جب گھنٹہ بدلا
تاریخ پھر خود کو دہراتی رہی۔ گھڑی میں وہ ہی گھنٹہ بجنے لگا جو ضیاء الحق کے دور میں تھا۔
بڑی بڑی باتیں کر کے پیٹ بھر جاتا تو آج تک پیپلز پارٹی روٹی،کپڑا اور مکان کا نعرہ نہ لگا رہی ہوتی۔ ایوب خان نے یہ نعرہ لگا کر وزیراعظم کو چلتا کر دیا تھا کہ سیاستدانوں کی کرپشن اور لوٹ مار کی وجہ سے ملک تباہ ہوگیا ہے۔ وہ کرپشن سے پاک نظام بنائیں گے، توکیا بن گیا؟ وہ یہ الزام لگا کر چلے گئے کہ سیاسی لوگوں نے انھیں حکومت ہی نہیں کرنے دی۔
گھنٹہ بدلا، اورذوالفقار علی بھٹو روٹی ،کپڑا، مکان کا نعرہ لگا کر اقتدارکے مالک بن گئے۔ لوگوں کو یہ لگا کہ اب ان کی قسمت کا ستارہ چمکنے والا ہے۔ بھٹو نے 22 خاندانوں سے لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کا اعلان کیا، لیکن پھر گھنٹہ بدلا۔ بھٹو کے خلاف PNA کی تحریک چلی۔ مارشل لا لگ گیا اور بھٹو سیاستدانوں اور فوج پر الزام لگا کر پھانسی پر چڑھ گئے کہ انھوں نے عوام کی خدمت نہیں کرنے دی۔ عوام کی گھڑی کا گھنٹہ وہیں رکا رہا، مگر ضیاء الحق کا گھنٹہ بدل گیا۔
ضیاء الحق نے PNA کا نعرہ چوری کرلیا اور نظام مصطفی کا نعرہ بلند کیا۔ جماعت اسلامی ان کے شانہ بشانہ کھڑی ہو گئی۔ نوازشریف وزیرخزانہ سے وزیراعلیٰ پنجاب ہوگئے۔ 11 سال اقتدار اور اختیار پر قابض رہے، اگر کسی نے یہ نعرہ لگانے کی کوشش کی''ظلمت کو ضیاء'' کیا لکھنا۔اُسے کوڑے مار مارکر سیدھا کردیا گیا۔
ایک ایک سے بڑھ کر ایک سیاسی مسخرہ ساتھ ملایا گیا۔ اخبارکی سرخیوں سے لے کر TV پر لڑکیوں کے دوپٹے درست کرنے تک کی ذمے داری حاضر یا ریٹائرڈ فوجیوں کو سونپ دی گئی۔ کہنے کا مقصد ہے کہ چند سر پھرے ''سرخوں'' کے علاوہ سب کچھ ضیاء کی مٹھی میں تھا، لیکن آخری وقت تک بس عوام کے لیے گھنٹہ ہی بدلا اور جہاز نے بہاولپور میں ان کے گھنٹے پورے کر دیے۔
اسلم بیگ جسے پیپلزپارٹی نے تمغہ جمہوریت تک دے دیا تھا، انھوں نے اقتدار پر قبضہ نہیں کیا۔ بینظیرکی قیادت میں پیپلز پارٹی بہت متحرک تھی۔ عوام کو پھر روٹی،کپڑا اور مکان کا نعرہ دیا گیا۔ سرخوں کو لگا کہ اب تو انقلاب آئے گا، لیکن گھنٹہ آیا،اور 6 اگست 1990ء کو صدر غلام اسحق خان نے ایک لمبی چوڑی الزامات کی شیٹ لگا کر قومی اسمبلی توڑکر بینظیر کو گھر بھیج دیا۔ لوٹ مارکے الزامات لگنے لگے۔
