انتخابی معرکے میں مذہبی اقلیتوں کا کردار

اقلیتی نشستیں صرف ٹھاکروں اور سیٹھوں تک محدود کیوں۔۔۔؟

اقلیتی نشستیں صرف ٹھاکروں اور سیٹھوں تک محدود کیوں۔۔۔؟ فوٹو : فائل

ISLAMABAD:
اقلیتیں یا اقلیت کی اصطلاح دراصل 17ویں اور 18ویں صدی میں یورپی سیاسی نشیب و فراز کی پیدا کردہ ہے۔

اس زمانہ میں یورپ کی مختلف طاقتیں اپنے اثرورسوخ کو بڑھانے میں مصروف تھیں اور جب بھی کوئی نیا علاقہ کسی طاقت کے زیر اقتدار آیا تو وہاں کے لوگوں کے ساتھ سیاسی، معاشی اور دوسری سطحوں پر تعصب پر مبنی سلوک برتا جانے لگا۔ یوں تو اس قسم کا امتیازی سلوک تاریخ کے ہر دور میں فاتحین نے مفتوحین کے ساتھ روا رکھا ہے، لیکن 17ویں اور 18ویں صدی میں اس کے لئے اقلیت کی اصطلاح وضع ہوئی اور اس کے بعد سے یہ اصطلاح مختلف وسیع اور محدود معنوں میں استعمال ہوتی رہی ہے۔



عام طور سے اقلیت سے مراد کسی سماج کا وہ گروہ ہے، جو عددی اعتبار سے دوسرے گروہ یا گروہوں سے کم ہو اور سماج میں اثر و نفوذ کے اعتبار سے بھی وہ کمزور ہو۔ چنانچہ ہر بڑے سماج میں تہذیبی، مذہبی، لسانی اور نسلی اقلیتیں پائی جاتی ہیں۔ اقلیتی گروہ کی سب سے اہم شرط یہ ہے کہ یہ ایسا گروہ ہوتا ہے، جسے کسی ملک کے سماجی ڈھانچے اور فیصلہ ساز اداروں میں کمزور مقام حاصل رہتا ہے۔ اور جو مختلف قسم کے امتیازات اور ترجیحی برتاؤ کا شکار رہتا ہے۔ ترجیحی برتاؤ اور امتیازی سلوک کی بناء پر یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ اقلیت کا تصور جمہوری اقدار کی نفی کرتا ہے۔

کیونکہ اگر جمہوریت کا مفہوم انفرادی حقوق اور شخصیت کی نشوونما کی رہنمائی ہے تو اقلیت کا تصور گروہی اساس پر افراد کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کرنا ہے۔ حقیقت دراصل یہ ہے کہ اقلیت کا تصور سامراجی تصورات کی جھلک پیش کرتا ہے جن کا اثر اور نفوذ آج کے جمہوری دور میں بھی مختلف سماجوں میں باقی ہے۔ دنیا کے تقریباً ہر ملک میں تہذیبی، نسلی، قومیتی اور مذہبی اقلیتیں موجود ہیں، لیکن ان میں وہ اقلیتیں سب سے زیادہ استحصال کا شکار ہیں جو سیاسی، معاشی، قانونی اور سماجی روابط کی بنیادوں پر بہت سی مراعات سے محروم ہیں۔ اقلیتیں تو ہر سماج میں پائی جاتی ہیں لیکن سیاسی بنیاد پر پائی جانے والی اقلیتیں سب سے زیادہ کمزور ہوتی ہیں۔



پاکستان میں ہندو، کرسچین، احمدی، پارسی، بدھ مت، جین مت، سکھ اور یہودی اقلیتیں رہائش پذیر ہیں۔ ملک کی سب سے بڑی اقلیت ہندو مذہب کے ماننے والوں کی ہے، جو اگرچہ چاروں صوبوں بشمول گلگت بلتستان اور کشمیر میں موجود ہیں لیکن ان کی کثیر تعداد سندھ اور جنوبی پنجاب میںرہتی ہے۔

مسیحی برادری، احمدی اور سکھوں کی اکثریت پنجاب کے شہروں تک محدود ہے۔ پارسی مذہب کے اثرات پاکستان کے تمام ہی صوبوں پر پڑے ہیں، مگر بلوچستان اور سندھ میں ان کا زیادہ زور ہے۔ کیوں کہ یہ دونوں صوبے قدیم ایرانی مملکت کا حصہ تھے۔ اسی طرح سب سے چھوٹی اقلیت یہودی بھی سندھ اور بلوچستان میں زیادہ مقیم ہیں۔ بدھ مت کے ماننے والوں کا پاکستان میں سب سے بڑا مرکز پشاور کے نزدیک واقع ٹیکسلا کا شہر تھا جو آج بھی کسی نہ کسی سطح پر قائم ہے۔ اس کے علاوہ سندھ اور بلوچستان میں بھی بدھ مذہب کے آثار پائے جاتے ہیں۔



پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی بڑھنے، ریاستی مشنری اور غیر ریاستی اداروں کی جانب سے اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ میں ناکام ہونے کی وجہ سے اقلیتوں کے حقوق کا سوال روز بروز پیچیدہ ہوتا جارہا ہے۔ پنجاب سے لے کر بلوچستان اور سندھ میں گزشتہ برسوں میں رونما ہونے والے واقعات بتاتے ہیں کہ عدم برداشت اور رواداری کا ماحول سکڑتا جارہا ہے۔ ان حالات کے لئے سیاسی کلچر، ریاستی ادارے اور حکومتی رویہ تو ذمہ دار ہے ہی، مگر خود سیاست اور حکومت میں اقلیتوں کی نمائندگی کا معاملہ بھی بڑی اہمیت رکھتا ہے۔

ملک میں اقلیتوں کے حقوق کا معاملہ جتنا پیچیدہ ہے اتنا ہی پیچیدہ ان کی نمائندگی کا بھی ہے۔ ملک کے منتخب ایوانوں میں یہ نمائندگی اپر کلاس کا کھیل رہا ہے۔ کوئی اِکادْکا نچلے طبقے کا شخص منتخب ہو کر آتا ہے، جو اتنے بڑے ایوان میں غیر مؤثر ہو کر رہ جاتا ہے اور پھر خود بھی اپنا طبقہ تبدیل کرنے میں لگ جاتا ہے۔ اقلیتی نشستوں کے لیے مشہور ہے کہ یہ نشستیں سیاسی جماعتوں یا بااثر افراد کے ہاتھوں بکتی ہیں اور ان نشستوں کے خریدار سیٹھ لوگ ہوتے ہیں۔ نتیجتاً صحیح نمائندگی نہیں ہو پاتی۔ ظاہر ہے کہ کروڑوں روپے خرچ کرکے حاصل کی جانے والی نشست عام لوگوں کی نمائندگی یا بھلائی کے لئے تو استعمال نہیں ہوگی۔




آبادی اور ووٹ کے لحاظ سے ملک کی سب بڑی اقلیت شیڈول کاسٹ (ہندوئوں کے نچلے طبقات) گذشتہ 15 سال سے اسمبلیوں کی نمائندگی سے محروم ہے۔ ان افراد کا تعلق پسماندہ طبقات سے ہے اور معاش کھیتی باڑی ہے۔ شیڈول کاسٹ رائٹس موومنٹ پاکستان شیڈول کاسٹ اقلیت کاسب سے بڑا نیٹ ورک ہے، جو ملک بھر کے 31 اضلاع 91 تحصیلوں اور 916 یونین کونسلز میں 260,000 سے زائد ممبران کا نیٹ ورک ہے۔ قومی اسمبلی کے ایک حلقے میں تقریباً3لاکھ ووٹرز ہوتے ہیں، اس شرح سے شیڈول کاسٹ اقلیت کی نمائندگی قومی اسمبلی کی 4 نشستوں کے لئے بنتی ہے ۔

پنجاب کی شیڈول کاسٹ اقلیت کی آج تک قومی اسمبلی میں نمائندگی نہ ہونا نہ صرف سیاسی جماعتوں کی زیادتی بلکہ سیاسی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ پنجاب کے ضلع رحیم یارخان کے قومی اسمبلی کے 6 حلقوں میں شیڈول کاسٹ اقلیت کے 60,000 ووٹ رجسٹرڈ ہیں، بہاول پور کے5 قومی حلقوں میں 28,500، بہاول نگر کے4 حلقوں میں 10,500، ملتان کے 6 حلقوں میں 18,500، لودھراں کے 2 حلقوں میں 4,000، خانیوال کے 4 حلقوں میں 31,500، ویہاڑی کے 4 حلقوں میں14,500، راجن پور کے2 حلقوں میں2,000، لیہ کے 2 حلقوں میں9,000 اور مظفر گڑھ کے 5 قومی اسمبلی کے حلقوں میں10,000رجسٹرڈ ووٹ ہیں۔ صوبہ سندھ کے ضلع میر پور خاص و عمر کوٹ کے 3 قومی اسمبلی کے حلقوں میں358,500، ٹنڈو محمد خان کے3 حلقوں میں 211,500، تھر پارکر کے 2 حلقوں میں188,500، سانگھڑکے 3 حلقوں میں 173,000، ٹنڈوالہ یار کے ایک حلقے میں 76,000، مٹیاری کے ایک قومی حلقے میں 36,500، حیدر آباد کے 3 حلقوں میں 49,000 ، گھوٹکی کے 2 حلقوں میں 38,500، خیر پور میرس کے 3 حلقوں میں,000 26، سکھر کے 2 حلقوں میں 20,000 اور جامشورو کے ایک قومی حلقے میں 18,000 رجسٹرڈ ووٹ ہیں۔

