عالمی امن اور خوشحالی کا خواب

یہ ہماری دنیا کا وہ بھیانک منظرنامہ ہے جس میں انسان امن اور خوشحالی کو ترس رہا ہے لیکن اسے محرومیاں مل رہی ہیں.

zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

ایک پرامن اور خوشحال دنیا کی خواہش کرہ ارض کے انسانوں کی اجتماعی خواہش ہے اور ایسی دنیا کی تشکیل کی سب سے زیادہ ذمے داری دانشوروں، مفکروں اور فلسفیوں پر عائد ہوتی ہے اگر دنیا امن اور خوشحالی سے محروم ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس دنیا میں دانشوروں، مفکروں اور فلسفیوں کا وجود نہیں ہے۔

انسانوں کے اندر امن اور خوشحالی کی جوت جلانا، اسے شعلہ جوالا بنانا دانشوروں، مفکروں اور فلسفیوں کا کام ہوتا ہے۔ اگر کسی ملک، کسی معاشرے میں انسانوں کی یہ اجتماعی خواہش یا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوتا تو ایسے ملک، ایسے معاشری میں کسی کو دانشور، مفکر اور فلسفی ہونے کا دعویٰ کرنے کا حق نہیں۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے ملک، ہمارے معاشروں، ہماری دنیا میں قدم قدم پر دانشور مفکر اور فلسفی بکھرے پڑے ہیں لیکن ساری دنیا کی بات تو چھوڑیے کوئی ملک کوئی معاشرہ ایسا نظر نہیں آتا ہے جسے ہم پرامن اور خوشحال کہہ سکیں، اگر کہیں خوشحالی ہے تو امن نہیں اور اگر کہیں امن ہے تو خوشحالی نہیں ہے۔

یہ ہماری دنیا کا وہ بھیانک منظرنامہ ہے جس میں انسان امن اور خوشحالی کو ترس رہا ہے لیکن اسے محرومیاں مل رہی ہیں، بھوک مل رہی ہے، افلاس مل رہا ہے، غربت مل رہی ہے، جہل، لاعلمی مل رہی ہے، نفرت مل رہی، تعصب مل رہا ہے، دہشت گردی مل رہی ہے، جنگ اور ہتھیاروں کی تیاری اور تجارت مل رہی ہے۔ کیا یہ عذاب انسانوں کا مقدر ہیں یا انسانوں نے خود اپنے ہاتھوں سے ایسی دنیا تخلیق کی ہے؟ اس کا مختصر جواب تو یہ ہے کہ یہ دنیا خدا کی تخلیق کردہ نہیں بلکہ یہ دنیا اس انسان نے تخلیق کی ہے جسے اشرف المخلوقات ہونے کا دعویٰ ہے۔

اس بات سے قطع نظر کہ ایسی جہنم زار دنیا انسان نے کیوں تخلیق کی ہے، ہم ان حقائق پر نظرڈالتے ہیں جو دنیا کے سات ارب انسانوں سے سانپوں کی طرح لپٹے ہیں۔ سب سے پہلی حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں اتنے وسائل موجود ہیں کہ سات ارب انسان خوش حالی کی زندگی گزارسکتے ہیں لیکن ایسا اس لیے ممکن نہیں کہ وسائل کی تقسیم کا نظام انتہائی غیر منصفانہ ہے، وسائل کی تقسیم کا نظام اس لیے غیر منصفانہ ہے کہ وسائل کی تقسیم کا اختیار ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں ہے جو وسائل کو اپنے قبضے میں رکھنا چاہتے ہیں اور یہ انسان نما حیوان وسائل کی تقسیم کو اپنے اختیار میں اس لیے رکھنا چاہتے ہیں کہ یہ اس نظام کی ضرورت ہے جس میں ہم رہ رہے ہیں۔ اس نظام میں رہتے ہوئے کوئی حیوان اپنے اس اختیار سے دست بردار ہوہی نہیں سکتا۔

