کراچی میں سکیورٹی خدشات انتخابی گہما گہمی نظر نہیں آتی

کراچی میں قومی اسمبلی کی 20 اور صوبائی اسمبلی کی 42 نشستوں پر ایک ہزار 138 امیدوار حصہ لے رہے ہیں۔


عامر خان April 24, 2013
کراچی میں قومی اسمبلی کی 20 اور صوبائی اسمبلی کی 42 نشستوں پر ایک ہزار 138 امیدوار حصہ لے رہے ہیں۔ فوٹو : فائل

11مئی کو ہونے والے ہونے والے انتخابات میں کراچی کے انتخابی نتائج کا تجزیہ 2008 کے انتخابی نتائج اور اس کے بعد سے اب تک شہر میں رونما ہونے والے سیاسی حالات وواقعات اور امن وامان کی صورتحال کو نظرانداز کیے بغیر نہیں کیا جاسکتا ۔

2008 کے نتائج کے مطابق متحدہ قومی موومنٹ نے قومی اسمبلی کی 20 نشستوں میں سے 17 اور پیپلز پارٹی نے 3 نشستوں پر کامیابی حاصل کی اور صوبائی اسمبلی کی 42نشستوں میں سے 34پر متحدہ قومی موومنٹ 6پر پیپلز پارٹی اور 2نشستیں عوامی نیشنل پارٹی نے حاصل کیں۔

2008 کے انتخابا ت کے بعد سندھ میں پیپلز پارٹی نے حکومت بنائی جس میں ایم کیو ایم اور اے این پی اتحاد میں شامل رہیں لیکن پانچ سال کے دور حکومت میںپیپلز پارٹی کو یہ اعزاز تو حاصل رہا کہ ملک میں جمہوری نظام کو مضبوط کیا تاہم روشنیوں کا شہر اقتدار کے نمائندوں کی توجہ کا مرکز بننے کے بجائے اندھیروں میں ڈوبا رہا اور شہر میں بدامنی کا راج رہا،سینکڑوں افراد لقمہ اجل بن گئے۔ اسی پانچ سال کے دور میں کراچی میں بھتہ خوری کا راج رہا اور تاجروں و سرمایہ کاروں کے علاوہ زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد بھتہ خوروں کا نشانہ بنے رہے۔

حکومت صرف زبانی دعوؤں تک محدود رہی،عملی اقدامات نہ ہونے سے کراچی کی تجارت کو بہت نقصان پہنچا، کراچی سے کاروبار دوسرے شہروں میں منتقل ہوگیا اسی طرح سرمایہ کاروں نے بھی اپنا سرمایہ کراچی سے نکال کر خطے کے دیگر ملکوں میں منتقل کردیا۔ روزگار کے مواقع کم ہونے سے اس شہر میں سماجی مسائل مزید شدت اختیار کرگئے اور جرائم کی شرح میں بھی تشویشناک حد تک اضافہ ہوگیا بہرحال حکومت کی مدت ختم ہوچکی ہے نگراں حکومت کی چھتری تلے کراچی میں انتخابی سرگرمیاں رفتہ رفتہ اپنے شباب کی طرف رواں دواں ہیں۔

کاغذات جمع کرانے اورسکروٹنی، اپیلوں اور حتمی فہرست کا مرحلہ طے ہوچکا ہے اور گزشتہ روز سے الیکشن میں حصہ لینے والی جماعتوں اور آزاد امیدواروں نے اپنی اپنی انتخابی مہم کا آغاز کردیا ہے تاہم یہ بات قابل ذکر ہے کہ کراچی میں الیکشن کمیشن نے اب تک حلقوں کی سطح پر ووٹر لسٹوں کا اجرا نہیں کیا ہے جس کی وجہ سے سیاسی جماعتوں کے امیدوار ابھی تک اپنے حلقوں میں مجموعی ووٹوں کی تعداد سے لاعلم ہیں۔

کراچی کے انتخابی دنگل میں متحدہ قومی موومنٹ پیپلز پارٹی، جمعیت علماء اسلام (ف)، جماعت اسلامی، مسلم لیگ (ن)، عوامی نیشنل پارٹی، سنی تحریک، متحدہ دینی محاذ، مہاجر قومی موومنٹ (حقیقی)، پیپلز پارٹی شہید بھٹو سمیت مختلف جماعتوں اور آزاد امیدواروں کے ایک ہزار ایک سو اڑتیس امیدوار قومی اسمبلی کی 20اور صوبائی اسمبلی کی 42نشستوں پر انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔



کراچی میں اگر انتخابی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو 2002 اور 2008 کے عام انتخابات کے مقابلے میں رواں برس انتخابی گہما گہمی دیکھنے میں نہیں آرہی ہے جس کی اہم وجہ شہر میں بدامنی اورسیاسی جماعتوں کے سیکیورٹی خدشات ہیں۔ کالعدم تحریک طالبان نے سابقہ دور حکومت کے اتحادیوں پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور اے این پی کو سیکولر جماعتیں قرار دیتے ہوئے انہیں انتخابی عمل میں نشانہ بنانے کی کھلی دھمکی دی ہے جس سے ان سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور ورکرز کے ساتھ عوام میں بھی خوف پایا جاتا ہے تاہم ان سیاسی جماعتوں نے بھرپور انتخابی مہم چلانے کا عزم ظاہر کیا ہے۔

اس حوالے سے عوامی نیشنل پارٹی سندھ کے سیکریٹری جنرل بشیر جان کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف پہلے بھی قربانیاں دی ہیں اور آئندہ بھی قربانیاں دیتے رہیں گے تاہم ہمارے لیے عوام کی جان کی حفاظت پہلی ترجیح ہے ۔ متحدہ قومی موومنٹ کے ڈپٹی کنوینر ڈاکٹر فاروق ستار گزشتہ دنوں اپنی پریس کانفرنس میں اس بات کا اظہار کرچکے ہیں کہ ایم کیو ایم کو انتخابات سے دور رکھنے کی سازش جاری ہے اور کالعدم تنظیموں نے ایم کیو ایم کو نہ صرف دھمکی دی ہے بلکہ حیدرآباد میں ایک امیدوار کو نشانہ بھی بنایا جاچکا ہے ۔

فاروق ستار کا کہنا تھا کہ ان خدشات کے باوجود اب قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کراچی میں ایم کیو ایم خصوصاً ایم کیو ایم کے ووٹ بینک والے علاقوں میں غیرعلانیہ آپریشن کا آغاز کردیا ہے اور نہ صرف محاصرے کرکے بے گناہ شہریوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے بلکہ ایم کیو ایم کے انتخابی دفاتر کو بھی بند کرایا جارہا ہے۔ انہوں نے واضح کیا ہے کہ کسی بھی صورت ایم کیو ایم انتخابات کا بائیکاٹ نہیں کریگی۔ 11مئی کو ہونے والے انتخابات میں کراچی کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو کراچی میں

متحدہ قومی موومنٹ کو اس بار 10جماعتی اتحاد کے علاوہ پیپلز پارٹی، اے این پی اور دیگر جماعتوں کا سامنا ہے تاہم ایم کیو ایم کے سامنے آنے والا سب سے بڑا 10جماعتی اتحاد اپنے قیام سے ہی اندرونی اختلافات کا شکار ہے مختلف نشستوں پر مسلم لیگ فنکشنل، جماعت اسلامی اور مسلم لیگ ن سمیت دیگر جماعتوں میں اختلافات پیدا ہوگئے ہیں جس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ این اے 250 پر جماعت اسلامی نے اپنے سب سے بڑے امیدوار نعمت اﷲخان کو دستبردار کرنے سے انکار کردیا ہے اور اسی نشست پر فنکشنل لیگ نے کامران ٹیسوری کو ٹکٹ جاری کردیا ہے اگر اس اتحاد کا مزید جائزہ لیا جائے تو این اے 239پر 10جماعتی اتحاد کے متفقہ امیدوار قاری فخرالحسن تھے تاہم اس نشست پر مسلم لیگ ن نے قادر خان مندوخیل ایڈوکیٹ کو ٹکٹ جاری کردیا ہے۔

اسی طرح پی ایس 113اور پی ایس 114پر بھی مسلم لیگ ن اور 10 جماعتی اتحاد میں اختلافات کھل کر سامنے آگئے ہیں ان نشستوں پر مسلم لیگ ن نے سلیم ضیا ایڈوکیٹ اور عرفان اﷲمروت کو ٹکٹ جاری کردیا ہے اور مسلم لیگ فنکشنل نے اعلان کیا ہے ان دونوں نشستوں پر سردار رحیم ہمارے امیدوار ہوں گے۔ حلقوں کی سطح پر کراچی کی قومی اسمبلی کی نشستوں کا جائزہ لیا جائے تو پیپلز پارٹی اور دینی جماعتوں کا گڑھ سمجھے جانے والے حلقے این اے 239 میں اس مرتبہ پیپلز پارٹی کے عبدالقادر پٹیل ، جمیعت علما اسلام کے قاری فخر الحسن اور ایم کیو ایم کے سلمان مجاہد بلوچ کے درمیان مقابلہ متوقع ہے این اے 240 سے 13 امیدوار حصہ لے رہے ہیں جن میں ایم کیو ایم کے سہیل منصور خواجہ ، پیپلز پارٹی کے عابد حسین ،جے یو آئی کے فیض الحق جو کہ دس جماعتی اتحاد کے متفقہ امیدوار ہیں اپنی قسمت آزمائیں گے۔



تاہم اس مرتبہ این اے 240میں امن و امان کی صورتحال خراب ہے کیونکہ اس حلقے کے اکثریتی آبادی والے علاقوں پاک کالونی میں گینگ وار کی آماج گاہیں اور بھتاخوری کی وجہ سے ووٹرز میں سخت خوف پایا جاتا ہے این اے 241 سے 18 امیدوار حصہ لے رہے ہیں جن میں ایم کیو ایم کے ایس اے اقبال قادری، دس جماعتی اتحاد کے متفقہ امیدوار اور جماعت اسلامی کے رہنماء محمد لئیق خان ، تحریک انصاف کے ڈاکٹر سید احمد آفریدی، اے این پی کے سید کرم درویش اور پیپلز پارٹی کے علی احمد اور دیگر شامل ہیں اس حلقے میں ایم کیو ایم ، جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی کے درمیان مقابلہ متوقع ہے ۔

این اے 242 میں 9 امیدوار حصہ لے رہے ہیں جن میں ایم کیو ایم کے محبوب عالم، پیپلز پارٹی کے باری خان اور مسلم لیگ (ن) کے نجیب اللہ نیازی ودیگر شامل ہیں اس نشست پر بھی پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم میں اصل مقابلہ ہوگا تاہم یہ حلقہ بھی ایم کیو ایم کا گڑھ سمجھا جاتا ہے کیونکہ 2008کے انتخابات میں یہاں سے ایم کیو ایم کے امیدوار کامیاب ہوئے تھے ۔ ضلع وسطی میں قومی اسمبلی کی کل 5نشستیں ہیں جن میں57اسی طرح صوبائی اسمبلی کی 10نشستوں پر 126 امیدواربنے ہیں۔این اے 243 سے 9 امیدوار حصہ لے رہے ہیں۔

جن میں ایم کیو ایم کے عبدالوسیم اور پیپلز پارٹی کے سہیل عابدی اور دیگر شامل ہیں۔ این اے 244 پر 13 امیدوار مد مقابل ہیں جس میں ایم کیو ایم کے شیخ صلاح الدین، پیپلز پارٹی کے محمد طاہر خان اور جماعت اسلامی کے ایس ایم بلال سمیت دیگر شامل ہیں اس حلقے میں ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی کے درمیان مقابلہ متوقع ہے ۔ این اے 245 پر 14 امیدوار حصہ لے رہے ہیں جن میں ایم کیو ایم کے ریحان ہاشمی، جماعت اسلامی کے معراج الہدیٰ اور پیپلز پارٹی کے سردار خان اور دیگر شامل ہیں اس حلقے میں بھی جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم کے درمیان مقابلہ ہوگا۔

این اے 246 سے 9 امیدوار حصہ لے رہے ہیں جن میں ایم کیو ایم کے نبیل گبول، جماعت اسلامی کے راشد نسیم اور پیپلز پارٹی کے شہزاد مجید بلوچ سمیت دیگر شامل ہیںیہ نشست ایم کیو ایم کی مضبوط نشست سمجھی جاتی ہے ۔ این اے 247 سے 12 امیدوار مد مقابل ہیں جن میں ایم کیو ایم کے سفیان یوسف، پیپلز پارٹی کے اصغر لال، جے یو پی کے صدیق راٹھور اور دیگر شامل ہیں اس نشست پر بھی دس جماعتی اتحاد کے امیدوار اور ایم کیو ایم کے درمیان مقابلہ متوقع ہے تاہم یہ نشست بھی ایم کیو ایم کا مضبوط گڑھ سمجھی جاتی ہے ۔ این اے 248 سے ایم کیو ایم کے نبیل گبول، پیپلز پارٹی کے شاہجہاں بلوچ، پی پی شہید کی غنویٰ بھٹو او رجے یو آئی کے مولانا شیریں محمد سمیت دیگر شامل ہیں یہ نشست پیپلز پارٹی کی آبائی نشست کہلاتی ہے۔

تاہم 2008کے بعد اس علاقے میں کالعدم امن کمیٹی کے فعال ہونے سے سیاسی تبدیلی آئی اور تاریخ میں پہلی مرتبہ پیپلز پارٹی نے لیاری کے بزرگوں اور کالعدم امن کمیٹی کی سفارش پر مقامی لوگوں کو ٹکٹ جاری کیے ہیں اور اس نشست پر پیپلز پارٹی نے شاہجہاں بلوچ کو ٹکٹ جاری کیا ہے جو اس وقت مختلف مقدمات کے تحت جیل میں ہیں ، اسی حلقے کی صوبائی نشست 109پر پیپلز پارٹی نے خاتون امیدوار سنیا ناز کو ٹکٹ جاری کیا ہے ۔کراچی میں اصل انتخابی دنگل این اے 249پر ہوگا اس حلقے میں 2002میں ڈاکٹر عامر لیاقت حسین اور 2008میں ڈاکٹر فاروق ستار کامیاب ہوئے تھے تاہم 2008کے بعد اس حلقے کو سب سے زیادہ امن و امان کی خرابی کا سامنا کرنا پڑا یہ حلقہ کراچی کی تجارتی شہ رگ سمجھاجاتا ہے جہاں یومیہ اربوں روپے کا کاروبار ہوتا ہے۔

یہ حلقہ کھارادر، لیاری کے کچھ علاقوں سے لے کر گارڈن تک محیط ہے اس حلقے میں ملک کے اہم ترین بازار بشمول جوڑیا بازار، بولٹن مارکیٹ، صرافہ مارکیٹ شامل ہیں تاہم گزشتہ پانچ سال کے دوران یہ علاقے بھتا خوروں کا ہدف بنے رہے جس سے کاروباری سرگرمیاں بری طرح متاثر ہوئیں اس حلقے میں اس مرتبہ ایم کیو ایم کے ڈاکٹر فاروق ستار اور پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار اور میمن فیڈریشن کے صدر عبدالعزیز میمن کے درمیان کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے، قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اس حلقے میں پولنگ کے دن سیکیورٹی کے انتہائی سخت ترین اقدامات کے لیے حکومت کو اپنی سفارشات ارسال کردی ہیں۔ این اے 250کراچی کا پوش حلقہ ہے 2008میں یہاں ایم کیو ایم کی خوش بخت شجاعت کامیاب ہوئی تھیں اس حلقے میں سب سے زیادہ امیدوار کھڑے کیے گئے ہیں۔

جن کی تعدا 32سے زائد ہے جن میں ایم کیو ایم کی خوش بخت شجاعت، جماعت اسلامی کے نعمت اﷲ خان، تحریک انصاف کے ڈاکٹر عارف علوی سمیت دیگر امیدواروں میں مقابلہ متوقع ہے اس حلقے سے سابق صدر پرویز مشرف نے بھی کاغذات نامزدگی جمع کرائے تھے جو مسترد ہوگئے۔ این اے 251میں ایم کیو ایم کے سید علی رضازیدی، پیپلز پارٹی کے سید ذوالفقار قائم خانی، تحریک انصاف کے راجہ اظہر، جماعت اسلامی کے زاہد سعید، متحدہ دینی محاذ کے مفتی محمد نعیم اور دیگر میں مقابلہ متوقع ہے۔ این اے 252 پر 13 امیدوار مد مقابل ہونگے جن میں ایم کیو ایم کے رشید گوڈیل، جماعت اسلامی کے محمد حسین محنتی، پیپلز پارٹی کے سید اصغر حسین اور دیگر شامل ہیں۔ اس نشست پر ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی میں سخت مقابلہ متوقع ہے۔

این اے 253 پرایم کیو ایم کے سید مزمل قریشی، پیپلز پارٹی کے مراد بلوچ، دس جماعتی اتحاد کے اسد اللہ بھٹو اور دیگر حصہ لے رہے ہیں۔اس نشست پر بھی ایم کیو ایم اور دس جماعتی اتحاد میں مقابلہ ہوگا۔ این اے 254 پر 12 امیدوار حصہ لے رہے ہیں جن میں ایم کیو ایم کے شیخ محمد افضل (خالد عمر)، پیپلز پارٹی کے مولانا عبدالستار چنہ اور جے یو پی کے علامہ رجب علی نعیمی سمیت دیگر شامل ہیں۔ اس نشست پر تینوں بڑی جماعتوں کے درمیان مقابلہ متوقع ہے۔ این اے 255 پر 11 امیدوار حصہ لے رہے ہیں جن میں ایم کیو ایم کے آصف حسنین، مہاجر قومی موومنٹ (حقیقی) کے آفاق احمد، پیپلز پارٹی کے جاوید شیخ، تحریک انصاف کے خالد محمود اور جماعت اسلامی کے عبدالجمیل خان سمیت دیگر شامل ہیں۔

اس نشست پر 2002ء میں ایم کیو ایم حقیقی کامیاب ہوچکی ہے تاہم رواں الیکشن میں ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی د رمیان مقابلہ متوقع ہے مہاجرقومی موومنٹ سے کسی اپ سیٹ کی توقع کم ہی ہے ، این اے 256 پر 16 امیدوار مد مقابل ہونگے جن میں ایم کیو ایم کے اقبال محمد علی خان، پیپلز پارٹی کے سید منظور عباس، جے یو پی کے شاہ اویس نورانی اور دیگر شامل ہیں۔ااس نشست پر ایم کیو ایم اور جے یو پی کے شاہ اویس نورانی کے درمیان مقابلہ متوقع ہے۔ این اے 257 پر 19 امیدوار حصہ لے رہے ہیں جن میں ایم کیو ایم کے ساجد احمد، پیپلز پارٹی کے نسیم خان، پی پی شہید بھٹو کی غنویٰ بھٹو ، پاکستان مسلم لیگ (ن) (10 جماعتی اتحاد) کے زین انصاری ، تحریک انصاف کے فاروق بنگش ودیگر شامل ہیں۔

اس نشست پر بھی ایم کیو ایم کے ساجد احمد اور 10 جماعتی اتحاد کے درمیان مقابلہ متوقع ہے۔ این اے 258 پر 15 امیدوار حصہ لے رہے ہیں جن میں ایم کیو ایم کے احمد گبول، پیپلز پارٹی کے عبدالرزاق راجہ ، پاکستان مسلم لیگ (ن) کے عبدالحکیم بلوچ، مفتی دینی محاذ کے مفتی عثمان یار خان اور دیگر شامل ہیں۔ یہ نشست پیپلز پارٹی کی آبائی نشست کہلاتی ہے۔ 2002ء اور 2008ء کے انتخابات میں شیر محمد بلوچ کامیاب ہوئے تھے۔ اگر کراچی کی انتخابی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو سیکورٹی خدشات اور امن وامان کی مخدوش صورتحال کی وجہ سے روایتی گہما گہمی دیکھنے میں نہیں آرہی ہے۔ مختلف علاقوں میں سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے جھنڈے اور امیدواروں کے بینرز تو آویزاں کردیئے ہیں۔

کراچی کے مختلف علاقوں کا جائزہ لیا جائے تو لیاری، ملیر اور کیماڑی میں پیپلز پارٹی کی انتخابی مہم دیکھنے میں آرہی ہے تاہم مجموعی طور پر ایم کیو ایم، جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی نے انتخابی مہم کا آغاز کردیا ہے۔ کراچی میں اب تک صر ف ایم کیو ایم نے بڑا انتخابی جلسہ کیا ہے تاہم کسی جماعت نے بڑے انتخابی جلسے کے انعقاد کا اعلان نہیں کیا ہے۔ ایم کیو ایم، جماعت اسلامی، مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی، تحریک انصاف، متحدہ دینی محاذ سمیت دیگر جماعتوں نے اپنے انتخابی دفاتر تو قائم کردیئے ہیں لیکن ان پر اب تک انتخابی سرگرمیاں بھرپور طریقے سے دیکھنے میں نہیں آرہی ہیں۔ انتخابات میں گہما گہمی نہ ہونے کی وجہ سے اس سے وابستہ معاشی سرگرمیاں بھی ماضی کے برعکس اس مرتبہ ماند پڑی ہوئی ہیں۔

کراچی میں انتخابی مہم کے دوران امیدواروں کی زیادہ تر توجہ گھر گھر جا کر لوگوں کی توجہ حاصل کرنا ہے تاہم الیکشن میں 19 دن باقی رہ گئے ہیں اور کراچی میں انتخابی ماحول نظر نہیں آرہا۔ دوسری جانب اگر کراچی کا مکمل انتخابی تجزیہ کیا جائے تو این اے 240، 249، 250 ، 252، 253 اور 255پر انتخابی دنگل ہوگا اور سب سے دلچسپ مقابلہ 250 پر متوقع ہے جبکہ 249 پر انتخابی عمل میں امن وامان کی صورتحال خراب ہونے کے خدشات برقرار ہیں۔

کراچی میں دیکھا جائے تو 2008ء کے انتخابات میں ایم کیو ایم نے 17 نشستیں حاصل کی تھیں تاہم اس انتخابات میں جماعت اسلامی نے بائیکاٹ کیا تھا تاہم 2013ء کے الیکشن میں صورتحال مختلف نظر آرہی ہے اور ایم کیو ایم کا مقابلہ 10 جماعتی اتحاد، پیپلز پارٹی اور اے این پی سے ہوگا تاہم 10 جماعتی اتحاد میں اختلافات کے باعث مختلف حلقوں میں ایم کیو ایم کی پوزیشن مضبوط نظر آتی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ 11مئی کو کراچی کے 71 لاکھ71 ہزار234 ووٹرز میں کتنے ووٹ کاسٹ ہوتے ہیں سیا سی تجز یہ کاروں کا کہنا ہے کہ کراچی میں بدامنی اور انتخابی ماحول نہ ہو نے کی وجہ سے اس انتخابات میں ٹرن آؤٹ کم ہونے کی توقع ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