دیرلوئر NA34 اصل مقابلہ جماعت اسلامی پیپلزپارٹی اوراے این پی میں ہوگا

ضلع سے ایک قومی اور 4صوبائی اسمبلی کی نشستوں کے لیے اس دفعہ امیدواروں کی تعدادزیادہ ہے اور تقریباً 110 امیدوارسامنے۔۔۔

ضلع سے ایک قومی اور 4صوبائی اسمبلی کی نشستوں کے لیے اس دفعہ امیدواروں کی تعدادزیادہ ہے اور تقریباً 110 امیدوار سامنے آگئے ہیں۔ فوٹو : فائل

آئندہ عام انتخابات کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کی سرگرمیاں جاری ہیں۔ ہر امیدوار کامیابی کے لیے مختلف حربے استعمال کر رہا ہے۔

امیدواراور اس کے دوست احباب خوشی و غمی کی تقریبات میں نظر آنے لگے ہیں، دیر لوئر جماعت اسلامی کا گڑھ مانا جاتا ہے، اگر 1985ء کے غیرجماعتی انتخابات کا جائزہ لیاجائے تو اس وقت دیر ایک ضلع کی حیثیت رکھتا تھا اوردو قومی اسمبلیوں کی نشستوں پر مشتمل تھا۔

اسی طرح ضلع دیر بشمول ملاکنڈ ایجنسی میں جماعت اسلامی نے دو قومی اورپانچ صوبائی اسمبلیوں کی تین نشستیں، ایک پی پی پی اور ایک مسلم لیگ (ن) نے جیتی تھی، اس طرح 1988ء کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کی ایک نشست جماعت اسلامی، ایک پاکستان پیپلز پارٹی، تین صوبائی اسمبلی کی نشستوں میں ایک جماعت اسلامی ایک پاکستان پیپلز پارٹی اور ایک پاکستان مسلم لیگ نے حاصل کی تھی، 1990ء کے انتخابات میں دو قومی اسمبلی کی نشستیں پاکستان پیپلز پارٹی پانچ صوبائی نشستوں پرجماعت اسلامی اورایک نشست پرمسلم لیگ کامیاب قرار پائے تھے۔

1993ء کے انتخابات میں جماعت اسلامی اورپاکستان پیپلزپارٹی نے ایک ایک قومی اسمبلی کی نشست، جماعت اسلامی نے تین، عوامی نیشنل پارٹی اور پاکستان پیپلز پارٹی نے ایک صوبائی اسمبلی کی نشست پر کامیابی حاصل کی تھی، 1997ء کے انتخابات میں جماعت کے بائیکاٹ کی وجہ سے پاکستان مسلم لیگ اور پاکستان پیپلز پارٹی نے ایک ایک قومی جب کہ پاکستان مسلم لیگ نے دو صوبائی، عوامی نیشنل پارٹی نے ایک اور پاکستان پیپلز پارٹی نے تین صوبائی نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی، 1997ء میں ضلع دیرکو دو اضلاع میں تقسیم کیا گیا جس میں ضلع دیر لوئر کو ایک قومی اور چار صوبائی اسمبلی کی نشستیں مل گئیں۔

2002ء کے عام انتخابات میں جماعت اسلامی نے ایک قومی اور چار صوبائی اسمبلی کی نشستیں حاصل کی تھی،یہاں سے جماعت اسلامی کے سابق امیر قاضی حسین احمد مرحوم نے این اے 34 دیر لوئر سے کامیابی حاصل کی تھی جو بعد ازاں انہوں نے چھوڑ دی اور اس پر ضمنی انتخابات ہوئے جس میں جماعت اسلامی کے سابق امیر دیر لوئر احمد غفور غواص نے کامیابی حاصل کی، 2002ء میں سراج الحق نے بھی صوبائی اسمبلی کی نشست پر کامیابی حاصل کی تھی۔

