نادر انتخابات
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ایک مضبوط منتخب حکومت ہی ملک کو تمام بحرانوں سے نکال سکتی ہے۔
اگرچہ آیندہ عام انتخابات کے انعقاد میں اب بہت زیادہ عرصہ باقی نہیں ہے تاہم انتخابی مہم میں وہ زوروشور اور گہما گہمی مفقود ہے جو ہماری روایت کا حصہ رہی ہے۔ حکومت، عدلیہ اور فوج کی بار بار کی یقین دہانیوں کے باوجود اس قسم کی افواہیں اب بھی گردش کر رہی ہیں کہ شاید یہ انتخابات منعقد نہ ہوسکیں یا پھر ان کا انعقاد ملتوی کردیا جائے۔
میاں محمد نواز شریف نے گزشتہ جمعے کو کوئٹہ ایئرپورٹ پر رپورٹروں سے گفتگو کے دوران واضح اور پرزور الفاظ میں کہاکہ الیکشن مقررہ وقت پر ہونے چاہئیں۔ انھوں نے متنبہ کیا کہ ان کے انعقاد کو ملتوی کرنے کی کسی بھی کوشش کے نتیجے میں ملک کو شدید خطرات لاحق ہوجائیں گے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ایک مضبوط منتخب حکومت ہی ملک کو تمام بحرانوں سے نکال سکتی ہے۔
دریں اثناء نگراں حکومت نے پولنگ اسٹیشنوں پر فوج تعینات نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں منعقدہ ایک اجلاس کے اختتام پر اخباری رپورٹروں کو بریفنگ دیتے ہوئے نگراں وزیر اطلاعات عارف نظامی نے واضح الفاظ میں کہا کہ حساس پولنگ اسٹیشنوں پر فوج تعینات نہیں کی جائے گی تاہم اسے بوقت ضرورت طلب کرنے کے لیے چھاؤنی کے علاقوں میں چوکس اور تیار رکھا جائے گا۔
یہ فیصلہ کس بنا پر کیا گیا ہے اس کا سبب تو نگراں حکومت ہی کو معلوم ہوگا تاہم بہ ظاہر یہ فیصلہ مناسب نظر نہیں آتا، خصوصاً ان حالات میں جب کہ منصفانہ اور غیرجانبدارانہ انتخابات کے انعقاد کے بارے میں طرح طرح کے خدشات پائے جاتے ہیں اور اس حوالے سے بعض پریشان کن افواہیں بھی ایک عرصے سے تاحال گردشیں کر رہی ہیں۔
اس کے علاوہ نگراں حکومت کا یہ فیصلہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اس واضح اعلان سے بھی متصادم ہے کہ کراچی اور ملک کے دیگر حصوں میں واقع حساس نوعیت کے پولنگ اسٹیشنوں پر فوج تعینات کی جائے گی۔ ہمارے خیال میں الیکشن کمیشن کا موقف صد فیصد معقول اور حالات کے تقاضوں کے عین مطابق تھا جب کہ نگراں حکومت کا فیصلہ ہماری سمجھ سے بالاتر ہے۔ نگراں حکومت کی سوچ خواہ کتنی بھی نیک نیتی پر منحصر ہو مگر حالات کی سنگینی اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ ذرا سی بھی کوتاہی یا بھول چوک واقع ہوجائے۔
خدانخواستہ کوئی معمولی سی بدانتظامی یا بدامنی بھی پورے الیکشن پروسیس کو بری طرح سے متاثر کرسکتی ہے جس کے بعد صرف یہی کہا جاسکے گا کہ اب پچھتاوت کیا ہووت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ماضی کے تلخ تجربات بھی اس بات کے متقاضی ہیں کہ معمولی سا رسک بھی ہرگز نہ لیا جائے۔ بہ قول شاعر:
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
احتیاط کا تقاضا تو یہ ہے کہ آیندہ عام انتخابات کے انعقاد کے معاملے میں ہر قدم پھونک پھونک کر اٹھایا جائے تاکہ کسی بھی قسم کے شکوک و شبہات اور الزام تراشی کی ذرہ برابر گنجائش بھی باقی نہ رہے۔ سچی اور کھری بات یہ ہے کہ عام انتخابات کوئی کھیل یا تماشا نہیں ہیں کیونکہ ان کے شفاف، منصفانہ اور غیر جانب دارانہ انعقاد پر ملک و قوم کی بقاء اور فلاح کا دارومدار ہے۔نگراں حکومت اگر ملک میں جمہوریت کو پھلتا پھولتا دیکھنے کی خواہاں ہے تو اسے اس امر کو یقینی بنانا ہوگا کہ کروڑوں رائے دہندگان پولنگ والے روز بے خوف و خطر اپنے اپنے گھروں سے نکل کر پولنگ اسٹیشنوں پر جائیں اور اپنا ووٹ کسی بھی قسم کے جبر اور دباؤ کے بغیر اپنی مرضی کے عین مطابق نہایت آزادی کے ساتھ ڈال کر بخیروعافیت واپس آئیں۔ ووٹروں کو مکمل اور یقینی تحفظ کی فراہمی نگراں حکومت کا اولین اور سب سے بڑا فریضہ ہے۔
