کراچی والوں کے لیے بری خبر

کراچی کو میٹرو بس کے ایسے 10 ٹریک کی فوری ضرورت ہے، ماہرین


Dr Tauseef Ahmed Khan May 23, 2018
[email protected]

بری خبر یہ ہے کہ چین نے کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کے منصوبے میں سرمایہ کاری سے انکار کردیا ہے۔ اچھی خبر یہ ہے کہ لاہور میں اورنج ٹرین آزمائشی طور پر چلنا شروع ہوگئی ۔ میٹرو منصوبے کی کامیابی کے بعد اورنج ٹرین کے چلنے سے لاہور دنیا کے جدید شہروں میں شامل ہوگیا ۔

وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے گزشتہ ہفتے اپنی بجٹ تقریر میں بتایا کہ چین اب سرکلر ریلوے کی بحالی کے منصوبے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ مراد علی شاہ نے حکومت سندھ کے کراچی ٹرانسپورٹ کے اس اہم منصوبہ کی بحالی کے لیے اپنی حکمت عملی ظاہر نہیں کی۔ وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ جب وزیر خزانہ تھے تو انھوں نے چند سال قبل یہ دعویٰ کیا تھا کہ کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی اور توسیع کا منصوبہ سی پیک کے منصوبوں میں سے ایک ہے۔ منصوبہ بندی کے وفاقی وزیر احسن اقبال نے اعلان کیا تھا کہ لاہور کا اورنج ٹرین کا منصوبہ سی پیک کے منصوبوں میں شامل ہے مگر چین کی کراچی کے منصوبے میں عدم دلچسپی کی وجوہات کے بارے میں وفاقی اور صوبائی حکومتیں خاموشی کا سہارا لیے ہوئے ہیں۔

وزیر ٹرانسپورٹ سید ناصر شاہ نے گزشتہ مہینے شاہراہ فیصل پر اسٹیل ٹاؤن سے ٹاور تک 10بسیں چلانے کا اعلان کرنے کی کوشش کی تھی مگر کراچی شہر کی آبادی اور اس کے حجم سے واقفیت رکھنے والے عام طالب علم کے لیے یہ اعلان اونٹ کے منہ میں زیرے سے زیادہ اہمیت کا حامل نہیں تھا۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف نے بڑا بورڈ سے گرومندر تک میٹرو بس منصوبہ کا افتتاح کیا تھا۔ بعد میں یہ منصوبہ اورنگی ٹاؤن تک بڑھا دیا گیا۔ سابق وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ نے اس منصوبے کی ٹاور تک توسیع کی نوید دی تھی۔

مزار قائد اعظم کے انتظامی ادارہ کے اعتراضات کے بعد میٹرو بس کا ٹریک مزار کے سامنے زیر زمین تعمیر کرنے کا فیصلہ ہوا تھا مگر 3 برسوں سے جاری یہ منصوبہ ابھی تک تکمیل کے مراحل میں ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ نے قومی اسمبلی میں بجٹ تقریر میں حکومت سندھ کو یہ پیشکش کی تھی کہ وفاقی حکومت اس ٹریک کے لیے 200 بسیں دینے پر تیار ہے مگر وفاقی اور صوبائی حکومتیں 31 مئی کو اپنی معیاد مکمل کر کے رخصت ہوجائیں گی اور نتیجتاً اس میٹرو بس کے ٹریک کے مکمل ہونے اور بسوں کے مہیا ہونے کے معاملات التواء کا شکار رہیں گے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ کراچی کو میٹرو بس کے ایسے 10 ٹریک کی فوری ضرورت ہے۔ سابق صدر ایوب خان کے دورِ حکومت میں سرکلر ریلوے کا منصوبہ شروع ہوا تھا۔ یہ سرکلر ریلوے کراچی کے مضافاتی اسٹیشن پپری سے شروع ہوئی تھی۔ یہ ایک طرف کینٹ اسٹیشن اور سٹی اسٹیشن سے ہوتی ہوئی کیماڑی کی بندرگاہ پر وزیر منشن اسٹیشن سے سائٹ، ناظم آباد، لیاقت آباد، گلشن اقبال اور اس کے مضافاتی علاقوں سے گزرتی ہوئی ناتھا خان ریلوے اسٹیشن پر مرکزی ریلوے لائن سے منسلک ہوجاتی تھی ، سرکلر ریلوے اس طرح کراچی کو دائرے کی شکل میں گھیرتی تھی۔

