں میں ارتکاز ہے۔
سوشلسٹ معیشت کا کارنامہ یہی ہے کہ وہ ارتکاز دولت کی جڑ کاٹ دیتا ہے یعنی نجی ملکیت کے لا محدود حق کا خاتمہ کردیتا ہے۔ پاکستان سمیت ساری دنیا میں کیا کوئی بھی عام آدمی لامحدود نجی ملکیت کی حمایت کرسکتا ہے؟ جب براہ راست انقلاب کے امکانات نہ ہوں تو بالواسطہ انقلاب کا راستہ ہی واحد راستہ ہوتا ہے جو عوام کو اشرافیہ کی لوٹ مار سے بچا سکتا ہے۔
ہم نے اپنے کالم کا آغاز کرپشن کے خلاف عدلیہ کی مہم سے کیا تھا۔ بلاشبہ یہ مہم فی الوقت امتیازی نظر آرہی ہے لیکن فطری طور پر اس کا دائرہ آہستہ آہستہ وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا جائے گا اور اس مہم میں قوت اس وقت پیدا ہوگی جب کرپشن کے منفی اثرات کا ادراک رکھنے والے احتساب کی حمایت کریں اور اس کا دائرہ ہر کرپٹ اشرافیہ تک لے جائیں۔ کیا کرپشن سے براہ راست اور باالواسطہ متاثر ہونے والے عوام کسی ایسی تحریک کا ساتھ نہیں دیں گے جو ان کی زندگی کو گھن کی طرح کھا جانے والی کرپشن کے خلاف ہو؟
اشرافیہ پوری قوت سے عدلیہ کی کرپشن کے خلاف مہم کو ناکام بنانے کے لیے ہاتھ پیر مار رہی ہے اور اس حوالے سے سادہ لوح عوام کو استعمال کرنے کا گھناؤنا کھیل کھیلنے کی تیاری کر رہی ہے۔ پاکستان میں اشرافیہ کے سربراہ پوری قوت سے کرپشن کے خلاف احتسابی مہم کو ناکام بنانے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس مہم کو جمہوریت کے خلاف سازش کا نام دے رہے ہیں، خلائی مخلوق کا حوالہ احتساب کے حوالے سے شکوک و شبہات پیدا کرنے کی مجرمانہ کوشش ہے، بدقسمتی سے جمہوریت کے اندھے پیروکار گہرائی میں جاکر اس کے نتائج کا اندازہ کرنے سے قاصر ہیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ عدلیہ کے احتساب کا دائرہ محدود ہے ویسے بھی ایک خاندان کے احتساب سے کرپشن ختم نہیں ہوسکتی۔
اس کا دائرہ بڑھانے کی ضرورت ہے اور اس حوالے سے پاناما کے 435 اور بینکوں سے ڈھائی کھرب کے لون معاف کرانے والوں کو احتساب کی زد میں لایا جاسکتا ہے۔ اس طرح یکطرفہ احتساب کا رونا بھی ختم ہوجائے گا اور احتساب کا مقصد بھی پورا ہوجائے گا۔