بڑے دکھ کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ انتخابی مہم میں ماضی کی رونقیں نظر نہیں آرہیں اور ماحول کافی پھیکا پھیکا سا لگ رہا ہے۔ بعض امیدواروں اور ان کے حامیوں کی دہشت گردوں کے ہاتھوں ہلاکتوں کے باعث ایک سراسیمگی اور خوف و ہراس کی سی کیفیت پائی جارہی ہے جس نے انتخابی مہم کے رنگ کو ماند کردیا ہے۔ چاروناچار سارا زور اب میڈیا پر آن پڑا ہے جس میں پرنٹ میڈیا سے بھی بڑھ کر الیکٹرانک میڈیا بالخصوص ٹی وی اور سوشل میڈیا شامل ہے۔
مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی کے مصداق روایتی انتخابی مہم کا لطف و مزا تو کچھ اور ہی ہوتا ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں خواندگی کی شرح چونکہ بہت کم ہے اسی لیے سوشل میڈیا کی رسائی محض ایک محدود طبقے تک ہی ممکن ہوسکتی ہے جوکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد خصوصاً تعلیم یافتہ نوجوانوں پر ہی مشتمل ہے۔ امرواقعہ یہ ہے کہ ہمارے ملک کے بزرگ شہریوں کی ایک خاصی بڑی تعداد بھی سوشل میڈیا سے نابلد ہے۔
بلاشبہ آیندہ عام انتخابات کا پرامن، آزادانہ، منصفانہ اور غیر جانب دارانہ شفاف انعقاد نگراں حکومت اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے جس کا سامنا کرنے میں عدلیہ، افواج پاکستان اور پاکستانی میڈیا کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ جہاں تک عدلیہ اور افواج پاکستان کا تعلق ہے تو ان کا اخلاص نیت ہر قسم کے شکوک و شبہات سے بالاتر ہے جس کے بارے میں صرف یہی کہا جاسکتا ہے کہ عیاں راچہ بیاں۔
ملک و قوم کے محافظ یہ دونوں کلیدی ادارے روز اول سے ہی اپنی حب الوطنی اور پامردی کا عملی مظاہرہ کرنے میں پیش پیش اور ہم رکاب ہیں جس کی پوری قوم گواہی دے رہی ہے۔ یہ صورت حال ملک وقوم کے لیے واقعی ایک نیک شگون ہے۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی کی سربراہی میں افواج پاکستان نے اپنے قول و فعل سے یہ ثابت کردیا ہے کہ اقتدار حاصل کرنے سے انھیں کوئی بھی دلچسپی نہیں ہے اور یہ کہ وہ ملک میں جمہوریت کے فروغ کے سچے دل سے خواہاں ہیں۔ جنرل کیانی تومتعدد مرتبہ انتہائی واشگاف الفاظ میں اپنے اس ارادے کا اعادہ بھی کرچکے ہیں۔
اس کے علاوہ جمہوریت کی گزشتہ پانچ سالہ مدت میں بعض مواقعے ایسے بھی آئے کہ جب فوج اقتدار پر باآسانی قبضہ کرسکتی تھی اور جمہوریت کی بساط کو لپیٹ کر رکھ سکتی تھی۔ مگر افواج پاکستان نے ایسا کوئی بھی قدم اٹھانے سے سختی سے گریز کیا اور جمہوریت کی بیل کو منڈھے چڑھنے کا پورا پورا موقع دیا۔دوسری جانب چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں عدلیہ نے نہ صرف جمہوریت کی گاڑی کو پٹری سے اترنے نہ دینے میں کلیدی کردار ادا کیا بلکہ اس بات کو بھی یقینی بنانے کی بھرپور کوشش کی کہ انتخابات 2013 ہر اعتبار سے آزادانہ، غیرجانبدارانہ، منصفانہ اور شفاف ہوں۔
ملک و قوم کی یہ بہت بڑی خوش نصیبی ہے کہ وطن عزیز کی تاریخ میں پہلی بار یہ موقع میسر آیا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر کی ذات اور غیر جانب داری پر ہر سیاسی جماعت کی جانب سے مکمل اور غیر مشروط اعتماد کا اظہار کیا گیا ہے۔ا س لحاظ سے 2013 کے عام انتخابات کو اگر ملک کی تاریخ کے نادر انتخابات کہا جائے تو ذرا بھی مبالغہ نہ ہوگا۔ اس کے علاوہ یہ انتخابات اس لحاظ سے بھی نادر کہے جاسکتے ہیں کہ پہلی مرتبہ ایک منتخب حکومت سابقہ منتخب حکومت سے اقتدار لے گی۔