2008ء کے انتخابات میں جماعت اسلامی نے ایک بار پھر انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا جس کے باعث پاکستان پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی کی ایک ،صوبائی اسمبلی کی تین نشستوں پر جب کہ عوامی نیشنل پارٹی نے ایک صوبائی اسمبلی کی نشست پر کامیابی حاصل کی، اس مرتبہ 2013ء کے انتخابات میں جماعت اسلامی نے بھرپور حصہ لینے کا اعلان کیا ہے اس ضمن میں سب سے پہلے جماعت اسلامی نے اپنے امیدواروں کو نامزد کرکے انتخابی سرگرمیاں جاری رکھی ہوئی ہیں،لیکن اس دفعہ جماعت کوکافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ 2008ء کے انتخابات میں بائیکاٹ کی وجہ سے دیگر جماعتوں کو اپنی پارٹیاں مضبوط بنانے کاموقع مل گیا ہے۔اس وقت اے این پی بھی ایک مضبوط قوت بن گئی ہے۔




ضلع سے ایک قومی اور چار صوبائی اسمبلی کی نشستوں کے لیے اس دفعہ امیدواروں کی تعدادزیادہ ہے اور تقریباً ایک سو دس امیدوار سامنے آگئے ہیں جن میں این اے 34 کے لیے28امیدوار میدان میں ہیں جن میں جماعت اسلامی کے صاحب زادہ محمد یعقوب خان'پی پی پی کے سابق وزیر مملکت ملک عظمت خان'جے یو آئی کے مولانا فضل اللہ روغانی'اے این پی کے محمد اعظم خان کے درمیان اصل مقابلہ ہوگا لیکن صاحب زادہ محمد یعقوب خان کی پوزیشن قدرے مستحکم دکھائی دے رہی ہے اسی طرح ملک عظمت خان اپنے حلقے کو وقت نہ دینے پر ان کی پوزیشن کم زور نظر آرہی ہے ، اگرپی پی پی، اے این پی، جے یو آئی اورمسلم لیگ اتحاد کرلیتی ہیں،تو صاحب زادہ محمد یعقوب خان کو مقابلے میں دشواری کا سامناکرنا پڑے گا۔

اسی طرح پی کے 94 پر 25 امیدوار میدان میں کود پڑے ہیں،جن میں جماعت اسلامی کے مظفر سید ایڈووکیٹ، پیپلز پارٹی کے نواب زادہ محمود زیب اوراے این پی کے حاجی محمد ایوب خان کے درمیان کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے، حلقے میں مختلف پارٹیوں کے درمیان پائے جانے والے اختلافات جماعت اسلامی کے امیدوار مظفر سید ایڈووکیٹ کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتے ہیں،یہاں اصل مقابلہ جماعت اسلامی، پی پی پی اوراے این پی کے امیدوارکے درمیان ہو گا جب کہ اس دوڑ میں جے یوآئی (ف) کے امیدوار قاضی آیاز اور پی ایم ایل (ن) کے امیدوار ملک فاروق اقبال بھی شامل ہیں اسی طرح پی کے 95 پر پندرہ امیدوارآمنے سامنے ہیں جن میںجماعت اسلامی کے سراج الحق اوراے این پی کے سابق وزیر حاجی ہدایت اللہ کے درمیان سخت مقابلہ متوقع ہے۔

اس حلقے میں سراج الحق کی اپنی شخصیت اور جماعت کا ووٹ بینک موجود ہے لیکن دوسری حاجی ہدایت اللہ جو کہ جماعت ہی سے مستعفی ہو کراے این پی شامل ہو گئے تھے، کی بھی پوزیشن بہترنظرآرہی ہے،لیکن بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ قوم اتمان خیل کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑنے والے اے این پی کے سابق ضلعی صدر حاجی بہادر خان اور حاجی ہدایت اﷲ کے در میان راضی نامہ ہو جائے گا اوراس صورت میں حاجی بہادر خان، حاجی ہدایت اﷲ خان کے حق میں دست بردار ہوجاتے ہیں تو سراج الحق کے لئے مشکلات بڑھ سکتی ہیں۔

