کامیاب اور پر اثر لوگوں کی خصوصیات

ڈاکٹر کہتا ہے ’’اس میں کیا خرابی ہے، میں تو روز اسے پہنتا ہوں، تم دوبارہ کوشش کرو

پہلے خود سمجھیں پھر سمجھائیں۔ کامیاب اور پراثر لوگوں میں عادات یہ ہیں کہ وہ یہ توقعات وابستہ نہیں کرتے کہ دوسرے انھیں سمجھنے کی کوشش کریں بلکہ کامیاب اور پراثر لوگ دوسروں کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

پہلے آپ دوسروں کو سمجھیں، اس کے بعد ان سے توقعات وابستہ کریں۔ اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ لوگوں کی بات سنیں، ان کے نظریات، احساسات اورکیفیات کو سمجھیں۔ اس سے آپ کو دوسرے لوگوں کے نکتہ نظر، احساسات اور جذبات کا ادراک ہوگا۔ اس عمل سے امکانات روشن ہوجائیں گے کہ دوسرے بھی آپ کی بات سنیں اور سمجھیں کیونکہ آپ ان کے احساسات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی بات کہیں گے۔

یہ یاد رکھیں کہ ہر انسان کے ساتھ ایک ضرورت جڑی ہوتی ہے اور اگر آپ کو اس کی ضرورت کی سمجھ آجائے تو آپ اس کا بہتر حل نکال سکتے ہیں۔ فرض کریں کہ آپ اپنی آنکھوں کا معائنہ کروانے ایک ماہر امراض چشم کے پاس جاتے ہیں۔ آپ کی بات سننے کے بعد وہ ڈاکٹر اپنا چشمہ اتار کر آپ کو دیتا ہے اور کہتا ہے۔ ''اسے پہن لیجیے! میں دس سال سے اسے استعمال کر رہا ہوں اور مجھے اس سے بڑی مدد ملی ہے، آپ اسے رکھ لیجیے، میرے پاس گھر پر ایک اور ہے۔''

آپ جب اس کا چشمہ پہنتے ہیں تو چیزیں مزید دھندلی نظر آنے لگتی ہیں آپ شکایت کرتے ہیں کہ ''یہ عینک صحیح نہیں ہے مجھے کچھ نظر ہیں آرہا۔''

اس پر ڈاکٹر کہتا ہے ''اس میں کیا خرابی ہے، میں تو روز اسے پہنتا ہوں، تم دوبارہ کوشش کرو۔''

آپ جھلا کر کہتے ہیں ''مثبت سوچ رکھو، ایک بار پھر سے کوشش کرو۔'' آپ جھلا کر کہتے ہیں ''کیا مطلب ہے مثبت سوچ رکھو۔ بھئی! میں کچھ نہیں دیکھ پا رہا ہوں۔''

اب ڈاکٹر افسوس کے ساتھ تنقید کرتے ہوئے کہتا ہے ''بیٹا ! تم بڑے ناشکرے ہو، حالانکہ میں نے تمہاری مدد کرنے کی بہت کوشش کی۔ اگر آپ کو پھر کبھی آنکھوں کا مسئلہ ہوا تو اس بات کے کتنے امکانات ہیں کہ آپ واپس اس ڈاکٹر کے پاس جائیں گے؟ میرا خیال ہے بالکل نہیں۔ آپ کسی ایسے انسان پر اعتماد نہیں کریں گے جو تشخیص سے پہلے ہی علاج تجویز کردے۔

لیکن ہم خود اپنی زندگی میں اس ڈاکٹر کے جیسے ہی ہیں جب ہم لوگوں سے گفتگو کرتے ہیں تو ان کی بات کو اچھی طرح سمجھنے سے پہلے ہی Solution دینا یا ایک طرح سے لادنا شروع کردیتے ہیں ہم میں گفتگو پر جھپٹ پڑنے یا انھیں نصیحت سے درست کردینے کی بڑی جلدی ہوتی ہے لیکن مسئلے کو گہرائی سے سمجھنے اور اصل وجہ تشخیص کرنے کی کوشش نہیں کرتے ہم یہ بہت آسانی سے بولتے ہیں کہ کوئی ہمارے جذبات نہیں سمجھتا مگر خود کبھی بھی سامنے والے کے جذبات نہیں سمجھتے ہم یہی سوچتے ہیں کہ سامنے والے نے کیا کہا ہے اور کس طرح کہا ہے جب کہ اہم سوال یہ ہونا چاہیے کہ اس نے ایسا کیوں کہا؟ اور یہ بولتے ہوئے اس کے جذبات اور مقصد کیا تھا؟

