توپ کا گولہ

نواز شریف کے جارحانہ رویے سے زیادہ ہمیں ملک کی ہونے والی جگ ہنسائی کی فکر کرنی چاہیے

ایک معروف تجزیہ کار نے ممبئی حملوں سے متعلق نواز شریف کے بیان کو توپ کے گولے سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ انھوں نے مذکورہ بیان دیتے وقت یہ بھی نہیں سوچا کہ اس کے داخلی و خارجی مضمرات کیا ہوں گے۔ تجزیہ کار کے مطابق تقریباً ایک دہائی قبل ہونے والے ممبئی حملوں کے متعلق سابق وزیر اعظم کا بیان ایک تو ویسے ہی ایسے وقت سامنے آیا جب ملک نازک حالات سے گزر رہا ہے۔

دوسرے اس پر رد عمل کی صورت میں جو تنازع طوفان بن کر اٹھ کھڑا ہوا ہے، اس نے صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ قومی سلامتی کونسل (این ایس سی) کے اجلاس کے صرف 24 گھنٹوں بعد ہی ملک کی اعلیٰ سول و فوجی قیادت نے ایک منفرد قسم کے ردعمل میں میاں صاحب کے بیان کو گمراہ کن قرار دیکر مکمل طور پر مسترد کر دیا۔ اس کے جواب میں سابق وزیر اعظم نے بھی قومی سلامتی کونسل کی جانب سے جاری کیے گئے اعلامیے کو افسوسناک قرار دیا اور کہا کہ وہ اپنی کہی ہوئی بات پر قائم ہیں۔

تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اس قسم کی صورتحال کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس سے پہلے بھی کئی مواقعے پر خارجہ امور سمیت بہت سے معاملات پر سیاسی اور فوجی قیادت کے درمیان اختلاف رائے دیکھنے میں آیا لیکن موجودہ تنازع خاص طور پر فریقین کی جانب سے بڑی احتیاط کا تقاضہ کرتا ہے۔ نواز شریف نے بیان دے کر اپنی پارٹی مسلم لیگ (ن) اور اس کی حکومت کو سخت مشکل میں ڈال دیا ہے اور وہ بھی ایسے وقت جب وہ اپنے قائد کی نا اہلی و معزولی سے ہونے والے نقصان کے ازالے کے لیے تگ ودو کر رہی تھی۔اس لیے تجزیہ کار کے بقول یہ سوال اب بھی اپنی جگہ اہم اور جواب طلب ہے کہ انھوں نے اپنے متنازع بیان کے لیے یہی وقت کیوں چنا اور ممکنہ طور پر وہ اس سے کیا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

بظاہر یہ ممکن نظر نہیں آتا کہ وہ اس سے کوئی فائدہ اٹھا پائیں گے کیونکہ ان کی پارٹی کی حکومت اور ان کے نامزد کردہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے اقتدار کی مدت31 مئی کو ختم ہو رہی ہے، اگر نواز شریف کے بیان کا مقصد اسٹیبلشمنٹ یا عدلیہ پر دباؤ ڈالنا تھا تو کھیل ختم ہونے میں بہت تھوڑا وقت باقی رہ جانے کی وجہ سے وہ شاید ہی اس سے خاطر خواہ فائدہ اٹھا پائیں۔ ہاں، ان کے بیان سے بین الاقوامی طور پر پاکستان کا کیس ضرور کمزور ہوا ہے اور اس کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

دو اور دو چار کے فارمولے کے تحت صورتحال کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ قومی سلامتی کونسل نے جہاں سخت بیان جاری کرکے درست قدم اٹھایا اور ریکارڈ برابر رکھنے کی کوشش کی وہاں میاں صاحب نے قومی کمیشن بنانے کا مطالبہ کرکے تنازع کو زندہ رکھنا چاہا ہے جب کہ ان کی جانب سے جوابی ردعمل میں بھی سخت احتیاط برتے جانے کی ضرورت تھی۔ اب اگر ان کے بیان کو بنیاد بنا کر ان پر آرٹیکل 6 کے تحت غداری کا مقدمہ قائم کیا جاتا ہے تو یہ اس سے بھی بڑی غلطی ہوگی۔


ہمارا مسئلہ دراصل یہ ہے کہ ہم اپنی غلطیوں سے سیکھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ موجودہ کیس کی مثال ایسی ہے جیسے کسی کو بند گلی میں دھکیل کر اس سے ہاتھ پاؤں نہ مارنے کی توقع کی جائے، سارے راستے بند پاکر وہ نکلنے کی صحیح یا غلط ہر کوشش کرے گا۔ آپ صرف اسے ہی کیوں قصور وار ٹھہراتے ہیں، اپنی غلطی بھی تو تسلیم کریں۔ ہم دوسروں کے پیچھے تو یوں ہاتھ دھوکر پڑ جاتے ہیں کہ اس کی عزت بے عزتی کیا جینے مرنے تک کا خیال نہیں کرتے جب کہ اپنے دفاع میں اس کی چلائی ہوئی لاٹھی پر اعتراض کرتے ہیں کہ سر پر نہیں ٹانگ پر مارنی چاہیے تھی۔ مجھے اپنے تجزیہ کار دوست سے بس اسی ایک نکتے پر اختلاف ہے۔

