شفاف الیکشن وقت کا تقاضہ
نگراں وزیراعظم کے لیے پیپلز پارٹی کی طرف سے دیے گئے دونوں نام مسترد کیے گئے ہیں
سیاسی افق پر انتخابات کے یقینی انعقاد کے آثار نمایاں ہوتے جارہے ہیں۔ رفتہ رفتہ سیاسی جماعتوں نے بھی اپنی الیکشن مہم کے تمام انتظامات کو حتمی شکل دیدی ہے ، بادی النظر میں تناؤ اور بعض سیاسی ایشوز پر اختلافات کی گونج سنائی دیتی ہے تاہم جمہوری عمل اور اقتدار کی شفاف طریقے سے آئین وقانون کے مطابق منتقلی سیاسی بصیرت کا بڑا امتحان ہوگا، وقت کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ جمہوری اسپرٹ کے ساتھ انتخابی تیاریاں مکمل کی گئیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ملک میں انتخابات کے وقت مقررہ پر انعقاد کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو، ملک بھر میں جلسے ہورہے ہیں اورباضابطہ انتخابی مہم بھی جلد شروع ہوجائے گی۔
اخباری اطلاع کے مطابق الیکشن کمیشن نے عام انتخابات 25، 26 یا 27 جولائی کو کرانے کی تجویزدیدی ہے اوراس حوالے سے سمری منظوری کے لیے صدرمملکت کو بھیج دی ہے ۔ امکان ہے کہ صدر مملکت سے سمری کی منظوری کے بعد الیکشن کمیشن صدر کی منظوری سے آیندہ عام انتخابات کا شیڈول جاری کرے گا۔ الیکشن کمیشن نے اپنی تیاریوں کو حتمی شکل دینا شروع کر دی ہے اور انتخابی نتائج جمع کرنے کے لیے منصوبہ بندی بھی کر لی ہے۔ پولنگ اسٹیشنز سے ریٹرننگ افسران اورالیکشن کمیشن تک نتائج ارسال کرنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی استعمال کی جائے گی۔ موجودہ اسمبلیوں کی آئینی مدت31 مئی کو مکمل ہو رہی ہے جس کے بعدالیکشن کمیشن60 روز کے اندر انتخابات کرانے کا پابند ہے۔
بلاشبہ ہر الیکشن جمہوری عمل اور منتخب حکومت کی ختم ہونے والی مدت کے بعد قوم کے حق رائے دہندگی کا شاندار اور تاریخی مرحلہ ہوتا ہے جس میں ووٹر تمام تر تحفظات اور امید و خدشات کے ساتھ پولنگ اسٹیشنوں کا رخ کرتے ہیں ، ان کے ووٹ کا تقدس جمہوریت کے ماتھے کا جھومر ہوتا ہے، اور یوں بھی آیندہ اعصاب شکن اور فیصلہ کن انتخابات سے پہلے ووٹ کو عزت دینے کا نعرہ سیاسی ڈکشن کا حصہ بنا ہے، آج کا ووٹر باشعور ہے، اسے ملکی سیاسی اور انتخابی نظام میں اپنے ووٹ کی اہمیت کا بھی علم ہے ۔ پاکستان جس نازک موڑ پر کھڑا ہے اس میں ووٹ کاسٹنگ ضمیر اور طرز حکمرانی میں تبدیلیوں کی نوید لانے کے لیے سب سے بڑی آزمائش ہوگی۔
ووٹرز کی تربیت سیاسی جماعتوں کا بنیادی فرض ہے، تمام سیاسی جماعتیں اب اپنی توانائیاں آیندہ انتخابات کے لیے وقف کردیں، ضابطہ اخلاق کی پابندی کریں، انتخابی مہم شفاف اور شائستگی کا اعلیٰ معیار پیش کرے، رواداری ، تحمل اور منصفانہ و آزادانہ الیکشن کی امنگ پولنگ کے دن قومی امنگوں سے مشروط ہونی چاہیے۔ اس بات کا ادنیٰ سا اشارہ بھی کہیں سے ابھرنا نہیں چاہیے کہ انتخابات میں دھاندلی ہونے کا کوئی خدشہ ہے، یہی وہ مقام ہے جہاں الیکشن کمیشن کی اتھارٹی، اس کے دائرہ کار اور شفاف الیکشن کے انتظامات سیملک کی جمہوری ساکھ مستحکم ہوگی ،اس کے پارلیمانی وقار اور سیاسی جماعتوں کی اجتماعی بصیرت اور فکری و اخلاقی استقامت و بلوغت کا ایک غیر معمولی منظر نامہ سامنے آئیگا۔
الیکشن کمیشن کے اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ 2018 کے عام انتخابات میں ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران ماتحت عدلیہ کے جوڈیشل افسران سے کی جائے گی۔سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور میںایڈیشنل سیکریٹری الیکشن کمیشن ظفر اقبال نے عام انتخابات کی تیاریوں سے متعلق بریفنگ دی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ملک میں ایک سو چار ملین(10 کروڑ 40 لاکھ) رجسٹرڈ ووٹر ہیں، مرد ووٹر پانچ کروڑ، خواتین چار کروڑ اٹھاون لاکھ ہیں۔ سینیٹ کمیٹی کی چیئرپرسن سسی پلیجو نے کہا کہ2013ء کے انتخابات پر سوالیہ نشان آج بھی ہے، چاہتے ہیں کہ الیکشن شفاف اور سیاہی اوربیلٹ پیپر کے مسائل اس دفعہ نہ ہوں ۔
ادھر مسلم لیگ کی حکومت نے اقتدار نگراں حکومت کے حوالے کرنے سے قبل چھٹی مردم شماری کے نتائج کا باضابطہ اعلان کرنیکا فیصلہ کرلیا، میڈیا رپورٹس میں اعلی حکومتی عہدیدار کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ گزشتہ برس مئی میں ہونے والی چھٹی مردم شماری کے نتائج کا اعلان کرنے کی حتمی منظوری مشترکہ مفادات کونسل سی سی ائی کے اجلاس میں دی جائے گی،اس لیے انتخابات کے انعقاد سے پہلے شفافیت اور آئینی حوالوں سے بعد از پولنگ کسی قسم کے قانونی تنازعات کے زیرو امکان پر الیکشن کمیشن قوم کو یقین دلائے کہ الیکشن نہ صرف آزادانہ ہونگے بلکہ ان کی شفافیت پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکے گا۔
اب ذرا نگراں سیٹ کے معاملہ کا بھی جائزہ لینا ضروری ہے ۔ آیندہ انتخابات اسی نگراں وزیراعظم کی نگرانی میں منعقد ہوں گے، وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ کے مابین منگل کو ایک بار پھر ملاقات ہوئی جس میں نگران وزیراعظم کے نام پر جاری ڈیڈ لاک کے خاتمہ کی کوشش جاری رہی۔ میڈیا کے مطابق اگرچہ حکومت اور پیپلزپارٹی دونوں اس معاملے پر لب کشائی سے گریزاں تھیں تاہم میڈیا میں زیر غور ناموں میں ڈاکٹر ملیحہ لودھی، تصدق حسین جیلانی اور ڈاکٹر عشرت حسین مضبوط امیدوار تصور کیے جارہے تھے۔
نگران وزیراعظم کے تقرر کے لیے 11 اپریل سے جب وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کے مابین رابطوں کا سلسلہ شروع ہوا ہے اس کے بعد مختلف نام سامنے آتے رہے ہیں جن میں مشرف دور کے وفاقی وزیر عبدالرزاق داؤد، سابق چیف جسٹس ناصرالملک، سابق جج میاں شاکر اللہ جان، ناصر اسلم زاہد اور سابق نگران وزیراعظم میر ہزار خان کھوسو بھی شامل ہیں جب کہ میڈیا میں پیپلزپارٹی کی طرف سے ذکاء اشرف اور جلیل عباس جیلانی کے نام بھی سامنے آئے تھے۔ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سے ملاقات میں یہ نام پیش ہونگے جب کہ آئینی لحاظ سے اگر وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر 31 مئی تک نگران وزیراعظم پر اتفاق رائے میں ناکام رہتے ہیں تو پھر اسپیکر 8 رکنی پارلیمانی کمیٹی بنائیں گے جس میں چار سینیٹر اور چار قومی اسمبلی کے ارکان ہوںگے۔
اس میں حکومتی اور اپوزیشن ارکان کی تعداد یکساں ہوگی۔ اگر یہ کمیٹی بھی 48 گھنٹے میں یعنی 2 جون تک اتفاق رائے میں ناکام رہتی ہے تو پھر معاملہ الیکشن کمیشن کو چلا جائے گا اور 2013 کی طرح الیکشن کمیشن 48 گھنٹے یعنی 4 جون تک تجویز کردہ ناموں میں سے کسی ایک کو نگران وزیراعظم نامزد کریگا۔ تحریک انصاف کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ نگراں وزیراعظم کے لیے پیپلز پارٹی کی طرف سے دیے گئے دونوں نام مسترد کیے گئے ہیں۔
سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن میں نگراں وزیراعظم کے نام پر اتفاق خوشدلی کے ساتھ ہونا چاہیے ، جن ناموں پر غور کیا جارہا ہے وہ ملک کی معتبرشخصیات ہیں، سیاست میں ہر ایشوکو پوائنٹ آف نو ریٹرن تک نہیں جانا چاہیے ، کوشش ہونی چاہیے کہ ن لیگ اور اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ میں وسیع البنیاد اتفاق رائے پیدا ہو، سیاسی قائدین باہمی مشاورت میں ملکی سیاسی صورتحال کی سیمابیت اور تناؤ کا بھی ادراک کریں، کسی نہ کسی شکل میں صائب پیش رفت ہونی چاہیے ۔
اخباری اطلاع کے مطابق الیکشن کمیشن نے عام انتخابات 25، 26 یا 27 جولائی کو کرانے کی تجویزدیدی ہے اوراس حوالے سے سمری منظوری کے لیے صدرمملکت کو بھیج دی ہے ۔ امکان ہے کہ صدر مملکت سے سمری کی منظوری کے بعد الیکشن کمیشن صدر کی منظوری سے آیندہ عام انتخابات کا شیڈول جاری کرے گا۔ الیکشن کمیشن نے اپنی تیاریوں کو حتمی شکل دینا شروع کر دی ہے اور انتخابی نتائج جمع کرنے کے لیے منصوبہ بندی بھی کر لی ہے۔ پولنگ اسٹیشنز سے ریٹرننگ افسران اورالیکشن کمیشن تک نتائج ارسال کرنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی استعمال کی جائے گی۔ موجودہ اسمبلیوں کی آئینی مدت31 مئی کو مکمل ہو رہی ہے جس کے بعدالیکشن کمیشن60 روز کے اندر انتخابات کرانے کا پابند ہے۔
بلاشبہ ہر الیکشن جمہوری عمل اور منتخب حکومت کی ختم ہونے والی مدت کے بعد قوم کے حق رائے دہندگی کا شاندار اور تاریخی مرحلہ ہوتا ہے جس میں ووٹر تمام تر تحفظات اور امید و خدشات کے ساتھ پولنگ اسٹیشنوں کا رخ کرتے ہیں ، ان کے ووٹ کا تقدس جمہوریت کے ماتھے کا جھومر ہوتا ہے، اور یوں بھی آیندہ اعصاب شکن اور فیصلہ کن انتخابات سے پہلے ووٹ کو عزت دینے کا نعرہ سیاسی ڈکشن کا حصہ بنا ہے، آج کا ووٹر باشعور ہے، اسے ملکی سیاسی اور انتخابی نظام میں اپنے ووٹ کی اہمیت کا بھی علم ہے ۔ پاکستان جس نازک موڑ پر کھڑا ہے اس میں ووٹ کاسٹنگ ضمیر اور طرز حکمرانی میں تبدیلیوں کی نوید لانے کے لیے سب سے بڑی آزمائش ہوگی۔
ووٹرز کی تربیت سیاسی جماعتوں کا بنیادی فرض ہے، تمام سیاسی جماعتیں اب اپنی توانائیاں آیندہ انتخابات کے لیے وقف کردیں، ضابطہ اخلاق کی پابندی کریں، انتخابی مہم شفاف اور شائستگی کا اعلیٰ معیار پیش کرے، رواداری ، تحمل اور منصفانہ و آزادانہ الیکشن کی امنگ پولنگ کے دن قومی امنگوں سے مشروط ہونی چاہیے۔ اس بات کا ادنیٰ سا اشارہ بھی کہیں سے ابھرنا نہیں چاہیے کہ انتخابات میں دھاندلی ہونے کا کوئی خدشہ ہے، یہی وہ مقام ہے جہاں الیکشن کمیشن کی اتھارٹی، اس کے دائرہ کار اور شفاف الیکشن کے انتظامات سیملک کی جمہوری ساکھ مستحکم ہوگی ،اس کے پارلیمانی وقار اور سیاسی جماعتوں کی اجتماعی بصیرت اور فکری و اخلاقی استقامت و بلوغت کا ایک غیر معمولی منظر نامہ سامنے آئیگا۔
الیکشن کمیشن کے اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ 2018 کے عام انتخابات میں ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران ماتحت عدلیہ کے جوڈیشل افسران سے کی جائے گی۔سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور میںایڈیشنل سیکریٹری الیکشن کمیشن ظفر اقبال نے عام انتخابات کی تیاریوں سے متعلق بریفنگ دی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ملک میں ایک سو چار ملین(10 کروڑ 40 لاکھ) رجسٹرڈ ووٹر ہیں، مرد ووٹر پانچ کروڑ، خواتین چار کروڑ اٹھاون لاکھ ہیں۔ سینیٹ کمیٹی کی چیئرپرسن سسی پلیجو نے کہا کہ2013ء کے انتخابات پر سوالیہ نشان آج بھی ہے، چاہتے ہیں کہ الیکشن شفاف اور سیاہی اوربیلٹ پیپر کے مسائل اس دفعہ نہ ہوں ۔
ادھر مسلم لیگ کی حکومت نے اقتدار نگراں حکومت کے حوالے کرنے سے قبل چھٹی مردم شماری کے نتائج کا باضابطہ اعلان کرنیکا فیصلہ کرلیا، میڈیا رپورٹس میں اعلی حکومتی عہدیدار کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ گزشتہ برس مئی میں ہونے والی چھٹی مردم شماری کے نتائج کا اعلان کرنے کی حتمی منظوری مشترکہ مفادات کونسل سی سی ائی کے اجلاس میں دی جائے گی،اس لیے انتخابات کے انعقاد سے پہلے شفافیت اور آئینی حوالوں سے بعد از پولنگ کسی قسم کے قانونی تنازعات کے زیرو امکان پر الیکشن کمیشن قوم کو یقین دلائے کہ الیکشن نہ صرف آزادانہ ہونگے بلکہ ان کی شفافیت پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکے گا۔
اب ذرا نگراں سیٹ کے معاملہ کا بھی جائزہ لینا ضروری ہے ۔ آیندہ انتخابات اسی نگراں وزیراعظم کی نگرانی میں منعقد ہوں گے، وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ کے مابین منگل کو ایک بار پھر ملاقات ہوئی جس میں نگران وزیراعظم کے نام پر جاری ڈیڈ لاک کے خاتمہ کی کوشش جاری رہی۔ میڈیا کے مطابق اگرچہ حکومت اور پیپلزپارٹی دونوں اس معاملے پر لب کشائی سے گریزاں تھیں تاہم میڈیا میں زیر غور ناموں میں ڈاکٹر ملیحہ لودھی، تصدق حسین جیلانی اور ڈاکٹر عشرت حسین مضبوط امیدوار تصور کیے جارہے تھے۔
نگران وزیراعظم کے تقرر کے لیے 11 اپریل سے جب وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کے مابین رابطوں کا سلسلہ شروع ہوا ہے اس کے بعد مختلف نام سامنے آتے رہے ہیں جن میں مشرف دور کے وفاقی وزیر عبدالرزاق داؤد، سابق چیف جسٹس ناصرالملک، سابق جج میاں شاکر اللہ جان، ناصر اسلم زاہد اور سابق نگران وزیراعظم میر ہزار خان کھوسو بھی شامل ہیں جب کہ میڈیا میں پیپلزپارٹی کی طرف سے ذکاء اشرف اور جلیل عباس جیلانی کے نام بھی سامنے آئے تھے۔ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سے ملاقات میں یہ نام پیش ہونگے جب کہ آئینی لحاظ سے اگر وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر 31 مئی تک نگران وزیراعظم پر اتفاق رائے میں ناکام رہتے ہیں تو پھر اسپیکر 8 رکنی پارلیمانی کمیٹی بنائیں گے جس میں چار سینیٹر اور چار قومی اسمبلی کے ارکان ہوںگے۔
اس میں حکومتی اور اپوزیشن ارکان کی تعداد یکساں ہوگی۔ اگر یہ کمیٹی بھی 48 گھنٹے میں یعنی 2 جون تک اتفاق رائے میں ناکام رہتی ہے تو پھر معاملہ الیکشن کمیشن کو چلا جائے گا اور 2013 کی طرح الیکشن کمیشن 48 گھنٹے یعنی 4 جون تک تجویز کردہ ناموں میں سے کسی ایک کو نگران وزیراعظم نامزد کریگا۔ تحریک انصاف کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ نگراں وزیراعظم کے لیے پیپلز پارٹی کی طرف سے دیے گئے دونوں نام مسترد کیے گئے ہیں۔
سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن میں نگراں وزیراعظم کے نام پر اتفاق خوشدلی کے ساتھ ہونا چاہیے ، جن ناموں پر غور کیا جارہا ہے وہ ملک کی معتبرشخصیات ہیں، سیاست میں ہر ایشوکو پوائنٹ آف نو ریٹرن تک نہیں جانا چاہیے ، کوشش ہونی چاہیے کہ ن لیگ اور اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ میں وسیع البنیاد اتفاق رائے پیدا ہو، سیاسی قائدین باہمی مشاورت میں ملکی سیاسی صورتحال کی سیمابیت اور تناؤ کا بھی ادراک کریں، کسی نہ کسی شکل میں صائب پیش رفت ہونی چاہیے ۔