60ء کی دہائی میں سائٹ، لانڈھی اور پپری وغیرہ کے علاقوں میں چھوٹی بڑی صنعتوں کا جال بچھ گیا تھا، یوں مزدوروں اور نچلے طبقوں کی بہت سی بستیاں ان علاقوں میں آباد ہوگئیں۔ لانڈھی، ملیر، ڈرگ کالونی ، سابقہ ڈرگ روڈ (شاہراہ فیصل) کے اطراف کی آبادیوں سائٹ، لیاقت آباد، ناظم آباد، گلشن اقبال، پاک کالونی اور اس سے متصل بستیوں کے مکینوں کے لیے سرکلر ریلوے سستی، محفوظ اور تیز رفتار ذریعہ تھی ۔کراچی کے پرآشوب حالات میں زندہ بچنے والے وہ معمر افراد جن کی عمریں 65 اور اس سے زائد ہیں بتاتے ہیں کہ صبح اورشام کے اوقات میں ہر 10 سے 15 منٹ میں سرکلر ریلوے اسٹیشن پر موجود ہوتی۔ مسافر ریلوے اسٹیشن سے ماہانہ ٹکٹ خریدتے تھے۔ سرکلر ریل کے ڈبوں میں پنکھے چلتے اور بلب روشنی دیتے تھے۔

پھر ہر ڈبے میں بیت الخلاء بھی موجود ہوتا۔ خواتین کے لیے علیحدہ ڈبے مختص ہوتے تھے۔ ملیر اور ڈرگ کالونی کے اسٹیشنوں سے یہ گاڑی 20 سے 30 منٹ میں سٹی اسٹیشن پہنچ جاتی۔ شام کو بھی اتنا ہی وقت صرف ہوتا۔ ہزاروں افراد صبح سٹی اسٹیشن پر اتر کر آئی آئی چندری گڑھ روڈ، ایم اے جناح روڈ، صدر اور سول اسپتال کے علاقوں میں بسوں کے ذریعے آسانی سے پہنچ جاتے تھے۔ اسی طرح مزدوروں کے لیے اپنے کارخانوں تک پہنچنے کے لیے یہ بہتر ذریعہ تھا۔

بھٹو دور میں ٹرانسپورٹ مافیا نے پہلے ٹرام سروس بند کرائی اور پھر سرکلر ریلوے کے نظام کو خراب کرنا شروع کیا۔ ریل گاڑیاں لیٹ ہونے لگیں۔ ریلوے انجنوں کا خراب ہونا معمول بن گیا۔ ڈبوں سے بلب اور پنکھے غائب ہونے لگے۔ عوام کے لیے سرکلر ریلوے پر اعتماد کرنا کم ہونے لگا۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں ریلوے مجموعی طور پر برباد ہوئی۔ سرکلر ریلوے پر بھی اس کے برے اثرات پڑے۔ کراچی کی سڑکوں پر پیلے رنگ کی منی بسیں چلنے لگیں جس میں مسافر مرغا بنتے، خواتین کی نشستوں پر مردوں کو سوار کرایا جاتا اور پھر ریل گاڑیوں کی تعداد کم ہونے لگی۔

ایک وقت آیا کہ ریلوے کی انتظامیہ نے سرکلر ریلوے کو بند کرنے کا اعلان کردیا، یوں محسوس ہوتا ہے کہ لینڈ مافیا سرکلر مافیا کو ناکام بنانے میں ملوث تھی۔ سرکلر ریلوے تو عارضی طور پر بند ہوئی۔ ریلوے کے راستوں اور ریلوے اسٹیشنوں پر منظم انداز میں پولیس اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں، بلدیہ کراچی ، کے ڈی اے، میونسپل کارپوریشنوں کے افسروں نے سرکلر ریلوے کی زمینوںپر قبضے کیے۔