ہر عمل کا رد عمل ہوتا ہے، اگر یہ صحیح ہے تو تسلیم کرنا پڑے گا کہ موجودہ گند کے لیے فریقین برابر کے ذمے دار ہیں۔ تین بار ملک کا وزیر اعظم منتخب ہونے والے شخص کو آپ ''چور، چور'' کا شور مچا کر گلی گلی بھگاتے پھریں گے تو وہ کیا نہیں کرے گا۔ ملک کے مجھ پرکیا حقوق ہیں اور اس کی طرف سے مجھ پرکیا فرائض عائد ہوتے ہیں وہ سب تبھی تو ادا کر پاؤں گا نا جب آپ مجھے ایسا کرنے کے لیے زندہ چھوڑیں گے ، جان لے کر مجھے قصور وار ٹھہرائیں گے تو آپ کے فیصلے پر بھی ضرور سوال اٹھیں گے ۔ میں فاضل تجزیہ کار کی اس بات سے البتہ سو فیصد اتفاق کرتا ہوں کہ موجودہ گرم ماحول کو ٹھنڈا کرنے اور نقصان کا ازالہ کرنے کی کوئی صورت نکالنے کی اشد ضرورت ہے اور اس کے لیے بند کمرے میں بریفنگ لینے کا فیصلہ کرنے کے علاوہ حکومت پارلیمان کا مشترکہ اجلاس بھی طلب کر سکتی ہے ۔

نواز شریف کے جارحانہ رویے سے زیادہ ہمیں ملک کی ہونے والی جگ ہنسائی کی فکر کرنی چاہیے ۔ وہ تو پنجابی زبان کی مشہورکہاوت '' ککھ نئیں ریا ساڈا تے تیلا نئیں رین دینا کسے دا'' کے مصداق خود پر لگائے گئے بھانت بھانت کے الزامات کے داغ دھونے اور صفائی دینے کی چومکھی لڑائی لڑ رہے ہیں جس میں کوئی ہاتھ غلط بھی پڑسکتا ہے، آپ تو ایسی غلطی نہ کریں۔ آپ ان کی پارٹی، حکومت اور جانشین بھائی شہباز شریف کی ان کوششوں سے انکار نہیں کرسکتے جو انھوں نے معاملات کو مزید بگڑنے سے بچانے اور صورتحال کو سنبھالنے کے لیے کیں جن کا خاطر خواہ جواب نہیں دیا گیا، پھر اب چراغ پا ہونے کا کیا جواز بنتا ہے جب نواز شریف نے اپنا بیان واپس لینے سے صاف انکارکردیا ہے جس نے میرے تجزیہ کار دوست کے بقول صورتحال کو مزید بگاڑ دیا ہے اور جس سے الجھنوں میں اضافہ ہوا ہے۔

ایک نئی بات جو فاضل تجزیہ کار نے بتائی ہے وہ یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) میں حتیٰ کہ وزیر اعظم کی سطح تک الجھنیں پائی جاتی ہیں جو اس کی نشاندہی کرتی ہیں کہ پارٹی میں سب کچھ اچھا نہیں ہے۔ این ایس سی اجلاس کے فوری بعد وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی جس طرح نواز شریف سے ملنے گئے اور پھر پریس کانفرنس کی اس کا حیرت انگیز طور پر سرکاری ٹی وی تک نے بلیک آؤٹ کیا اور جس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ حکومت کہاں کھڑی ہے۔ میں تجزیہ کارکی اس رائے سے بھی اتفاق کرتا ہوں کہ یہ دھول جلد نہیں بیٹھے گی اور کیا پتہ یہ گرد کے طوفان کی شکل اختیارکر لے۔

بیان واپس لینے سے نواز شریف کے انکار سے صورتحال اور بھی خراب ہوگی، وہ پہلے ہی مشکل میں ہیں جس میں اپوزیشن کے متوقع ردعمل نے مزید اضافہ کیا ہے، ہو سکتا ہے اب ان کے خلاف احتساب عدالت میں زیر سماعت مقدمہ بھی جلد تکمیل کو پہنچ جائے، باقی جہاں تک ان کے خلاف غداری کا مقدمہ قائم کرنے اور چلانے کے عمران خان اور دیگر اپوزیشن رہنماؤں کے مطالبے کا تعلق ہے تو وہ اس حقیقت کے پیش نظر کھوکھلا نظر آتا ہے کہ جب سابق ڈکٹیٹر مشرف کے خلاف ''فٹ کیس'' ہونے کے باوجود غداری کا مقدمہ قائم نہیں کیا جا سکا تو نواز شریف کو اس کے شکنجے میں کسنا کیونکر آسان ہوگا۔ بظاہر ان کے بیان سے حکمراں جماعت مکمل انتشار اور بدنظمی کا شکار نظر آتی ہے اور وہ بھی ایسے وقت جب انتخابات سر پر ہیں۔

نواز شریف کا یہ بیان ان کی حماقت ثابت ہوگا یا توپ کا گولہ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ انھوں نے اپنے لیے جس راستے کا انتخاب کیا ہے اس کا مطلب کیا ہے۔ کیا انھوں نے تمام کشتیاں جلا دی ہیں، دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ کیا وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور میاں شہباز شریف کی نواز شریف کے متنازع بیان کے حوالے سے کی جانے والی وضاحتیں مسلم لیگ (ن) اس مشکل صورتحال سے نکال سکیں گی۔
Load Next Story