امام ابو حنیفہ کی تدوین قانون اسلامی
جب امام ابو حنیفہ نے فقہ پر توجہ دی تو شہر کوفہ کے مختلف اساتذہ کے حلقہ ہائے درس میں حاضر ہوتے گئے۔
WASHINGTON:
''امام ابو حنیفہ کی تدوین قانون اسلامی'' کے عنوان سے ڈاکٹر محمد حمید اللہ نے بہت زمانہ ہوا ایک مقالہ لکھا تھا جو کتابی شکل میں شایع ہوا۔ ابھی چند سال پہلے کراچی یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ اسلامی کی پروفیسر ڈاکٹر زیبا افتخار نے اس مقالے کو نظرثانی اور تہذیب کے ساتھ قرطاس سے شایع کیا ہے۔
ڈاکٹر حمید اللہ لکھتے ہیں کہ ان کے اس مقالے کا موضوع اسلامی قانون کی ابتدائی نجی تدوین ہے جو دوسری صدی کے تقریباً آغاز سے وسط تک جاری رہی، یعنی امام ابو حنیفہ کی کوشش جو 80 ہجری میں پیدا ہوئے اور 150 ہجری میں انتقال کرگئے۔ عہد نبوی مسلمانوں کا دور قانون سازی تھا، اس کے بعد تعمیر و توسیع کا سلسلہ تو جاری رہا لیکن خالص قانونی احکام کا مجموعہ تیار کرنے کی کوئی سرکاری کوشش نہ ہوئی اگرچہ خلفا کی سرپرستی اور خواہش پر بعض نجی مجموعے تیار ہوئے۔
امام ابو حنیفہ نے اپنے زمانے کی دنیائے اسلام کے اکثر مرکزوں میں تعلیمی سفر اختیار کیے اور خاص کر مکہ اور مدینہ کئی مرتبہ گئے اور وہاں کے فقہا سے خوب فیض حاصل کیا۔ اسی طرح انھوں نے امام محمد باقر، امام جعفر صادق اور امام زید بن علی زین العابدین سے بھی استفادہ کیا، اور آخر میں کوفہ ہی میں رہ کر وہیں فقہ کا درس دیتے رہے۔
ڈاکٹر حمید اللہ لکھتے ہیں ''ابو حنیفہ نعمان بن ثابت کی ولادت 80 ہجری میں ہوئی۔ ان کے بارے میں بڑا اختلاف پایا جاتا ہے کہ یہ نسلاً کون تھے۔ کوئی عرب بتاتا ہے تو کوئی ایرانی، کوئی افغانی کابلی بتاتا ہے تو کوئی باپ کو ایرانی اور ماں کو سندھی۔ بالحاظ قومیت ہمیں اس بحث سے زیادہ دلچسپی نہیں ہونی چاہیے کیونکہ اسلام نے شعوب و قبائیل کی نسبت کو باہم تعارف اور پہچانیت کی حد تک تو جائز رکھا ہے ورنہ کہہ دیا ہے کہ ان اکرمکم عند اللہ اتقاکم۔ ابو حنیفہ کی آنکھ مسلمانوں کے گھرانے میں کھلی تھی، ماحول خالص اسلامی ملا اور زندگی زیادہ تر کوفہ کے یا بغداد کے اسلامی شہروں میں گزری، گو وہ فارسی ضرور جانتے تھے اور ان کے اساتذہ میں عطا بن ابی رباح نوبیہ کے حبشی تھے۔
عکرمہ مولا ابن عباس بربر قوم کے تھے، مکحول شامی یا مصری یا کابلی تھے اور عربوں کے علاوہ مختلف نسلوں کے عجمی مسلمانوں سے بھی تعلیم پائی تھی۔ تجارت غالباً ان کا آبائی پیشہ تھا۔ بہرحال ہم ان کو ریشم کے کپڑوں کا کاروبار عمر بھر کرنا پاتے ہیں اور زمانہ طالب علمی میں بھی ان کو ''موسر'' (مالدار) کہا جاتا تھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ شروع میں نہ تو انھیں تعلیم کا شوق تھا اور نہ موقعہ ملا تھا اور وہ اپنی توانائی اور ذہانت بازار ہی میں صرف کرتے تھے لیکن جب حضرت عمر بن عبدالعزیز کا علم پرور دور آیا تو اس نے ان پر بھی اثر ڈالا اور پھر جسے ایک بار علم کا چسکا پڑ جائے وہ کہاں چھوٹ سکتا ہے۔
شعبی ایک مشہور محدث گزرے ہیں ان کی مردم شناس آنکھ نے ہونہار ابو حنیفہ کا جوہر تاڑ لیا اور ایک دن پوچھ ہی لیا کہ صاحبزادے تم کس سے تعلیم پاتے ہو؟ اور جب کارو بارکا نام سنا تو فرمایا، تم غفلت نہ کرو اور علم حاصل کرنے اور علما کے ساتھ بیٹھنے پر نظر رکھو کیوں کہ میں تم میں ایک بیداری اور حرکت پاتا ہوں۔
حساس دل پر بے غرضانہ خلوص کا فوراً اثر ہوجاتا ہے چنانچہ ابو حنیفہ نے اب اعلیٰ تعلیم پر توجہ کی اور یکے بعد دیگرے بہت سے اساتذہ کے حلقہ ہائے درس میں شریک ہوکر اپنی پسند کے معلم کا انتخاب کرنے لگے۔ بعد کے زمانے میں ان کے ایک شاگرد ہیثم بن عدی نے ان سے پوچھا کہ علوم تو بہت ہیں آپ نے فقہ کا انتخاب کیوں کیا؟ تو انھوں نے جواب دیا ''میں بتاتا ہوں توفیق تو خدا کی طرف سے ہوئی کہ ساری تعریف کا مستحق وہی ہے بہرحال جب میں نے علم حاصل کرنے کا ارادہ کیا تو سب ہی علم اپنے سامنے رکھے اور سب کو تھوڑا تھوڑا پڑھا، پھر ان کے انجام اور نفع پر غور کیا۔ چنانچہ جب میں نے علم کلام کو لینا چاہا تو نظر آیا کہ اس کا انجام برا ہے اور منفعت تھوڑی۔ اگر کوئی شخص اس میں کمال بھی پیدا کرلے اور لوگوں کو اس کی ضرورت پڑے تو بھی وہ علانیہ کچھ نہیں کہہ سکتا۔ اس پر ہر قسم کے الزام لگائے جاتے ہیں اور اسے برا کہا جانے لگتا ہے۔
پھر میں نے ادب اور نحو پر غور کیا۔ اس کا انجام صرف یہ نظر آیا کہ کسی بچے کا معلم بن سکوں۔ پھر میں نے شاعری پر غور کیا تو دیکھا کہ اس میں مدح و ہجو اور جھوٹ اور دین کی مخالفت کے سوا کچھ نہیں۔ پھر قرأت پر غور کیا تو اس میں کمال کا انجام یہ نظر آیا کہ کچھ نوجوان میرے پاس پڑھنے آئیں گے اور قرآن اور اس کے معنوں پر کچھ کہنا بڑی ٹیڑھی چیز ہے۔ پھر میں نے کہا حدیث پڑھوں تو دیکھا کہ بہت سی حدیثیں جمع کرکے لوگوں کے لیے اپنی ضرورت پیدا کرنے میں بڑی عمر لگے گی اور اگر یہ چیز حاصل بھی ہو جائے تو شاید نوعمر ہی میرے پاس آئیں اور ممکن ہے مجھ پر جھوٹ یا بھول کا الزام لگائیں اور قیامت تک وہ میری بدنامی کا باعث ہوجائے۔
پھر میں نے فقہ پر غور کیا اور جتنا غور کیا اتنا ہی اس کی عظمت اور جلالت ذہن نشین ہوتی گئی اور اس میں کوئی عیب نظر نہیں آیا۔ میں نے دیکھا کہ ایک تو اس طرح ہمیشہ علما و فقہا، مشائخ اور اہل نظر کی ہم نشینی حاصل ہوگی اور ان کے اخلاق سے متصف ہونے کا موقع ملے گا اور دوسرے یہ بھی نظر آیا کہ اس کے جاننے کے بغیر تو مذہبی فرائض کی ادائیگی ٹھیک ہوسکتی ہے نہ دینی امور انجام پاسکتے ہیں اور نہ عبادت کی جاسکتی ہے۔ یوں بھی اگر گھر میں یا رشتے داروں میں یا محلے میں کوئی مسئلہ پیش آئے تو لوگ مجھ سے پوچھیں گے اور اگر میں جواب نہ دے سکوں تو کہیں گے کہ کسی سے پوچھ کر بتاؤ اور اگر میں کسی سے پوچھوں تو وہ معاوضے کی توقع کرے گا۔ غرض اگر کوئی فقہ سے دنیا حاصل کرنا چاہے تو اعلیٰ ترین مراتب تک پہنچنے کے امکانات ہیں اور اگر کوئی عابد اور عزلت گزیں بننا چاہے تو پھر کوئی یہ اعتراض نہ کرسکے گا کہ بے جانے بوجھے عبادت میں لگ گیا ہے بلکہ یہی کہا جائے گا کہ علم حاصل کرکے اس کے مطابق عمل کیا جائے۔''
ڈاکٹر حمید اللہ لکھتے ہیں کہ جب امام ابو حنیفہ نے فقہ پر توجہ دی تو شہر کوفہ کے مختلف اساتذہ کے حلقہ ہائے درس میں حاضر ہوتے گئے مگر سوائے حماد بن ابی سلیمان کے کوئی نظر میں نہ جچا۔ چنانچہ ان کی وفات تک یعنی اٹھارہ سال تک برابر ان کے سامنے زانوئے ادب تہ کرتے رہے۔ حماد کی وفات کے بعد یہ خوف ہوا کہ ان کے مکتب میں درس و تدریس کا سلسلہ کہیں ختم نہ ہوجائے چنانچہ پہلے حماد کے قابل بیٹے اسماعیل کو مسند نشیں کرنے کی خواہش ہوئی لیکن انھیں فقہ سے زیادہ شاعری اور تاریخ سے دلچسپی تھی۔ آخر حماد کے شاگردوں نے باہم مشورہ کیا۔ سب کی نظر اپنے کمسن شریک درس ابو حنیفہ کے سوا کہیں نہ جمی۔ چنانچہ انھوں نے ابو حنیفہ کو مجبور کرنا شروع کیا۔
ابو حنیفہ نے کہا، بھائیو! مجھے عذر نہیں لیکن شرط یہ ہے کہ تم میں سے کم ازکم دس پورے سال میرے درس میں موجود رہو گے۔ انھوں نے یہ ایثار منظور کرلیا کہ وہ اپنے ہم جماعت کے شاگرد بنیں اور اس طرح اس حلقہ درس کو ایک وقار حاصل ہوگیا اور لوگ کھچے چلے آنے لگے۔ یوں رفتہ رفتہ کوفہ کی جامع مسجد میں ان کا حلقہ درس سب سے بڑا حلقہ بن گیا اور ان کی ذہانت کے چرچے پھیل گئے۔ چونکہ وہ خود خوش حال تھے اور علمی انہماک کے سوا دنیاوی جاہ و منصب کی خواہش نہ رکھتے تھے اس لیے سرکاری حلقوں میں بھی ان کی وقت بڑھتی چلی گئی۔