یہ عہد دلائل مانگتا ہے

مذہب انسانیت اسلام میں ہر بات، ہر مسئلے کو دلائل کے ساتھ سمجھایا گیا ہے.

shehla_ajaz@yahoo.com

RAWALPINDI:
تہذیب ایک ایسی داستان ہوتی ہے جس کے ہر صفحے پر کئی انسانوں کی کئی کہانیاں ثبت ہوتی ہیں، بہت سے واقعات، حادثات ان کہانیوں کو بنتے ہیں، یہ طویل ترین سفر ہے، ہر قوم کی اپنی تہذیب ہوتی ہے جس کی جڑیں مذہب کے منبر پر جاکر ختم ہوتی ہیں۔ اگر دیکھا جائے اور ان تمام تہذیبوں کا مطالعہ کیا جائے تو رسم و رواج کے عجیب چکر، اونچ نیچ، ذات پات، امیر غریب، ظلم و بربریت کی داستانیں ثبت نظر آئیں گی۔ اتنی تلخیاں، اتنی بے انصافیاں، اتنے جرائم کہ پڑھنے والے کا حلق خشک ہوجائے۔

آریائی قوم کی تہذیب دیکھ لیں، پوتر سے ملیچھ تک کے رشتے ایسے بنے کہ گاؤں کے گاؤں اس کی کڑواہیت میں ڈوب گئے۔ اسی طرح یونانی تہذیب، قدیم ایرانی تہذیب، رومی تہذیب، ان تمام تہذیبوں کے مطالعے کے بعد جب اسلامی تہذیب و شعائر کا مطالعہ کریں تو اس کی ابتدا سے پہلے جہالت کی جو تصویر نظر آتی ہے جس میں سنبھلنے اور بچ کر نکلنے کی راہ سمجھ ہی نہیں آتی لیکن جس انداز سے پروردگار نے اس خوبصورت مذہب کے ذریعے اپنے بندوں کو خاردار کانٹوں سے نکال کر جہالت کے اندھیروں کو دھکیل کر روشنی کے جس راستے کی جانب رواں دواں کیا اس سے صرف ایک بات سمجھ میں آتی ہے کہ ربّ العزت نے یہ دنیا ہنسی، ٹھٹھے، ظلم و جبر اور جہالت کے سمندر میں غوطے لگانے کے لیے نہیں بنائی بلکہ انسانی زندگی کو ایک مشعل راہ دکھائی ہے کہ اس کی زندگی کا ایک مقصد ہے، جانوروں کی طرح اس دنیا میں آکر کھانا پینا اور جہاں سینگ سمائے قیام کرلینا نہیں ہے۔ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت کو ایک جیتی جاگتی مثال بناکر اس دنیا میں اتارا کہ یہ ہے وہ محسن، وہ انسان کہ جس کی پیروی کرکے ہی انسان سیدھی راہ اختیار کرسکتا ہے۔

مذہب انسانیت اسلام میں ہر بات، ہر مسئلے کو دلائل کے ساتھ سمجھایا گیا ہے، ہر بات کی سمجھ دی گئی ہے، قرآن پاک کو ایک مکمل کتاب اسی لیے قرار دیا گیا ہے کہ اب اﷲ رب العزت کا دین اس کتاب پر مکمل ہوا، ختم ہوا، اب اس کتاب کے بعد کوئی اور الہامی کتاب کسی اور پیغمبر پر نہیں اتاری جائے گی۔ قرآن پاک کی تفہیم پڑھنے سے بہت سے مسائل جو ذہن میں کبھی الجھتے ہیں سلجھ جاتے ہیں جب کہ احادیث مبارکہ کی روشنی میں بھی ہم اپنی روز مرہ کی الجھنوں کو سلجھا سکتے ہیں۔

مثلاً ایک انتہائی عام سی بات کہ اگر مکھی پانی میں یا کھانے پینے کی چیز میں گرجائے تو کیا کیا جائے؟ اس کے حل کے لیے نہ حضور اکرمؐ کے زمانے میں بڑی بڑی سائنسی تحقیقاتی لیبارٹریز تھیں نہ اسپیشلسٹ، لیکن حل پیش کردیا گیا کہ اسے اسی چیز میں ڈبو کر نکال لیا جائے، یہ بات تو بعد میں سائنسی محققین نے تحقیق کرکے بتائی کہ مکھی کے ایک پر میں زہر ہوتا ہے، ظاہر ہے کہ وہ گندگی پر بیٹھتی ہے تو دوسرے پر میں اسی زہر کا تریاق ہوتا ہے اور اگر مکھی پینے کے پانی کے گلاس یا چائے میں گر جائے اور اسے ڈبوئے بغیر نہ نکالا گیا تو اس کے ایک پر کا زہر اس محلول میں سرائیت کرجائے گا لہٰذا ضروری ہے کہ اس زہر کے اثر کو زائل کرنے کے لیے اس کو اس محلول میں پورا ڈبو کر فوراً نکال کر پھینک دیا جائے۔

ہمارے معاشرے کا ایک المیہ ہے کہ ہم نے مذہب کو صرف مولویوں تک محدود کرکے چھوڑ دیا ہے۔ یقین جانیے برصغیر میں مولوی ایک معتبر نام تھا۔ بے مثال اسکالر، ادیب، اور اہل نظر مولوی یا مولانا حضرات نے کتنی فکر انگیزکتابیں لکھیں،اور عظیم کتابوں کے انگریزی سے اردو میں ترجمے کیے، تاہم بہت سے مولوی بھی بہت سی مذہبی باتوں سے لاعلم ہوتے ہیں کیونکہ مولوی اور عالم میں خاصا فرق ہوتا ہے، ایک اچھا عالم وہ ہوتا ہے جو اپنے مذہب کے ساتھ ساتھ دوسرے مذاہب کو بھی سمجھتا ہو۔