اس دنیا کا دوسرا بڑا عذاب نفرت اور تعصب ہے، یہ دونوں خصلتیں انسان کو رنگ، نسل، زبان، ملک ملت اور مذاہب نے عطا کی ہیں جس کی بنیادی وجہ ان حوالوں سے انسانوں کی تقسیم ہے۔ یہ تقسیم خدا نے نہیں، خدا کے نام پر خود انسان نے کی ہے۔ دنیا کا ہر مذہب کسی نہ کسی نام سے خدا کو تسلیم کرتا ہے، ہر مذہب ایک آدم کو کسی نہ کسی نام سے مانتا ہے اور ساری دنیا کے عوام آدم ہی کی اولاد ہیں، رنگ نسل اگرچہ کہ انسانوں کے درمیان ایک جسمانی فرق پیدا کرتا ہے لیکن ایک خدا، ایک آدم کو تسلیم کرنے کے بعد نہ انسانوں کی تقسیم کا کوئی جواز باقی رہتا ہے نہ نفرت اور تعصب کا۔ اگر انسانوں کی تقسیم ناگزیر ہوتو اس تقسیم کو شناخت تک محدود رہنا چاہیے۔

دنیا کا تیسرا بڑا عذاب ہتھیار اور جنگیں ہیں۔ اس کی ظاہری وجوہات تو بہت ساری ہوسکتی ہیں لیکن اس کی بنیادی وجہ بھی ہمارا یہ نظام ہی ہے، ہتھیار اور جنگیں جس کی ضرورت ہیں۔ ہتھیار کی تیاری اور تجارت بھی اس نظام کی ضرورت ہے کیونکہ اس تیاری اور تجارت میں کھربوں ڈالر کا سرمایہ لگا ہوا ہے اور اربوں ڈالر کا منافع اس سے وابستہ ہے۔ جنگ اسی نظام کی پیداوار ہے لیکن اس کے جواز مختلف ہیں مثلاً ملک اور قوم۔ کسی بھی ملک کی جغرافیائی سرحد خدا کی بنائی ہوئی نہیں بلکہ انسان نے خود اپنے ہاتھوں سے جغرافیائی لکیریں کھینچ کر اپنے آپ کو ان لکیروں کے اندر محصور کرلیا ہے اور ان لکیروں کو اس قدر تقدس کا درجہ دے دیا ہے کہ خود مظلوم انسان ان لکیروں کی حفاظت کے لیے مرنے مارنے پر تیار ہوجاتا ہے اور لکیروں کے اس تقدس کی وجہ سے ہی جنگیں لڑی جاتی ہیں۔


اس نظام نے جغرافیائی لکیروں کے حصار میں قید انسانوں کو دوسرے ملک کی جغرافیائی لکیروں کا بلاجواز، بلامنطق دشمن بنادیا ہے اور قومی اور علاقائی مفادات قوموں کو جنگوں کی طرف لے جاتے ہیں۔ امریکا کے قومی مفاد چین روس کے قومی مفادات سے متصادم ہیں، عربوں کے قومی مفادات اسرائیل کے قومی مفادات سے متصادم ہیں، شمالی کوریا کے قومی مفادات جنوبی کوریا کے قومی مفادات سے متصادم ہیں، ایران کے قومی مفاد امریکا کے قومی مفادات سے متصادم ہیں، پاکستان کے قومی مفادات ہندوستان سے متصادم ہیں، جاپان کے قومی مفادات چین سے متصادم ہیں۔ مفادات کے درمیان موجود تصادم ہی دراصل ہتھیاروں اور جنگوں کا محرک ہوتا ہے۔

ہماری پوری سیاست خواہ اس کا تعلق شخصی حکومتوں سے رہا ہو یا جمہوری حکومتوں سے اس سیاست کا مرکزی نکتہ ریاست رہا ہے اور ریاست کا وجود جغرافیائی لکیروں کا مرہون منت ہوتا ہے۔ ماضی بعید کے شخصی حکمرانوں کے دور میں بادشاہ وہی بڑا اور عظیم مانا جاتا تھا جو فاتح ہوتا تھا یعنی زیادہ سے زیادہ ملکوں کو خواہ اس کا کوئی جواز ہو یا نہ ہو فتح کرنا بڑے یا عظیم بادشاہ ہونے کی دلیل ہوتا تھا، اس طرز فکر نے حکمرانوں کے اندر فتوحات کے مقابلے کا رجحان پیدا کیا اگرچہ کہ اس کلچر میں مفتوح ملکوں کے حکمرانوں کو اپنی حکمرانیوں سے ہاتھ دھونا پڑجاتا تھا لیکن عموماً ملک مع اپنی جغرافیائی لکیروں کے باقی رہتا تھا، اگر کوئی فاتح مفتوح ملک کو اپنی ریاست میں شامل کرلیتا تو اس کی جغرافیائی حدود میں اضافہ تو ہوجاتا تھا لیکن ملک کی جغرافیائی لکیریں بہرحال برقرار رہتی تھیں، جن کی حفاظت ہر ملک کے حکمرانوں اور عوام کا ایمان بنی رہتی تھی اور آج بھی بنی ہوئی ہے۔

