مشرف کے خلاف غداری کیس چلانے سے حکومتی انکار سیاسی جماعتوں کے تحفظات

پرویز مشرف کے قریبی ساتھی یہ بات تواتر سے کہہ رہے ہیں کہ سابق صدر نے وطن واپس آ کر سنگین غلطی کا ارتکاب کیا ہے۔

پرویز مشرف کے قریبی ساتھی یہ بات تواتر سے کہہ رہے ہیں کہ سابق صدر نے وطن واپس آ کر سنگین غلطی کا ارتکاب کیا ہے۔ فوٹو : فائل

نگراں حکومت نے سابق ڈکٹیٹر جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی سے صاف انکار کر دیا ہے اور اس موقف سے عدالت عظمیٰ کو آگاہ کر دیا ہے۔

یہ قیاس آرائیاں گزشتہ چند روز سے جاری تھیں اور یہ باور کیا جا رہا تھا کہ نگراں حکومت سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی سے انکار کر دے گی اور ایسا ہی ہوا، یہ درست ہے کہ پاکستان کی طویل تاریخ میں پہلی بار کسی سابق فوجی کو گرفتار کیا گیا ہے ان کی گرفتاری اور عدالتوں میں پیشگی کے عمل کو مکافات عمل سے تعبیر کیا جا رہا ہے، بلامبالغہ سابق صدر پرویز مشرف کو وطن واپسی کے بعد اب ایک مشکل صورتحال کا سامنا ہے، عدالت عظمیٰ نے نگراں حکومت کے موقف پر برہمی کا اظہار کیا ہے۔

سابق صدر پرویز مشرف کی گرفتاری اور سپریم کورٹ میں بغاوت کیس کے باعث نگراں حکومت میں شامل شخصیات شدید دباؤ کا شکار تھیں، نگراں وزیر اعظم میر ہزار خان کھوسو وفاق کی طرف سے عدالت میں تحریری موقف پیش کرنے کے حوالے سے حکومت میں شامل شخصیات سے مشاورت کرتے رہے، اسلام آباد کے باخبر حلقوں کا کہنا ہے کہ نگراں وزیر اعظم میر ہزار خان کھوسو کو یہ مشورہ دیا گیا تھا کہ وہ نگراں حکومت کو کسی متنازعہ ایشو میں الجھائے بغیر عام انتخابات کے شفاف، آزادانہ اور منصفانہ انعقاد کے مینڈیٹ کو دستور کے مطابق عملی جامہ پہنائیں، بعض سیاسی جماعتوں اور ذمہ دار حلقوں نے نگراں حکومت کی طرف سے سابق فوجی آمر پرویز مشرف کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی سے انکار پر شدید تحفظات کا اظہار کر دیا ہے اور حکومتی موقف کو مسترد کر دیا گیا ہے۔

مسلم لیگ (ن) سمیت بعض جماعتوں کے قائدین شروع دن سے یہ مطالبہ کرتے آئے ہیں کہ سابق صدر کے خلاف آئین توڑنے سمیت جرائم کے ارتکاب کے باعث آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی کی جائے، یہ واضح ہو گیا ہے کہ نگراں وزیر اعظم میر ہزار خان کھوسو کی زیر قیادت نگراں حکومت سابق صدر کے خلاف کارروائی کرنے میں قطعی طور پر کوئی دلچسپی نہیں رکھتی، نگراں حکومت میں شامل شخصیات کا کہنا ہے کہ 11 مئی کے انتخابات کے نتیجے میں آنے والی نئی جمہوری حکومت کے مینڈیٹ میں یہ معاملہ ہوگا کہ وہ سابق صدر کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی کرتی ہے یا نہیں؟

نگراں حکومت میں شامل وزراء کا یہ موقف ہے کہ وہ انتخابات پُرامن ماحول میں کرانے کیلئے تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین کی سکیورٹی کو یقینی بنانے پر توجہ دے رہے ہیں اور نگراں حکومت کے مینڈیٹ میں پرویز مشرف کے خلاف کارروائی کرنا شامل نہیں ہے، سابق صدر پرویزمشرف کی باقاعدہ گرفتاری کو اہم پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے، گرفتاری کے بعد سابق صدر پرویز مشرف کو جیل منتقل نہ کرنے اور ان کی رہائش گاہ کو سب جیل قرار دیئے جانے پر سینٹ میں تمام جماعتیں سراپا احتجاج بنی رہیں۔


مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی، اے این پی کے رہنماؤں نے پرویز مشرف کے ساتھ عام قیدیوں جیسا سلوک نہ کرنے پر شدید احتجاج ریکارڈ کرایا ہے اور کہا ہے کہ سابق صدر اور سابق وزراء اعظم کو گرفتار کر کے مختلف جیلوں میں رکھا جاتا رہا ہے اور منتخب وزیر اعظم کو ہتھکڑیاں لگا کر اٹک قلعہ میں رکھا گیا، جبکہ دوسری طرف سابق صدر پرویز مشرف کو ان کی خواہش کے مطابق ان کے محل نما فارم ہاؤس چک شہزاد اسلام آباد میں رکھا گیا ہے۔ سیاسی جماعتوں اور معاشرے کے تمام طبقات کے پرویز مشرف کے ساتھ روا رکھے گئے امتیازی سلوک پر خدشات اور تحفظات درست ہیں، قانون کی حکمرانی کا یہ بنیادی تقاضا ہے کہ اس ملک کے آئین کو توڑنے والے سابق فوجی آمر کے ساتھ عام شہری کے طور پر سلوک کیا جائے، کئی ہفتوں سے وفاقی دارالحکومت میں یہ قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ پاکستان کے بعض دوست ممالک پرویز مشرف کو یہاں سے خاموشی کے ساتھ نکالنے کے لئے متحرک ہو گئے ہیں۔

پرویز مشرف کے قریبی ساتھی یہ بات تواتر سے کہہ رہے ہیں کہ سابق صدر نے وطن واپس آ کر سنگین غلطی کا ارتکاب کیا ہے۔ سابق صدر پرویز مشرف کو ان کے معتمد خاص اور سابق پرنسپل سیکرٹری طارق عزیز اور ان کے سابق چیف آف سٹاف لیفٹیننٹ جنرل (ر) حامد جاوید سمیت دیگر قابل اعتماد عسکری دوستوں نے ایک سے زائد بار مشورہ دیا تھا کہ پاکستان میں حالات ان کے لئے ہرگز ساز گار نہیں ہیں اور ان ناموافق حالات میں وطن واپس آ نے سے گریز کریں تاہم سابق صدر پرویز مشرف نے تمام قابل اعتماد ساتھیوں کے مشوروں کو یکسر مسترد کرتے ہوئے وطن واپسی کا اعلان کر دیا اور اپنے اعلان کے مطابق وہ پاکستان واپس پہنچ گئے۔

عسکری قیادت نے خود کو پرویز مشرف کی گرفتاری سے اب تک الگ تھلگ رکھا ہوا ہے اور اس حوالے سے عسکری قیادت مکمل طور پر خاموش ہے، یہ امر قابل ذکر ہے کہ سابق صدر پرویز مشرف کو رہا کرنے کے حوالے سے اب تک کسی بھی پاکستانی ادارے نے کوئی سرگرمی نہیں دکھائی ہے، سابق صدر پرویز مشرف سے ان کے قریبی دوست ملاقات کرنے سے گریز کر رہے ہیں، پرویز مشرف کو وطن واپسی سے قبل ہی یہ ادراک تھا کہ وہ مکمل طور پر سیاسی تنہائی کا شکار ہیں۔

ان کے وہ سابقہ سیاسی اتحادی جو دور اقتدار میں ہر وقت پرویز مشرف کے شانہ بشانہ ہوتے تھے اور اس دوران خوب مزے اڑائے تھے وہ اب پرویز مشرف کا نام بھی لبوں پر لانا پسند نہیں کرتے ہیں اور نہ ہی پرویز مشرف کے حق میں کوئی بیان دیا ہے۔ پرویز مشرف کی ترجمانی اور وکالت ڈاکٹر محمد امجد کر رہے ہیں۔

پرویز مشرف جب قصر صدارت پر پوری شان و شوکت کے ساتھ فائز تھے تو ڈاکٹر محمد امجد ان سے بہت دور تھے، اگر دیکھا جائے تو یہ ایک حقیقت ہے کہ ڈاکٹر محمد امجد نے سابق صدر پرویز مشرف سے ان کے اقتدار میں کوئی فائدہ نہیں اٹھایا، اس مشکل صورتحال میں ڈاکٹر محمد امجد پرویز مشرف کا بڑی جرأت اور ہمت سے ساتھ دے رہے ہیں، سابق صدر پرویز مشرف کو سزا ملتی ہے یا نہیں یہ وہ اہم سوال ہے جو ہر جگہ موضوع بحث ہے۔

پرویز مشرف کی وطن واپسی کے بعد یہ کہا جا رہا تھا کہ ایک دوست ملک کی قیادت کی ہدایت پر مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف پرویز مشرف کے بارے میں مکمل طور پر خاموش رہے اور انہوں نے ان کے خلاف کوئی بیان نہیں دیا، اب میاں نواز شریف نے پرویز مشرف کی گرفتاری کے کافی دن بعد خاموشی توڑ دی ہے، میاں نواز شریف نے کھل کر پرانے موقف کو دہرایا ہے کہ سابق فوجی آمر پرویز مشرف کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے، چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ سٹیٹس کو توڑ دیا گیا ہے اور اب عدلیہ کسی طالع آزما کیلئے گنجائش پیدا کرنے کو تیار نہیں پاکستان کا عدالتی نظام جمہوریت کا محافظ ہے۔
Load Next Story