سپریم کورٹ نے وزارت اطلاعات و نشریات کی جانب سے خفیہ فنڈز کی تقسیم کی معلومات کو عام کرنے کا حکم دے دیا ہے۔
جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے میڈیا کمیشن تشکیل دینے کے لیے درخواست کی سماعت کی ،عدالت میں دو دستاویزات جمع کرائی گئیں، پہلی دستاویز میں 9 کروڑ روپے جبکہ دوسری میں صحافیوں میں تقسیم ہونے والے 18 کروڑ روپے کی تقسیم کی تفصیلات ہیں۔ سماعت کے دوران ڈائریکٹر وزارت اطلاعات طاہر حسن نے عدالت کو بتایا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں طالبان کے خلاف آرٹیکل لکھوائے اس کے علاوہ ایبٹ آباد آپریشن پر بھی مختلف آرٹیکل لکھوائے گئے تھے جن کے لئے پیسے خرچ کرنے پڑتے ہیں، جس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے استفسار کیا کہ ایسا کیوں کیا جاتا ہے تو انہوں نے کہا کہ ہمارے مخالفین بھی ایسا ہی کرتے ہیں، جسٹس جواد ایس خواجہ نے پوچھا کہ اگردشمن لاقانونیت کرتا ہے تو کیا ہمیں بھی ایسا کرنا چاہیے، کیا ان آرٹیکلز پر نام نہیں ہوتے؟ تو ڈائریکٹر وزارت اطلاعات نے بتایا کہ یہ آرٹیکل جعلی نام سے لکھوائے جاتے ہیں۔
سماعت کے دوران عدالت نے ریمارکس دیئے کہ عوام کی جیب سے نکالے گئے پیسے کا پتا ہونا چاہیے کہ کہاں خرچ ہوا، بتایا جائے کہ یہ رقم کہاں خرچ کی گئی، وزارت اطلاعات کے وکیل راجا عامر نے کہا کہ آئی ایس پی آر اور آئی ایس آئی کی ہدایات پررقوم جاری کی جاتی ہیں اس لئے فہرست بھی فریڈم آف انفارمیشن آرڈیننس 2001 کےسیکشن 8 کے تحت خفیہ رکھی جائے۔ جس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے کہ یہ سیکشن خود آئین سے متصادم ہے۔
عدالت نے وزارت اطلاعات کے سیکرٹ فنڈ سے18 کروڑ کی ادائیگیوں کو سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر عام کرنے کا حکم دیا اس موقع پر درخواست گزار حامد میر نے عدالت سے استدعا کی کہ قومی مفاد میں تمام تفصیلات کو عام کرنا چاہیے جس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ پہلے 18 کروڑ روپے کی ادائیگیوں کو عام کیا جائے 9کروڑ کی ادائیگیوں کےبارے میں فیصلہ بعد میں کیا جائے گا۔ میڈیا کمیشن کیس کی سماعت 25 اپریل تک ملتوی کردی گئی۔