1972ء میں جب اقلیتوں کے لئے قومی اسمبلی کی 10 نشستیں مختص کی گئیں تو اُس وقت اقلیتی مذاہب کے مطابق کل 10 نشستوں میں 4 ہندو اینڈ شیڈول کاسٹ، 4 کرسچن، ایک سکھ، پارسی اور ایک قادیانی و دیگر کے لئے مختص کی گئی تھیں۔ لیکن 1998ء میں جہاں شیڈول کاسٹ اقلیت کا 05% ملازمت کوٹہ ختم کر دیا گیا وہاں تمام اقلیتی مذاہب کی علیحدہ علیحدہ مختص نشستوں کو یکجا کر کے اقلیتی نشستوںکا نام دیا گیا ہے۔

مشرف دور میں اقلیتوں کی نشستوں کے براہ راست انتخابی عمل کے بجائے سیاسی جماعتوں کے رحم و کرم پر سلیکشن کا سسٹم متعارف کرایا گیا اور اس میں یہ بات واضح کی گئی کہ جیساکہ پسماندہ طبقات کی خواتین الیکشن کے اخراجات کرنے سے قاصر ہوتی ہیں اُسی طرح اقلیتوں پر بھی الیکشن اخراجات کا بوجھ کم کیا جائے۔ لہٰذا سیاسی جماعتیں الیکشن جیت کر اپنے حصے کے اقلیتی و خواتین نمائندگان کا انتخاب کر یں گی جو پسماندہ خاندانوں سے ہوگا، لیکن ایسا ممکن نہ ہوسکا۔

جس طرح خواتین کی مخصوص نشستوں پر بڑے گھروں کی خواتین براجمان ہوجاتی ہیں، اسی طرح اقلیتی نشستوں پر تاجر، برنس مین اور سیاسی پارٹیوں کے چہیتوں اور اُن کے عزیزوں کو نوازا جاتا ہے۔ اقلیتی اُمیدوار یا ممبر قومی اسمبلی کا حلقہ پُورا ملک اور صوبائی اسمبلی کے ممبر کا حلقہ پورا صوبہ ہوتا ہے۔ اس وجہ سے بھی اقلیتی عوام کو بے پناہ مسائل کا سامنا ہوتا ہے ۔کیونکہ تھر پارکر میں بیٹھے اپر کاسٹ ہندو نمائندے کا رحیم یارخان میں بسنے والی شیڈول کاسٹ سے کبھی رابطہ نہیں ہوا اور نہ ہی گذشتہ 5 سالہ دور میں اُنہوں نے رحیم یارخان، بہاول پور، بہاولنگر یا ملتان کا دورہ کرکے اقلیتی برادریوں سے اُن کے مسائل دریافت کئے ہیں۔

اسی طرح اسمبلیوں کی زینت بننے والے مسیحی نمائندگان کا تعلق بھی بڑے بڑے گھرانوں سے ہے، جن کی بڑی مثالیںکامران مائیکل، ڈاکٹر پال بھٹی، آنجہانی شہباز بھٹی اور طارق سی قیصر ہیں۔ مسیحی برادری چونکہ بڑی تعداد میں پنجاب میں بیٹھی ہے اور یہاں ن لیگ کا اثر و رسوخ بھی زیادہ ہے، اس لئے یہ برادری گزشتہ دور حکومت میں پیش آنے والے چند ناخوشگوار واقعات (سانحہ جوزف کالونی، گوجرہ) اور بڑے لوگوں کو نوازنے کی وجہ سے ن لیگ سے کچھ خفا دکھائی دیتی ہے۔ پنجاب میں 44 اسمبلی حلقے ایسے ہیں جہاں مسیحی برادری کا قابل ذکر ووٹ موجود ہے، جس کی وجہ سے ن لیگی رہنمائوں کی طرف سے مسیحی برادری کو منانے کی سرتوڑ کوششیں بھی کی جا رہی ہیں۔