اپنے اور دوسرے مذہب کے درمیان کے فرق کو دلائل کے ساتھ جانتا ہو۔ ہر مذہب کی ایک بنیاد ہوتی ہے جس پر اسے نظریں جمانی ہیں جب کہ اسلام کی بنیاد ربّ العزت نے جس طرح تعمیر کی تھی وہ آج تک قائم ہے جس کی تلقین ہمارے پیغمبر حضرت محمد مصطفی ﷺ نے کی جس میں کسی شک یا شبے کی گنجائش نہیں ہے۔ اس بنیاد کا ہر ستون ایک مضبوط ٹھوس حقیقت کی بنیاد پر کھڑا ہے، اس کے یہ ستون اتنے پرکشش، اتنی آسانی سے انسانی فطرت میں جذب ہوجانے والے ہیں کہ اس کے ماننے والوں کی تعداد میں روزبروز اضافہ ہورہا ہے جس کا اظہار ویٹی کن سٹی کے اخبار نے کھل کر کیا کہ ''اب ہم تعداد کے اعتبار سے عظیم نہیں رہے بلکہ مسلمان اب نمبر ون (بلحاظ تعداد) ہیں''۔


مغرب میں فرانس کے بعد جرمنی میں بھی مسلمانوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ یہاں تک کہ مغربی خواتین باقاعدہ حجاب بھی استعمال کر رہی ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نو مسلموں کے دل میں اسلام کی پسندیدگی کا رجحان کسی حد تک ہے، شاید اسی لیے فرانس میں مسلمان خواتین کے لباس پر پابندیاں عائد کرنے کے بارے میں سوچا جارہا ہے جس سے وہاں خواتین جواسلامی شعائر کے مطابق زندگی گزارتے ہوئے معمول کی روزمرہ زندگی میں بھی بھرپور حصہ لینا چاہتی ہیں ان حکومتی ہتھکنڈوں سے خائف ہیں۔ انھیں اس بات کا اچھی طرح احساس ہے کہ ان کے راستے میں کانٹے بچھانے کا عمل کیا جا رہا ہے۔

حال ہی میں ایک عیسائی تبلیغی چینل کی ایک ویڈیو منظر عام پر آئی جس میں ایک پادری رچرڈ برنش کی ایک مسلمان نوجوان کی آن لائن گفتگو شامل ہے جس سے اس پادری کی علمیت کا پول کھلتا نظر آرہا ہے۔ یہ درست ہے کہ ہمارے یہاں بہت سے مولوی اتنے پڑھے لکھے نہیں ہوتے عالموں کا اس سے مقابلہ نہیں کیا جاسکتا لیکن ہم نے جو فرق اپنے مولویوں اور علما میں دیکھا ہے اس طرح کے فرق کہیں اور نہیں دیکھے لہٰذا کسی مسئلے پر، کسی بات پر غلط فہمی کا شر اٹھایا جاسکتا ہے لیکن بلاشبہ رچرڈ برنش ایک پڑھے لکھے پادری تھے لیکن جس تصور پر ان سے بات کی جارہی تھی وہ ایک کھلی مسلمہ حقیقت تھی یعنی ''تثلیث کا تصور''۔

رچرڈ کا پہلے ایک بات کا اقرار کرنا پھر تھوڑی ہی دیر بعد سوالوں میں الجھ کر اسی جواب سے مکر کر دوسرا جواب دینا ان کے اپنے ہم مذہبوں کو الجھاگیا۔ دراصل وہ خود اپنے خدائی تصور کے بارے میں کنفیوز ہیں ان کو اس بات کا خود یقین نہیں کہ خدا ایک ہے یا تین؟ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور خدائے مقدس کے درمیان رشتہ کس نوعیت کا ہے؟ روح مقدسہ، حضرت عیسیٰ اور خدائے مقدس یہ تینوں کس رشتے سے بندھے ہیں؟ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی جان عیسائیوں کو بچانے اور انھیں جنت میں جانے کے لیے قربان کی تو کیا وہ یہودی جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ موٹی ناک کے بدنما یہودی تھے، کیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ان کے لیے بھی اپنی جان اس لیے قربان کی کہ وہ بھی جنت میں جائیں گے؟

حالانکہ یہ وہی شیطان ہیں کہ جنہوں نے آپ کو ایک اذیت ناک موت سے ہمکنار کیا۔ اس کے لیے انجیل کے بھی حوالے دیے گئے، یہاں تک کہ رچرڈ کو اس بات کا اقرار کرنا پڑا کہ اس تصور کا حل واضح نہیں ہے، وہ صاف مکمل شکل نہیں ہے کہ اس خدائی کے تصور کو ڈکلیئر کیا جائے۔

اﷲ ربّ العزت نے اسلام کو آخری مذہب قرار دیا ہے اور اسے سائنسی اور حسابی بنیاد سے اس قدر مکمل کردیا گیا ہے کہ ہر جانب سے کسی قسم کی کمی بیشی نظر نہیں آتی۔ اس کا ہر کونہ مکمل کردیا گیا ہے، اس کی روحانیت سے تو میرے جیسے بہت سے نومولود واقف ہی ہوں گے لیکن مغرب میں جس طرح سائنسی اور حسابی انداز میں اس کی جانچ ہورہی ہے کہ:

سب پردے اٹھ رہے ہیں ایک کے بعد ایک
اب اور کیا کمی ہے تو بھی کمر کس
Load Next Story