100دن کاپلان یہ کس منہ سے تنقید کر رہے ہیں
کہا گیا تھا کہ فوری انصاف فراہم کرنے کے لیے ججز کی تعداد کو بڑھایا جائے گا
خواب دیکھنا بری چیز نہیں، اگر جذبات سچے ہوں تو منزل مل ہی جاتی ہے ۔ گزشتہ روز پی ٹی آئی نے بھاری مینڈیٹ ملنے کے بعد اپنی حکومت کے پہلے 100دن کا ایجنڈا بھرپور، شاندار، جاندار اور چمکدار انداز میں پیش کیا، جس پر پیپلز پارٹی اور ن لیگی حلقوںنے بیان بازی شروع کی ، ان سو دنوں پر کئی رہنماؤں نے وائٹ پیپر جاری کرنے کا اعلان بھی کردیا۔
حیرت ہے جو سیاستدان عوام سے جھوٹ بول کر اقتدار میں آتے رہے، وہی کہہ رہے ہیں کہ عمران خان کا یہ الیکشن اسٹنٹ ہے۔ ہر محب وطن ایک ہی طرح سوچنے پر مجبور ہے جب کہ ڈنگ ٹپاؤ سیاستدانوں کی مختلف سوچ ان کی مجبوری ہے جس میں ان کا نہیں، ان کے''ڈی این اے'' کا قصور ہے۔قوم کے لیے عمران خان کا یہ ایک جملہ سب پر بھاری ہے کہ ''موٹر وے نہیں قوم بنانا اصل کامیابی ہے'' چند زبانوں نے اسے الفاظ کا گورکھ دھندا اور خواہشوں کا مجموعہ قرار دیا توکچھ کے نزدیک پی ٹی آئی حکومت کے پہلے 100دن کا یہ پروگرام ناقابل حصول اہداف پر مشتمل ہے ۔
اگر جذبہ سچا ہے، اور واقعی کرنا چاہتے ہیں تو دنیا میںکیا نہیں ہوسکتا۔ ملائیشیا جب مہاتیر محمد کو ملا تو کیا تھا؟ مہاتیر نے اسے ایشیائی ٹائیگر بنا دیا، ترکی جب اردگان کو ملا تو کیا تھا؟ اردگان نے اسے یورپ کے سامنے مضبوط معیشت بنا کر کھڑا کر دیا، چین کیا تھا؟ سری لنکا کیا تھا؟ جنوبی افریقہ کیا تھا؟ ان سب ملکوں کو شفاف قیادت نے ترقی کے زینوں تک پہنچایا ہے۔ لیکن ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمیں ہمیشہ موقع پرست سیاستدان ملتے ہیں۔ یہ ن لیگ جو آج کل ہر گاؤں، ہر شہر جا جا کر جھوٹے وعدے کر رہی ہے ، پہلے کیا یہ سوئی ہوئی تھی، مرکز میں 5سال ن لیگ نے گزارے اور 5سال پیپلزپارٹی نے ۔ پنجاب میں ن لیگ نے 10سال گزارے، پی پی نے سندھ میں دس سال گزارے، تو کیا یہاں کے عوام خوشحال ہو گئے ہیں؟انھوں نے حکومت کی ہے تو بندہ پوچھے یہ کیا کرتے رہے ہیں؟
ن لیگ کے منشور کی ہی سن لیں ن لیگ نے اعلان کیا تھا کہ بجلی کی ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن لاسز کو دس فیصد تک لائیں گے جب کہ ایم ڈی پیپکو کے مطابق سکھر الیکٹرک سپلائی کمپنی 38فیصد لائن لاسز، پشاور الیکٹرک سپلائی 33فیصد، حیدر آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی 31فیصد لائن لاسز جب کہ پاور سیکٹر کا سالانہ نقصان 360ارب روپے کے قریب پہنچ چکا ہے۔
کہا گیا تھا کہ گردشی قرضوں کو ختم کردیں گے جب کہ فیڈرل سیکریٹری واٹراینڈ پاور نسیم کھوکھر کے مطابق ''سرکلر ڈیٹ ایک ٹریلن روپے یعنی ایک ہزار ارب روپے تک پہنچ چکا ہے'' ۔ کہا گیا تھا کہ ریاستی ملکیتی اداروں میں آزاد اور پروفیشنل چیف ایگزیکٹو ہائیر کیے جائیں گے جب کہ رپورٹ کے مطابق پانچ سال پہلے پی آئی اے کا سالانہ نقصان 192ار ب روپے تھا، جب کہ آج 350ارب روپے سے زائد ہے ۔پھر ن لیگ نے منشور میں کہا تھا کہ تعلیمی ایمرجنسی نافذ کی جائے گی، ایسا کچھ نہیں ہوا بلکہ شرح خواندگی مزید 5فیصد کم ہوگئی ۔
