سیاسی آزمائش
کراچی کی صورت حال دہشت گردی کی اسی سوئی پر کھڑی ہے جہاں پہلے تھی.
الیکشن کی کشاکش میں جوں جوں تیزی آرہی ہے اسی رفتار سے دہشت گردی کے واقعات بھی آسمان کو چھونے لگے ہیں، امن کے خواب کے حوالے سے خیبرپختونخوا اور بلوچستان کی صورت حال پہلے ہی غیر تسلی بخش پیمانے پر ٹکی ہوئی تھی، الیکشن مہم میں تیزی آتے ہی دہشت گردی کی بہیمانہ کارروائیوں میں مزید اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔
اے این پی کے جلسوں اور اے این پی کے رہنمائوں اور کارکنوں پر جس طرح سے حملے کیے جارہے ہیں وہ قابل مذمت بھی ہیں اور ارباب اختیار کی توجہ کے طالب بھی۔ اے این پی ملکی سیاست میں موجود وہ سیاسی جماعت ہے جس کے گزشتہ برسوں میں بہت سے رہنما اور کارکنان دہشت گردی کے بھینٹ چڑھے۔ بشیر بلور کی شہادت ابھی کل کی ہی بات ہے کہ اب ان کے بھائی غلام احمد بلور کے جلسے کے قریب بم دھماکا کیا گیا، جس میں غلام احمد بلور زخمی ہوئے۔ بلوچستان میں ن لیگ کے صوبائی صدر اور بلوچستان کی سیاست میں نمایاں مقام رکھنے والے ثناء اﷲ زہری کے قافلے پر حملہ کیا گیا جس میں ثناء اﷲ زہری خود تو محفوظ رہے لیکن ن لیگ کے اس اہم رہنما کو اپنے قریبی رشتے داروں کی موت کا صدمہ برداشت کرنا پڑا۔
کراچی کی صورت حال دہشت گردی کی اسی سوئی پر کھڑی ہے جہاں پہلے تھی، سیاسی کارکنوں سمیت ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ شواہد اور قرائن یہ بتا رہے ہیں کہ کچھ پاکستان اور سماج دشمن عناصر قومی انتخابات کے عمل میں رخنہ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ملک میں اگر اچھی قیادت برسر اقتدار لانی ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں اور سیاسی قوتوں کو آزادانہ اور منصفانہ طور پر سیاسی مہم چلانے کے مواقع میسر ہوں۔
یاد رکھیے کہ ملک کے مسائل کا حل سیاسی طور پر انتخابات میں مضمر ہے لیکن توجہ طلب امر یہ ہے کہ ملک کے مختلف شہروں میں سیاسی جماعتوں کو اپنی سیاسی مہم چلانے اور اپنے سیاسی نظریات کی تشہیر میں مشکلات پیش آرہی ہے۔ نگراں حکومت کا فرض جہاں منصفانہ انتخابات کے انعقاد کا ہے، وہیں نگراں حکومت پر یہ ذمے داری بھی عائد ہوتی ہے کہ ملک میں انتخابات کے عمل کو پرامن بنائے۔ سابق حکومت پر تو امن کی بحالی کے حوالے سے تنقید کا بازار گرم رہا لیکن اب نگراں حکومت کے دور میں بھی دہشت گردی کا گھوڑا سرپٹ دوڑ رہا ہے۔