ایک نعرہ یہ بھی لگا کہ پہلے احتساب پھر انتخاب۔ مگرگھنٹہ نہیں بدلا اور IGI اقتدار میں آگئی۔ بینظیر عوام کو یقین دلاتی رہیں کہ حالات بدلنے کا موقعہ نہیں دیا گیا۔ ہم اپنے منشور پر عمل ہی نہیں کرسکے۔ ڈیڑھ سال میں ہمیں گھر بھیج دیا گیا۔ سیاسی ماحول اُس وقت پیپلز پارٹی کے لیے ایسا ہی تھا جیسے آج نواز شریف کے لیے ہے۔ لوگ کلمے پڑھ پڑھ کر پیپلز پارٹی کو چھوڑ کر جا رہے تھے اور وہ یہ یقین دلا رہے تھے کہ نواز شریف کے ساتھ مل کر وہ نظام کو بدل دیں گے۔
پھر گھنٹہ ہی بدلا اور 18 جولائی 1993ء کو نواز شریف نے صدرکو قومی اسمبلی توڑنے کی ہدایت کردی۔ صدر نے اسی دن اسمبلی توڑ دی۔کیونکہ یہ سب کچھ اُس وقت کے آرمی چیف جنرل عبدالوحید کاکڑ، صدر غلام اسحق خان، نواز شریف اور بینظیر بھٹوکے درمیان طے شدہ فارمولے کے تحت ہوا تھا۔ اگلے دن 19جولائی کو صدر غلام اسحق خان نے قومی اسمبلی کے اسپیکر کو لکھا کہ وہ عوامی مفاد میں اپنے عہدے سے استعفی دے رہے ہیں، لیکن گھنٹہ بدلا۔ عوامی مفاد کے نام پر بس اتنا ہوا کہ بینظیر بھٹوکو ایک بار پھر اقتدار مل گیا۔ اب روٹی اورکپڑے کا نعرہ پھر لگا۔ عوام کے بجلی بحران سے چھٹکارے کا نعرہ لگا۔
نئی نئی پالیسی آئی۔مسلم لیگ دو حصوں میں بٹ چکی تھی اور پیپلز پارٹی نے چٹھہ گروپ سے اتحاد کرلیا۔ ماحول ایسا ہی تھا جیسے آج کل عمران خان کی حمایت میں ہے اور شاہ محمود قریشی کلمہ پڑھ کر نواز شریف کو چھوڑ کر پیپلز پارٹی میں آگئے۔ بینظیر نے بھی اپنا منصوبہ ایسے ہی پیش کیا جیسے 100 دن کا عمران خان نے دیا ہے۔ بینظیر نے ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ولی خان، اجمل خٹک، جی ایم سید، اچکزئی اور الطاف حسین جیسوں سے دوستی کرنے والا نواز شریف عوام کا دوست نہیں ہوسکتا۔ یہ الگ بات ہے کہ اسی پیپلز پارٹی نے بعد میں ان سب سے دوستی کر لی۔ بینظیر نے کہا تھا کہ اکتوبر 1993ء میں غریبوں کی فتح ہو گی، لیکن گھنٹہ بدلا ۔
بینظیر کو اقتدار مل چکا۔ اب ان کی پنجاب میں بھی حکومت تھی۔ روٹی کپڑا اور مکان کے درمیان انھیں پھر سازشیں نظر آنے لگیں۔ ان کا کہنا تھا کہ انھیں اقتدار تو ملا ہے لیکن وہ عوام کی خدمت نہیں کرسکیں۔ سارے منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے۔5 نومبرکو فاروق لغاری نے بینظیر حکومت کو ختم کر دیا اور ایک بار پھر عوام کو بس دلاسے کا ایک گھنٹہ اور ملا۔ 6 نومبرکو پیپلز پارٹی کا ایک فاروڈ بلاک بن گیا۔ امید یہ ہے کہ ایسا ہی ایک فاروڈ بلاک یکم جون کو مسلم لیگ کا بھی بننے والا ہے۔
10 نومبر 1996ء کو جنرل جہانگیرکرامت نے اُس وقت کے صدر لغاری سے طویل ملاقات کی، اُسی روز چوہدری نثار ایک خاص پیغام لے کر نواز شریف کے پاس گئے۔ بالکل اسی طرح کے خاص پیغام آج کل بھی جا رہے ہیں۔ خیر بینظیر حکومت چلی گئی۔ نواز شریف انقلابی نعرے لے کر آئے۔ ہوائیں ان کی حمایت میں چل رہی تھیں۔ پھر ایک لمبا چوڑا منشور دیا گیا اور بھاری اکثریت کے ساتھ وہ وزیر اعظم بن گئے۔ لیکن بس گھنٹہ بدلا۔ وہ یہ الزام دیتے رہے کہ انھیں کام نہیں کرنے دیا اور پرویز مشرف نے ان کے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔
تاریخ پھر خود کو دہراتی رہی۔ گھڑی میں وہ ہی گھنٹہ بجنے لگا جو ضیاء الحق کے دور میں تھا۔ اب نظام مصطفی کی جگہ روشن خیالی اور اعتدال پسندی آگئی۔ کرپٹ سیاستدانوں کے احتساب کا نعرہ لگنے لگا۔کل تک جو لوگ چور تھے وہ کلمہ پڑھ پڑھ کو پاک صاف ہونے لگے اورکسی نے ''ن'' کی جگہ ''ق'' لگا کر خود کو پاک کیا توکسی نے ''پیٹریاٹ'' لگا کر اپنے سارے گناہ معاف کرادیے۔ 7 نکاتی منشور دیا گیا۔ جس پر عمران خان بھی دل وجان سے یقین کر بیٹھے۔ ہمیں لگا کہ اب تو تبدیلی آئی ہی آئی، لیکن پھر گھنٹہ ہی بدلا اور ایوب خان کی طرح انھیں بھی سیاستدانوں کو الزام دینے کا موقعہ مل گیا کہ وہ تو عوام کی خدمت کرنا چاہتے تھے لیکن سیاستدانوں نے ان کی پیٹھ میں چھرا گھونپا۔
پھر جمہوریت بہترین انتقام ٹھہری۔ منشور وہ ہی رکھا گیا جو بینظیر نے دیا تھا۔ جس میں چارE تھے ۔ معیشت کا نعرہ لگایا گیا۔ دوسرا E توانائی کے لیے رکھا گیا۔تیسرے E میں ماحولیات کو رکھا گیا۔ پانچ سال گزرگئے۔ پیپلز پارٹی یہ الزام لگاتی رہی کہ ان کے خلاف عدالتوں سے لے کر فوجی بھی رہے۔ انھیں چوہدری افتخار نے کام ہی نہیں کرنے دیا۔ ان کے وزیر اعظم پیشی ہی بھگتتے رہے۔گھنٹہ بدلا۔ ہم صرف منہ ہی دیکھتے رہ گئے۔
نواز شریف نے اپنا منصوبہ دیا۔ شہباز شریف نے کہا کہ اگر بجلی نہ آئی تو ان کا نام بدل دیا جائے۔کراچی والے تو عرصے سے سوچ رہے ہیں لیکن انھیں کوئی نام ہی نہیں ملا اور اب پانچ سال بعد وہ کہہ رہے ہیں کہ اگر مجھے نہیں نکالا جاتا تو انقلاب آجاتا۔ اب پھر گھنٹہ بدلا۔ اب عمران خان منصوبہ لے کر آئے ہیں۔ میں دیکھنا یہ چاہتا ہوں کہ اب اگر وہ کامیاب ہوگئے تو پانچ سال بعد وہ کسے الزام دیں گے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز شریف تو سیاستدانوں اور اسٹیبلشمنٹ کو الزام دیتے رہے۔ عدالتوں کو کوستے رہے۔ آمروں نے سیاستدانوں کو الزام دیا۔ 70سال کی چکی میں ہم بس نعروں سے ہی پیٹ بھرتے رہے۔ اب اس ملک کی تقدیر بدلے گی یا پھر اگلی حکومت کے 100دن بعد وہ کسی اورکو الزام دے رہی ہوگی اور عوام کہہ رہے ہونگے کہ گھنٹہ بدلا، پر نظام نہیں۔
گھنٹہ بدلا، اورذوالفقار علی بھٹو روٹی ،کپڑا، مکان کا نعرہ لگا کر اقتدارکے مالک بن گئے۔ لوگوں کو یہ لگا کہ اب ان کی قسمت کا ستارہ چمکنے والا ہے۔ بھٹو نے 22 خاندانوں سے لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کا اعلان کیا، لیکن پھر گھنٹہ بدلا۔ بھٹو کے خلاف PNA کی تحریک چلی۔ مارشل لا لگ گیا اور بھٹو سیاستدانوں اور فوج پر الزام لگا کر پھانسی پر چڑھ گئے کہ انھوں نے عوام کی خدمت نہیں کرنے دی۔ عوام کی گھڑی کا گھنٹہ وہیں رکا رہا، مگر ضیاء الحق کا گھنٹہ بدل گیا۔
ضیاء الحق نے PNA کا نعرہ چوری کرلیا اور نظام مصطفی کا نعرہ بلند کیا۔ جماعت اسلامی ان کے شانہ بشانہ کھڑی ہو گئی۔ نوازشریف وزیرخزانہ سے وزیراعلیٰ پنجاب ہوگئے۔ 11 سال اقتدار اور اختیار پر قابض رہے، اگر کسی نے یہ نعرہ لگانے کی کوشش کی''ظلمت کو ضیاء'' کیا لکھنا۔اُسے کوڑے مار مارکر سیدھا کردیا گیا۔
ایک ایک سے بڑھ کر ایک سیاسی مسخرہ ساتھ ملایا گیا۔ اخبارکی سرخیوں سے لے کر TV پر لڑکیوں کے دوپٹے درست کرنے تک کی ذمے داری حاضر یا ریٹائرڈ فوجیوں کو سونپ دی گئی۔ کہنے کا مقصد ہے کہ چند سر پھرے ''سرخوں'' کے علاوہ سب کچھ ضیاء کی مٹھی میں تھا، لیکن آخری وقت تک بس عوام کے لیے گھنٹہ ہی بدلا اور جہاز نے بہاولپور میں ان کے گھنٹے پورے کر دیے۔
اسلم بیگ جسے پیپلزپارٹی نے تمغہ جمہوریت تک دے دیا تھا، انھوں نے اقتدار پر قبضہ نہیں کیا۔ بینظیرکی قیادت میں پیپلز پارٹی بہت متحرک تھی۔ عوام کو پھر روٹی،کپڑا اور مکان کا نعرہ دیا گیا۔ سرخوں کو لگا کہ اب تو انقلاب آئے گا، لیکن گھنٹہ آیا،اور 6 اگست 1990ء کو صدر غلام اسحق خان نے ایک لمبی چوڑی الزامات کی شیٹ لگا کر قومی اسمبلی توڑکر بینظیر کو گھر بھیج دیا۔ لوٹ مارکے الزامات لگنے لگے۔
ایک نعرہ یہ بھی لگا کہ پہلے احتساب پھر انتخاب۔ مگرگھنٹہ نہیں بدلا اور IGI اقتدار میں آگئی۔ بینظیر عوام کو یقین دلاتی رہیں کہ حالات بدلنے کا موقعہ نہیں دیا گیا۔ ہم اپنے منشور پر عمل ہی نہیں کرسکے۔ ڈیڑھ سال میں ہمیں گھر بھیج دیا گیا۔ سیاسی ماحول اُس وقت پیپلز پارٹی کے لیے ایسا ہی تھا جیسے آج نواز شریف کے لیے ہے۔ لوگ کلمے پڑھ پڑھ کر پیپلز پارٹی کو چھوڑ کر جا رہے تھے اور وہ یہ یقین دلا رہے تھے کہ نواز شریف کے ساتھ مل کر وہ نظام کو بدل دیں گے۔
پھر گھنٹہ ہی بدلا اور 18 جولائی 1993ء کو نواز شریف نے صدرکو قومی اسمبلی توڑنے کی ہدایت کردی۔ صدر نے اسی دن اسمبلی توڑ دی۔کیونکہ یہ سب کچھ اُس وقت کے آرمی چیف جنرل عبدالوحید کاکڑ، صدر غلام اسحق خان، نواز شریف اور بینظیر بھٹوکے درمیان طے شدہ فارمولے کے تحت ہوا تھا۔ اگلے دن 19جولائی کو صدر غلام اسحق خان نے قومی اسمبلی کے اسپیکر کو لکھا کہ وہ عوامی مفاد میں اپنے عہدے سے استعفی دے رہے ہیں، لیکن گھنٹہ بدلا۔ عوامی مفاد کے نام پر بس اتنا ہوا کہ بینظیر بھٹوکو ایک بار پھر اقتدار مل گیا۔ اب روٹی اورکپڑے کا نعرہ پھر لگا۔ عوام کے بجلی بحران سے چھٹکارے کا نعرہ لگا۔
نئی نئی پالیسی آئی۔مسلم لیگ دو حصوں میں بٹ چکی تھی اور پیپلز پارٹی نے چٹھہ گروپ سے اتحاد کرلیا۔ ماحول ایسا ہی تھا جیسے آج کل عمران خان کی حمایت میں ہے اور شاہ محمود قریشی کلمہ پڑھ کر نواز شریف کو چھوڑ کر پیپلز پارٹی میں آگئے۔ بینظیر نے بھی اپنا منصوبہ ایسے ہی پیش کیا جیسے 100 دن کا عمران خان نے دیا ہے۔ بینظیر نے ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ولی خان، اجمل خٹک، جی ایم سید، اچکزئی اور الطاف حسین جیسوں سے دوستی کرنے والا نواز شریف عوام کا دوست نہیں ہوسکتا۔ یہ الگ بات ہے کہ اسی پیپلز پارٹی نے بعد میں ان سب سے دوستی کر لی۔ بینظیر نے کہا تھا کہ اکتوبر 1993ء میں غریبوں کی فتح ہو گی، لیکن گھنٹہ بدلا ۔
بینظیر کو اقتدار مل چکا۔ اب ان کی پنجاب میں بھی حکومت تھی۔ روٹی کپڑا اور مکان کے درمیان انھیں پھر سازشیں نظر آنے لگیں۔ ان کا کہنا تھا کہ انھیں اقتدار تو ملا ہے لیکن وہ عوام کی خدمت نہیں کرسکیں۔ سارے منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے۔5 نومبرکو فاروق لغاری نے بینظیر حکومت کو ختم کر دیا اور ایک بار پھر عوام کو بس دلاسے کا ایک گھنٹہ اور ملا۔ 6 نومبرکو پیپلز پارٹی کا ایک فاروڈ بلاک بن گیا۔ امید یہ ہے کہ ایسا ہی ایک فاروڈ بلاک یکم جون کو مسلم لیگ کا بھی بننے والا ہے۔