نئی دنیا میں ریاست کو قومی ریاست کا نام دیا گیا ہے اور اس کی جغرافیائی کی حفاظت دین و ایمان سے زیادہ اہم سمجھی جاتی ہے اور اس کی حفاظت کے لیے بھاری تعداد میں فوجیں رکھی جاتی ہیں، اسلحے کے انبار لگائے جاتے ہیں، اس کی ایک پوری علیحدہ وزارت دفاع بنائی جاتی ہے۔ چونکہ دنیا میں ہر ملک کا کوئی نہ کوئی حریف ہوتا ہے اس لیے فوج اور اسلحے کی تیاری اور خریداری کا سلسلہ جاری رہتا ہے جس پر ہر ملک کے بجٹ کا ایک بڑا حصہ لگادیا جاتا ہے۔ اگر صرف دنیا بھر میں دفاع پر خرچ ہونے والا سرمایہ ہی بچالیا جائے تو دنیا سے غربت کا خاتمہ ہوسکتا ہے اور دنیا خوش حال ہوسکتی ہے۔ اگر دنیا میں دفاع کا شعبہ باقی نہ رہے تو دنیا ایک پرامن دنیا بن سکتی ہے۔

اس خواہش کو بظاہر دیوانے کا خواب ہی کہا جائے گا کیونکہ ہزاروں سال پر محیط ریاست، ملک اور قوم کا نظریہ اس قدر مضبوط اور مستحکم ہے کہ اس کے ٹوٹنے اور ختم ہونے کا تصور ممکن نہیں لیکن اس کی اگر وجوہات کو تلاش کرکے انھیں اس تصور سے علیحدہ کردیا جائے تو دیوانوں کا یہ خواب حقیقت بن سکتا ہے۔

اس خواب کی تعبیر کے لیے ایک طریقہ تو یہ ہوسکتا ہے کہ علاقائی قومی تنازعات کے حل کے لیے عالمی سطح پر ایک ایسی مشنری، ایسا میکنزم بنایا جائے جو قومی اور علاقائی تنازعات کو پرامن بات چیت کے ذریعے لازمی طور پر حل کرے اور اسے مینڈیٹری اختیارات بھی حاصل ہوں یہ کام ایک آزاد اور خودمختار اقوام متحدہ کرسکتی ہے۔ اس سلسلے میں ایک بین الاقوامی قانون بھی بنایا جاسکتا ہے کہ اگر کوئی ملک کسی حوالے سے بھی پرامن راستے سے انحراف کرے گا تو اسے تنہا کردیا جائے گا۔

اس کا دوسرا طریقہ فکری انقلاب ہے۔ ہم نے اوپر اس بات کی وضاحت کردی ہے کہ سارے مذاہب کسی نہ کسی حوالے سے ایک خدا اور ایک آدم کو مانتے ہیں یوں ہم دنیا کے سارے انسان بلاتفریق رنگ نسل زبان ملک و ملت خدا کی مخلوق اور آدم کی اولاد ہیں اور ان رشتوں کو اگر دوسرے رشتوں سے محترم بنادیا جائے تو پھر انسانوں کے درمیان دوری، نفرت، عداوت، تعصبات کا جواز ختم ہوجاتا ہے اور جب یہ فکر پروان چڑھ جائے تو عالمی امن اور خوشحالی کے خواب کی تعبیر حاصل کرنا آسان ہوسکتا ہے لیکن اس فکری انقلاب کی ذمے داری مفکروں، دانشوروں، فلسفیوں، ادیبوں، شاعروں اور فنکاروں پر عائد ہوگی۔
Load Next Story