یہ سب سیاسی پارٹیوںکی طرف سے ٹھاکروں اور سیٹھوں کو نوازنے کی بدولت ہی ہے کہ اقلیتوںکے مسائل حل ہونے تو کجا ان میں آئے روز اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ حقیقی اقلیتی رہنمائوں کو نمائندگی نہ ملنے کے سبب ہی اقلیتی امور کے لئے مختص سرکاری فنڈز سے حج و عمرے کرائے اور اقلیتوں کی عبادت گاہوں کے لئے مقررہ اراضی پر قبضوں کے انکشافات ہو رہے ہیں۔ اقلیتوں کی غیر حقیقی نمائندگی کا ایک اور ثبوت حالیہ الیکشن سرگرمیوں میں بھی نظر آیا جب پاکستان کی انتخابی سیاسی تاریخ میں پہلی بار آئین کے آرٹیکل 62 ایف کا نفاذ ہوا اور اس کا سب سے پہلا شکار ایک سابق اقلیتی ایم این اے بنا۔ ن لیگ کے سابق ایم این اے اور اقلیتی امیدوار ڈاکٹر نیلسن عظیم کو الیکشن کمیشن نے جھوٹ بولنے پر نااہل کر دیا۔

الیکشن کمیشن کی جاری کی گئی انتخابی فہرستوں کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ قومی اور صوبائی اسمبلی کے 96 حلقے ایسے ہیں، جہاں اقلیتی ووٹرز ہار اور جیت کا سبب بن سکتے ہیں۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق اگر اقلیتی ووٹر اجتماعی طور پر ووٹ کا استعمال کریں تو انتخابی منظر تبدیل کر سکتے ہیں۔ ان حلقوں میں سندھ کے 13 اور پنجاب کے 2 اضلاع میں یہ ووٹر نہایت اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ عمر کوٹ اور تھرپارکر میں بالترتیب 49 اور 46 فیصد غیر مسلم ووٹرز ہیں۔

عمر کوٹ میں 3 لاکھ 79 ہزار 924 میں سے ایک لاکھ79ہزار501 ووٹ اقلیتوں کے ہیں۔ جبکہ تھرپارکر کی صورتحال بھی زیادہ مختلف نہیں، جہاں 4 لاکھ73 ہزار179 رجسٹرڈ ووٹرز میں سے2 لاکھ19ہزار342 غیر مسلم ووٹرز ہیں۔ میر پور خاص میں کل ووٹرز کی تعداد5 لاکھ 90 ہزار35 ہے جن میں ایک لاکھ 92 ہزار357 غیر مسلم ہیں جو کل تعداد کا33 فیصد ہے۔ ٹنڈو الہ یار میں 26 فیصد اقلیتوں کے ووٹ ہیں، جہاں2 لاکھ88 ہزار460 میں سے74 ہزار 954 غیر مسلم ووٹرز ہیں۔ بدین اور سانگھڑ میں غیر مسلم ووٹرز کی شرح 19 فیصد ہے، بدین میں کل6 لاکھ42 ہزار243 میں ایک لاکھ23 ہزار845 جبکہ سانگھڑ میں7 لاکھ97 ہزار976 میں سے ایک لاکھ50 ہزار234 اقلیتوں کے ووٹ ہیں۔

ٹنڈو محمد خان میں سترہ فیصد کے حساب سے2 لاکھ31 ہزار522 میں سے39 ہزار847ووٹرز جبکہ مٹیاری میں تیرہ فیصد کی شرح سے3 لاکھ2ہزار265 میں سے81ہزار579 ووٹرز غیر مسلم ہیں۔ اس حوالے سے کراچی جنوبی بھی کافی اہمیت کا حامل ہو گا جہاں10لاکھ 70 ہزار321 میں سے81 ہزار579 ووٹرز کا تعلق اقلیتی برادری سے ہے، جو کل تعداد کا8 فیصد بنتی ہے۔ گھوٹکی اور حیدرآباد میں بالترتیب41 ہزار 31 اور62 ہزار243کے حساب سے سات فیصد ووٹرز غیر مسلم ہیں، جہاں کل ووٹرز کی تعداد بالترتیب5 لاکھ 71ہزار636 اور9 لاکھ28 ہزار236 ہے۔ پنجاب کے ضلع چنیوٹ اور لاہور میں بھی اقلیتوں کے ووٹ اہم کردار ادا کریں گے، جہاں اقلیتی ووٹوں کی تعداد 6 فیصد کے حساب سے بالترتیب35 ہزار 335 اور2 لاکھ47 ہزار 827 ہے۔ ان دونوں اضلاع میں کل ووٹرز کی تعداد بالترتیب 6 لاکھ4 ہزار991 اور44 لاکھ 24 ہزار 314 ہے۔ صوبہ سندھ کے ضلع جامشورو اور کشمور میں بالترتیب 18 ہزار912 اور 17 ہزار 495 غیر مسلم ووٹرز رجسٹرڈ ہیں، جو کل تعداد کا 5 فیصد بنتے ہیں، جبکہ ان اضلاع میں ووٹوں کی مجموعی تعداد 3 لاکھ73 ہزار97 اور3 لاکھ55 ہزار904 ہے۔
rana.naseem@express.com.pk
Load Next Story