ایسا کیوں ہے؟ نگراں حکومت اور الیکشن کمیشن امن کے لیے کیوں سنجیدہ اقدامات نہیں کررہے؟ ہر خاص و عام کو معلوم ہے کہ سیاسی رہنمائوں کو دہشت گرد عناصر کی جانب سے خطرات لاحق ہیں۔ اے این پی، پی پی پی اور ایم کیو ایم کو سیاسی رابطہ اور الیکشن مہم کو روکنے کے لیے جو ہتھکنڈے استعمال کیے جارہے ہیں ملک کی سیاست اور جمہوریت کے لیے یہ خطرے کی گھنٹی ہے، اگر گولی کے بل پر مختلف سیاسی جماعتوں کو سائیڈ کارنر کرنے کی کوشش کی گئی تو اس کے نتائج نہایت خوف ناک نکلیں گے۔ ماضی میں اظہار رائے کا گلہ گھوٹنے کے کیا نتائج نکلے اس سے ہم بخوبی آگاہ بھی ہیں اور سزا بھی بھگت چکے ہیں، اگر اب بھی سیاسی قوتوں کی زبانوں کو زبردستی 'بند' کرنے کی غیر دانش مندانہ کوشش کی گئی تو ہمیں پھر ماضی کی طرح پچھتانا پڑے گا۔
ملک کے حالات کی نزاکت کا تقاضا ہے کہ نگراں حکومت اور انتظامیہ تمام سیاسی قوتوں کو اپنے نظریات کے اظہار کے مواقع مہیا کرے، چند عناصر جو ''گولی'' کی طاقت پر اپنا اقلیتی ایجنڈا پورے پاکستانی معاشرے پر تھوپنے کے درپے ہیں ان عناصر کے نہ صرف ہاتھ روکنے ہوں گے بلکہ ان کا قلع قمع بھی ضروری ہے۔ ناپسندیدہ عناصر کے لیے کچھ ''کونوں کھدروں'' میں نرم گوشہ پایا جارہا ہے، ان قوتوں کو اپنا یہ ہمدردانہ رویہ ترک کرنا ہوگا کہ چور راستے کبھی با منزل نہیں ہوا کرتے۔
پاکستان ہے تو ہم ہیں، امن ہے تو خوش حالی ہے، سر ہوں گے تو 'ٹوپیوں' کا کاروبار چلے گا۔ چند ایک مفادات کے لیے ان عناصر سے ہمدردی، ان عناصر کی سرپرستی جن کی وجہ سے پورے معاشرے میں خوف کی فضا قائم ہو، کسی طور سراہنے کے قابل نہیں۔ انتظامیہ کو بھی اپنی آنکھیں پوری طرح کھولنی ہوں گی، ہر معاشرہ مخالف حرکت پر نظر رکھنے کے بعد ہی دہشت گرد عناصر کو قابو کیا جاسکے گا۔ انقلاب لانا ہے تو ہمیں یہ طے کرلینا چاہیے کہ انقلاب کی نوید سیاسی طور پر دینی ہے، ووٹ انقلاب اور مثبت تبدیلی کا بہترین اور مہذب راستہ ہے۔
گولی اور بم سے معاشرے اور معاشرتی زندگی میں خوف و ہراس تو پھیلایا جاسکتا ہے لیکن گولی یا بم تبدیلی کا پیش خیمہ نہیں بن سکتے۔ امن پاکستانی معاشرے کی بقا کا اولین تقاضا ہے۔ دہشت گردی کو جڑوں سے اکھاڑا نہ گیا تو پھر اختلاف اس معاشرے میں جرم بن جائے گا اور اظہار رائے کی دیوی کسی اور دیس کوچ کرجائے گی۔
یہ فیصلہ کسی اور نے نہیں ہم سب کو مل کر کرنا ہے کہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کو کیسا پاکستان دے کر جانا چاہتے ہیں؟ آج تک ہم اپنے مفادات کے لیے سوچتے رہے ہیں، اب ہمیں اپنے مفادات سے کچھ آگے بڑھ کر سوچنا ہوگا۔ قومی انتخابات کو پرامن بنانے میں جہاں نگراں حکومت کو سیاسی آزمائش کے پل صراط سے گزرنا ہے، وہیں عوام کے ہر طبقے کا فرض بھی بنتا ہے کہ وہ اس قومی ذمے داری میں اپنا فرض قومی مفادات کو سامنے رکھتے ہو ئے ادا کرے۔ دوسروں پر سر ٹیک کر آرام کرنے کی عادت کو ترک کرکے ہمیں خود اپنی اور معاشرے کی بہتری کے لیے آزمائش سے گزرنا پڑے گا، اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا ملک ترقی کے راستے پر گامزن ہو۔