10 نومبر 1996ء کو جنرل جہانگیرکرامت نے اُس وقت کے صدر لغاری سے طویل ملاقات کی، اُسی روز چوہدری نثار ایک خاص پیغام لے کر نواز شریف کے پاس گئے۔ بالکل اسی طرح کے خاص پیغام آج کل بھی جا رہے ہیں۔ خیر بینظیر حکومت چلی گئی۔ نواز شریف انقلابی نعرے لے کر آئے۔ ہوائیں ان کی حمایت میں چل رہی تھیں۔ پھر ایک لمبا چوڑا منشور دیا گیا اور بھاری اکثریت کے ساتھ وہ وزیر اعظم بن گئے۔ لیکن بس گھنٹہ بدلا۔ وہ یہ الزام دیتے رہے کہ انھیں کام نہیں کرنے دیا اور پرویز مشرف نے ان کے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔
تاریخ پھر خود کو دہراتی رہی۔ گھڑی میں وہ ہی گھنٹہ بجنے لگا جو ضیاء الحق کے دور میں تھا۔ اب نظام مصطفی کی جگہ روشن خیالی اور اعتدال پسندی آگئی۔ کرپٹ سیاستدانوں کے احتساب کا نعرہ لگنے لگا۔کل تک جو لوگ چور تھے وہ کلمہ پڑھ پڑھ کو پاک صاف ہونے لگے اورکسی نے ''ن'' کی جگہ ''ق'' لگا کر خود کو پاک کیا توکسی نے ''پیٹریاٹ'' لگا کر اپنے سارے گناہ معاف کرادیے۔ 7 نکاتی منشور دیا گیا۔ جس پر عمران خان بھی دل وجان سے یقین کر بیٹھے۔ ہمیں لگا کہ اب تو تبدیلی آئی ہی آئی، لیکن پھر گھنٹہ ہی بدلا اور ایوب خان کی طرح انھیں بھی سیاستدانوں کو الزام دینے کا موقعہ مل گیا کہ وہ تو عوام کی خدمت کرنا چاہتے تھے لیکن سیاستدانوں نے ان کی پیٹھ میں چھرا گھونپا۔
پھر جمہوریت بہترین انتقام ٹھہری۔ منشور وہ ہی رکھا گیا جو بینظیر نے دیا تھا۔ جس میں چارE تھے ۔ معیشت کا نعرہ لگایا گیا۔ دوسرا E توانائی کے لیے رکھا گیا۔تیسرے E میں ماحولیات کو رکھا گیا۔ پانچ سال گزرگئے۔ پیپلز پارٹی یہ الزام لگاتی رہی کہ ان کے خلاف عدالتوں سے لے کر فوجی بھی رہے۔ انھیں چوہدری افتخار نے کام ہی نہیں کرنے دیا۔ ان کے وزیر اعظم پیشی ہی بھگتتے رہے۔گھنٹہ بدلا۔ ہم صرف منہ ہی دیکھتے رہ گئے۔
نواز شریف نے اپنا منصوبہ دیا۔ شہباز شریف نے کہا کہ اگر بجلی نہ آئی تو ان کا نام بدل دیا جائے۔کراچی والے تو عرصے سے سوچ رہے ہیں لیکن انھیں کوئی نام ہی نہیں ملا اور اب پانچ سال بعد وہ کہہ رہے ہیں کہ اگر مجھے نہیں نکالا جاتا تو انقلاب آجاتا۔ اب پھر گھنٹہ بدلا۔ اب عمران خان منصوبہ لے کر آئے ہیں۔ میں دیکھنا یہ چاہتا ہوں کہ اب اگر وہ کامیاب ہوگئے تو پانچ سال بعد وہ کسے الزام دیں گے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز شریف تو سیاستدانوں اور اسٹیبلشمنٹ کو الزام دیتے رہے۔ عدالتوں کو کوستے رہے۔ آمروں نے سیاستدانوں کو الزام دیا۔ 70سال کی چکی میں ہم بس نعروں سے ہی پیٹ بھرتے رہے۔ اب اس ملک کی تقدیر بدلے گی یا پھر اگلی حکومت کے 100دن بعد وہ کسی اورکو الزام دے رہی ہوگی اور عوام کہہ رہے ہونگے کہ گھنٹہ بدلا، پر نظام نہیں۔