اس حلقے سے پی پی پی کے امیدوار رحمت اﷲ 'جے یوآئی(ف) کے حاجی عبدالرحمن خان ' مسلم لیگ کے ڈاکٹر دیداربھی قسمت آزمائی کررہے ہیں، پی کے 96 سے 13 امیدوار میدان میں ہیں جن میں پیپلز پارٹی کے حاجی محمد زمین خان ایڈووکیٹ ' جماعت اسلامی کے حاجی سعید گل 'اے این پی کے نعیم جان 'جے یوآئی کے حاجی شاکر اﷲ ' مسلم لیگ (ن) کے انور سید ایڈووکیٹ کے درمیان ٹاکرہ ہوگا،مگر اصل مقابلہ حاجی سعید گل اور حاجی محمد زمین خان ایڈووکیٹ کے درمیان ہوگا 'پی کے97 پر27 امیدوار آمنے سامنے ہیں اس سے قومی وطن پارٹی کے صوبائی جنرل سیکرٹری بخت بیدار خان،پی پی پی کے ڈاکٹر ذاکر اﷲ خان، جے یوآئی (ف) کے امیر سلطان یارایڈووکیٹ 'پی ایم ایل (ن) کے اکرام غنی ' اے این پی کے حیسن شاہ یوسف زئی امیدوار ہیں'اس حلقے میں ڈاکٹر ذاکر اﷲ اورملک عظمت خان کے درمیان اختلافات موجود ہیں۔

اگر یہ اختلافات بروقت ختم نہیں کئے گئے تو دونوں امیدواروں کیلئے نقصان ثابت ہوسکتاہے، پی کے 97 پر اصل مقابلہ جماعت کے سلطنت یار ایڈووکیٹ ' قومی وطن پارٹی کے بخت بیدار خان اورپی پی پی کے ڈاکٹر ذاکر اﷲ خان کے درمیان ہوگا ' مذکورہ حلقے میں جے یوآئی(ف) کے مولانا گل نصیب خان' اے این پی کے حسین شاہ یوسف زئی ' پاکستان مسلم لیگ (ن) کے اکرام غنی کی پوزیشن کم زور نظر آرہی ہے'ادھر جے یوآئی (ف) سے اے این پی اورپی پی پی کے درمیان اتحاد کے لئے بات چیت چل رہی ہے اوربات اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ جے یوآئی(ف) چارصوبائی سیٹیں قربان کرنے کے لئے تیارہے اور جے یوآئی (ف) این اے 34 لینے کے لئے پی پی پی اوراے این پی کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں۔

اگرجے یو آئی (ف) پی پی پی اوراے این پی میں کسی ایک جماعت کی جانب سے این اے 34 کیلئے جے یوآئی کو ملتی ہے توجے یوآئی(ف) این اے34 کے مولانا فضل اﷲ روغانی جماعت اسلامی کے صاحب زادہ محمد یعقوب خان کے لئے مشکلات پیدا کرسکتی ہیں اگرجے یوآئی پی کے 94 ' پی کے95 اور پی کے97 پر اے این پی کے امیدواروں کی حمایت یا اتحاد کرے تو جماعت اسلامی کے امیدواروں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے اس طرح دیر لوئر میں جتنے امیدوار زیادہ ہوں گے اس کا براہ راست فائدہ جماعت اسلامی کو ہوگا کیوں کہ دیگر پارٹیوں کا ووٹ بینک تقسیم ہو جائے گا اور جماعت اسلامی کا ووٹ بینک اپنی جگہ برقرار رہ جائے گا جس کا فائدہ جماعت اسلامی کے امیدواروں کو ہی جائے گا'بہر حال اصل فیصلہ 11 مئی کو ہوجائے گا۔
Load Next Story