میاں محمد نواز شریف نے گزشتہ جمعے کو کوئٹہ ایئرپورٹ پر رپورٹروں سے گفتگو کے دوران واضح اور پرزور الفاظ میں کہاکہ الیکشن مقررہ وقت پر ہونے چاہئیں۔ انھوں نے متنبہ کیا کہ ان کے انعقاد کو ملتوی کرنے کی کسی بھی کوشش کے نتیجے میں ملک کو شدید خطرات لاحق ہوجائیں گے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ایک مضبوط منتخب حکومت ہی ملک کو تمام بحرانوں سے نکال سکتی ہے۔
دریں اثناء نگراں حکومت نے پولنگ اسٹیشنوں پر فوج تعینات نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں منعقدہ ایک اجلاس کے اختتام پر اخباری رپورٹروں کو بریفنگ دیتے ہوئے نگراں وزیر اطلاعات عارف نظامی نے واضح الفاظ میں کہا کہ حساس پولنگ اسٹیشنوں پر فوج تعینات نہیں کی جائے گی تاہم اسے بوقت ضرورت طلب کرنے کے لیے چھاؤنی کے علاقوں میں چوکس اور تیار رکھا جائے گا۔
یہ فیصلہ کس بنا پر کیا گیا ہے اس کا سبب تو نگراں حکومت ہی کو معلوم ہوگا تاہم بہ ظاہر یہ فیصلہ مناسب نظر نہیں آتا، خصوصاً ان حالات میں جب کہ منصفانہ اور غیرجانبدارانہ انتخابات کے انعقاد کے بارے میں طرح طرح کے خدشات پائے جاتے ہیں اور اس حوالے سے بعض پریشان کن افواہیں بھی ایک عرصے سے تاحال گردشیں کر رہی ہیں۔
اس کے علاوہ نگراں حکومت کا یہ فیصلہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اس واضح اعلان سے بھی متصادم ہے کہ کراچی اور ملک کے دیگر حصوں میں واقع حساس نوعیت کے پولنگ اسٹیشنوں پر فوج تعینات کی جائے گی۔ ہمارے خیال میں الیکشن کمیشن کا موقف صد فیصد معقول اور حالات کے تقاضوں کے عین مطابق تھا جب کہ نگراں حکومت کا فیصلہ ہماری سمجھ سے بالاتر ہے۔ نگراں حکومت کی سوچ خواہ کتنی بھی نیک نیتی پر منحصر ہو مگر حالات کی سنگینی اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ ذرا سی بھی کوتاہی یا بھول چوک واقع ہوجائے۔
خدانخواستہ کوئی معمولی سی بدانتظامی یا بدامنی بھی پورے الیکشن پروسیس کو بری طرح سے متاثر کرسکتی ہے جس کے بعد صرف یہی کہا جاسکے گا کہ اب پچھتاوت کیا ہووت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ماضی کے تلخ تجربات بھی اس بات کے متقاضی ہیں کہ معمولی سا رسک بھی ہرگز نہ لیا جائے۔ بہ قول شاعر:
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
احتیاط کا تقاضا تو یہ ہے کہ آیندہ عام انتخابات کے انعقاد کے معاملے میں ہر قدم پھونک پھونک کر اٹھایا جائے تاکہ کسی بھی قسم کے شکوک و شبہات اور الزام تراشی کی ذرہ برابر گنجائش بھی باقی نہ رہے۔ سچی اور کھری بات یہ ہے کہ عام انتخابات کوئی کھیل یا تماشا نہیں ہیں کیونکہ ان کے شفاف، منصفانہ اور غیر جانب دارانہ انعقاد پر ملک و قوم کی بقاء اور فلاح کا دارومدار ہے۔نگراں حکومت اگر ملک میں جمہوریت کو پھلتا پھولتا دیکھنے کی خواہاں ہے تو اسے اس امر کو یقینی بنانا ہوگا کہ کروڑوں رائے دہندگان پولنگ والے روز بے خوف و خطر اپنے اپنے گھروں سے نکل کر پولنگ اسٹیشنوں پر جائیں اور اپنا ووٹ کسی بھی قسم کے جبر اور دباؤ کے بغیر اپنی مرضی کے عین مطابق نہایت آزادی کے ساتھ ڈال کر بخیروعافیت واپس آئیں۔ ووٹروں کو مکمل اور یقینی تحفظ کی فراہمی نگراں حکومت کا اولین اور سب سے بڑا فریضہ ہے۔
