اِدھر اُدھر کی
نواز شریف کا ذاتی مفاد کے لیے یہ انداز اختیار کرنا کیا تمام پاکستانیوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی نہیں؟
سابق وزیر اعظم جو ایک بار نہیں تین بار تنزلی کا شکار ہوچکے ہیں اس بار نہ صرف معزول کیے گئے بلکہ تاحیات نا اہل بھی قرار دیے گئے ہیں کے حالیہ انٹرویو میں جو موقف انھوں نے اختیار کیا ہے اس نے ملک بھر میں سیاسی، عوامی اور صحافتی سطح پر جو ہلچل پیدا کی ہے ۔
اس پر پاکستان کا ہر شہری، ہر دانشور اور ہر قلم کار محو حیرت ہے، موجودہ وزیر اعظم کی زیر صدارت قومی سلامتی کا خاص اجلاس بھی ہوا اور جو بیانیہ اس کے بعد جاری کیا گیا اس میں سابق وزیر اعظم کے بیان کو نہ صرف غلط بلکہ حقائق کے برعکس بھی قرار دیا گیا، مگر وزیر اعظم نے اپنے لیڈر (میاں صاحب) سے ملاقات کے بعد قومی سلامتی کے اعلامیے کے برعکس موقف اختیارکرلیا کہ نواز شریف کے بیان کو غلط انداز میں پیش کیا گیا ہے اور وہ اب بھی اپنے قائد کے ساتھ کھڑے ہیں۔
جب کہ میاں صاحب نے قومی سلامتی اجلاس کے اعلامیے کو مسترد کرتے ہوئے اپنے موقف کو جائز قرار دے کر اس کی صداقت پر قائم ہیں۔ (ن) لیگ کے موجودہ صدر اور وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف اپنے بھائی کی طرف سے صفائی پیش کرتے ہوئے کئی بار کہہ چکے ہیں کہ نواز شریف کے انٹرویو کو سیاق و سباق سے ہٹ کر اور توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا وہ ایسا کہہ ہی نہیں سکتے لیکن سابق سربراہ (ن) لیگ اور وزیر اعظم اپنے موقف کو درست قرار دے کر اب بھی اس پر قائم ہیں بلکہ فرما رہے ہیں کہ آخر میں نے غلط کیا کہا ہے، بلکہ اب تو وہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ میرا سینہ بہت سے رازوں سے بھرا ہوا ہے اور وقت آنے پر ان تمام رازوں کو افشا کرسکتا ہوں۔
ایک ایسا شخص جو تین بار ملک کے بے حد حساس عہدے پر فائز رہا ہو اور وہ ملکی و ریاستی پالیسیوں کی حفاظت کا حلف اٹھاتا رہا ہو، آج اگر اس کو کسی غیر معمولی صورتحال کا سامنا ہے تو کیا وہ اپنے حلف سے مکر جائے گا؟
نواز شریف کا ذاتی مفاد کے لیے یہ انداز اختیار کرنا کیا تمام پاکستانیوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی نہیں؟ کہ وہ جس ووٹ کے تقدس کی بات کرتے ہوئے اسی ووٹ کے اعتماد کو خود اپنے پیروں تلے کچلنے پر آمادہ ہیں۔ بات تو جب تھی کہ اگر واقعی عوام نے آپ پر اعتماد کیا تھا تو آپ اس اعتماد کا بھرم رکھتے، جیل جاتے، جان دیتے مگر وطن عزیز پر آنچ نہ آنے دیتے، سیاست جس نہج پر آچکی ہے اور عوام کو جس سطح پر لاکر چھوڑ دیا گیا ہے تو آیندہ بھی کوئی اچھی صورتحال کی امید نظر نہیں آرہی۔
وطن عزیز میں کسی شعبہ زندگی کی کارکردگی کو مثالی قرار نہیں دیا جاسکتا، خاص کر وہ ادارے جو قومی تعمیر کے زیادہ ذمے دار ہیں ان شعبوں میں ہر کوئی اپنی اپنی جگہ دانشور ہونے کا دعویدار ہے۔
گزشتہ دنوں انھی دانشوران ذرایع ابلاغ نے سوشل میڈیا پر ایک خاتون رکن قومی اسمبلی کو ''جاہل، لاعلم، غیر ذمے دار'' اور جانے کیا کیا قرار دینے کے لیے جو مہم چلائی وسیع معلومات اور وسعت نظر رکھنے والے قلم کار (جنھوں نے کچھ عرصہ قبل خواتین کے حق رائے دہی کی حمایت کرتے ہوئے اعداد و شمار پیش کیے تھے کہ کتنی خواتین قومی شناختی کارڈ سے محروم ہیں اور کتنی بڑی تعداد حق رائے دہی رکھنے کے باوجود اس حق کے استعمال سے محروم رہتی ہیں وغیرہ وغیرہ) کے کالم پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ حقوق نسواں کے کتنے بڑے علم بردار ہیں نے اور ایک اینکر جن کی دانشوری کے سامنے حکیم لقمان بھی اپنی حکمت سے دستبردار ہوجائیں نے جو روش اختیار کی وہ خود ان کی معلومات، اور دانشوری پر سوال بن گئی۔
نتیجتاً معلوم ہوا کہ خاتون رکن اسمبلی نے کوئی غلط کام نہیں کیا بلکہ ان حضرات کی معلومات اور کسی کے بارے میں رائے قائم کرنے کی سمت ہی غلط تھی۔ مگر کیا کہا جائے کہ ہم سب اپنی اپنی جگہ دو بے ربط جملے لکھ کر، کہہ کر خود کو دانشور سمجھنے کی جو غلطی کرتے ہیں اس کا بھانڈا کہیں نہ کہیں تو پھوٹ ہی جاتا ہے اور پیر زادہ قاسم کا یہ شعر حقیقت بن کر سامنے آجاتا ہے کہ:
عجب تماشا ہے دانشوری کے پیکر میں
کسی کا ذہن کسی کی زباں لیے پھریے
بہرحال اس ملک میں کیونکہ دانشوروں کی کمی نہیں اس لیے اس کی صورتحال سنبھل نہیں پا رہی۔
پی ٹی آئی نے اپنی مجوزہ حکومت کے سو دن کا جو پلان پیش کیا ہے، اس کے بارے میں کپتان کے اب تک کے کردار اور رویے کو مدنظر رکھتے ہوئے اگرچہ کچھ کہنا آسان نہیں، مگر سب کچھ واضح بھی ہے۔
مگر ہماری نامی گرامی سیاسی جماعتوں کے بڑے بڑے رہنماؤں کی جانب سے اس پر تنقید کرنا بلکہ اس پر وائٹ پیپر تک جاری کرنے کا اعلان باعث حیرت ہے کہ جو ایک بار نہیں کئی کئی بار عوام کو دھوکہ دے کر مسند اقتدار پر براجمان رہے اور اپنا کوئی ایک وعدہ بھی پورا نہ کرسکے وہ ایک ایسی پارٹی کے لائحہ عمل کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں جس نے ابھی تک اقتدار کا مزہ نہیں چکھا۔ ایک محدود پیمانے پر (صوبائی) انھیں اپنی کارکردگی دکھانے کا ضرور موقع ملا ہے یہ بھی سچ ہے کہ وہ کوئی اتنا کامیاب تجربہ نہیں رہا پھر بھی کے پی کے کے حالات میں کچھ نہ کچھ بہتری ضرور محسوس کی جاسکتی ہے۔
پیپلز پارٹی اپنے بانی بھٹو صاحب کے زریں دور تک میں اپنے بنیادی نعرے روٹی، کپڑا، مکان سے عہدہ برآں نہ ہوسکی اس کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو کو بھی دو بار مر کز میں اقتدار ملا اور سندھ میں تو پی پی کی مسلسل تین بار حکومت رہی ملک کے لیے تو کیا کیا الگ بات ہے، سندھ کو خاص کر بڑے شہروں کو بین الاقوامی شہر کراچی کو کسی گاؤں دیہات سے بدترکرکے رکھ دیا، لاڑکانہ کو پیرس بنانے والے اس کی وہ صورت بھی برقرار نہ رکھ سکے جو قیام پاکستان کے وقت تھی آج سندھ کے شہر اورگاؤں سب حال سے بے حال ہوچکے ہیں۔ سندھ کے موجودہ وزیر اعلیٰ نے اپنی دانست میں بڑی اچھی ترکیب ایجاد کی ہے کہ ہر بات کا ذمے دار وفاق کو قرار دے دیتے ہیں گویا اس طرح عوام واقعی مرکز کے خلاف ہوکر ان کو مجبور و بے کس سمجھ لیں گے۔
مسلم لیگ (ن) کے کارنامے بھی کچھ کم نہیں مگر انھوں نے ملک کو لوٹا تو کم ازکم کچھ نہ کچھ کرکے تو دکھایا، لاہور ہی نہیں اسلام آباد کے علاوہ ملتان تک میں میٹرو چلا دی، لاہور جیسے تاریخی شہر کو جس کو ہم کراچی والے ایک زمانے میں پنڈ (گاؤں) کہا کرتے تھے کو اورنج لائن ٹرین کا تحفہ دے دیا جب کہ کراچی جیسا روشنیوں کا شہر اندھیروں میں ڈوب کر کچرے کا ڈھیر بن گیا مگر حکمرانوں کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔
سندھ کے حکمراں کراچی کی بربادی کا ملبہ ایم کیو ایم پر ڈالتے اور امن کے قیام کو اپنی کارکردگی قرار دیتے رہے۔ جب کہ لیاری جو محبان وطن کا ایک قدیم علاقہ ہے اس کو بدامنی کا شکار پی پی کے ذمے داروں نے ہی کیا۔ مزید ان لوگوں کے کارنامے کیا بیان کیے جائیں عوام خود ان کی کارکردگی کے گواہ ہیں۔ اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ ہم پی ٹی آئی کے طرف دار ہیں ، ہاں یہ ضرور ہے کہ جب تک وہ اقتدار میں آکر کچھ ثابت نہیں کرتے ان کے بارے میں حتمی رائے قائم کرنا قبل از وقت ہوگا۔ اس بار عوام کو اپنی آنکھیں کھلی رکھنی ہیں۔ اندھا اعتماد کسی پر بھی نہ کریں تو بہتر ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ کراچی سے کوئی بھی جماعت مخلص نہیں۔
اس پر پاکستان کا ہر شہری، ہر دانشور اور ہر قلم کار محو حیرت ہے، موجودہ وزیر اعظم کی زیر صدارت قومی سلامتی کا خاص اجلاس بھی ہوا اور جو بیانیہ اس کے بعد جاری کیا گیا اس میں سابق وزیر اعظم کے بیان کو نہ صرف غلط بلکہ حقائق کے برعکس بھی قرار دیا گیا، مگر وزیر اعظم نے اپنے لیڈر (میاں صاحب) سے ملاقات کے بعد قومی سلامتی کے اعلامیے کے برعکس موقف اختیارکرلیا کہ نواز شریف کے بیان کو غلط انداز میں پیش کیا گیا ہے اور وہ اب بھی اپنے قائد کے ساتھ کھڑے ہیں۔
جب کہ میاں صاحب نے قومی سلامتی اجلاس کے اعلامیے کو مسترد کرتے ہوئے اپنے موقف کو جائز قرار دے کر اس کی صداقت پر قائم ہیں۔ (ن) لیگ کے موجودہ صدر اور وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف اپنے بھائی کی طرف سے صفائی پیش کرتے ہوئے کئی بار کہہ چکے ہیں کہ نواز شریف کے انٹرویو کو سیاق و سباق سے ہٹ کر اور توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا وہ ایسا کہہ ہی نہیں سکتے لیکن سابق سربراہ (ن) لیگ اور وزیر اعظم اپنے موقف کو درست قرار دے کر اب بھی اس پر قائم ہیں بلکہ فرما رہے ہیں کہ آخر میں نے غلط کیا کہا ہے، بلکہ اب تو وہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ میرا سینہ بہت سے رازوں سے بھرا ہوا ہے اور وقت آنے پر ان تمام رازوں کو افشا کرسکتا ہوں۔
ایک ایسا شخص جو تین بار ملک کے بے حد حساس عہدے پر فائز رہا ہو اور وہ ملکی و ریاستی پالیسیوں کی حفاظت کا حلف اٹھاتا رہا ہو، آج اگر اس کو کسی غیر معمولی صورتحال کا سامنا ہے تو کیا وہ اپنے حلف سے مکر جائے گا؟
نواز شریف کا ذاتی مفاد کے لیے یہ انداز اختیار کرنا کیا تمام پاکستانیوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی نہیں؟ کہ وہ جس ووٹ کے تقدس کی بات کرتے ہوئے اسی ووٹ کے اعتماد کو خود اپنے پیروں تلے کچلنے پر آمادہ ہیں۔ بات تو جب تھی کہ اگر واقعی عوام نے آپ پر اعتماد کیا تھا تو آپ اس اعتماد کا بھرم رکھتے، جیل جاتے، جان دیتے مگر وطن عزیز پر آنچ نہ آنے دیتے، سیاست جس نہج پر آچکی ہے اور عوام کو جس سطح پر لاکر چھوڑ دیا گیا ہے تو آیندہ بھی کوئی اچھی صورتحال کی امید نظر نہیں آرہی۔
وطن عزیز میں کسی شعبہ زندگی کی کارکردگی کو مثالی قرار نہیں دیا جاسکتا، خاص کر وہ ادارے جو قومی تعمیر کے زیادہ ذمے دار ہیں ان شعبوں میں ہر کوئی اپنی اپنی جگہ دانشور ہونے کا دعویدار ہے۔
گزشتہ دنوں انھی دانشوران ذرایع ابلاغ نے سوشل میڈیا پر ایک خاتون رکن قومی اسمبلی کو ''جاہل، لاعلم، غیر ذمے دار'' اور جانے کیا کیا قرار دینے کے لیے جو مہم چلائی وسیع معلومات اور وسعت نظر رکھنے والے قلم کار (جنھوں نے کچھ عرصہ قبل خواتین کے حق رائے دہی کی حمایت کرتے ہوئے اعداد و شمار پیش کیے تھے کہ کتنی خواتین قومی شناختی کارڈ سے محروم ہیں اور کتنی بڑی تعداد حق رائے دہی رکھنے کے باوجود اس حق کے استعمال سے محروم رہتی ہیں وغیرہ وغیرہ) کے کالم پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ حقوق نسواں کے کتنے بڑے علم بردار ہیں نے اور ایک اینکر جن کی دانشوری کے سامنے حکیم لقمان بھی اپنی حکمت سے دستبردار ہوجائیں نے جو روش اختیار کی وہ خود ان کی معلومات، اور دانشوری پر سوال بن گئی۔
نتیجتاً معلوم ہوا کہ خاتون رکن اسمبلی نے کوئی غلط کام نہیں کیا بلکہ ان حضرات کی معلومات اور کسی کے بارے میں رائے قائم کرنے کی سمت ہی غلط تھی۔ مگر کیا کہا جائے کہ ہم سب اپنی اپنی جگہ دو بے ربط جملے لکھ کر، کہہ کر خود کو دانشور سمجھنے کی جو غلطی کرتے ہیں اس کا بھانڈا کہیں نہ کہیں تو پھوٹ ہی جاتا ہے اور پیر زادہ قاسم کا یہ شعر حقیقت بن کر سامنے آجاتا ہے کہ:
عجب تماشا ہے دانشوری کے پیکر میں
کسی کا ذہن کسی کی زباں لیے پھریے
بہرحال اس ملک میں کیونکہ دانشوروں کی کمی نہیں اس لیے اس کی صورتحال سنبھل نہیں پا رہی۔
پی ٹی آئی نے اپنی مجوزہ حکومت کے سو دن کا جو پلان پیش کیا ہے، اس کے بارے میں کپتان کے اب تک کے کردار اور رویے کو مدنظر رکھتے ہوئے اگرچہ کچھ کہنا آسان نہیں، مگر سب کچھ واضح بھی ہے۔
مگر ہماری نامی گرامی سیاسی جماعتوں کے بڑے بڑے رہنماؤں کی جانب سے اس پر تنقید کرنا بلکہ اس پر وائٹ پیپر تک جاری کرنے کا اعلان باعث حیرت ہے کہ جو ایک بار نہیں کئی کئی بار عوام کو دھوکہ دے کر مسند اقتدار پر براجمان رہے اور اپنا کوئی ایک وعدہ بھی پورا نہ کرسکے وہ ایک ایسی پارٹی کے لائحہ عمل کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں جس نے ابھی تک اقتدار کا مزہ نہیں چکھا۔ ایک محدود پیمانے پر (صوبائی) انھیں اپنی کارکردگی دکھانے کا ضرور موقع ملا ہے یہ بھی سچ ہے کہ وہ کوئی اتنا کامیاب تجربہ نہیں رہا پھر بھی کے پی کے کے حالات میں کچھ نہ کچھ بہتری ضرور محسوس کی جاسکتی ہے۔
پیپلز پارٹی اپنے بانی بھٹو صاحب کے زریں دور تک میں اپنے بنیادی نعرے روٹی، کپڑا، مکان سے عہدہ برآں نہ ہوسکی اس کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو کو بھی دو بار مر کز میں اقتدار ملا اور سندھ میں تو پی پی کی مسلسل تین بار حکومت رہی ملک کے لیے تو کیا کیا الگ بات ہے، سندھ کو خاص کر بڑے شہروں کو بین الاقوامی شہر کراچی کو کسی گاؤں دیہات سے بدترکرکے رکھ دیا، لاڑکانہ کو پیرس بنانے والے اس کی وہ صورت بھی برقرار نہ رکھ سکے جو قیام پاکستان کے وقت تھی آج سندھ کے شہر اورگاؤں سب حال سے بے حال ہوچکے ہیں۔ سندھ کے موجودہ وزیر اعلیٰ نے اپنی دانست میں بڑی اچھی ترکیب ایجاد کی ہے کہ ہر بات کا ذمے دار وفاق کو قرار دے دیتے ہیں گویا اس طرح عوام واقعی مرکز کے خلاف ہوکر ان کو مجبور و بے کس سمجھ لیں گے۔
مسلم لیگ (ن) کے کارنامے بھی کچھ کم نہیں مگر انھوں نے ملک کو لوٹا تو کم ازکم کچھ نہ کچھ کرکے تو دکھایا، لاہور ہی نہیں اسلام آباد کے علاوہ ملتان تک میں میٹرو چلا دی، لاہور جیسے تاریخی شہر کو جس کو ہم کراچی والے ایک زمانے میں پنڈ (گاؤں) کہا کرتے تھے کو اورنج لائن ٹرین کا تحفہ دے دیا جب کہ کراچی جیسا روشنیوں کا شہر اندھیروں میں ڈوب کر کچرے کا ڈھیر بن گیا مگر حکمرانوں کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔
سندھ کے حکمراں کراچی کی بربادی کا ملبہ ایم کیو ایم پر ڈالتے اور امن کے قیام کو اپنی کارکردگی قرار دیتے رہے۔ جب کہ لیاری جو محبان وطن کا ایک قدیم علاقہ ہے اس کو بدامنی کا شکار پی پی کے ذمے داروں نے ہی کیا۔ مزید ان لوگوں کے کارنامے کیا بیان کیے جائیں عوام خود ان کی کارکردگی کے گواہ ہیں۔ اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ ہم پی ٹی آئی کے طرف دار ہیں ، ہاں یہ ضرور ہے کہ جب تک وہ اقتدار میں آکر کچھ ثابت نہیں کرتے ان کے بارے میں حتمی رائے قائم کرنا قبل از وقت ہوگا۔ اس بار عوام کو اپنی آنکھیں کھلی رکھنی ہیں۔ اندھا اعتماد کسی پر بھی نہ کریں تو بہتر ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ کراچی سے کوئی بھی جماعت مخلص نہیں۔