کہا گیا تھا کہ فوری انصاف فراہم کرنے کے لیے ججز کی تعداد کو بڑھایا جائے گا۔ ججز پہلے سے کم ہوگئے جب کہ زیر سماعت مقدمات کی تعداد 18لاکھ سے زیادہ ہوگئی۔کہا گیا کہ عدالتوں کا ریکارڈ کمپیوٹرائز کیا جائے گا، ایسا کچھ نہیں ہوا بلکہ کئی کئی ریکارڈ ضایع کر دیے گئے۔
پھر کہا گیا کہ تمام حکومتی پراجیکٹس میں خود احتسابی کا نظام لائیں گے جب کہ حکومت 5سال تک خود احتسابی کے نظام کے قریب سے بھی نہیں گزری جس کی وجہ سے آخری 6ماہ میں حکومت کے کرنے کے کام نیب اور سپریم کورٹ کو کرنا پڑ رہے ہیں۔ پھر کہا گیا کہ پنجاب حکومت نے کہا کہ لینڈ ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کر دیا جائے گا، افسوس کہ ایسا کوئی معجزہ نہ ہوسکا!۔ کہا گیا کہ میرٹ بیسڈ سسٹم لانچ کیا جائے گا جب کہ ہر محکمے میں میرٹ کی دھجیاں اُڑائی گئیں!کہا گیا کہ بے روز گاری کا خاتمہ کیا جائے گاجب کہ ملک کا ڈیڑھ کروڑ نوجوان بے روزگاری کی آگ میں جل رہے ہیں ۔
یہ جھوٹے وعدے کرنے والے کس منہ سے دوسروں پر تنقید کر رہے ہیں جب کہ پیپلز پارٹی کا دور اس سے بھی براد ور تھا، ان سو دنوں کے جواب میں خورشید شاہ فرماتے ہیں کہ اگر ایسا ہو جائے تو میں سیاست چھوڑ دوں گا، بھئی آپ سیاست نہ چھوڑو پلیز۔ ملک کے حالات ٹھیک کردو، کسی کے ساتھ مل کر سب ٹھیک کر دو ۔
مز ے کی بات یہ ہے کہ اب پھر یہ کہتے ہیں کہ ہمیں ایک بار پھر موقع دیا جائے تو ہم دودھ کی نہریں نکال دیں گے۔پنجاب میں کسی نہ کسی طرح ان حکمرانوں کی گزشتہ 30سال سے حکومت ہے، یہاں کے عوام کو یہ لوگ پینے کا صاف پانی تو دے نہیں سکے، ریلوے کا نظام ٹھیک نہیں کر سکے، سستی روٹی نہیں دے سکے، کنٹرول ریٹ پر دوائیاں فراہم نہیں کر سکے، بغیر سفارش کے آپ تھانے میں نہیں جا سکتے، بغیر سفارش کے آپ اسپتالوں میں نہیں جا سکتے۔ نکاسی آب کا نظام بہتر نہیں بنا سکے۔
اس کے برعکس کے پی کے میں پی ٹی آئی کو 5سال ملے ہیں، یہ صوبہ دہشت گردوں سے بھرا ہوا تھا، پھر بھی بہت زیادہ مثالی نہیں لیکن وہاں کا نظام پہلے سے کہیں زیادہ بہتر دکھائی دیتا ہے۔فرض کریں کہ پی ٹی آئی سو دن میں نہیں 300دن میں اپنے وعدوں کے قریب تر بھی پہنچ جاتی ہے تو پھر بھی اس میں کیا حرج ہے۔
میرا تعلق تحریک انصاف کے کارکنوں میں سے نہیں ہے لیکن زمینی حقائق یہ بتا رہے ہیں کہ آج ''پی ٹی آئی''' ملک کی سب سے بڑی سیاسی قوت ہے۔اس کے مخالف سیاستدان زخم چاٹ رہے ہیں۔ اب تو سنا ہے کہ یہ دونوں بڑی پارٹیاں الیکشن میں ہی اس شرط پر جا رہی ہیں کہ وہ پی ٹی آئی کو ناکام کریں گی۔ عمران خان کو ناکام کرکے ڈیڑھ دو سال میں حکومت کو گرائیں گی اور نئے الیکشن کروانے میں کامیاب ہوں گی ۔ خدانخواستہ اگر ایسا ہوا تو میرے خیال میں اس سے بڑی بدقسمتی نہیں ہوگی۔کیوں کہ عمران خان کے نام لیوا تو ن لیگ میں بھی بہت ہیں۔