بجلی کی بڑھتی ہوئی چوری
وزیر بجلی کے مطابق صرف کے پی کے میں 23 ارب روپے کی بجلی چوری کی جا رہی ہے۔
وفاقی وزیر برائے پاور ڈویژن نے تمام وزرائے اعلیٰ کو خط لکھ کر ان سے اربوں روپے کی بجلی چوری روکنے کے لیے تعاون کی اپیل کی ہے۔ انھوں نے وزرائے اعلیٰ سے بجلی چوری روکنے میں صوبائی حکومتوں کی معاونت اور بجلی چوروں کے خلاف کارروائی کی بھی درخواست کی ہے ۔
وزیر بجلی کے مطابق صرف کے پی کے میں 23 ارب روپے کی بجلی چوری کی جا رہی ہے۔ وزیر بجلی اس سلسلے میں وزرائے اعلیٰ سے ملنے کے بھی خواہش مند ہیں مگر وزرائے اعلیٰ کے پاس لوڈ شیڈنگ کی شکایات کرنے کا تو وقت ہے مگر بجلی مسائل کے حل کے لیے وزیر بجلی سے ملنے کا وقت نہیں ہے تو بھلا ایک عام آدمی کسی بھی وزیر اعلیٰ سے کیسے مل سکتا ہے ، یہ ہمارے حکمرانوں کا حال ہے۔
مسلم لیگ (ن) کی حکومت پانچ سال تک لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے لیے بجلی کی پیداوار بڑھانے کی کوشش کرتی رہی مگر لوڈ شیڈنگ کا جن قابو نہیں آیا اور نہ ہی ملک میں بجلی کی چوری کو روکا جا سکا ہے جس کی شکایت اب وزرائے اعلیٰ سے کی جا رہی ہے، مگر کبھی یہ نہیں سوچا کہ بجلی کی چوری کیوں بڑھ رہی ہے ۔
بجلی کی چوری اب مجبوری بھی بنا دی گئی ہے جس کی سو فیصد ذمے دار پورے ملک میں وفاقی حکومت اور ملک کے سب سے بڑے شہر میں حکومت کی پسندیدہ کے الیکٹرک ہے جس پر سوئی سدرن گیس ہی کے 80 ارب روپے واجب الادا ہیں مگر حکومت نے اپنا نقصان کر رکھا ہے جب کہ ایس ایس جی ایک سرکاری ادارہ ہے جب کہ کے الیکٹرک نجی کمپنی ہے جو اب بہت کما لینے کے بعد ملک چھوڑنے کے چکر میں ہے اور شنگھائی الیکٹرک کو پھنسانا چاہ رہی ہے تاکہ کراچی کے صارفین مزید عذاب میں مبتلا ہوں۔
کے الیکٹرک ویسے ہی کراچی والوں سے اربوں روپے بجلی چوری کے جھوٹے الزامات اور اضافی بلنگ کے ذریعے جبری طور پر وصول کر چکی ہے جس کے لیے جماعت اسلامی سپریم کورٹ سے رجوع بھی کر چکی ہے ۔ کے الیکٹرک کی خوش قسمتی ہے کہ سپریم کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ میں کے الیکٹرک کے خلاف دی گئی درخواستوں کی سماعت کا نمبر ہی نہیں آ رہا اور کراچی کے لاکھوں شہری منتظر ہیں کہ اعلیٰ عدلیہ میں کے الیکٹرک کے خلاف ان کی شکایات کی کب شنوائی ہو گی۔
کے الیکٹرک کو سوئی سدرن کے 80 ارب روپے ادا کرنے پر حکم امتناعی ملا ہوا ہے اور سندھ ہائی کورٹ نے 23 ارب روپے وصول کرنے کے لیے کے الیکٹرک کے خلاف بلدیہ عظمیٰ کراچی کو ملا ہوا حکم امتناعی ختم کر کے کے الیکٹرک کو بلدیاتی اداروں کی بجلی کاٹنے کی اجازت دے دی ہے مگر کے الیکٹرک کو ملا ہوا حکم امتناع برقرار ہے۔
بجلی کے وفاقی وزیر بجلی کی چوری پر تو واویلا کر رہے ہیں اس خاندانی سردار کوکبھی عوام کی ان پریشانیوں کا احساس نہیں ہوا جو بجلی کے سرکاری اداروں، کے الیکٹرک اور بجلی پیدا کرنے والی نجی کمپنیوں کے ہاتھوں سالوں سے یرغمال بنے ہوئے ہیں۔ بجلی چوری میں ناکام رہنے والی بجلی کی وزارت اور اس کے تمام وزیر بجلی چوری میں اس لیے ناکام ہیں کہ اکثر وزرا، ارکان اسمبلی، با اثر سیاستدان، جاگیردار، زمیندار اور مذہبی لوگ بھی بجلی چوری میں ملوث ہیں ۔
گزشتہ حکومت کے وفاقی وزیر خورشید شاہ اپنے بیٹے کی شادی میں بجلی چوری کرتے ہوئے پکڑے گئے تھے مگر کے الیکٹرک کو ان کے خلاف کارروائی کی ہمت نہیں ہوئی تھی ۔ بجلی چوری میں وزارت بجلی کے اکثر ملازمین اور کے الیکٹرک کا عملہ خود سو فیصد ملوث ہے بلکہ یہ سب رشوت لے کر کنڈوں سے بجلی فراہم کرتے ہیں ، ماہانہ رشوت وصول کرتے ہیں۔ میٹر Slow کرکے دیتے ہیں اور خود بجلی چوری کے راستے دکھاتے ہیں۔
بجلی چوری کرانے والوں کے خلاف کبھی کہیں کارروائی نہیں ہوتی کیونکہ بجلی چوری کرانے والا بجلی چوری کی کمائی سے اوپر والوں کو بھی حصہ دیتا ہے جس کی وجہ سے وزارت بجلی اور کے الیکٹرک کا سارا زور بے بس بجلی کے ان صارفین پر چلتا ہے جو بجلی مہنگی ہونے کے باوجود باقاعدگی سے بل ادا کرتے آ رہے ہیں۔
نیپرا کے موجودہ سربراہ جب کے ای ایس سی کے سربراہ تھے تو انھوں نے تسلیم کیا تھا کہ بجلی کا مہنگا ہونا بجلی چوری کی اہم وجہ ہے اور یہ سو فیصد درست بھی ہے ۔ بجلی مہنگی ہونے کے باوجود مذکورہ ادارے نقصان میں ہیں کیونکہ وہ سرکاری ہیں مگر نجی کے الیکٹرک کی طرف سے کبھی نقصان کی بات نہیں سنی گئی اور کے الیکٹرک بجلی چوری کے باوجود کروڑوں روپے ہر ماہ اضافی کما رہی ہے اور اس نے وزیر بجلی کی طرح بجلی چوری کو روکنے کے لیے کبھی کسی سے مدد نہیں مانگی۔
کے الیکٹرک کوگزشتہ دس سالوں سے وفاقی اور سندھ حکومت کی مکمل سرپرستی حاصل ہے جو کے الیکٹرک کے مفادات کا تحفظ کر رہی ہیں اور وفاق سے سبسڈی بھی مل رہی ہے۔ وفاق نے ہمیشہ صارفین کو نظرانداز کیا اور کے الیکٹرک کی ہر غلط بات درست مانی گئی۔
نیپرا کے الیکٹرک کی مسلسل سرپرستی کر رہی ہے کیونکہ کے الیکٹرک ملک بھر میں منفرد ہے جس پر بجلی کے نرخوں میں کمی کا کبھی اطلاق نہیں کیا جاتا اور اس کی بجلی کے نرخ بڑھانے کی تجویز ہمیشہ قبول ہوجاتی ہے۔ ایک واقف کار عالم دین جو اپنے گھر کے دو اے سی ایک بجلی کی چوری سے دوسرا ملی بھگت سے چلاتے ہیں اور صرف سات آٹھ ہزار روپے بل ادا کرتے ہیں نے بتایا کہ بجلی کی چوری مجبوری بنا دی گئی ہے کیونکہ بجلی صارفین کو مہنگی بجلی اور اضافی بلوں کے ذریعے لوٹا جا رہا ہے تو صارفین بجلی کیوں نہ چوری کریں۔ بجلی مہنگی ہوگی تو چوری یوں ہی جاری رہے گی۔