جنرل پرویز مشرف کے دور اقتدار میں ایم کیو ایم کے جنگجوؤں نے چائنا کٹنگ رائج کی۔ ریلوے کی زمین چائنا کٹنگ کا شکار ہوئی۔ جاپان کے ادارہ جائیکا نے سرکلر ریلوے کی بحالی میں دلچسپی کا اظہار کیا۔ سندھ میں 2002ء میں قائم ہونے والی علی محمد مہر اور ارباب رحیم کی حکومتیں جائیکا کی پیشکش سے فائدہ نہ اٹھا سکیں۔ یہی صورتحال پیپلز پارٹی کے معمر رہنما قائم علی شاہ کی حکومت میں رہی۔

وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے چین کے دورے کے بعد یہ خوشخبری سنائی کہ کے سی آرکا منصوبہ سی پیک میں شامل ہے، مگر پھر حکومت سندھ کی یہ ذمے داری قرار پائی کہ سرکلر ریلوے کی زمینوں پر سے تجاوزات کا خاتمہ کیا جائے۔ مراد علی شاہ نے جب وزیر اعلیٰ کا عہدہ سنبھالا تو آپریشن ضرب عضب کے مثبت نتائج سامنے آچکے تھے اور شہر میں امن و امان قائم ہوچکا تھا ۔

حکومت سندھ کے متعلقہ وزراء نے بار بار اعلان کیا کہ سرکلر ریلوے کی زمینوں کو بازیاب کرایا جائے گا مگر مراد علی شاہ حکومت یہ فریضہ انجام دینے میں ناکام رہی ، جس کی بناء پر حکومت چین کا مؤقف تبدیل ہوا۔ یوں کراچی کا پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام ختم ہوچکا ۔ ایک زمانے میں سرمایہ کار نئی بسوں پر سرمایہ کاری کرتے تھے ۔ کراچی شہر کے خراب حالات میں ٹارگٹ کلنگ ، اغواء برائے تاوان اور ہنگاموں میں بسوں اور منی بسوں کو نذر آتش کرنے کے واقعات کے بعد اس شعبے میں سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر رہ گئی ۔کراچی ٹرانسپورٹ کارپوریشن (K.T.C) اور سندھ ٹرانسپورٹ کارپوریشن (S.R.T.C) نااہلی، اقربا پروری اور بدعنوانیوں کی ناقابل یقین داستانوں کی آڑ میںختم ہوگئی ۔ سابق ناظم اعلیٰ نعمت اﷲ خان نے بینکوں سے قرضے دلوا کر نجی شعبے میں جدید بسوں کو چلانے کا تجربہ کیا تھا جو ان کی مدت ختم ہوتے ہی خاتمے کی طرف پہنچ گیا۔

کراچی دنیا کے ان چند بڑے شہروں میں شامل ہے جن کا پبلک ٹرانسپورٹ کا کوئی نظام نہیں ہے۔ لوگ چنگچی رکشوں، ٹوٹی پھوٹی بسوں اور منی بسوں کی چھتوں پر سفرکرتے ہیں اور موٹر سائیکلوں کے بڑھتے ہوئے حادثات میں ہلاکتیں بھی اسی کا نتیجہ ہیں۔ بلاول بھٹو نے گزشتہ ہفتے قائد اعظم کے مزار کے سامنے جلسہ عام میں کہا کہ کراچی ان کا شہر ہے اور شہر کی ترقی میں ان کی ذاتی دلچسپی ہے مگر بلاول کو ابھی علم نہیں کہ کراچی شہر کاپبلک ٹرانسپورٹ کا نظام ختم ہوچکا ہے۔

عام آدمی کا خواب تھا کہ پیپلز پارٹی کے دور میں کراچی کا پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام بہتر ہوجائے گا۔ آصف زرداری صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد جب چین جاتے تو کراچی کے عوام یہ توقع کرنے لگ جاتے کہ آصف زرداری ہر ہفتے چین جاتے ہیں تو وہ وہاں سے ٹرانسپورٹ کا جدید نظام لے کر آئیں گے مگر وہ کبھی کراچی کی عوام کے لیے کچھ نہ لائے۔ سی پیک منصوبے سے جو امیدیں وابستہ تھیں وہ بھی ختم ہوگئیں۔ کراچی کے عوام کو ٹرانسپورٹ کی جدید سہولتیں کب ملیں گی؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں