اقبال کی حق تلفی

ہمیں چھوٹے چھوٹے واقعات سال کے سیکڑوں دنوں کی نسبت یاد رہتے ہیں اور یاد بھی دلائے جاتے ہیں۔


Adnan Ashraf Advocate April 22, 2013
[email protected]

حکیم الامت علامہ اقبال کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اگر انگریز اقبال کو سمجھ جاتا تو ایک دن کے لیے بھی آٓزاد نہ رہتے اور اگر مسلمان انھیں سمجھ لیتا تو ایک دن کے لیے بھی غلام نہ رہتا۔ اقبال کی حق تلفی یہ ہے کہ ہم نے اقبال کو سمجھا ہی نہیں اور بدقسمتی یہ ہے کہ پہلے جو تھوڑا بہت پڑھا اور سمجھا تھا اب اس کو بھی فراموش کر بیٹھے ہیں یا دانستہ طور پر اور سازش کے تحت ایسا کردیا گیا ہے۔

ہمیں چھوٹے چھوٹے واقعات سال کے سیکڑوں دنوں کی نسبت یاد رہتے ہیں اور یاد بھی دلائے جاتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے سے واقعات اور شخصیات سے تعلق رکھنے والے دلوں کے بارے میں کئی کئی دن پہلے سے اشتہاری اور ترغیبی قسم کی مہمات شروع کردی جاتی ہیں لیکن افسوس کا مقام ہے کہ شاعر مشرق، حکیم الامت اور پاکستان کے تصور کے خالق علامہ اقبال سے متعلق اس قسم کی کوئی عوامی سرگرمی دیکھنے میں نہیں آتی، خبروں کے آخری حصے میں علامہ اقبال کے مزار کے چند منظر دکھا کر یا اخبارات کے آخری صفحات میں ایوان اقبال کی تقریبات دکھا کر اقبال کا حق ادا کردیا جاتا ہے۔ کچھ بڑے اخبارات خصوصی صفحات کی اشاعت بھی کردیتے ہیں پھر سال بھر کے لیے سو جاتے ہیں:

اقبال کے نفس سے ہے لالے کی آگ تیز
ایسے غزل سرا کو چمن سے نکال دو

دنیا اقبال کی معترف ہے غیرممالک اور غیرملکی زبانوں میں اقبالیات پر کام ہورہا ہے مگر اقبال کے دیس کے باسی اس سے لاتعلق و غافل ہوچکے ہیں اقبال ہمیں خودی، خودشناسی اور جدوجہد کا عزم دیتے ہیں۔

جہاں تازہ کی افکار تازہ سے ہے نمود
کہ سنگ وحشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا
وہی جہاں ہے ترا جس کو تو کرے پیدا
یہ سنگ و حشت نہیں جو تری نگاہ میں ہے

اقبال کی حیثیت دراصل ایک ایسے مرد آفاقی کی ہے جو رنگ ونسل، زماں و مکاں اور جغرافیائی حد بندی و تقسیم سے ماورا ہے جس سے تمام انسانیت بلاتفریق رنگ و نسل مستفیض ہوسکتی ہے۔ اقبال کے خیال میں وحدت صرف ایک ہی معتبر ہے اور وہ نوع انسان کی وحدت ہے جو نسل و زماں و رنگ سے بالا تر ہے ان کے نزدیک جب تک اس نام نہاد جمہوریت، ناپاک قوم پرستی اور ذلیل ملوکیت کو پاش پاش نہیں کردیا جاتا اور جب تک انسان اپنے عمل کے اعتبار سے الخلق عیال اللہ کے اصول کے تابع نہیں ہوجاتا اس وقت تک انسان اس دنیا میں فلاح و سعادت کی زندگی بسر کرسکے گا نہ اخوت، حریت اور مساوات کے الفاظ شرمندہ تعبیر ہوسکیں گے۔ اس لیے اقبال نے مغربی ملوکیت، وطن پرستی، رنگ و نسل کی تفریق اور مغرب کے تصور علم کو ہدف تنقید بنایا ہے۔

مجھ کو معلوم ہیں پیران حرم کے انداز
ہو نہ اخلاص تو دعویٰ نظر لاف و گزاف
اس کی تقدیر میں محکومی و مظلومی
جو قوم کر نہ سکے اپنی خودی سے انصاف
فطرت افراد سے اغماض بھی کر لیتی ہے
کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف

اقبال نے سیکڑوں سال سے غلامی و محکومی کے عذاب کی شکار قوم میں ایک نئی روح بیدار کی اور رفعت کی بلندیوں تک پہنچانے کی حکمت عملی بھی دی لیکن بدقسمتی سے فکر اقبال سے لاتعلقی اور بے خبری کے نتیجے میں ہم نے انگریز سے آزادی حاصل کرکے عالمی محکومی اختیار کرنے کا سفر شروع کردیا ہے۔

