فقہی اعتبار سے احکام اور اس کی اقسام
زندگی کے ہر موڑ پر انسان کا واسطہ مختلف افعال سے پڑتا ہے۔
اعمال اور افعال سے متعلق احکام کی مختلف اقسام ہیں جن کا جاننا اور سمجھنا لازمی اور ضروری ہے۔ علم کی روشنی کے بغیر جہل کی تاریکی میں رضائے الہی کی تلاش مشکل ہی نہیں، ناممکن ہے ۔ زندگی کے ہر موڑ پر انسان کا واسطہ مختلف افعال سے پڑتا ہے۔اس لیے اعمال کی نوعیت کو جاننا ضروری ہے تاکہ مسلمان عمل کی صحیح یا غلط سمت کا تعین کرکے اللہ کی رضا اور خوشنودی حاصل کرسکے اور اس کی ناراضگی اور خفگی سے بچ سکے۔
اقسامِ احکام۔ فرضِ اعتقادی:۔ ایسی دلیل جس پر لاریب فیہ کا اطلاق ہوتا ہو۔ (یعنی وہ حجت جو غیر مشکوک اور غیر متزلزل ہو۔ جس کے متعلق دل و دماغ میں شکوک و شبہات کے راہ پانے کی قطعاً گنجائش نہ ہو) جس کی فرضیت کی قطعیت شہرۂ آفاق ہو اور ہر خاص وعام پر روز روشن کی طرح عیاں ہو لیکن دلیل روشن کے باوجود کسی مرد ناداں کے دل و دماغ پرکفر کا ایسا زنگ چڑھا ہوا ہو کہ رنگ کلامِ نرم و نازک اس پر بے اثر ہو اور وہ ایسی دلیل قطعی جسے اجتماع قطعی کا مقام حاصل ہو انکار کرے وہ مطلقاً کافر ہے اور جو اس منکر کے کفر میں تذبذب اور تردد کا جواز کرید کرید کر نکالنے کی کوشش کرے اور اس کے کافر ہونے کا منکر ہو وہ بھی اطلاقاً کافر ہے۔
جو کسی فرضِ اعتقادی کا منکر تو نہیں لیکن بلا عذر قصداً تارک ہو وہ گناہ کبیرہ اور فسق عظیم کا مرتکب اور عذاب الیم کا مستحق ہے۔ انسان عاقل کم، غیر عاقل زیادہ ہے اس کی ذہانت میں جذبات کی ملاوٹ ہے اس کی عقل کرۂ جذبات میں چاروں طرف سے گھری ہوئی ہے۔
جانبِ حق الیقین، عقل کی پرواز میں کوتاہی اور نارسائی مسلمہ امر ہے۔ جذباتِ غالب عقل کو سو قالب بدلنے پر مجبور کردیتے ہیں۔ جذبات کی بازیگری کی وجہ سے '' ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ'' کی مصداق ظنی اور قیاسی باتوں کا عقلی اور یقینی ہونے کا گمان ہوتا ہے اس لیے عام انسان کے لیے جو علم دین کی ابجد سے بھی واقف نہیں حکم شرع میں عقل کی جرح قطعاً منع ہے۔
فرضِ عملی: جس کی دلیل اتنی وزنی یقینی اور قطعی نہ ہو جیسی فرضِ اعتقادی کی۔ لیکن اہل فکر و نظر اور صاحب نور حکمت و بصیرت مجتہد جو شے کے حقیقت کو سمجھنے اور پھول میں خوشبو کو دیکھنے والی نورانی بصیرت، بیرون شرع سے اندرون کی خبر لانے والی ایکس ریزی ذہنی قوت اور حکم ظاہر کے باطن میں خفیف جھٹکوں اور ضعیف آہٹوں کو محسوس کرنے اور خوب سننے والی حساس روحانی سماعت رکھتا ہو ۔ اور جو اللہ کی رحمت سے عقل کو جذبات سے کوسوں میل دور رکھتا ہو وہ دلائل شرعیہ کی روشنی میں کسی عمل کو فرض گردانے اور وہ عبادت سے متعلق ہو تو اس کے اہتمام اور التزام کے بغیر عبادت اکارت اور فعل عبث ہے۔
واجبِ اعتقادی:۔ وہ جس کی ضرورت دلیل ظنی سے مسلم ہو۔ دلیل قطعی میں تو یکسوئی کا پہلو روشن، صاف اور واضح ہوتا ہے لیکن دلیل ظنی میں دوئی کے پہلوں کی بھی ہلکی سی جھلک نظر آتی ہے۔ '' یہ بھی ہونے کے ساتھ ساتھ وہ بھی '' ہونے کا ضعیف امکان بھی پایاجاتا ہے۔ اس کا انکار کرنے والا کافر نہیں ہوتا لیکن بلا عذر چھوڑنے والا فاسق ضرور ہوتا ہے۔
واجب عملی: وہ عمل جس کی ضرورت اور فضیلت پر ظن غالب دال ہو۔ مگر اسقاط عمل اور انکار عمل کا پہلو خارج از امکان نہ ہو۔ اگر وہ عبادت سے متعلق ہو تو اس کے ترک کرنے سے عبادت اکارت تو نہیں جاتی لیکن اس میں نقص اور عیب آجاتا ہے کسی واجب عملی کو ایک بار بھی قصداً ترک کرنا گناہ صغیرہ اور بار بار چھوڑنا گناہ کبیرہ ہے۔
اختلافِ آرا: مجتہد دلائل شرعیہ کی روشنی میں کسی فرض عملی اور واجب عملی کا انکار کرسکتا ہے۔ آئمہ کرام کے مابین علمی، فکری اور نظری اختلاف آرا کا پایا جانا فطری امر ہے مثلاً (1)امام اعظمؒ کے نزدیک مقتدی کا امام کے پیچھے قرأت کرنا جائز نہیں مگر امام شافعیؒ کے نزدیک مقتدی کا امام کے پیچھے بھی سورۂ فاتحہ پڑھنا فرض ہے۔ (2)حنفیہ کے نزدیک تکبیر تحریمہ (اللہ اکبر) کی بجائے اللہ اعظم یا اللہ الرحمن اکبرکہے تو جائز ہے مگر شافعیہ اور مالکیہ کے نزدیک صرف اللہ اکبر کے سوا کوئی اورکلمہ جائز نہیں(3)امام اعظم کے نزدیک تیمم ہر اس چیز سے ہوسکتا ہے جو زمین کی جنس سے ہو لیکن امام شافعی کے نزدیک مٹی کے علاوہ کسی دوسری چیز سے تیمم جائز ہی نہیں ہے۔
(4)امام اعظمؒ کے نزدیک چوتھائی سر کا مسح کرنا امام مالک کے نزدیک پورے سر کا مسح کرنا اور امام شافعیؒ کے نزدیک ایک دو بال کا مسح کرنا فرض ہے۔ (5)حنفیہ کے نزدیک وضو میں بسم اللہ کہنا اور نیت سنت ہے لیکن حنبلیہ اور شافعیہ کے نزدیک فرض ہے۔ (6) ائمہ ثلاثہ شافعیؒ، مالکؒ اور حنبلؒ کے نزدیک نماز میں سورۂ فاتحہ پڑھنا فرض ہے اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی مگر امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک اگر کوئی سورۂ فاتحہ نہ پڑھے تو اس کے بغیر بھی نماز ہوجاتی ہے۔ (7)امام شافعی کے نزدیک نماز وتر سنت اور امام اعظمؒ کے نزدیک واجب ہے۔ (8) حنفیہ کے نزدیک نماز عید با جماعت چھوٹ جائے تو اس کی قضا لازم نہیں مگر شوافع کے نزدیک قضا واجب ہے۔ (9)امام اعظمؒ کے نزدیک فرض نمازوں کی پہلے دو رکعات میں قرأت واجب ہے لیکن امام شافعیؒ کے نزدیک چار رکعات میں اور امام مالکؒ کے نزدیک تین رکعات میں قرأت واجب ہے۔
(10)احناف کے نزدیک تین رکعات نماز وتر ایک سلام کے ساتھ پڑھی جاتی ہے مگر شوافع کے نزدیک دو سلام سے ادا کی جاتی ہے۔ (11) حضرت امام ابو حنیفہؒ ایمان اقرار باللسان اور تصدیق بالقلب کا نام ہے لیکن حضرت امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے نزدیک ایمان سے مراد تصدیق بالقلب، اقرار باللسان، اور عمل بالجوارح ہے، ان کے علاوہ اور بہت سی سیکڑوں مثالیں ہیں۔ ائمہ اربعہ کی مختلف رائیں ایک ہی منزل کی مختلف راہیں ہیں جس کو جو راہ پسند ہو اس راہ کو اپنالے۔ اپنے امام کو اکبر اور دوسرے کے امام کو اصغر، اپنی راہ کو برتر اور دوسرے کی راہ کو کم تر وفروتر سمجھنا بھلائی نہیں برائی ہے۔ دانائی نہیں نادانی ہے جہل ِ خرد کی ترجمانی ہے چاروں امام قابل صد احترام ہیں۔ چاروں یار برابر پیار کے مستحق ہیں کیونکہ وہ سب ایک ہی فانوس کے مختلف روشن چراغ ہیں ۔
مذہب کے لحاظ سے بن امام کے ہونا بھی معیوب ہے ہے۔ بن امام ہونا آزادی، خود مختاری، روشن خیالی اور خیر پسندی نہیں بلکہ شر پسندی،عقل کی مکاری، نفس کی عیاری اور جہل کی گمراہی ہے۔ دامن حیات کسی نہ کسی امام کے ساتھ وابستہ ہونا چاہیے۔ یہ کسی مقلد کو اپنے امام کے امر سے مفر کی اجازت نہیں۔ بلا ضرورت واقعی اور عذر شرعی اپنے امام سے رشتہ توڑنا اور دوسرے امام سے رشتہ جوڑنا ناجائز ہے۔ ہر مقلد کے لیے اپنے اپنے امام کی مقررکردہ عبادت حدود و قیود میں رہنے ہی میں اس کے لیے خیر و عافیت اور رحمت و برکت ہے۔
سنت مؤکدہ: وہ عمل ہے جو نظرِ شارع و شارح صلی اللہ علیہ وسلم میں ایسا سماگیا ہو رچ بس گیا ہو کہ آنکھوں کی ٹھنڈک، ذہن کا نور، دل کا سرور اور منظورِ نظر بن کر درجۂ کمالِ محبوبیت کو چھوگیا ہو۔ روز مرہ کا معمول بن کر مقصود و مطلوب بن گیا ہو لیکن رحمتِ عالمؐ نے ثبات کے ساتھ نادراً تغیر ہمیشگی کے ساتھ شاذیاً ترک کی، بیانِ جواز اور وجۂ عذر کی خاطر گنجائش باقی رکھ چھوڑی ہو۔ عمل کے لحاظ سے اس کا درجہ واجب کا سا ہے لیکن اس کا ترک وزن گناہ واجب سے کم ہے۔ عادتاً ترک پر عذاب، عموماً ترک پر عتاب مسلم ہے لیکن شاذیاً بحالتِ عذرت سنتِ مؤکدہ کے ترک پر چنداں مضائقہ اور کوئی مواخذہ نہیں۔
سنت غیر مؤکدہ: وہ عمل جو نظرِ رسولؐ میں پسندیدہ ضرور ہو لیکن آپؐ نے التزام عمل پر مداومت نہ فرائی ہو اور نہ ہی وعید عذاب کی زجر و تنبیہ کی ہو۔ اس کے کرنے میں ثواب اور نہ کرنے میں چاہے وہ عادتاً ہو استحقاق عتاب و عذاب نہیں۔ اس کو سنت زائد اور سنتِ عادیہ بھ کہتے ہیں۔ اس کا ثواب مستحق سے زیادہ ہے۔
مستحب: وہ عمل جو آپؐ نے کیا ہو لیکن ترک کی ممانعت بھی نہ فرمائی ہو اس کے کرنے میں ثواب لیکن نہ کرنے میں مطلقاً کی قسم کا گناہ بھی نہیں۔ اس کو فقہی اصطلاح میں نفل، مندوب اور تطوع بھی کہتے ہیں۔
مُباح: وہ عمل جس کا کرنا اور نہ کرنا برابر ہو یعنی کرنے میں ثواب نہیں اور نہ کرنے میں عذاب بھی نہیں۔
اقسامِ احکام۔ فرضِ اعتقادی:۔ ایسی دلیل جس پر لاریب فیہ کا اطلاق ہوتا ہو۔ (یعنی وہ حجت جو غیر مشکوک اور غیر متزلزل ہو۔ جس کے متعلق دل و دماغ میں شکوک و شبہات کے راہ پانے کی قطعاً گنجائش نہ ہو) جس کی فرضیت کی قطعیت شہرۂ آفاق ہو اور ہر خاص وعام پر روز روشن کی طرح عیاں ہو لیکن دلیل روشن کے باوجود کسی مرد ناداں کے دل و دماغ پرکفر کا ایسا زنگ چڑھا ہوا ہو کہ رنگ کلامِ نرم و نازک اس پر بے اثر ہو اور وہ ایسی دلیل قطعی جسے اجتماع قطعی کا مقام حاصل ہو انکار کرے وہ مطلقاً کافر ہے اور جو اس منکر کے کفر میں تذبذب اور تردد کا جواز کرید کرید کر نکالنے کی کوشش کرے اور اس کے کافر ہونے کا منکر ہو وہ بھی اطلاقاً کافر ہے۔
جو کسی فرضِ اعتقادی کا منکر تو نہیں لیکن بلا عذر قصداً تارک ہو وہ گناہ کبیرہ اور فسق عظیم کا مرتکب اور عذاب الیم کا مستحق ہے۔ انسان عاقل کم، غیر عاقل زیادہ ہے اس کی ذہانت میں جذبات کی ملاوٹ ہے اس کی عقل کرۂ جذبات میں چاروں طرف سے گھری ہوئی ہے۔
جانبِ حق الیقین، عقل کی پرواز میں کوتاہی اور نارسائی مسلمہ امر ہے۔ جذباتِ غالب عقل کو سو قالب بدلنے پر مجبور کردیتے ہیں۔ جذبات کی بازیگری کی وجہ سے '' ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ'' کی مصداق ظنی اور قیاسی باتوں کا عقلی اور یقینی ہونے کا گمان ہوتا ہے اس لیے عام انسان کے لیے جو علم دین کی ابجد سے بھی واقف نہیں حکم شرع میں عقل کی جرح قطعاً منع ہے۔
فرضِ عملی: جس کی دلیل اتنی وزنی یقینی اور قطعی نہ ہو جیسی فرضِ اعتقادی کی۔ لیکن اہل فکر و نظر اور صاحب نور حکمت و بصیرت مجتہد جو شے کے حقیقت کو سمجھنے اور پھول میں خوشبو کو دیکھنے والی نورانی بصیرت، بیرون شرع سے اندرون کی خبر لانے والی ایکس ریزی ذہنی قوت اور حکم ظاہر کے باطن میں خفیف جھٹکوں اور ضعیف آہٹوں کو محسوس کرنے اور خوب سننے والی حساس روحانی سماعت رکھتا ہو ۔ اور جو اللہ کی رحمت سے عقل کو جذبات سے کوسوں میل دور رکھتا ہو وہ دلائل شرعیہ کی روشنی میں کسی عمل کو فرض گردانے اور وہ عبادت سے متعلق ہو تو اس کے اہتمام اور التزام کے بغیر عبادت اکارت اور فعل عبث ہے۔
واجبِ اعتقادی:۔ وہ جس کی ضرورت دلیل ظنی سے مسلم ہو۔ دلیل قطعی میں تو یکسوئی کا پہلو روشن، صاف اور واضح ہوتا ہے لیکن دلیل ظنی میں دوئی کے پہلوں کی بھی ہلکی سی جھلک نظر آتی ہے۔ '' یہ بھی ہونے کے ساتھ ساتھ وہ بھی '' ہونے کا ضعیف امکان بھی پایاجاتا ہے۔ اس کا انکار کرنے والا کافر نہیں ہوتا لیکن بلا عذر چھوڑنے والا فاسق ضرور ہوتا ہے۔
واجب عملی: وہ عمل جس کی ضرورت اور فضیلت پر ظن غالب دال ہو۔ مگر اسقاط عمل اور انکار عمل کا پہلو خارج از امکان نہ ہو۔ اگر وہ عبادت سے متعلق ہو تو اس کے ترک کرنے سے عبادت اکارت تو نہیں جاتی لیکن اس میں نقص اور عیب آجاتا ہے کسی واجب عملی کو ایک بار بھی قصداً ترک کرنا گناہ صغیرہ اور بار بار چھوڑنا گناہ کبیرہ ہے۔
اختلافِ آرا: مجتہد دلائل شرعیہ کی روشنی میں کسی فرض عملی اور واجب عملی کا انکار کرسکتا ہے۔ آئمہ کرام کے مابین علمی، فکری اور نظری اختلاف آرا کا پایا جانا فطری امر ہے مثلاً (1)امام اعظمؒ کے نزدیک مقتدی کا امام کے پیچھے قرأت کرنا جائز نہیں مگر امام شافعیؒ کے نزدیک مقتدی کا امام کے پیچھے بھی سورۂ فاتحہ پڑھنا فرض ہے۔ (2)حنفیہ کے نزدیک تکبیر تحریمہ (اللہ اکبر) کی بجائے اللہ اعظم یا اللہ الرحمن اکبرکہے تو جائز ہے مگر شافعیہ اور مالکیہ کے نزدیک صرف اللہ اکبر کے سوا کوئی اورکلمہ جائز نہیں(3)امام اعظم کے نزدیک تیمم ہر اس چیز سے ہوسکتا ہے جو زمین کی جنس سے ہو لیکن امام شافعی کے نزدیک مٹی کے علاوہ کسی دوسری چیز سے تیمم جائز ہی نہیں ہے۔
(4)امام اعظمؒ کے نزدیک چوتھائی سر کا مسح کرنا امام مالک کے نزدیک پورے سر کا مسح کرنا اور امام شافعیؒ کے نزدیک ایک دو بال کا مسح کرنا فرض ہے۔ (5)حنفیہ کے نزدیک وضو میں بسم اللہ کہنا اور نیت سنت ہے لیکن حنبلیہ اور شافعیہ کے نزدیک فرض ہے۔ (6) ائمہ ثلاثہ شافعیؒ، مالکؒ اور حنبلؒ کے نزدیک نماز میں سورۂ فاتحہ پڑھنا فرض ہے اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی مگر امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک اگر کوئی سورۂ فاتحہ نہ پڑھے تو اس کے بغیر بھی نماز ہوجاتی ہے۔ (7)امام شافعی کے نزدیک نماز وتر سنت اور امام اعظمؒ کے نزدیک واجب ہے۔ (8) حنفیہ کے نزدیک نماز عید با جماعت چھوٹ جائے تو اس کی قضا لازم نہیں مگر شوافع کے نزدیک قضا واجب ہے۔ (9)امام اعظمؒ کے نزدیک فرض نمازوں کی پہلے دو رکعات میں قرأت واجب ہے لیکن امام شافعیؒ کے نزدیک چار رکعات میں اور امام مالکؒ کے نزدیک تین رکعات میں قرأت واجب ہے۔
(10)احناف کے نزدیک تین رکعات نماز وتر ایک سلام کے ساتھ پڑھی جاتی ہے مگر شوافع کے نزدیک دو سلام سے ادا کی جاتی ہے۔ (11) حضرت امام ابو حنیفہؒ ایمان اقرار باللسان اور تصدیق بالقلب کا نام ہے لیکن حضرت امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے نزدیک ایمان سے مراد تصدیق بالقلب، اقرار باللسان، اور عمل بالجوارح ہے، ان کے علاوہ اور بہت سی سیکڑوں مثالیں ہیں۔ ائمہ اربعہ کی مختلف رائیں ایک ہی منزل کی مختلف راہیں ہیں جس کو جو راہ پسند ہو اس راہ کو اپنالے۔ اپنے امام کو اکبر اور دوسرے کے امام کو اصغر، اپنی راہ کو برتر اور دوسرے کی راہ کو کم تر وفروتر سمجھنا بھلائی نہیں برائی ہے۔ دانائی نہیں نادانی ہے جہل ِ خرد کی ترجمانی ہے چاروں امام قابل صد احترام ہیں۔ چاروں یار برابر پیار کے مستحق ہیں کیونکہ وہ سب ایک ہی فانوس کے مختلف روشن چراغ ہیں ۔
مذہب کے لحاظ سے بن امام کے ہونا بھی معیوب ہے ہے۔ بن امام ہونا آزادی، خود مختاری، روشن خیالی اور خیر پسندی نہیں بلکہ شر پسندی،عقل کی مکاری، نفس کی عیاری اور جہل کی گمراہی ہے۔ دامن حیات کسی نہ کسی امام کے ساتھ وابستہ ہونا چاہیے۔ یہ کسی مقلد کو اپنے امام کے امر سے مفر کی اجازت نہیں۔ بلا ضرورت واقعی اور عذر شرعی اپنے امام سے رشتہ توڑنا اور دوسرے امام سے رشتہ جوڑنا ناجائز ہے۔ ہر مقلد کے لیے اپنے اپنے امام کی مقررکردہ عبادت حدود و قیود میں رہنے ہی میں اس کے لیے خیر و عافیت اور رحمت و برکت ہے۔
سنت مؤکدہ: وہ عمل ہے جو نظرِ شارع و شارح صلی اللہ علیہ وسلم میں ایسا سماگیا ہو رچ بس گیا ہو کہ آنکھوں کی ٹھنڈک، ذہن کا نور، دل کا سرور اور منظورِ نظر بن کر درجۂ کمالِ محبوبیت کو چھوگیا ہو۔ روز مرہ کا معمول بن کر مقصود و مطلوب بن گیا ہو لیکن رحمتِ عالمؐ نے ثبات کے ساتھ نادراً تغیر ہمیشگی کے ساتھ شاذیاً ترک کی، بیانِ جواز اور وجۂ عذر کی خاطر گنجائش باقی رکھ چھوڑی ہو۔ عمل کے لحاظ سے اس کا درجہ واجب کا سا ہے لیکن اس کا ترک وزن گناہ واجب سے کم ہے۔ عادتاً ترک پر عذاب، عموماً ترک پر عتاب مسلم ہے لیکن شاذیاً بحالتِ عذرت سنتِ مؤکدہ کے ترک پر چنداں مضائقہ اور کوئی مواخذہ نہیں۔
سنت غیر مؤکدہ: وہ عمل جو نظرِ رسولؐ میں پسندیدہ ضرور ہو لیکن آپؐ نے التزام عمل پر مداومت نہ فرائی ہو اور نہ ہی وعید عذاب کی زجر و تنبیہ کی ہو۔ اس کے کرنے میں ثواب اور نہ کرنے میں چاہے وہ عادتاً ہو استحقاق عتاب و عذاب نہیں۔ اس کو سنت زائد اور سنتِ عادیہ بھ کہتے ہیں۔ اس کا ثواب مستحق سے زیادہ ہے۔
مستحب: وہ عمل جو آپؐ نے کیا ہو لیکن ترک کی ممانعت بھی نہ فرمائی ہو اس کے کرنے میں ثواب لیکن نہ کرنے میں مطلقاً کی قسم کا گناہ بھی نہیں۔ اس کو فقہی اصطلاح میں نفل، مندوب اور تطوع بھی کہتے ہیں۔
مُباح: وہ عمل جس کا کرنا اور نہ کرنا برابر ہو یعنی کرنے میں ثواب نہیں اور نہ کرنے میں عذاب بھی نہیں۔