قطری شہزادے کی آمادگی کے باوجود ان کا بیان ریکارڈ نہیں کیاگیا نوازشریف
قطری خاندان کے ساتھ کاروبارمیں خود شریک نہیں رہا، نواز شریف
نیب ریفرنسز کی سماعت کے دوران نواز شریف نے قطری خطوط کو تسلیم کرلیا۔
اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج محمد بشیر شریف برادران کے خلاف نیب ریفرنسز کی سماعت کررہے ہیں، سماعت کے دوران نواز شریف نے دوسرے روز بھی اپنا بیان قلمبند کرانے کا سلسلہ جاری رکھا، انہوں نے کہا کہ جیرمی فری مین کے 5 جنوری 2017 کے خط میں ٹرسٹ ڈیڈ کی تصدیق کی گئی، جیرمی فری مین نے کومبر گروپ اور نیلسن نیسکول ٹرسٹ کی تصدیق کی۔ ان کے پاس ٹرسٹ ڈیڈ کی کاپی آفس میں موجود تھی لیکن تفتیشی افسر نے بھی ان سے ٹرسٹ ڈیڈ کی کاپیاں لینےکی کوشش نہیں کی، اختر راجا نے نیب کی 3 رکنی ٹیم کی رابرٹ ریڈلے سے ڈھائی گھنٹے ملاقات کرائی، رابرٹ ریڈلے کی رپورٹ کی کوئی حیثیت نہیں کیونکہ اس کے پاس اصل دستاویز ہی نہیں تھی۔
نواز شریف نے کہا کہ اختر راجا نے جلد بازی میں دستاویزات خود ساختہ فرانزک ماہر کو ای میل کے ذریعے بھجوائیں، ان کو معلوم ہونا چاہیے فوٹو کاپی پر فرانزک معائنے کا کوئی تصور موجود نہیں، یہ بھی حقیقت ہے فرانزک ماہر نے فوٹو کاپی پر معائنے کے لیے ہچکچاہٹ ظاہر کی۔ سپریم کورٹ میں پہلے جمع کرائی گئی ڈیڈ میں غلطی سے پہلا صفحہ مکس ہوگیا تھا لیکن اختر راجانے اس واضح غلطی کی نشاندہی بھی نہیں کی۔
مسلم لیگ (ن) کے تاحیات قائد نے اپنے بیان میں کہا کہ دبئی اسٹیل ملز کی افتتاحی تقریب میں شرکت کےعلاوہ مجھے باقی معاملات کا پتا نہیں، قطری خاندان کے ساتھ کاروبارمیں خود شریک نہیں رہا۔
نواز شریف نے قطری خطوط کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ 22 دسمبر 2016 کا قطری شہزادے کا خط اور ورک شیٹ تسلیم شدہ ہے، قطری خطوط کی تصدیق خود حمد جاسم نے سپریم کورٹ کو خط لکھ کر بھی کی، قطری خاندان کے ساتھ کاروبار میں خود شریک نہیں رہا، سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی ورک شیٹ کی تیاری میں بھی شامل نہیں تھا۔ قطری شہزادے نے کبھی جے آئی ٹی کی کارروائی میں شامل ہونے سے انکار نہیں کیا، قطری شہزادے کے آمادہ ہونے کے باوجود بیان قلمبند کرنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی، جے آئی ٹی نے قطری شہزادے کا بیان خود ریکارڈ نہیں کیا، واجد ضیاء کا تبصرہ سنی سنائی بات ہے۔
اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج محمد بشیر شریف برادران کے خلاف نیب ریفرنسز کی سماعت کررہے ہیں، سماعت کے دوران نواز شریف نے دوسرے روز بھی اپنا بیان قلمبند کرانے کا سلسلہ جاری رکھا، انہوں نے کہا کہ جیرمی فری مین کے 5 جنوری 2017 کے خط میں ٹرسٹ ڈیڈ کی تصدیق کی گئی، جیرمی فری مین نے کومبر گروپ اور نیلسن نیسکول ٹرسٹ کی تصدیق کی۔ ان کے پاس ٹرسٹ ڈیڈ کی کاپی آفس میں موجود تھی لیکن تفتیشی افسر نے بھی ان سے ٹرسٹ ڈیڈ کی کاپیاں لینےکی کوشش نہیں کی، اختر راجا نے نیب کی 3 رکنی ٹیم کی رابرٹ ریڈلے سے ڈھائی گھنٹے ملاقات کرائی، رابرٹ ریڈلے کی رپورٹ کی کوئی حیثیت نہیں کیونکہ اس کے پاس اصل دستاویز ہی نہیں تھی۔
نواز شریف نے کہا کہ اختر راجا نے جلد بازی میں دستاویزات خود ساختہ فرانزک ماہر کو ای میل کے ذریعے بھجوائیں، ان کو معلوم ہونا چاہیے فوٹو کاپی پر فرانزک معائنے کا کوئی تصور موجود نہیں، یہ بھی حقیقت ہے فرانزک ماہر نے فوٹو کاپی پر معائنے کے لیے ہچکچاہٹ ظاہر کی۔ سپریم کورٹ میں پہلے جمع کرائی گئی ڈیڈ میں غلطی سے پہلا صفحہ مکس ہوگیا تھا لیکن اختر راجانے اس واضح غلطی کی نشاندہی بھی نہیں کی۔
مسلم لیگ (ن) کے تاحیات قائد نے اپنے بیان میں کہا کہ دبئی اسٹیل ملز کی افتتاحی تقریب میں شرکت کےعلاوہ مجھے باقی معاملات کا پتا نہیں، قطری خاندان کے ساتھ کاروبارمیں خود شریک نہیں رہا۔
نواز شریف نے قطری خطوط کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ 22 دسمبر 2016 کا قطری شہزادے کا خط اور ورک شیٹ تسلیم شدہ ہے، قطری خطوط کی تصدیق خود حمد جاسم نے سپریم کورٹ کو خط لکھ کر بھی کی، قطری خاندان کے ساتھ کاروبار میں خود شریک نہیں رہا، سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی ورک شیٹ کی تیاری میں بھی شامل نہیں تھا۔ قطری شہزادے نے کبھی جے آئی ٹی کی کارروائی میں شامل ہونے سے انکار نہیں کیا، قطری شہزادے کے آمادہ ہونے کے باوجود بیان قلمبند کرنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی، جے آئی ٹی نے قطری شہزادے کا بیان خود ریکارڈ نہیں کیا، واجد ضیاء کا تبصرہ سنی سنائی بات ہے۔