بڑے دکھ کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ انتخابی مہم میں ماضی کی رونقیں نظر نہیں آرہیں اور ماحول کافی پھیکا پھیکا سا لگ رہا ہے۔ بعض امیدواروں اور ان کے حامیوں کی دہشت گردوں کے ہاتھوں ہلاکتوں کے باعث ایک سراسیمگی اور خوف و ہراس کی سی کیفیت پائی جارہی ہے جس نے انتخابی مہم کے رنگ کو ماند کردیا ہے۔ چاروناچار سارا زور اب میڈیا پر آن پڑا ہے جس میں پرنٹ میڈیا سے بھی بڑھ کر الیکٹرانک میڈیا بالخصوص ٹی وی اور سوشل میڈیا شامل ہے۔
مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی کے مصداق روایتی انتخابی مہم کا لطف و مزا تو کچھ اور ہی ہوتا ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں خواندگی کی شرح چونکہ بہت کم ہے اسی لیے سوشل میڈیا کی رسائی محض ایک محدود طبقے تک ہی ممکن ہوسکتی ہے جوکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد خصوصاً تعلیم یافتہ نوجوانوں پر ہی مشتمل ہے۔ امرواقعہ یہ ہے کہ ہمارے ملک کے بزرگ شہریوں کی ایک خاصی بڑی تعداد بھی سوشل میڈیا سے نابلد ہے۔
بلاشبہ آیندہ عام انتخابات کا پرامن، آزادانہ، منصفانہ اور غیر جانب دارانہ شفاف انعقاد نگراں حکومت اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے جس کا سامنا کرنے میں عدلیہ، افواج پاکستان اور پاکستانی میڈیا کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ جہاں تک عدلیہ اور افواج پاکستان کا تعلق ہے تو ان کا اخلاص نیت ہر قسم کے شکوک و شبہات سے بالاتر ہے جس کے بارے میں صرف یہی کہا جاسکتا ہے کہ عیاں راچہ بیاں۔
ملک و قوم کے محافظ یہ دونوں کلیدی ادارے روز اول سے ہی اپنی حب الوطنی اور پامردی کا عملی مظاہرہ کرنے میں پیش پیش اور ہم رکاب ہیں جس کی پوری قوم گواہی دے رہی ہے۔ یہ صورت حال ملک وقوم کے لیے واقعی ایک نیک شگون ہے۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی کی سربراہی میں افواج پاکستان نے اپنے قول و فعل سے یہ ثابت کردیا ہے کہ اقتدار حاصل کرنے سے انھیں کوئی بھی دلچسپی نہیں ہے اور یہ کہ وہ ملک میں جمہوریت کے فروغ کے سچے دل سے خواہاں ہیں۔ جنرل کیانی تومتعدد مرتبہ انتہائی واشگاف الفاظ میں اپنے اس ارادے کا اعادہ بھی کرچکے ہیں۔
اس کے علاوہ جمہوریت کی گزشتہ پانچ سالہ مدت میں بعض مواقعے ایسے بھی آئے کہ جب فوج اقتدار پر باآسانی قبضہ کرسکتی تھی اور جمہوریت کی بساط کو لپیٹ کر رکھ سکتی تھی۔ مگر افواج پاکستان نے ایسا کوئی بھی قدم اٹھانے سے سختی سے گریز کیا اور جمہوریت کی بیل کو منڈھے چڑھنے کا پورا پورا موقع دیا۔دوسری جانب چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں عدلیہ نے نہ صرف جمہوریت کی گاڑی کو پٹری سے اترنے نہ دینے میں کلیدی کردار ادا کیا بلکہ اس بات کو بھی یقینی بنانے کی بھرپور کوشش کی کہ انتخابات 2013 ہر اعتبار سے آزادانہ، غیرجانبدارانہ، منصفانہ اور شفاف ہوں۔
ملک و قوم کی یہ بہت بڑی خوش نصیبی ہے کہ وطن عزیز کی تاریخ میں پہلی بار یہ موقع میسر آیا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر کی ذات اور غیر جانب داری پر ہر سیاسی جماعت کی جانب سے مکمل اور غیر مشروط اعتماد کا اظہار کیا گیا ہے۔ا س لحاظ سے 2013 کے عام انتخابات کو اگر ملک کی تاریخ کے نادر انتخابات کہا جائے تو ذرا بھی مبالغہ نہ ہوگا۔ اس کے علاوہ یہ انتخابات اس لحاظ سے بھی نادر کہے جاسکتے ہیں کہ پہلی مرتبہ ایک منتخب حکومت سابقہ منتخب حکومت سے اقتدار لے گی۔