دنیا میں سب سے اہم کام انسانوں کے درمیان رابطہ قائم کرنا ہے۔ یہ زندگی کی سب سے ضروری Skill ہے۔ انسانوں کے درمیان بہترین رابطہ اسی صورت میں پیدا ہوسکتا ہے جب آپ کے اندر دوسروں کو سننے اور سمجھنے کی صلاحیت موجود ہو۔

''پہلے دوسروں کو سمجھنے کی کوشش کرو، پھر اپنی بات انھیں سمجھاؤ۔''

''پہلے خود سمجھیں'' زیادہ تر لوگ محض اس منشا Intention کے ساتھ دوسروں کی بات سنتے ہیں کہ انھیں بس Reply کرنا ہے۔سمجھنا نہیں ہے وہ یا تو آپ اندر ہی اندر خود کو سنتے ہیں اور یا پھر بولنے کی تیاری کر رہے ہوتے ہیں کہ آپ کو آگے کیا کہنا ہے۔ کیا سوال پوچھنا ہے وغیرہ وغیرہ۔

آپ جو کچھ بھی سنتے ہیں وہ آپ کی زندگی کے تجربات Life Experiences اور زاویہ نظر سے چھن کر آپ تک پہنچتا ہے۔ آپ جو سنتے ہیں اسے اپنی زندگی کے تجربات سے موازنہ کرکے دیکھتے ہیں کہ یہ صحیح ہے یا غلط ہے اور اس کی وجہ سے آپ دوسرے کی بات ختم ہونے سے پہلے ہی اپنے ذہن میں ایک خیال بنا لیتے ہیں سامنے والا کیا کہنا چاہتا ہے آپ دوسروں کی زندگیوں کو اپنے تجربات اور آپ بیتیوں سے پرکھ رہے ہوتے ہیں۔ ''ارے مجھے معلوم ہے کہ تم کیسا محسوس کر رہے ہو مجھے بھی ایسا ہی لگا تھا۔''

آپ اپنی زندگی کی فلم کو دوسروں کے رویوں سے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور دوسروں کی آنکھوں کے لیے اپنی عینک تجویز کرتے ہیں۔

بہت سارے معاملات میں ہم ایسا ہی کرتے ہیں۔ ہماری سوچ خود ہماری آپ بیتی سے بھری رہتی ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ دوسرے بھی اسے سمجھیں، ہم عام طور پر اسے چار طریقوں سے سنتے ہیں۔

(1)۔ یا تو ہم دوسرے کی باتوں کو پوری طرح نظرانداز کردیتے ہیں اور سرے سے سنتے ہی نہیں۔


(2)۔یا پھر سننے کی ایکٹنگ کر رہے ہوتے ہیں اور زبان سے محض جی جی، ہاں ہاں، کہہ رہے ہوتے ہیں۔

(3)۔ یا پھر کچھ سنتے ہیں اور گفتگو کے کچھ ہی حصوں پر توجہ دیتے یا غور کرتے ہیں۔

(4)۔ یا پھر پوری گفتگو غور سے سنتے ہیں اور ایک ایک لفظ پر اپنی توجہ رکھتے ہیں۔

''پہلے دوسروں کو سمجھنا اور پھر سمجھانا''

''ایسے ہی ہے کہ پہلے تشخیص کرنا اور پھر نسخہ تجویز کرنا''

یہ مشکل تو ہے لیکن ایک درست اصول زندگی ہے۔ یہ سچے اور کھرے پیشہ ور لوگوں کا خاصا اور نشانی ہے۔ یہ عینک ساز کے لیے اور ڈاکٹر کے لیے انتہائی اہم اصول ہے آپ کسی ڈاکٹر کے نسخے Prescription پر اس وقت تک اعتماد نہیں کریں گے جب تک کہ آپ کو اس کی تشخیص Diagnosis پر اعتماد نہیں ہوگا۔ جس طرح ہماری سوچ خود ہماری آپ بیتی سے بھری رہتی ہے اور ہم اپنی زندگی کے تجربات کے حساب سے ہی دوسروں کو سنتے ہیں۔

