امید کا چراغ عراقی انتخاب

انتخاب میں شامل تمام پارٹیوں نے اس کے نتائج کو پوری طرح سے تسلیم کیا ہے۔

anisbaqar@hotmail.com

عراق آج سے نہیں تاریخی اعتبار سے تہذیب وتمدن کا گہوارہ رہا ہے،گزرتے ادوار میں قدیم اور جدید حملہ آوروں نے اس سر زمین کو زخموں اور آگ کی لپیٹ کے گھاؤ اہل عراق پر لگائے ہیں اورگزشتہ برسوں میں امریکا نے ایٹمی اسلحے کی آڑ میں لاکھوں انسانوں کو قتل وغارت گری کا نشانہ بنایا ۔

اس کے علاوہ امریکی جہازوں نے یونیورسٹی کے جدیدکتب خانوں پر آگ لگانے والے بموں کی بارش کی ۔ پھر اس کے بعد اسلام کے مقدس نام کو لے کر داعش سے عراق پر حملہ کروایا ، جہاں جہاں بھی داعش داخل ہوئی ، ہر شہر میں گلی کوچوں کے کتب خانوں کو جلا کر راکھ کیا ، یہ ان کا اول کام رہا ہے۔

داعش کے داخل ہونے کے بعد جب اس کو محسوس ہو گیا کہ عراق کے کلیدی شہروں پر خصوصاً جہاں جہاں تیل کے کنوئیں ہیں ان پر داعش کا قبضہ ہوگیا ہے تو امریکی فوجیں واپس جانے لگیں اور جب داعش عراق سے نابود ہوگئی تو محدود پیمانے پر امریکی فوجیں بظاہر امن و امان قائم کرنے کے لیے اس ستم زدہ ملک میں قیام پذیر ہیں، جن میں نظم و نسق اور انتخابی ڈھانچے کی تشکیل ہے ، بظاہر مقامی انتظامیہ سے ان کا کوئی تصادم نہ ہوا ۔ پہلے انتخاب میں نوری المالکی کی حکومت رہی جس پر نسلی تفریق اور ہلکی فرقہ پرستی کا الزام تھا۔

جس میں میرٹ کے بجائے اہل تشیع کو فوقیت دی جاتی تھی اس لیے مسٹر عابدی وزیر اعظم بنے جن پر مسلک کی بنیاد پر فوقیت کے الزامات کم تھے، مگر اب یہ انتخابات جو حال میں ہوئے اور جس طرح نتائج آئے اور پوری دنیا نے دیکھا تو یہ انتخابات قابل رشک کہے جاسکتے ہیں اور انتخاب میں شامل تمام پارٹیوں نے اس کے نتائج کو پوری طرح سے تسلیم کیا ہے۔

ویسے اس انتخاب میں فرقہ پرستی کی بنیاد پر کہیں بھی کوئی جھگڑا نہ ہوا۔ جس میں سنی شیعہ کے اختلاف نمایاں ہوں۔ حالانکہ غیر ملکی میڈیا نے یہاں فقہی تصادم کی بڑی کوشش کی مگر عراق کے بیشتر خاندانوں میں صدیوں سے قدیم خاندانی رشتے موجود ہیں اور ہر قسم کی ریشہ دوانیوں اور سازشوں کے باوجود کبھی کوئی مذہبی فساد نہ ہوا۔ یہ عراقی باشندوں کی مذہبی بالغ نظری ہے۔ اس بالغ نظری کی بنیاد یہ ہے کہ عراقیوں نے عملاً یہ محسوس کرلیا کہ بیرونی حملہ آوروں نے عراقیوں پر جو ظلم کیے وہ یکساں تھے اور عراقیوں نے غیر ملکیوں سے جو جنگ لڑی وہ قومی یکجہتی کا شاہکار تھی۔

داعش کے خلاف جنگ میں 14 سال تک کے بچوں نے جانیں قربان کیں ورنہ عراق پر عملی طور پر آج بھی داعش کی حکومت ہوتی۔ داعش کے خلاف جنگ میں تمام مسلم فرقے یکساں متحد تھے اور بعد میں بھی رہے۔ اگر انتخابی معاملات کو ذرا غور سے دیکھیں کہ نتائج کیا کہہ رہے ہیں تو ایسا لگے گا کہ انتخابی نتائج کے اعداد و شمار خود منہ سے بول رہے ہیں۔ ذرا غور سے یکے بعد دیگر انتخابی نتائج کا جائزہ لیں تو صورتحال واضح تر ہوتی جائے گی۔

درحقیقت انتخاب خواہ کسی بھی ملک کے کیوں نہ ہوں ، اس کے پیچھے عوام کی امیدیں لگی ہوئی ہوتی ہیں ، مگر ہم اپنے ملک کے انتخاب کے متعلق کچھ نہیں کہہ سکتے ، کیونکہ ہمارے ملک میں ابہام، کنفیوژن اور غیر ملکی اثرات نمایاں ہیں ۔ پاکستان کے لیڈر نہیں بلکہ بنیادی طور پر روپیوں کے بیوپاری ہیں۔ ملک کی حکمرانی امریکا کی پسند و ناپسند کا مظہر ہوتی ہے۔ خدا نہ کرے کہ پاکستان کے لیڈروں کی کرنی یہاںکے عوام کو بھگتنا پڑیں کیونکہ یہاں کے لیڈران بھی امریکی سیاست کے بندھن میں دو رخوں سے بندھے ہوئے ہیں اور اپنے پڑوسی مسلمان ممالک کے اثرات یہاں پر براہ راست پڑتے ہیں۔

اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کے مقدس مقامات کی زیارت کے لیے قافلے ان ممالک میں جاتے رہتے ہیں۔ عراق کی گزشتہ جنگ اور داعش کے اثرات کا نظارہ پاکستان کے عوام نے کافی حد تک محسوس کیا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستانی عوام کی انتخابی سائیکی جس کو ہم پاکستانی عوام کی نفسیات کہہ سکتے ہیں ان میں کافی یکسانیت ہے۔


ہمدردی کے ووٹوں کی یکسانیت دونوں ملکوں میں نمایاں ہیں۔ بے نظیر بھٹو اور ذوالفقار علی بھٹو کی زندگی کو عوام نے اب تک نہیں بھلایا اور خصوصاً سندھ کے عوام اب تک بھٹو فیملی کے مقروض ہیں کیونکہ وہ عوام کے مخلص نمایندے تھے۔ اسی طرح صدام حسین کے دور میں اس سے بھی کہیں زیادہ باقرالصدر اور ان کے خاندان کے لوگ کھڑے ہوئے۔

اقتدار کے لیے نہیں باقرالصدر کی فیملی نے صدام حسین کی حکومت میں پریشانیاں اٹھائیں۔ اور صدام حسین نے دس ہزار عراقیوں کا قتل عام کیا۔ یہ واقعہ ان دنوں رونما ہوا جب ایرانی انقلاب برپا ہوا تھا اور آیت اللہ خمینی نے اقتدار سنبھالا تھا اور امریکا سے ملک کو آزاد کروایا مقتدا الصدر، باقر الصدر کے بھتیجے ہیں اور انھوں نے صدام کے خلاف ملیشیا بنائی تھی اور جہد مسلسل کی لہٰذا عراقی قوم باقر الصدر کی قربانی اور ان کی بہن کی قربانیوں کے عوض مقتدا کو اقتدار کی کرسی پیش کی جس اتحاد کا نام سائرون ہے۔

جس میں عراقی کمیونسٹ پارٹی ان کی بڑی اتحادی ہے، یہاں ایک انقلاب اور اتحاد کی انوکھی راہ ہے کہ عراقی کمیونسٹ پارٹی کے رہنما نے جو محمد موسیٰ کے نام سے پکارے جاتے ہیں ایک بالغ نظر سیاسی کارکن تھے جنھوں نے کمیونسٹ پارٹی آف عراق کو ایک نئے فکری روپ سے مزین کیا یعنی مذہبی عقائد اور کمیونسٹ عقائد کے مابین اختلاف کو ختم کرکے رکھ دیا۔

انھوں نے مذہبی روح اور کمیونزم کو ایک دوسرے کا دشمن قرار نہیں دیا بلکہ کامریڈوں کو معاشی اصولوں کا حامی قرار دیا اور خدا اور رسول کے تصور کو ذاتی عقائد پر مبنی رکھا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اقلیتوں کے علاوہ اہل تشیع اور اہل سنت نے یکجا ہوکر اتنی نشستیں موجودہ الیکشن میں حاصل کیں کہ مقتدا الصدر میں کمیونسٹ پارٹی سے مل کر حکومت بنانے کی سوچ پیدا کی۔

یہ الائنس ایک بڑا مشکل مرحلہ ہے کیونکہ یہ دونوں پارٹیاں غریبوں کے مسئلے پر تو ایک سوچ سے کام کرنے پر یقین رکھتی ہیں مگر فارن پالیسی پر کیسے یکجا ہوں گی۔ کیونکہ مقتداالصدر جو ایک مذہبی رہنما بھی ہیں ان کا امریکا کے خلاف اتنا شدید موقف نہیں جتنا کہ کمیونسٹ عناصر کا ہے اور ان کے اتحاد کو عراق میں 54 نشستیں ملی ہیں اور عراق کا مرکزی مذہبی مرکز نجف اشرف ہے جہاں روضہ حضرت علیؓ ہے یہاں اجتہاد کا مرکزی مرکز بھی ہے جہاں کی بنیادی مذہبی تعلیم پورے عراق اور ایران پر اثر انداز ہوتی ہے۔ پھر بھی علما کے اس مرکزی شہر سے کمیونسٹ خاتون کی نمایندگی کافی اہمیت کی حامل ہے جو خاتون یہاں سے جیتی ہیں ان کا نام سوہاد الخطیب جو ایک اسکول ٹیچر ہیں۔

اب تک عراق میں جو بھی حکومتیں الیکشن میں جیت کر آئی ہیں وہ ایران نواز ہیں مگر موجودہ حکومت جس کی آمد کی توقع ہے وہ ایران نوازی میں بین بین ہے اور امریکا مخالف ضرور ہے کیونکہ حکومت پر کمیونسٹوں کا غلبہ نظر آتا ہے اور سعودی عرب سے تعلقات میں کشیدگی نمایاں ہوسکتی ہے کیونکہ کمیونسٹ سعودی ہیومن رائٹس (Human Rights) پر اور یمن پر ان کا موقف انتخابی مہم میں مسٹر موسیٰ کا رویہ سعودی مخالف تھا جب کہ مقتدا الصدر نے اسی دوران سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کے دعوت نامے پر اور خلیجی ریاستوں کی دعوت پر کئی دورے کیے تاکہ ان کو باور کرائیں کہ ہماری ریاست ان کے خلاف کوئی پروگرام نہیں رکھتی ہے مگر مقتدا الصدر کے اتحادی تو واضح پروگرام رکھتے ہیں جن میں ان کا مرکزی خیال وہی ہے جو سابق سوویت یونین کا تھا۔

یعنی غریبوں کو بے سہارا نہیں چھوڑنا اور قومی آزادی کی تحریکوں کی حمایت، لہٰذا یہ اتحاد سعودی اور امریکی موقف کی یمن میں حمایت کے لیے ایک مشکل مرحلہ ہوگا اور عراقی حکومت کے لیے امریکی افواج کا وجود ایک مشکل مرحلہ ہوگا۔ صورتحال کچھ ایسی ہے کہ کردستان الائنس اور نوشیرواں الائنس کی سیٹیں مل کر بائیں بازو کی ایک حکومت کے امکانات موجود ہیں کیونکہ تیسرے اتحاد کو ملاکر 50 مزید سیٹوں کا اضافہ ممکن ہے۔

مگر حکومت کی کوئی بھی شکل ہو عرب کے قلب میں بائیں بازو کی حکومت کا قیام بادشاہت کے وجود کے لیے ایک زبردست خطرہ ہے اور عرب دنیا میں خواتین کی بیداری کی لہر دوڑانے اور آمریت کی تربت بنانے کا محترمہ سوہاد الخطیب کی سرخ ہتھوڑے اور درانتی والی عبا ایک واضح پروگرام ہے۔ عرب دنیا کا ساڑھے تین کروڑ آبادی والا یہ ملک جہاں ایک دہائی میں بیس لاکھ جانبازوں نے اپنی جانیں قربان کی ہیں۔ موجودہ انتخاب عراقی عوام کے لیے امید کی ایک روشن چراغ کی حسین لو ہے جو عرب دنیا میں آزادی، امن، اتحاد اور غربت کے خاتمے کی امید ہے۔
Load Next Story