بلوچستان اندازے اور حقائق
بلوچستان میں کام کرنے والے مزدوروں کی حفاظت کو یقینی نہ بنانے پر حکومت کو بھی سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
KARACHI:
بلوچستان کی سیاسی اور سماجی صورتحال پر کوئی رائے دینے سے قبل اس بات کا خیال رکھنا انتہائی ضروری ہے کہ ہم بلوچستان کی تاریخ، رسم و رواج، آبادی، تعلیم، صحت اور دوسرے مسائل سے کتنی واقفیت رکھتے ہیں۔
اس صوبے سے باہر رہنے والے یا فضائی سفر کے ذریعے کسی کانفرنس میں شرکت کرنے کے بعد اس کے گوناں گوں مسائل پر بات کرنے والے سماجی اور سیاسی کا رکن اور دانشور حضرات بھی شاید اس وقت تک بلوچستان کے مسائل کی گہرائی تک نہیں پہنچ سکتے جب تک وہ اس کے ساحل پر صدیوں سے آباد انتہائی پس ماندہ اضلاع سے لے کر ایران اور افغانستان کے سرحدی شہروں اور ان کے عام باسیوں کے ساتھ نہ ملے ہوں یا ان کے طرز زندگی اور بنیادی مشکلات کو اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ چکے ہوں۔
بلوچستان میں کام کرنے والے غیر سرکاری اداروں کے اعدادوشمار جن حقائق سے آگاہ کرتے ہیں چاروناچار ان پر ہی اعتبارکرنا پڑتا ہے کہ اس علاقے میں سوائے ان اداروں کے کوئی بھی ایسا مربوط سرکاری ذریعہ نہیں ہے جو اصل حقائق سے آگاہ کرسکے لیکن یہ اعداد و شمار بھی زیادہ سے زیادہ تعلیم اور صحت کے شعبے تک ہی محدود ہیں۔
ہاں البتہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان ایک ایسا ادراہ ہے جو ہمیں بلوچستان کے گمشدہ افراد یا عام شہریوں پر ہونے والے ظلم و ستم سے آگاہ رکھتا ہے مگر اس کی آواز بھی نقار خانے میں طوطی کی آواز سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی۔ وسائل کی کمی اورامن و امان کی صورت حال بھی اس تنظیم کے ممبران کو یہ اجازت نہیں دیتی ہے کہ وہ پورے بلوچستان میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا حقیقی انداز میں احاطہ کر سکیں۔
چند دن قبل بلوچستان میں چھ مزدوروں کے قتل کا افسو س ناک واقعہ پیش آیا تو اپنے اپنے خیالات وتجربات کی مناسبت سے مختلف افراد نے اس واقعے پر اپنی رائے کا اظہار کیا۔ بد قسمتی سے غربت اور بیروزگاری کے ستائے ہوئے بلوچستان میں آنے والے مزد وروں کا تعلق ملک کے کسی ایک علاقے سے نہیں ہوتا بلکہ یہاں ملک بھرکے مزدور کام کے سلسلے میں آتے جاتے رہتے ہیں مگر ان میں سے زیادہ ترکا تعلق پنجاب سے ہی ہوتا ہے۔
دیکھنے میں آیا ہے کہ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں قتل ہونے والے افراد میں صرف مزدور ہی نہیں بلکہ ایران کے راستے غیر قانونی طور پر یورپ جانے والے نوجوان بھی شامل ہوتے ہیں اور زیارت کے لیے جانے والے زائرین کے ایسے قافلے بھی ہوتے ہیں جنھیں بلوچستان کے ذریعے ایران جانا ہوتا ہے۔ پچھلے سال مئی کے مہینے میں بلوچستان کے علاقے گوادر میں نو مزدوروں کو انتہائی بے رحمی سے گولیوں کا نشانہ بنایا گیا تھا جن کا تعلق سندھ سے تھا۔
اس واقعے کے بعد بلوچستان کے سیاسی رہنماؤں کی جانب سے جہاں علیحدگی پسند تنظیموں کی شدید مذمت کی گئی وہاں بلوچستان میں کام کرنے والے مزدوروں کی حفاظت کو یقینی نہ بنانے پر حکومت کو بھی سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ دوہزار پندرہ میں بھی تربت کے علاقے میں ایک ڈیم کی تعمیر کا کام کرنے والے مزدوروں کی عارضی رہائش پر حملہ کیا گیا تھاجس سے بیس مزدور ہلاک ہوگئے تھے۔ان میں سے چودہ کا تعلق صادق آبادسے اور چار کا سندھ کے انتہائی پسماندہ علاقے تھرپارکر سے تھا۔
مزدوروں پر ہونے والے ان حملوں کی تعداد صرف دو چار تک محدود نہیں بلکہ ایسے کئی واقعات میں اب تک سیکڑوں مزدور ہلاک اور زخمی ہوچکے ہیں۔ کراچی سے بلوچستان جانے والی بسوں اور ریل گاڑیوں پر بھی وقفے وقفے سے فائرنگ کے واقعات پیش آتے رہے اور عبادت گاہوں کے ساتھ مختلف مسالک کے روحانی مقامات اور مزارات کو بھی دھماکوں کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔
دہشتگردی کے کئی واقعات کے بعد عموما بلوچستان کی علیحدگی پسند تنظیموں کی طرف سے حملے کی ذمے داری کے بعد یہ توجیہہ پیش کی جاتی رہی کہ یہاں کے زیر تعمیر ترقیاتی منصوبوں پر ملک کے دوسرے علاقوں سے آنے والے مزدوروں کے بجائے مقامی مزدوروں کوہی کام کرنے کا حق ہے۔ اس کے علاوہ ان تنظیموں نے ایسے تمام منصوبوں کی بھی مخالفت کی جو دوسرے ممالک کی مدد سے بلوچستان میں زیر تعمیر ہیں۔ چینی ماہرین پر حملوں کو بھی اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔
اس بات سے شاید کوئی بھی جمہوریت پسند شخص اختلاف نہیں کرسکتا کہ بلوچستان کی ترقی خوشحالی اور اس کے انتظامی امور پر سب سے پہلے اس کے مقامی افراد کا حق ہے لیکن تعلیم کی بگڑتی ہوئی صورت حال، صحت کے مسائل اور بیروزگاری کی اصل وجہ باہر سے آنے والے مزدورو نہیں بلکہ ماضی کی ایسی تمام صوبائی اور مرکزی حکومتیں قرار دی جا سکتی ہیں جنہوں نے مقامی مزدوروں کی جدید انداز سے تربیت کی اور نہ ہی ان کے لیے ایسے ترقیاتی منصوبے شروع کیے جن سے ان کے مالی معیار میں بہتری آ سکتی اور وہ ملک بھر میں نہ سہی کم از کم اپنے صوبے کے دور دراز علاقوں میں بسنے والے سیاسی اور سماجی کارکنوں سے رابطہ رکھنے کے قابل ہوسکتے۔
اس سے انکار ممکن نہیں کہ جب تک بلوچستان کی بکھری ہوئے آبادی پر قبائلی نظام کی مضبوط گرفت اورصدیوں پرانی روایات میں دراڑ نہیں پڑتی تب تک اس منتشر آبادی کی تقدیر بدلنا بھی مشکل ہے ۔
بکھری ہوئی آبادی کی طرح بلوچستان کے مسائل بھی اتنے بکھرے ہوئے ہیں کہ ہر کوئی انھیں اپنی سمجھ کے مطابق حل کرنے کی کوشش کرتا ہے مگر مسائل کا حل بتانے والے نہ تو بلوچستان کے جغرافیے سے واقف ہیں اور نہ ہی اس کی بکھری ہوئی مجبور آبادی کے بنیادی مسائل سے باخبر ہیں۔ اس صوبے میں اگر زبان ، نسل یا مذہب کے نام پر کسی کو قتل کیا جا رہا ہے تو یہ قابل مذمت ہے مگر زبان ، نسل اور فرقے یا مذہب کے نام پر اسے جائز قرار دینا اس سے بھی زیادہ قابل مذمت ہے۔
اس تناظر میں نہ صرف بے گناہ مزدوروں کے قتل عام کی مذمت ضروری ہے ، تسلسل کے ساتھ ہزارہ برادری کی نسل کشی کے خلاف بھی آواز بلندکرنے کی ضرورت ہے، سرکاری تصنیبات پر حملے اور ملازمین کا قتل بھی قابل مذمت ہے اور کوئلے کی کانوں میںٹھیکے داری نظام کے ہاتھوں قتل ہونے والے ان مزدوروں کی ہلاکت کی بھی مذمت ضروری ہے جن کے بنیادی حقوق کے لیے بلوچستان کی حکومت کوئی قدم نہیں اٹھاتی۔
سیاسی طالب علم بلوچستان کے ناراض کارکنوں سے ہمیشہ یہ شکایت کرتے ہیں کہ وہ بلوچستان کے نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کی راہ میں آنے والی رکاوٹوں کا سد باب کرنے کے بعد انھیں کسی ایک سیاسی پلیٹ فارم پر جمع کرنے کے لیے کوئی لائحہ عمل ترتیب کیوں نہیں دیتے، ان رہنماؤں کا گلاکیوں نہیں پکڑتے جنہوں نے صوبے کے ترقیاتی کاموں، تعلیم اور صحت پر خرچ ہونے والے اربوں روپے اپنے گھروں میں چھپا رکھے تھے اور وطن سے دور رہنے کے بجائے وہ واپس آکر یا وطن سے دور رہ کر بھی سیاسی و سماجی تبدیلی آغاز کیوں نہیں کرتے ۔
اگر ملک سے باہر رہ کر دہشتگردی کی کارروائیاں ہو سکتی ہیں اور ایسی طاقتوں کا ساتھ دیا جا سکتا ہے جواس خطے میں اپنے ایجنڈے کے مطابق تبدیلی کے خواہش مند ہیںتو ناخواندگی،غربت، جہالت اور بہتر سیاسی قیادت کی راہ میں رکاوٹوں کے خلاف جد وجہد کیوں نہیں کی جا سکتی۔
بہت سارے سیاسی کارکنوں اور دانشوروں کا کہنا ہے کہ اب پہاڑوں پر چڑھنے، دوسرے ممالک میں بیٹھ کر بیانات جاری کرنے اور تشدد کے ذریعے اپنے مطالبات منوانے کا وقت گزر چکا۔ یاد رہے کہ مسائل طاقت سے حل ہوتے ہیں اور نہ ہی isolationسے بلکہ ان کے لیے سیاسی دھارے میں شامل ہو کر بات چیت اور مذاکرات کا ہی سہارا لینا پڑتا ہے۔ بلوچستان مین ایک آزادانہ اور زمینی حقائق سے جڑے گریٹر مکالمہ کی ضرورت ہے۔