اسی طرح ردعمل اور جواب بھی ہم چار طریقے سے ہی دیتے ہیں۔

تخمینہ: Evaluating پہلے سے Judge کر لیتے ہیں اس کے بعد اتفاق یا اختلاف کا اظہار کرتے ہیں۔

کریدنا:(Probing) اپنے حساب سے سوال جواب کرنے کے لیے چھان بین کرنا۔

نصیحت:(Advising) مکمل بات سننے سے پہلے نصیحت کرنا مشورہ دینا اور حل تجویز کرنا۔

تشریح: (Interpreting) آپ دوسروں کے مقصد نیت اور رویے کو اپنے تجربے کے مطابق Analyze کرتے ہیں دوسرے لفظوں میں اندازے لگاتے ہیں۔

شاید آپ سوچ رہے ہوں کہ اپنے تجربات Experiences کے مطابق کسی کو مشورہ دینے میں کیا برائی ہے؟

کچھ Situation میں ایسا کرنا مناسب ہوسکتا ہے۔ جیساکہ جب کوئی آپ سے آپ کے تجربات کی بنیاد پر کچھ بتانے کے لیے کہے جب آپ دونوں کے درمیان ایک اعتماد کا رشتہ ہو لیکن ہمیشہ ایسا کرنا مناسب نہیں ہے۔ دو انسانوں کے ادراک اور خیالات ایک دوسرے سے مختلف ہوسکتے ہیں۔ لیکن ان تمام اختلافات کے ساتھ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ سالوں اکٹھا رہ سکتے ہیں کاروبار کرسکتے ہیں۔

یہ اندر سے باہر کی جانب Inside Out تک رسائی ہے اسے کام میں لانے سے آپ کے اثر کے دائرے میں تبدیلی آتی ہے۔ آپ حقیقتاً سنتے ہیں لہٰذا آپ دوسروں کے لیے قابل تاثیر بن جاتے ہیں اور یہی چیز دوسروں پر اثرانداز ہونے کی شرط ہے آپ کے اثر کا دائرہ بڑھنے لگتا اور آپ اپنے فکر کے دائرے میں بہت سی چیزوں پر اثرانداز ہونے کے قابل ہونے لگتے ہیں۔جس قدر گہرائی کے ساتھ آپ دوسروں کو سمجھیں گے اور ان کی روح کو چھو سکیں گے ۔

موبائل پیغامات یا ایس ایم ایس دور جدید میں رابطے کا ایک بڑا ذریعہ بن چکے ہیں۔ ہر وقت ہر جگہ اپنوں سے رابطہ آپ کی انگلیوں کی جنبش کے منتظر ہیں۔ موبائل پر ابھرنے والا وہ چند لفظوں پر مشتمل پیغام آپ کے اپنوں کے چہرے پر مسکراہٹ لے آتا ہے۔ ان کے دل میں آپ کی قدر و منزلت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ای میل یا برقی خط دور جدید میں دنیا بھر میں پیغام رسانی کا جدید اور تیز ترین ذریعہ ہے۔

ان سب کا مقصد صرف یہ ہے کہ اپنوں کو اپنائیت کا احساس دلایا جائے ان کے ساتھ رابطے میں رہا جائے اور انھیں یاد رکھا جائے، کیونکہ اپنائیت کا احساس ہو تو سات سمندر پار رہنے والے بھی گھر کے مکین محسوس ہوتے ہیں اور یہ احساس نہ رہے تو ساتھ رہنے والے بھی اجنبی لگنے لگتے ہیں۔اکثر اوقات خوشیوں کا حصول اتنا مشکل نہیں ہوتا وہ آپ کے پاس ہی موجود ہوتی ہیں بس ضرورت ہے تو اس بات کی کہ خوشیوں کے لیے وقت نکالا جائے۔
Load Next Story