ہمارے حکمراں اور سیاستدان اقبال کے شعروں کا استعمال صرف انتخابات کے موقعے پر عوام کو بے وقوف بنانے اور دھوکہ دینے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ کلام اقبال ہر تقریر سے پہلے اور ہر تقریر کے بعد ہر خبرنامے سے پہلے اور اس کے بعد پیش کیا جاتا تھا اسکولوں کی اسمبلیوں میں سنایا جاتا تھا، کتابوں میں پڑھایا جاتا تھا، نوجوان نسل کو اس سے ناآشنا کیا جارہا ہے جب کہ غیرمذاہب اور ممالک کے محقق اور حکومتی اقبال کے کلام کی آفاقیت و افادیت کی قائل ہوکر اس پر تحقیق کررہی ہیں اپنی اپنی زبانوں میں تراجم کرکے اپنے لوگوں کو اس سے روشناس کرا رہی ہیں۔

اقبال آج کی نفسا نفسی، مفادات، جھوٹ فریب اور مکاری اور غلامانہ اور ظالمانہ سیاست جس کے متعلق انھوں نے کہا تھا:

ابلیس کے فرزند ہیں یہ اہل سیاست
باقی نہیں اب مری ضرورت تہہ افلاک

اقبال فرد کو اپنی خودی پہچاننے، پوشیدہ قوتوں کو عیاں کرنے، کرگس اور شاہین کی پرواز میں امتیاز کرنے، شاہی ایوانوں کی بجائے اپنا طواف کرنے اور اپنے مقام سے آگاہ ہونے کا درس دیتے ہیں۔ انھوں نے فرد کی تربیت کے لیے اسرار خودی اور جماعت کی تنظیم کے لیے رموز بے خودی لکھی ان کا کلام قرآن کی ترجمانی اور شاعری عشق رسول کی طرف راغب کرتی ہے جس کا ایک ایک لفظ اپنے اندر مقصدیت، تربیت اور اصلاح کا پہلو رکھتا ہے اور جمود کو توڑ کر اور بددلی و بے حسی کو چھوڑ کر عزم و ولولے کے جذبے سے سرشار کرتا ہے اور قوم کو بے غیرتی، محکومی اور محرومی سے نکلنے کی راہ دکھاتا ہے۔ علامہ اقبال کی ایک خوبصورت تخلیق نظم ''سلطان ٹیپو کی وصیت'' ہمارے لیے بڑی معنی خیز اور سبق آموز ہے۔

تورہ نورد شوق ہے منزل نہ کر قبول
لیلیٰ بھی ہم نشیں ہو تو محمل نہ کر قبول
اے جوئے آب بڑھ کے ہو دریائے تندو تیز
ساحل تجھے عطا ہو تو ساحل نہ کر قبول
کھویا نہ جا صنم کدہ کائنات میں
محفل گزاز! گرمی محفل نہ کر قبول
صبح ازل یہ مجھ سے کہا جبرئیل نے
جو عقل کا غلام ہو وہ دل نہ کر قبول
باطل دوئی پسند ہے' حق لاشریک ہے
شرکت میانہ حق و باطل نہ کر قبول

ہمارے اجتماعی مسائل اور بربادی کی وجہ بھی یہی ہے کہ ہم صنم کدہ کائنات میں کھوچکے ہیں دماغ کی بجائے دل سے سوچنے لگے ہیں جس کی وجہ سے حق و باطل میں تمیز کرنے کی صلاحیت سے بھی محروم ہوکر گمراہی اور تباہی کی جانب گامزن ہیں۔ اقبال نے اپنے بیٹے کو بھی یہی وصیت فرمائی تھی کہ دنیا میں شرافت اور خاموشی سے زندگی بسر کرے، رشتے داروں کو مدد کی ضرورت ہو اور وہ اس کی استعداد رکھتا ہو تو اس سے دریغ نہ کرے۔

دینی معاملات میں مشورہ کرلیا کرے، اپنے عقائد میں بعض جزوی مسائل کے سوا جو ارکان دین میں نہیں ہیں سلف صالحین کی پیروی کرے، یہی راہ بعد کامل تحقیق کے محفوظ معلوم ہوتی ہے۔ اس بدقسمت ملک (ہندوستان) میں مسلمانوں کی غلامی نے جو دینی عقائد کے نئے فرقے مختص کرلیے ہیں ان سے احتراز کرے، بعض فرقوں کی طرف لوگ محض اس لیے راغب ہوتے ہیں کہ ان سے تعلق پیدا کرنے سے دنیوی فائدے حاصل ہوتے ہیں۔ میرے خیال میں بڑا بدبخت ہے وہ شخص جو صحیح ودینی عقائد کو مادی مفاد کی خاطر قربان کردے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں